اڈاری ، پاکستانی ڈرامے کی نئی پرواز
از، نازش ظفر
اڈاری۔۔ وہ بھی ایسی بلند کے اس کے تلے اخلاقی دیوالئے کا شکار معاشرتی کردار رذیل اور چغد بونے دکھائی پڑیں تب ہی ممکن ہے جب ڈرامے میں سے ڈر نکال دیا جائے۔ دبے سہمے ڈراموں کی سکرین پر بہتات ہمیشہ رہی ہے۔ ایسے ڈراموں کی کھیپ میں ایک بھی نڈر ڈرامہ سر اٹھاتا ہے اور پروا زبھرتا ہے تو ایسی ہی مقبولیت پاتا ہے جیسی ہم ٹی وی کے اس ڈرامے اڈاری نے پائی۔
ڈرامے کا سب سے بڑا مو ضوع بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے حوالے سے ہمارے معاشرتی روِے ہیں۔
پس منظر روہی کی طبقاتی تقسیم سے کٹی پھٹی دیہی آبادی ہے۔ جہاں لہجے میٹھے اور ایام انتہائی تلخ ہیں۔
زیبو دس بارہ سال کی عمر کا کردار ہے جس سے سوتیلا باپ امتیاز اس کی ماں کی عدم موجودگی میں زبر جنسی کا نشانہ بناتا ہے۔ جرم اور جبر کے اس واقعے پر ناظر امتیاز سے شدید نفرت اور کراہیت پیدا کرتا ہے لیکن ڈرامے کی حالیہ قسط میں یہ کراہیت دکھ کی شدید ترین لہر بن کر دل و دماغ کو مائوف کر دیتی ہے جب زیبو کی ماں حقیقت جاننے کے بعد امتیاز سے پوچھ گچھ کرتی ہے اور وہ پورے دھونس کے ساتھ اس کے سامنے زیبو کو ایک بار پھر جنسی بھوک مٹانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
امتیاز کی حد درجہ ڈھٹائی۔۔ ماں سجو کی بے بسی اور التجائیں۔۔ زیبو کا زخموں سے چور جسم اور تار تار لباس ۔۔ ایک ہی منظر میں ریپ سے متعلق معاشرتی بے حسی کی قلعی کھول دیتا ہے۔ ناظر جان جاتا ہے کہ یہاں کسی سجو کی پکار کوئی نہیں سنے گا۔ زیبو کے پاس خاموشی سے عمر بھر کی پامالی پالنے کے سوا کوئی رستہ نہیں ہے۔ امتیاز کا ہاتھ قانون نہیں روک سکتا۔ ڈرامے کے اگلے منظر نے وہ واحد راستہ دکھایا جو زبر جنسی کا شکار بچے کو ایسی درندگی سے محفوظ بنا سکتا ہے۔ سجو نے امتیاز پر چاقو کے کئی وار کر کے اسے قتل کر دیا اور خود زیبو کو لے کر در بدری کا عذاب مول لے لیا۔
اڈاری کو اس موضوع کو اجاگر کرنے پر پیمرا کا نوٹس مل چکا ہے۔ ناظرین کی بڑی تعداد نے یہ کہہ کر تنقید بھی کی ڈرامہ فیملی کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ معاشرے کا وہی طبقہ ہیں جنہیں اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی سے پیار ہے۔ فییملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی کی تفریح سے محظوظ ہونے والے کیونکر اپنے ہی گھر میں پلنے والے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مسائل اجاگر کرنے والے ڈرامے سے خائف ہو جاتے ہیں؟
اڈاری نے بڑی خوبصورتی سے زبر جنسی کی تصویر کا دوسرا رخ دوسرے اہم کردار کے ذریعے دکھایا ہے۔۔ شادی بیاہ میں گانے بجانے والی کھری اور بے باک شیداں۔ جس کا دل اس کی جھانجر کی آواز جیسا ہی خوبصورت ہے۔ امتیاز شیداں کی بیٹی سے زیادتی کی کوشش کرتا ہے تو شیداں خاموش نہیں رہتی ، بیٹی کی بات پر اعتماد کرتی ہے اور پہلی ہی مذموم کوشش کے بعد امتیاز کے خوب لتے لیتی ہے۔ شیداں مراثن ہے۔ مراثن کی بیمار معاشرے میں یوں بھی کوئی عزت نہیں۔ لیکن اس کو لوگوں کی زبان سے بڑھ کر بیٹی کا تحفظ عزیز ہے۔
زبر جنسی کے سامنے چپ رہنے کا رویہ، آنکھ بند کر لینے کی روش ڈرے سہمے اورروندے ہوئے بچے پیدا کریں گے۔ کوئی بڑا نیچ بن کر آپ کے بچے کو غیر محفوظ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جب بچہ پہلی شکائت کرے تو کان ضرور دھریں اور اس کو اپنا اعتماد اور اعتبار دیں۔
اڈاری نے یہ سبق سکھایا تو کیا برا کیا۔ تنقید اور نوٹس بچوں کو زیادتی کا شکار بنانے والے عناصر اور عوامل کا لیں نہ کہ ان کے متعلق آگاہی دینے والے ڈرامے کا۔
اڈاری کی پرواز پاکستانی ڈرامے کی نئی پرواز ہے۔ اس نڈر ڈرامے سے آگاہی کا در کھلا ہے۔ زبر جنسی پر بات نہ کرنے سے اس کا خاتمہ نہیں ہو گا، بل کہ اس کا تدارک اس پر بات کرنے سے ہوگا۔