ادے پرکاش کا فکشن (۱)
از، رفاقت حیات
عظیم ناول نگار اور نقاد ڈی ایچ لارنس نے کتابوں کے بارے میں ایک اطالوی مکتوب الیہ کو خط کے جواب میں لکھا۔۔۔ ’’فکشن کی کسی کتاب کو یا تو ایک راہزن ہونا چاہیے یا ایک باغی، یاپھر ہجوم میں گھرا ایک شخص۔ اور اسے پڑھنے والے یا تو اپنی جانیں بچانے کو بھاگ کھڑے ہوں، یا پھر اس کے پرچم تلے آ جائیں، یا پھر پوچھیں، آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ ۔۔۔ ایک مصنف کو ہجوم کے اندر ہونا چاہیے، ان کی پنڈلیوں پر ٹھوکر لگاتے ہوئے یا پھر ان کو کسی شرارت یا مسرت پر اکساتے ہوئے۔‘‘
ڈی ایچ لارنس کا مندرجہ بالا اقتباس فکشن کی کتابوں میں پائی جانے والی چند خوبیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ وہی خوبیاں ہیں جو مجھے ادے پرکاش کے فکشن میں دکھائی دیتی ہیں۔ ادے پرکاش کے فکشن کو راہزن قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ وہ ہندوستان کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں راسخ خیالات پر گہری ضرب لگاتا ہے اور ہمیں تلخ حقیقت حال کے رو برو لا کھڑا کرتا ہے۔ ادے پرکاش کے فکشن کو ایک باغی بھی کہا جاسکتا ہے جو حالات کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر قدیم سماج کے دھارے کا رخ موڑ نا چاہتا ہے۔
ادے پرکاش کے فکشن کو بے پناہ ہجوم میں گھرے یکہ وتنہا شخص سے بھی تشبیہہ دی جا سکتی ہے ایک ایسے یکہ و تنہا شخص سے، جو چہار سمت سے انبوہِ انساں میں گھرا ہونے کے باجوود اپنی آدمیت کو تسلیم کروانے میںآج تک بری طرح ناکام رہا ہے ۔جو بر صغیر کے طول و عرض میں عام آدمی کی حیثیت سے اکیسویں صدی میں بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔ شاید اسی لیے ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات ، جو زیادہ بر ہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں ، اپنے شاگردوں کو ادے پرکاش کا فکشن نہ پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار یا تو مر جاتے ہیں ، یا سٹھیا جاتے ہیں یا خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔ یہ برہمن پروفیسر حضرات نوجوان طالب علموں کو ادے پرکاش کے فکشن سے دور رکھ کر ان کے ذہنوں میں بس گھول رہے ہیں ۔ ان کی اس زیادتی اور ستم ظریقی کا سبب ادے پرکاش کا وہ فکشن ہے، جو ان کی پنڈلیوں پر ٹھوکر لگاتا ہے ، ان کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتا ہے ۔ یہی بات برہمن پروفیسروں سے برداشت نہیں ہو پارہی۔
ادے پرکاش کو گمنام ، بے چہرہ اور شناخت سے عاری ہجوم سے گہرا لگاؤ ہے ۔ یہ وہی ہجوم خلق ہے ، جو ہمیں ہربڑے شہر کے حاشیے پر رینگتا ، گھسٹتادکھائی دیتا ہے مگر ہماری اچٹتی سی نگاہ کا بھی حقدار نہیں ٹھہرتا۔ ادے پرکاش اپنے فکشن میں ذلتوں کے مارے انہی لوگوں کے ساتھ جیتے مرتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں ادے پرکاش اپنی اس وابستگی کے حوالے سے کچھ یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں ۔’’ آپ نے لازماً پبلک بسوں اور لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے کا تجربہ کیا ہوگا۔ کھچا کھچ بھرے ہجوم کی وجہ سے آپ اپنے حصے کی سانس تک نہیں لے پاتے ۔۔۔ آپ در اصل کسی دوسرے کی سانسوں کو اپنے سینے میں بھرتے ہیں ۔ آپ ایک انبوہِ کثیر کا ادنیٰ حصہ بن جاتے ہیں ۔ آپ اسی کے ہم راہ سانس لیتے اور حرکت کرتے ہیں ۔ مجھے ایسی جگہ تلاش کرنے میں طویل عرصہ لگا، جہاں سے میں انہیں با آسانی الگ الگ دیکھ سکوں۔ کسی بلند وبالامقام سے نہیں بلکہ ذرا سے فاصلے سے ، کیوں کہ میری جڑیں اسی ہجوم میں پیوست ہیں ۔ کیا یہ تمام انسان ، یہ تمام شہری ، اور یہ تمام افراد اپنی زندگیوں کے حوالے سے مختلف النوع بیانیے نہیں ہیں ؟ کیا یہ صرف و محض ایک ہجوم ہی ہیں ؟
سچ پوچھیں تو انسان کا یہ گہرا گھنا اژدھام زندگی کے متعلق بے شمار ان کہی کہانیوں کا دفینہ ہے۔ کہانیوں اور بیانیوں کا حقیقی اور بیش قیمت دفینہ‘‘۔
ادے پرکاش اصلاً ایک شاعر ہیں اور ان کی شاعری کے پانچ مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ ادے پرکاش کے بقول وہ اتفاقاً فکشن کے کوچے کی طرف آ نکلے۔ فکشن کے کوچے میں اتفاقاً آ نکلنے والے اس افسانہ نگار کے اب تک بہت سے افسانوی مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ نئی ہندی کہانی کے معماروں میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ اپنے فکشن میں طلسماتی حقیقت نگاری کو بروئے کار لانے کے حوالے سے وہ ہندی فکشن میں موضوع بحث ہیں۔ہندی فکشن کے بعض ناقدان کی طلسمی حقیقت نگاری کو گابرئیل گارسیا مارکیز کا تتبع قرار دیتے ہیں مگر ادے پرکاش کے تمام تر تخلیقی وفور کا مرکز و محور وہ نچلا طبقہ ہے ، اونچے طبقات ہمہ وقت جس کے وجود میں دانت گاڑھے اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں ۔ سیاست دان اسی طبقے کے کاندھوں پر جو توں سمیت کھڑے ہو کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ اخبارات اس کے استحصال کی خبریں شایع کرکے اپنی اشاعت بڑھاتے ہیں ۔ نیوز چینل اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھٹ گھٹ کر مرنے کے مناظر دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں ۔ اہل مذہب انہیں سورگ کے خواب دکھا کر ان کے دامن کی گرہ سے بندھی ان کی پونجی لوٹ لیتے ہیں ۔ رہا بھگوان تو اسے بھی ان کم ذاتوں سے زیادہ اونچی ذات والوں سے رغبت ہے ۔ اسی لیے بھگوان ہمیشہ براہمنوں کے جلو میں ہی آسودگی محسوس کرتا ہے ۔ نچلی ذات کے غلیظ ہندؤں سے دور ۔یہی غلیظ اور دھتکارے ہوئے لوگ ادے پرکاش کی کہانیوں میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔اس حوالے سے ادے پرکاش کو منشی پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کی قبیل کا افسانہ نگار قرار دیا جاسکتا ہے۔
ٓٓآئیے ادے پرکاش کی چند کہانیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی کہانی ’’ ہیرا لال کا بھوت‘‘ ہندوستان کے ایک عام سے گاؤں رام پور میں وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ ہیرا لال اور اس کا خاندان یعنی اس کا باپ اور اس کی بیوی زندگی بھر ٹھاکر ہرپال سنگھ ، ا س کے جکیڑے دار لِلہ پنڈت اور پٹواری کل بھوشن تیواری کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ہیرا لال کا باپ تیز بخار کے باجود ٹھاکر کے کھیتوں کی نرائی پر جاتا رہا۔ پانچویں دن وہ بخار سے ہی مر جاتا ہے ۔ گاؤں میں علاج کا کوئی ذریعہ میسر نہیں۔ اپنے باپ کی موت کے بعد ہیرا لال ا س کی جگہ ٹھاکر ہر پال سنگھ کی حویلی میں کام کرنے لگتا ہے۔ حویلی میں ہیرا لال کی موجودگی کے وقت حویلی سے پچیس گز دورواقع چار کمروں میں سے ایک میں پٹواری اور ٹھاکر ہرپال سنگھ آپس میں ساز باز کرکے ہیرا لال کی بیوی پھلیا کی عزت لوٹ لیتے ہیں ۔ پھر یہ ان کا معمول بن جاتاہے ۔ پٹواری کے تخم سے پھلیا حاملہ ہوتی ہے ۔ جان لیوا درددزہ میں مبتلا ہوتی ہے ۔اسی دوران ہیرا لال کو پاگل کتا کاٹ لیتا ہے ۔ ہیرالال گاؤں میں علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ پہلے وہ مرتا ہے ۔ اس کے چند گھنٹوں بعد اس کی بیوی پھلیا دردزہ سے دم توڑ دیتی ہے۔
مضمون کا دوسرا حصہ اس لنک پر جاری ہے: ادے پرکاش کا فکشن (۲)