صوفیانہ واردات کی تفہیم، از ولیم جیمز، حصہ سوم
ترجمہ: جمشید اقبال
اسی لمحے مجھ پر یہ راز بھی کھل گیا کہ کائنات مُردہ اور بے جان مادے کا نام نہیں۔ بلکہ اس کے رگ و ریشہ میں خالص حیات رقصاں ہے۔ میں نے اپنے اندر لافانی اور ابدی حیات کو دیکھ لیا۔ میں یہ جانتا تھا کہ مجھے ابدی حیات ملے گی۔ بلکہ یہ جان چکا تھا میں ازل سے لافانی حیات ہوں۔ میں نے دیکھ لیا کہ تمام انسان لا فانی ہیں۔ کائنات ایسے ربط و ضبط کا نتیجہ ہے جو کسی سابقہ اتفاق اور منصوبے کا نتیجہ نہیں۔ یہ تو ہستی ہے جو پیہم آرائشِ جمال میں مصروف اور مگن ہے۔ اس کائنات کا ہرذرہ دوسرے اور کُل کی آرائش و زیبائش میں محو ہے۔ اُسی لمحے میرے ذہن کے خالی کشکول میں اس راز کا سکہ ڈال دیا گیا کہ دنیا بلکہ عالمین کی بنیاد عین اُس جذبے پر ہے جسے ہم محبت یا عشق کہتے ہیں۔ اور سب کے لیے دائمی خوشی کا حصول ممکن ہے لیکن اس کا راستہ ایک ہے۔ عالمگیر محبت
اس واردات کے بادل چند لمحے بعد چھٹ گئے لیکن اس دوران صدیوں کی برکھا ہوئی۔ میں 25برس تک اس الوہی برسات میں بھیگتا رہا ہے اور اس سے حاصل شدہ دانش ہمیشہ تازہ رہی۔ جو کچھ میں نے دیکھا حقیقت الحقائق تھی۔ وہ نظارہ، وہ قوتِ یقین جسے میں ایمان کہتا ہوں۔ میں یہ کہنا چاہوں کہ شدید مایوسی اور کج ہمتی کے لمحات میں بھی اُس واردات نے مجھے سہارا دیا ہے۔ اس سے حاصل شدہ روحانی توانائی نے کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔”
ہم صوفیانہ یا آفاقی شعور کے بارے میں گفتگو اِسی مقام پر تمام کریں گے۔ آفاقی شعور کا لمحہ غیر مسلسل ہوتا ہے۔ اب ہم اس واردات کی طریقیاتی تہذیب یا اِسے ”مدعو” کرنے کے لیے انتظاری طریقۂ کار پر بات کریں گے جو مذہبی زندگی کے بنیادی آداب میں شامل ہے۔ ہندو، بدھ ، دینِ محمدی اور دینِ عیسوی کے پیروکاروں نے طریقیاتی تہذ یب (عبادات اور ریاضتوں ) کو مذہبی زندگی کے لیے ضروری قرار دیا ہے تاکہ آفاقی شعور کی منزل تک زیادہ سے زیادہ پیروکاروں کی رسائی کو ممکن بنا یا جا سکے۔
ہندوستان میں آفاقی شعور کے حصول کے لیے کی جانے والی ریاضتوں کو یوگا کا نام دیا گیا ہے۔ یوگا کا مطلب فرد اور حق تعالٰی کا تجرباتی وصال ہے۔ یوگی جسمانی ریاضتوں، سادہ خوراک، آسن، سانس کی مشقوں، ذہنی ارتکاز، تہذیبِ اخلاق کا اُسی طرح خیال رکھتا ہے جس طرح دیگر بڑے مذاہب کے ماننے والوں پر ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ایک یوگی اپنی ثانوی فطرت سے حقیقی فطرت کی طرف سفر جاری رکھتا ہے اور ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جسے ہندو دھرم میں سمادھی کا نام دیا جاتا ہے۔
سمادھی وہ مقام ہے جہاں ایک یوگی حقیقت کا دیدار کرتا ہے اور وہ کچھ جان لیتا ہے جو منطقی عقل اور جبلتوں کی رہنمائی میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس مقام پر ایک یوگی کیا جان پاتا ہے:
”سمادھی شعور کا مذہب ہے۔ ذہن معمول کی حالتوں کے علاوہ ایک اعلیٰ حالت حالت رکھتا ہے۔ جسے الوہی شعور (super-conscious) کی حالت کہتے ہیں۔ جب شعور اس اعلٰی اور خالص ترین حالت تک پہنچتا ہے تو اُسے وہ علم حاصل ہوتا ہے جس کا حصول زیریں کیفیات اور حالتوں میں ناممکن تھا۔ اس وقت شعور منطق، تجزیے اور استدلال کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر کھلے آکاش تلے حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یوگا کے مختلف مراحل سائنسی طریقۂ کار کے عین مطابق یوگا ایک یوگی کو زینہ زینہ سمادھی کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ جس طرح لا شعور کا سمندر شعور کی باریک جھالر میں ملبوس ہے اس طرح مظاہراتی /دنیوی شعور سے اوپر خالص شعور کی دنیا ہے جہاں بے انائیت کا راج ہے ۔
یہاں ”میں” کا احساس نہیں ہے لیکن اس کے باوجود شعور اپنا کام کر رہا ہے۔ اس مقام پر شعور خواہش، بے چینی، معروضات اور طبیعاتی حدود کی کثافتوں سے پاک ہونے کی وجہ سے شفاف اور مصفا حالت میں ہوتا ہے۔ یہ ایک نو صیقل آئینہ ہے جس میں حقیقت پوری آب و تاب کی ساتھ چاہنے والوں کو سپردگی اور دیدار کا شرف بخشتی ہے۔
شعور کی یہی وہ منزل ہے جہاں ہم آپنے آپ کو جان پاتے ہیں۔ سمادھی کی صلاحیت ہم سب میں موجود ہے کیونکہ سمادھی ہمیں وہ دکھا دیتی ہے جو کچھ ہم حقیقت میں ہیں: آزاد، لافانی، بااختیار و ارادہ، حدود فراموش، اضداد سے ماورا، نفسِ آفاق کا جزو۔
ویدک شاستروں کے علماء اور یوگیوں کا کہنا ہے کہ انسان کبھی کبھار بلا ارادہ آفاقی شعور کے سمندر میں چند لمحوں کے لیے گر سکتا ہے۔ تاہم بعض یوگیوں نے بلا قصد تجربے کو وارداتِ کثیف کا نام دیا ہے۔ سمادھی کا امتحان مذہبی اقدار کی آزمائش کی طرح تجرباتی نوعیت کا حامل ہے۔ خالص روحانی اور صوفیانہ تجربہ وہ ہے جس کے بعد زندگی بدل جائے۔ جب ایک انسان سمادھی سے نکلتا ہے اُس کی زندگی روشن نظری اور پاکیزہ خیالی کی زندہ مثال بن جاتی ہے۔ حقیقتِ مطلقہ کے دیدار کے بعد اُس کی زندگی روشن اور آرزوئیں تابناک ہوجاتی ہیں۔
ہندوؤں کی طرح بدھ مت کے پیروکاروں نے بھی سمادھی کی طریقیاتی اصطلاح متعارف کرائی ہے تاہم شعور کی اعلٰی ترین منازل کے حصول کے لیے ارتکاز کو بدھ مت کے ماننے والوں نے ”دھیان” کا نام دیا ہے۔ دھیان میں، بدھ مت کی روحانی تعلیمات کے مطابق، چار منازل کا بیان ملتا ہے۔
پہلی منزل ذہن کو کسی ایک نقطے پر مرکوز کرنے سے حاصل ہوتی ۔ اس منزل پر خواہشات تلف ہوجاتی ہیں لیکن درک، نکتہ رسی، قوتِ فیصلہ اور قوتِ تمیز کی کثافتوں کا اتلاف نہیں ہو پاتا۔ ارتکاز کا مرحلہ فکری مرحلہ ہے اور یہی بادھا (بندش) ہے۔ دوسرے مرحلے میں انفرادی فکر دانشِ ایزدی یا دانشِ زیست پر قربان کر دی جاتی ہے۔ اس سے احساسِ وحدت اور گہری طمانیت کے دروازے کھلتے ہیں۔ یعنی اس مر حلے پر وحدت اور گہری طمانیت کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔
تیسرے مرحلے پر یہ اطمینان بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور دھیان لگانے والا بے نیازی کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے پر قوتِ حافظہ اور شعورِ ذات کے علاوہ سب بھسم ہوجاتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں بے نیازی، حافظہ اور شعورِ ذات تکمیل کے مراحل طے کرتے ہوئے پختگی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں حافظے اور شعورِ ذات سے کیا مراد ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ تاہم اِن سے مراد وہ کچھ نہیں ہے جو کچھ ہم خام شعور کے بل بوتے پر زندگی گذارنے والے سمجھتے ہیں۔ استغراق اس سے اگلی منزل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر وہ چیز ناقص ہے جو گذشتہ مراحل کے دوران متاعِ ذات تھی۔ اس مقام پر نیستی کے بحرِ بے موج میں ڈوبنے والا سالک بے اختیار پکارتا ہے:
”نیست ۔۔نیست”
اس کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جہاں سے بس یہی صدا آتی ہے:
”ہر (تصور) موجود ہے مگر کچھ بھی موجود نہیں!”
سب رُک گیا ہے۔ سب ٹھہرگیا ہے۔ لیکن کچھ بھی متعفن نہیں۔ ہر طرف تازگی کا راج ہے لیکن کچھ بھی نیا نہیں۔ اگلے مرحلے پر تصورات اور مدرکات کی عارضی مکین گاہیں بھی چھوڑنی پڑتی ہیں۔ اس مقام پر سالک کو رُکنا پڑتا ہے۔ نروان کی منزل ہنوز دُور ہے لیکن اگلا قدم وہیں پڑ سکتا ہے!
گیارہویں صدی کے مسلمان فلسفی اور الٰہیات دان الغزالی کا شمار مسلم تاریخ کی اہم ترین علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ الغزالی کی علمی تحریروں میں چند صوفیانہ سوانح ہائے حیات بھی شامل ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مسیحی دنیا جس قسم کی تحریروں کا شہرہ رہا ہے مسلمانوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کے اسی نوعیت کے کام کی قدر نہیں کی۔ تاہم مسیحی دنیا میں الغزالی کو سمجھنے والوں کی تعداد اس لیے کم ہے کیونکہ اس بات کا اعتراف کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی حقیقت کا علم رکھتے ہیں روایتی کلیسا کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ الغزالی کو مغرب میں متعارف کروانے کا سہرا فرانسیسی ادیب اور مترجم ایم شاماؤز (M. Schmolers) کے سر جاتا ہے۔ یہ اقتباس اسی کا انگریزی ترجمہ ہے:
”صوفیا ئے کرام کی دانش اور عمل کی منزل دل سے ہر اُس کثافت کو دھو ڈالنا ہے جو غیر اللہ سے رغبت پیدا کرے۔ صوفی کا عمل پوری توجہ، ساری توانائیاں ذاتِ حق پر مرکوز کر دینا ہے۔ تاہم صوفیانہ نظریہ صوفیانہ عمل کی نسبت نہایت آسان معلوم ہوتا ہے۔ میں وہ سب جان گیا ہوں جو قلم، کتاب اور زبانِ خلق کی مدد سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے میں کچھ بھی نہیں جان پایا۔ کیونکہ صوفیا کا طریقہ مطالعہ اور خبر نہیں، مشاہدہِ حق ہے۔ خبر نہیں نظر ہے۔ صوفیانہ واردات لاثانی ہے لیکن زبان مما ثلات اور اضداد کی محتاج ہے۔ لہٰذا صوفیانہ تعلیمات اور دانش کا انتقال بذریعۂ زبان ممکن نہیں۔ صوفیانہ تعلیمات اور دانش کی منتقلی اگر ممکن ہے تو بے خودی، ترنگ، مساواتَ قلبی کی تبدیلی اور اپنی نفسیاتی و بصری کایا پلٹ دینے سے ممکن ہے۔
صحت کی تعریف سے واقف ہونے اور صحت مند ہونے میں کتنا فرق ہے؟ خمار کے معنی سمجھنے اور مخمور ہونے کے درمیان کتنی عمیق اور اناپ خلیج حائل ہے؟ مخمور آدمی خمار کے معنی نہیں جانتا اور نہ ہی” خماریات ”کی سائنس سے واقف ہے۔ وہ کچھ نہیں جانتا لیکن طبیب سب جانتا ہے۔ اس طرح پرہیز گاری کے معنوی و اصطلاحی رازوں سے واقف ہونے اور پرہیزگار ہونے میں فرق ہے۔ پرہیزگار وہ ہے جو ہر اُس چیز سے پرہیز کر رہا ہے جس سے نظر اس پر جا ٹکتی جو حقیقت نہیں ہے۔ اس لیے میں جان گیا ہوں کہ کون سے الفاظ تصوف کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں لیکن اس کے مغز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مماثلات اور اضداد سے جنم لینے والے الفاظ، خارجی آنکھوں اور کانوں کی ضرورت نہیں۔ تصوف کی حقیقت سمجھنے کے لیے روح کو پاکیزہ زندگی اور اس سے حاصل ہونے والے کیف و سرور کے لیے وقف کرنا پڑتا ہے۔
یہ جان لینے کے بعد میرے دل میں اس خواہش نے جنم لیا کہ میں اپنے آپ کو مراقبے کے لیے تیار کروں۔ لیکن اس سے قبل دل کی صفائی اور پاکیزگی لازم تھی۔ صد افسوس! میرا روحانی ذوق و شوق غمِ روزگار، نیرنگئ وقت اور غمِ روزگار کی نذر ہوگیا۔ میں باطنی تنہائی سے محروم ہوگیا۔ مجھے اِس الوہی تنہائی کے محض چند لمحات نصیب ہو پائے۔ تاہم روحانی کیف و سرور کے حصول کی خواہش مجھے مسلسل پکارتی رہی۔ میں صوفیانہ واردات کے عشق میں مبتلا ہوچکا تھا۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی حادثہ مجھے منزل سے دُور لے جاتا تھا۔ میں واپس آجاتا۔ دس برس تک یہ آنکھ مچولی جاری رہی۔
مراقباتی تنہائی کے دوران جو راز مجھ پر کھلے اُن کا بیان، حتٰی کہ اشارہ و تعبیربھی ممکن نہیں۔ تاہم میں یہ جان گیا کہ صرف صوفیائے کرام ہی خُدا کے راستوں پر چل رہے ہیں۔ اُن کی منزل ذاتِ باری تعالٰی کا گیان نہیں وصل ہے۔ دورانِ عمل اور آرام کے لمحات میں (جو دراصل باطنی ریاضت کے لمحات ہوتے ہیں) نُورِ خداوندی اُن کی رہنمائی فرماتا ہے۔ نُورِ خداوندی جس کا ماخذ پیغمبرانہ شعور ہے۔
لہٰذا صوفی کا پہلا مقصد قلب و نظر کی صفائی ہے۔ صوفیانہ راستے کی دوسری منزل عاجزانہ دُعائیں اور منکسرانہ عبادات ہیں۔ اِس دوران ہم سرکش اور مشتاقِ زمانہ جذبات کو رام کر کے اُن کا رُخ خدا کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اس کے بعد ذاتِ خداوندی پر ارتکاز کی باری آتی ہے۔ اور اُس ذات کا عشق ہماری محدود ذات کو مکمل طورپر جذب کرنا چاہتا ہے۔ ایک صوفی ذاتِ حق کے سمندر میں ڈوب کر حیات کے مرکزے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ وجدانی شعور کی بیداری دراصل وہ دہلیز جسے پار کر کے سالک آگے بڑھتا ہے۔ ابتدا میں ہی کشف و الہام کی بارش ہونے لگتی ہے۔ صوفی کائنات اور اس کی سکیم کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر دیکھتا ہے۔ بیداری کے لمحا ت میں اُس کی ملاقات پاک روحوں سے ہوتی ہے۔ وہ اُن کی آوازیں سنتا اور ہدایات حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ حلق مدرکات سے آگے نکل کر اُس مقام پر پہنچتا ہے جو بے مثل ہونے کی وجہ سے سرحدِ کلام سے بہت دُور ہے۔ یہاں جو بولے گا وہ نہیں جانتا۔ وہ گناہِ اظہار کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
جس شخص نے اس واردات کا ذائقہ نہیں چکھا، جو اِس سے واقف نہیں ہے۔ وہ پیغمبر(محمد ﷺ) اور پیغمبرانہ شعور سے محض نام کی حد تک واقف ہے۔ وہ پیغمبر کی سیرت اور کلام کی تفہیم سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ کیونکہ وہ اُسے اُس بلندی کا احساس نہیں۔ اُس جہان کی خبر نہیں۔ اُس آیام کا علم نہیں جو پیغمبرانہ شعور کا ماخذ ہے۔ حقیقی دنیا کی بات عارضی دنیاؤں کا قیدی کیسے سمجھ پائے گا؟ یہیں سے ادغانی، بے لچک اور رسم پرستانہ مذہب کا جنم ہوتا ہے جو حقیقی مذہب کا خول تو ہوسکتا ہے مغز نہیں۔ ایسا شخص صوفیا کے الفاظ تو سن سکتا ہے لیکن اُن کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔
بعض لوگ سمجھ داری کے زعم میں پیغمبرانہ شعور سے چُوک جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دانشورانہ اور منطقی موشگافیوں کی بھول بھلیوں میں کھوکر پیغمبرانہ شعور کیفیت کو نہیں جان پاتے۔ جس طرح ایک اندھا آدمی فطرت کی رنگینیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا، لیکن وہ سنی سنائی باتیں دہرا سکتا ہے، خُدا نے صوفیائے کرام کو پیغمبرانہ تجربے کی جھلک دکھائی ہے تاکہ عام انسان پیغمبرانہ صداقتوں کو سمجھ پائیں۔ صوفیانہ کیف و سرور کی حالت نیند کے قریب تر ہے اسے ہم ”حالتِ نیست” یا سکوتِ کامل کہہ سکتے ہیں۔ اس خواب نما کامل بیداری کے لمحات میں آپ وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں جو عالمِ مجاز میں محجوب و مستور ہے۔ جن کی آنکھیں یہ سب نہیں دیکھ پائیں وہ آپ کی بات کیسے مانیں گے؟ اندھا رنگوں کے حسن پر کیسے فدا ہو سکتا ہے؟
عقلیت پسندی اور ظاہری سمجھ داری ایک مرحلہ ہے: مرحلۂ طفولیت۔ جب ہم حواس کے ذریعے عالمِ مجاز کا علم حاصل کرتے ہیں۔ پیغمبرانہ مرحلے پر ایسے مخفی و مستورحقائق سے پردے اٹھتے ہیں جہاں تک ”ظواہر گزیدہ”عقل و فکر کی اڑان ممکن نہیں۔ پیغمبرانہ شعور کی جھلک صرف وہی پا سکتے ہیں جو تصوف کا راستہ اختیار کر تے ہیں۔ جو زندگی کو عشقِ حقیقی کے زیورات کی سادگی سے سجاتے ہیں۔ پیغمبر ایسے شعور کا مالک ہوتا ہے جو مادی اور مظاہراتی شعور سے عظیم وبلند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظواہر کی دلدل میں پھنسے ہوئے اذہان اس کا علم نہیں رکھتے۔ آپ پیغمبرانہ تجربے کو کیسے سمجھ پائیں گے؟ کیونکہ عام انسان وہی کچھ سمجھ سکتا ہے جس کی مثال اور ضدد ممکن ہو۔ وہ وہی کچھ سمجھ سکتا ہے جو اُس کے کاسۂ ادراک کی تنگی میں سما پائے۔ لیکن صوفیانہ دانش کی منزل خارزارِ حیرت نہیں گلستانِ یقین ہے۔ صوفیانہ طریقۂ کار (ریاضتوں اور مجاہدوں) سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اُسے ہم درکِ عاجلہ (immediate perception) کہہ سکتے ہیں۔ جیسے کہ یکا یک سب کچھ روشن ہوجائے۔ اور کوئی حقیقت کو یکبار چھولے۔”
صوفیانہ تجربہ سرحدِ کلام اور دائرہ ِ ادراک سے دُور ہے۔ صوفیانہ حقیقت کا پردہ صرف وہ چنیدہ لوگ چاک کر پائیں گے جو صوفیانہ پرواز کے اہل ہیں۔ روحانی دانش یک بار حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نظریاتی یا تجزیاتی دانش نہیں جس کی خیرات ٹکڑوں میں بانٹی جارہی ہے۔ مغربی فکری تاریخ اور فلسفیانہ فکر میں تجرید ی عنصر کو عام طور پر فوق الحواس علم کی دلیل سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاہم میں اس نفسیاتی غلط فہمی کا شکا ر نہیں رہا۔ تجریدی دبستانِ فکر (مابعد از طبیعات) نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ خدائی یا خدا کے متعلق علم کبھی غیر مسلسل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس کا وجدانی ہونا لازم ہے۔ اس میں ہم کسی قضیہ کا پیچھا نہیں کرتے ہوئے نتیجے تک نہیں پہنچتے بلکہ الوہی دانش کسی الہامی، مراقباتی، خالی اور انتظاری لمحے کے دوران خودبخود ظاہر ہوجاتی ہے۔ فلسفیانہ اور نفسیاتی علم کے پس منظر میں دیکھا جائے تو روحانی احساس عام طورپر الفاظ و کلام یا دیگر کیفیاتی مواد (جسے کسی دوسرے کے سامنے پیش کیا جا سکے) سے ماورا نظرآتاہے۔ تاہم صوفیائے کرام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ صوفیانہ تجربہ حواس کا مرہونِ منت نہیں بلکہ اُس روحانی پروازکا نتیجہ ہوتا ہے جس کے لیے سالک اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کی طرح دینِ عیسوی کی تاریخ صوفیانہ ادب سے مالا مال ہے۔ اگرچہ اِن میں سے کچھ شخصیات کے تجربات کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے تاہم بعض ہستیوں نے ”شرفِ ” قبولیت پایا ہے۔ ان شخصیات کے تجربات کو مثالی حیثیت حاصل ہوئی ہے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر صوفیانہ نظام کی بنیادیں استوار کی گئی ہیں۔ دینِ عیسوی میں تصوف کی بنیادیں ریاضتوں، ذکر و ازکار ، مراقبہ اور مناجات پر کھڑی ہیں۔ ان سب ریاضتوں کا مقصد روح کی اس حد تک بلندی ہے کہ انضمامِ خداوندی کا امکان پیدا ہو سکے۔ تاہم پروٹسٹنٹ ازم (خاص طور پر اناجیلی) نے عقلی رجحانات کے تحت روحانی اور صوفیانہ طریقۂ کار سے بغاوت اختیار کی ہے۔ اس لیے پروٹسٹنٹ تاریخ میں صوفیانہ وجد و سرور صرف اِکا دُکا لوگوں کے حصے میں آتے ہیں اور اکثریت ذہنی و نفسیاتی عارضوں کا شکار نظر آتی ہے۔ پروٹسٹنٹ حضرات کی زندگیوں میں مذہبی سوز وگداز پیدا کرنے کا کام آج کل ماہرینِ نفسیات کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ صوفیانہ ریاضتوں کے دوران سب سے پہلے خارجی احساس کے زندان سے رہائی حاصل کی جاتی ہے۔ کیونکہ خارجی احساس اُس نکتے پر کامل اتکاز کے حصول میں حائل ہے جو سالک کے لیے معیارِ کمال ہے۔
سولہویں صدی کے ہسپانوی سینٹ اگنیشس (1491-1556) اپنی مریدین کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ مقدس مناظر پر بتدریج چشمِ تصور مرکوز کرنے کی ریاضت کے ذریعے ہی خارجی احساس کی تنگ و تاریک دنیا سے نکل سکتے ہیں۔ اس طریقۂ کار کی پیروی کرتے ہوئے مریدین اپنی پوری توجہ مسیح علیہ السلام کی ہستی پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ اس قسم کے حسیاتی تصورات (خواہ وہ حقیقی ہوں یا علامتی ) تصوف میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم بعض حالات میں ارتکازی پیکر چشمِ تخیل سے اوجھل ہوسکتا ہے اور کیف آور وجدانی لمحات کے عروج پر اکثر ایسا ہوا ہے۔
اس مضمون کےحصہ اول کا لنک: صوفیانہ واردات کی تفہیم، از ولیم جیمز
اس مضمون کےحصہ دوم کا لنک: صوفیانہ واردات کی تفہیم، از، ولیم جیمز