ہماری بد صورت دنیا

Khizer Hayat
خضرحیات

ہماری بد صورت دنیا

از، خضرحیات

یہ نئی دنیا ہے۔

یہ ہماری دنیا ہے جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بدصورت بنایا ہے۔

یہاں چار دن نکالنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ انسان مکمل طور پر بے حس ہو جائے۔

ورنہ یہاں تو روز زیادتیاں ہوتی ہیں، لاشیں گرتی ہیں، خون بہائے جاتے ہیں، دہشت پھیلائی جاتی ہے۔ کتنا رو لیں گے؟ آنکھیں تو اب خشک ہونے کو ہیں اور کندھے لاشیں ڈھو ڈھو کے تھک گئے ہیں۔

مشال کو مارا جاتا ہے۔

زینب سے پہلے دس اسی طرح کی معصوم بچیاں قتل کی جاتی ہیں۔

اور اب فلسفے کے ایک پروفیسر کو مار دیا جاتا ہے۔

یہاں جب تک تیری میری باری نہیں آ جاتی تب تک بے حس ہو کے ہی جینا ممکن ہے۔

روز تو نہیں رویا پیٹا جا سکے گا۔

زندگی بھی تو کسی نہ کسی طرح کرنی ہے۔

جس گلی میں ہم داخل ہو گئے ہیں وہ آگے سے بند ہے اور حیرت اس بات کی ہے کہ ہم واپس بھی نہیں جانا چاہتے اور آگے بھی رستہ نہیں ہے۔

اور ستم یہ ہے کہ مارنے والے بھی ہم ہی ہیں اور مرنے والے بھی ہم ہیں۔

عبیداللہ علیم تو پہلے ہی کہہ گئے ہیں

؎ کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی

ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

یہ بہت فضُول بات ہے جب ہم کہتے ہیں کہ ایسا ظلم کوئی انسان نہیں کر سکتا اور مسلمان تو کر ہی نہیں سکتا۔ ایسا کرنے والے درندے ہیں، انسان نہیں وغیرہ وغیرہ

میں نہیں مانتا اور جو میں مانتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ہم جیسے ہی سانس لیتے، جیتے جاگتے انسان ہیں، ہمارے ہی معاشرے میں پلے بڑھے ہیں اور اکثر ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔

ہمیں اس بات پہ تو بہت زور کا اعتراض ہے کہ ہماری تفتیشیں کوئی متنازعہ فرقہ کا بندہ نہیں کر سکتا مگر اس بات پہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کہ ہماری عزتیں مسلمان بھائی ہی خراب کرتے ہیں۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی عزت رکھنے کے لیےبہت پُرجوش ہو کر کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہو سکتے، اصل میں انسان ہی نہیں ہو سکتے جو یہ سب کرتے ہیں۔

اور دہشت گرد کا تو کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا۔

مگر کب تک ہم خود سے جھوٹ بولیں گے؟

ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ ہم سب ہم ہی کر رہے ہیں اور ہر واقعے میں ہم میں سے ہر کوئی ملوث ہے؟

یہ کیسی نئی صدی ہے جو لہولہان حالت میں آئی ہے۔ یہ اپنے ساتھ خون کی نہریں بھی بہا کے لائی ہے۔

کتنے ہی ملک ہیں جن کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور کتنے ہی معصوم لوگ اس صدی میں ناحق قتل ہو گئے۔

افغانستان، عراق، شام، یمن، پاکستان اور پتہ پتہ کون کون سے ملک اُدھڑ کے رہ گئے۔

سنا تھا آنے والی صدی سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی ہے مگر لگتا ہے کہ صدیوں کی ترتیب کچھ اوپر نیچے ہو گئی ہے اور کوئی بہت بعد میں آنے والی صدی غلطی سے وقت کے گراموفون پہ پلے ہو کے اپنی باری سے پہلے ہی آ گئی ہے۔ انسانیت نے ترقی تو خیر کیا کرنی ہے کہ ترقی کی مہلت ہی کب مل رہی ہے، ہمیں تو گلے کاٹنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔

کوئی دن خالی نہیں جاتا۔

ہر رات خونی ہے۔

ہفتے خون میں نہائے ہوئے اور مہینے لاشوں سے اٹے پڑے ہیں۔

ہم تو پہلے ہی جنسی، نفسیاتی اور مذہبی مریض بن چکے ہیں۔ اب مزید پتہ نہیں کیا بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور پتہ نہیں کہاں جا کے رکیں گے۔

ریاستیں اس دوران بھنگ پی کے سوئی پڑی ہیں اور ادارے چرس کے کش لگا کے ناچ رہے ہیں۔

اگر تو یہ صدی واقعی ایسی ہی ہے تو پھر بہتری آنے میں تو مزید 83 سال لگ جائیں گے اور تب تک پتہ نہیں کوئی یہ بہتری دیکھنے کے لیےزندہ بھی بچ پائے گا یا نہیں۔

تب تک شاید گلے یونہی کٹتے رہیں گے۔

عزتیں اسی طرح لٹتی رہیں گی۔

ناحق لاشیں ایسے ہی ملبے کو بڑھاتی رہیں گی۔

اور یونہی قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

بچے، بچیاں، جوان، بوڑھے، خواتین یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

ہر عمر کا کفن تیار کیا جا رہا ہے اور مارنے والے بلاتفریقِ عُمر و علاقہ سبھی کو برابر برابر موت تقسیم کر رہے ہیں۔

جو اب تک گزر چکے ہیں وہ اپنی جان چھڑا گئے ہیں اور جو ہمارے جیسے بچ رہے ہیں وہ مسلسل سُولی پہ جھول رہے ہیں۔ موت کی لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

دستور ایسا ہے کہ یہاں اب سبھی کو چاہئیے کہ وہ ‘طبعی’ موت مرنے کے لیےتیار رہیں اور یہ اچھی بات ہے کہ اکثر لوگ پہلے ہی سے ذہن بنا چکے ہیں۔

؎ کوئی غنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو

وہ ہوائے گُلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

آئے گی آئے گی سبھی کی باری آئے گی

کسی کو مایوس نہیں لوٹایا جائے گا

بیٹھیں بیٹھیں سب کو ملے گا

سبھی مریں گے۔ یہ نا سمجھیں کہ موت کے سوداگروں کے پاس موت کا کوئی لمیٹیڈ اسٹاک ہے۔ ہم اس معاملے میں اب خود کفیل ہو چکے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ہر ڈیزائن اور ہر سائز کی موت دن رات تیار کرنے میں محو ہیں۔ پہلے ہمیں لگتا تھا کہ ہم یہ موت صرف برآمد کیا کریں گے مگر اب مقامی طور پر ہی اس کی اتنی ڈیمانڈ ہو گئی ہے کہ باہر بھجوانے کی مہلت ہی کہاں بچی ہے لہٰذا موت اب ہمارے پاس وافر مقدار میں موجود ہے اور سب کو پوری کریں گے۔

کراچی میں پروفیسر حسن ظفر عارف کو بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔ فلسفے کا یہ پروفیسر مجھے بتائیں علامہ خادم رضوی سے زیادہ خطرناک تھا؟

فیض احمد فیض نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال کے لیےکہا ہوگا:

؎ ہے اہلِ دل کے  لیے اب یہ نظمِ بست و کُشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

اور

بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں، کسی سے مُنصفی چاہیں

قومیں زوال پذیر ہو جائیں تو وہ سب سے برا حال وہاں کے دانش وروں کا ہی کرتی ہیں اور مبارک ہو ہم زوال کے اس درجے تک کامیابی سے پہنچ چکے ہیں۔

یہاں دستور یہ ہے کہ سب کے ذہن باندھ دیے جائیں، سب کو دولے شاہ کا چوہا بنا دیا جائے، سوال کرنے والے کی زبان کھینچ لی جائے، اپنا حق مانگنے والوں پر گولیاں چلا دی جائیں، دانش ور آوازوں کو ہمیشہ کے لیےخاموش کر دیا جائے اور پھر اس سب پر مطمئن پہ ہو جایا جائے۔

مگر میرے جیسا ایک عام بندہ کب تک لاشیں ڈھوئے، کب تک ماتم منائے۔ مجھے یہی سُوجھ رہا ہے کہ میں بھی خاموشی سے اسی لائن میں لگ جاؤں۔ ویسے بھی آوازوں کے اس جنگل میں میری ایک آواز خاموش بھی ہوگئی تو کیا فرق پڑے گا۔ ہمارے اجتماعی طور پر چیخنے چلانے سے جب کوئی فرق نہیں پڑ رہا تو میں اکیلا صورت حال میں کتنی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاؤں گا؟

مشال کی دفعہ اتنا شور مچایا مگر کیا ہو گیا؟ ناحق قتل کرنے والا سلسلہ تو جُوں کا توں جاری ہے۔ ہر طرف خوف کا راج ہے، ہر طرف اندھیرا ہے اور اس اندھیرے میں مزید چلتے رہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ نا جانے وہ گولی کہاں رک گئی ہے جس پہ میرے جیسے بندے کا نام لکھا ہے۔

؎ اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

(جون ایلیا)