وہ کتابیں جو نہیں پڑھیں : امبرٹو ایکو کے مضمون سے ماخوذ
از، یاسر چٹھہ
مجھے ایک بات یاد آ رہی ہے؛ لیکن یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس یاد کی صحت کا کیا معیار ہے۔ بہ ہر صورت مجھے Giorgio Manganelli کا ایک انتہائی شاندار مضمون ذہن میں آ رہا ہے۔ اس مضمون میں جورجو مانگانیلی اس بات کی وضاحت و تشریح کرتے ہیں کہ کیسے ایک نفیس و اعلٰی درجے کا قاری کسی کتاب کو کھولنے کے لمحے سے عین پہلے بھی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کتاب اس کے پڑھنے کے لائق ہے یا نہیں۔
مانگانیلی اپنے اس مضمون میں اس تجربہ کار، ذہین و فطین قاری کی بات نہیں کرتے جو محض کسی کتاب کی شروع کی ایک دو سطریں، دو ایک صفحوں کی الٹ پلٹ، کتاب کے آخر میں دیے اشاریے اور کتابیات پر نظر ڈالتے ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے یہ کتاب پڑھنا ہے، یا نہیں۔ وہ کتاب اس کے مطالعہ کے لیے وقت صرف کرنے کی قیمت پورا کر سکتی ہے یا کہ نہیں۔ امبرٹو ایکو اس تجربہ کار و قرات شناس قاری کے اس آنا فانا فیصلے کی بنیاد اس قاری کے محض تجربہ کو سونپتے ہیں جو اسے اس قدر جلد فیصلے کی صلاحیت بخشتا ہے۔
لیکن امبرٹو ایکو فورا ہی کہہ دیتے ہیں کہ اسے محض قاری کا تجربہ کہہ دینا اس فعل کی حساس جُزئیات کے ادراک کی کوشش سے عدم سنجیدگی ہوگی۔ کہتے ہیں ایسا کرنے کے دوران تو اچانک سے دماغ کے کسی خانے میں روشنی کی کرن سی پڑتی ہے جو مانگانیلی کو ودیعت تھی اور اسی قدرت کی دین کا وہ بالواسطہ لیکن واضح اظہار بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیئر بے یارڈ Pierre Bayard تحلیل نفسی کے ایک ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ادبیات کے پروفیسر ہیں۔ آپ کی کتاب How to Talk About Books You Haven’t Read یہ نہیں بتاتی کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے، اور کیا نہیں پڑھنا چاہیے۔ بلکہ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کسی ایسی کتاب جسے آپ نے پڑھا نا ہو، اس کے متعلق (لوگوں بشمول اپنے طلباء سے) کیسے بات کرنا ہے، بھلے یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہو کلاسِیک کتاب ہو۔
پیئر بے یارڈ نے اس معاملے کے متعلق بڑی سائنسی سمجھ بوجھ کے ساتھ حساب کتاب لگایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی اچھی لائبریری میں ہزاروں لاکھوں کتابیں ہو سکتی ہیں۔ ہم اگر ہر روز بھی ایک کتاب پڑھیں تو ایک برس میں 365 کتابوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے۔ ایک دھائی میں 3600 کتابیں، اور دس اور 80 سال کی عمر کے بیچ میں 25,200 کتابیں پڑھنے کی سَکت رکھتے ہیں۔ کتابوں کی مجموعی میسر تعداد کے مقابل یہ تعداد کس قدر لغو و بے معنی سا عدد ہے۔ لیکن ان کے ہم وطن اطالوی جنہوں نے مقدور بھر ثانوی تعلیم پائی ہو وہ کسی کتاب کے محض عنوان اور مصنف کا نام جاننے اور اس کے تھوڑے سے تنقیدی سیاق و سباق سے آگاہی کے بَل بُوتے اچھی خاصی بحث و تمحیص میں حصہ لینے پر قادر ہوتے ہیں۔
تنقیدی سیاق و سباق پیئر بے یارڈ کی رائے کا ایک اہم نکتہ اور بنیاد ہے۔ وہ بغیر کسی شرمساری کے احساس کے کہتے ہیں کہ انہوں نے جیمز جوائس کے ناول یولیسیز سے کبھی ہاتھ بھی مس نہیں کیا لیکن وہ اس کے متعلق اچھی خاصی باتیں کر سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو وہ اس بنیاد پر جانتے ہیں کہ یہ اوڈیسی کا نئے سرے سے سے بیان ہی تو ہے۔ پر لطف کی بات یہ ہے کہ پیئر بے یارڈ کہتے ہیں کہ انہوں نے اوڈیسی کو بھی کبھی پوری طرح سے نہیں پڑھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یولیسیز خود کلامی پر ہی تو مشتمل ناول ہے جس کا سارا ایکشن، ڈبلن میں گزرے ایک دن پر محیط ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کے نتیجے کے طور پر پیئر بے یارڈ کہتے ہیں کہ وہ جیمز جوائس کے یولیسیز سے اکثر و بیشتر حوالے دیتے ہیں اور انہیں اس متعلق کچھ فکر و پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ کسی کتاب کا دوسری کتابوں سے تعلق، واسطہ، نسبت اور رشتے کے متعلق علم رکھنا اس کتاب کو پڑھنے سے کہیں بڑھ کر زیادہ کام والا ثابت ہوتا ہے۔
پیئر بےیارڈ اپنی کتاب میں یہ واضح کرتے ہیں کہ جب کبھی آپ وقت اور موقع میسر ہونے پر وہ کتابیں پڑھتے ہیں، جنہیں آپ نے پہلے نظر انداز کیا ہوا تھا تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ تو ان کتابوں کے مشمولات سے اچھے خاصے واقف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ کتابیں آپ کے احباب میں سے کچھ نے پڑھی ہوتی ہیں؛ انہوں نے اس کے متعلق بات چیت کی ہوتی ہے، ان کتابوں کے اندر سے اقتباس نکالے ہوتے ہیں، اور انہی خیالات کی رو میں سفر بھی کیا ہوتا ہے۔
پیئر بےیارڈ کچھ انتہائی اہم ادبی متنوں جن کو آپ نے کبھی بھی پڑھا نہیں تھا،کے نام لے کر بہت دلچسپ تبصرے کرتے ہیں۔ ان کتابوں کے مصنفین میں Robert Musil, Graham Greene, Paul Valéry, Anatole France, اور David Lodge شامل ہیں۔
اس پُر لطف سیاق کے آس پاس امبرٹو ایکو کہتے ہیں کہ پیئر بے یارڈ نے اپنی کتاب میں امبرٹو ایکو کی کتاب The Name of the Rose کے لیے پورا ایک باب مُختص کیا ہے۔ کتاب کے اس باب میں ولیم آف باسکرول، اردو کی بوطیقہ کی دوسری کتاب سے شناسائی کا اس طرح حوالہ دیتا ہے کہ جس لمحے انہوں نے اس کتاب کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔ ولیم آف باسکرول یہ شناسائی اس بات کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حصے کی بابت ارسطو کی اس تصنیف کے پہلے کے صفحات میں سے کچھ نتائج اخذ کیے ہوئے تھے۔
پیئر بے یارڈ کی محولہ بالا کتاب میں بیان کردہ ایک اور انتہائی دلچسپ اور سحر انگیز پہلو یہ ہے کہ ہم نے جو کتابیں پڑھی بھی ہوتی ہیں ہم ان کتابوں کا بعد ازاں بہت تھوڑا حصہ یاد رکھ پاتے ہیں۔ کسی بھی کتاب کا بہت سارا حصہ ہم بھوک چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ ہم اپنی پہلے کی پڑھی ہوئی کتابوں کی ایک مجازی تصویر و تصور ہی قائم رکھ پاتے ہیں۔ ہماری یہ مجازی تصویر و تصور کتاب ضروری نہیں کہ وہی ہو جو کتاب میں ہوتا ہے، بلکہ زیادہ امکان ہے کہ یہ تصویر و تصور ایسی کسی کتاب کا وہ جُزو ہوتا ہے جو ہمارے ذہن اور تفہیم میں بسا رہ جاتا ہے۔ اس طرح سے جب کوئی ایسے صاحب یا صاحبہ کسی ایسی کتاب سے کوئی اقتباس یا اس واقعاتی حوالہ نکال کر پیش کرتے ہیں تو ہم یہ باور کرنے کو تیار ہوتے ہیں کہ ہاں یہ بھی اس کتاب میں تھا۔
پیئر بےیارڈ اس بات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے کہ لوگوں ک دوسرے لکھاریوں کی کتابیں پڑھنا چاہئیں، یا نہیں پڑھنا چاہئیں بلکہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ قاری کو جس قدر بھی ہوسکے اپنے تئیں کچھ خلاقانہ کام کرنا چاہیے؛ بھلے قرات و عدم قرات یا تناقص کی حامل قرات ہو، اس سے منسلک خلاقانہ کارکردگی کا عمل دخل بہ ہر صورت ہونا ضروری ہے۔ اس بات کے کہنے میں وہ ادبیات کے کسی استاد کی بجائے تحلیل نفسی کے کسی ماہر جیسے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ پیئر بےیارڈ کسی اسے اسکول کے قیام و تشکیل کے امکانات کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ جہاں طالب علم کتابوں کی ایجاد و اختراع کریں، نا کہ انہیں کوئی کتابیں پڑھنا پڑیں۔ پیئر بےیارڈ سمجھتے ہیں کہ ایسی کتابیں جو کسی نے نا پڑھیں ہوں ان کی بابت بات کرنا عرفان ذات کے حصول کا ایک ذریعہ بننے کے امکانات لیے ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا چیزوں کے علاوہ پیئر بےیارڈ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے جب کوئی بندہ نفس کسی ایسی کتاب کے متعلق بات کرتا ہے جس کو اس نے پڑھا نہیں ہوتا تو اس کتاب کے پڑھنے والوں کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ اول الذکر شخص نے متذکرہ کتاب کے متعلق کوئی غلط یا حقائق کے برخلاف بات کی ہے۔ اپنی کتاب کے آخر میں پیئر بےیارڈ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں تین مقامات پر The Name of the Rose, Graham Greene’s The Third Man, and David Lodge’s Changing Places کی تلخیص کرتے ہوئے حقائق کے برخلاف علم فراہم کیا۔ امبرٹو ایکو کہتے ہیں کہ لطف کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے پیئر بےیارڈ کی کتاب کا مطالعہ کرتے لمحوں جب ان تلخیصوں کو پڑھا تو انہیں گراہم گرین کی کتاب کے متعلق بیان کردہ غلطی کا احساس تو فوری ہوگیا تھا، ڈیوڈ لاج کی کتاب کی تلخیص کی بابت کچھ شک سا ہوا تھا، لیکن اپنی کتاب کی غلط تلخیص کی بابت قطعی طور پر کوئی شک ہی ذہن میں نا گزرا۔
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں، یعنی امبرٹو ایکو، نے پیئر بےیارڈ کی کتاب کو مناسب انداز سے پڑھا نہیں، یا بہ صورت دیگر بےیارڈ اور میرے قارئین پر منحصر ہے کہ وہ مجھ پر شک کا اظہار کریں کہ میں نے کتاب کو صرف سرسری سا دیکھا ہوگا۔
اسی طرح ایک اور بہت دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ پیئر بےیارڈ اس بات کو باور کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ اپنی تین ارادی غلطیوں کا اعتراف کرکے، وہ ایک طرح سے اس بات کا بھی اعتراف کر لیتے ہیں کہ کسی کتاب کو پڑھنے کا کوئی ایک زیادہ بہتر طریقہ ہوتا ہے، بہ نسبت کسی عام طریقے یا طریقوں کے؛ ایسا ثابت کرنے کے لیے اپنی کتاب میں اقتباسات کے لیے استعمال کی جانے والی کتابوں کو بےیارڈ بڑی عرق ریزی سے پڑھا ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنی تھیوری کے حق میں دلائل اکٹھے کر سکیں کہ کتابوں کو نہیں پڑھنا چاہیے۔ یہ تضاد اس قدر واضح ہے کہ بندہ یہ سوال اپنے چہرے پر سجائے حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ پیئر بے یارڈ نے جو کتاب لکھی ہے، کیا انہوں نے خود اسے پڑھا ہے۔
Excerpted from Chronicles of a Liquid Society by Umberto Eco, translated from the Italian by Richard Dixon. Copyright © 2016 by La nave di Teseo Editore, Milano. English translation copyright © 2017 by Richard Dixon. The ParisReview.org printed with permission of Houghton Mifflin Harcourt.
aikRozan has taken the base text from The Paris Review