عمرے پر گئی حکومت پاکستان: اللہ میاں ہے نا
از، یاسر چٹھہ
“حج فرض عبادت ہے۔ اسلام کے ارکانِ خُمسہ میں شامل ہے۔ دینِ اسلام میں ایمان کے بنیادی لوازمات میں سے بعض کا تعلق ذہنی اقرار سے لے کر بدنی مشق کرنے تک ہوتا ہے؛ مثلاً کلمۂِ طیبہ، فرشتوں اور آخرت پر ایمان، نماز، روزہ وغیرہ۔ عبادات و اقرارات کا یہ سلسلہ رُکتا نہیں بَل کہ کچھ عبادات کا تعلق تو مالی وسائل کے خرچنے تک چلا آتا ہے؛ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ۔ جیسا کہ ابھی بتایا ان عبادات میں سے کچھ بدنی ہیں اور کچھ مالی۔ البتہ حج اسلام کے ارکانِ خُمسہ میں سے ایسی عبادات میں شامل ہے جس میں بدنی اور مالی پر دو عوامل شامل ہوجاتے ہیں۔”
مولانا صاحب ذکر کرتے جا رہے تھے اور عاجز علمی صاحب ہمہ تن گوش ہو کر، با وضو حالت میں رمضان کے آخری عشرے کی ایک فجر نماز کے بعد یہ سب سنتے جا رہے تھے۔ عاجز علمی تھے پڑھے لکھے۔ سکول، کالج کی رسمی تعلیم کو چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے۔ مطالعہ کی عادت البتہ ابھی تک تھی۔ اب دو خوبیاں کہہ لیں یا خامیاں، وہ یک جا ہو گئیں تھی: رسمی تعلیم چھوڑے عرصۂِ دراز ہونا اور مطالعے کی عادت ہونا!
یہی وجہ تھی کہ ذہن میں سوال آتے رہتے تھے اور آ کر مچلتے رہتے تھے۔ کسی کی بات سُن کر خوشامدی انداز کی تعریفیں کرنے کی عادت نہیں تھی بَل کہ سوال دریافت میں عار نہیں سمجھتے تھے۔ تو مولانا صاحب کی اس اپنے تئیں فلسفیانہ انداز کی بیانیہ تقریر کے دوران اچانک ہاتھ کھڑا کیا اور کچھ بولنے کی اجازت چاہی۔ عرض کیا کہ ایک سوال دریافت کرنا چاہتا ہوں۔
اس مضمون کو بھی دیکھا جا سکتا ہے: سرکاری خرچ پر حج و عمرہ : کیا یہ استطاعت کی بناء پر فرض نہیں؟
مولانا صاحب کے حلقے میں نیم وا آنکھوں سے جمائیاں لیتے سامعین میں سے کئی ایک کی آنکھیں فورًا پوری طرح کُھل گئیں۔ لیکن بولے وہی صاحب جو مسجد کی انتظامی کمیٹی کے معتبر ترین رُکن تھے۔ یہ وہی تھے جانے پہچانے اپنے میاں انار سلطان۔ ہر نیکی کے کام میں ہر اول دستے کے اہم سپاہی۔ میاں انار سلطان بولے کیا تھے، بَل کہ گرج پڑے تھے:
“عاجز صاحب، مولانا صاحب کتنا اچھا بیان ارشاد کر رہے تھے۔ آپ نے اچانک ساری روحانی کیفیت کِر کِری کر دی۔”
حضرتِ عاجز عملی کو حیرانی ہوئی کہ اس نیم وا آنکھوں والی اُونگھ کو یہ لوگ کسی روحانی کیفیت کا نام دیتے ہیں۔ حیران تو ہوئے کہ بیٹھے بیٹھے میں سونے کا کتنا خُوش نما نام دریافت کیا ہوا ہے ان لوگوں نے۔ بہ ہر حال مولانا کچھ نہیں بولے۔ چہرہ بالکل سپاٹ رکھا۔ کوئی احساس کی لہر نہ ہِلی۔
لیکن اس مسجد کمیٹی کے انتظامی رکن کی بَر جَستہ گرج سے مولانا کی نیم رضا شامل اس طرح محسوس ہوئی کہ انہوں نے کچھ تؤقف کیا اور دو بارہ اس محفل کے حاضرین کی دانست میں فکری کہلانے والی مجلس جاری کر دی۔ انہوں نے کمال مہر بانی برتنے کا فیصلہ نہیں کیا جس کے مطابق موقع نکل سکتا تھا کہ سوال پوچھنے کی اجازت دے دیتے۔
عاجز علمی صاحب کو لمحہ بھر کے لیے اپنے سکول کے دن یاد آ گئے جب کسی کا سوال کرنے پر استاد جی محترم کہا کرتے تھے:
“جماعت کا نظم و ضبط اور ماحول خراب کر دیا۔”
یہ مولانا صاحب مسجد کے امام اور خطیب تھے۔ لیکن رمضان کے با برکت مہینے میں ان کی مصروفیات کئی گُنا بڑھ جاتی تھیں۔ فجر کی نماز کے بعد اس یک طرفہ ابلاغی ذکر یعنی اس بلند آواز مونو لاگ کو وہ “درس” کا نام دیتے تھے۔ روز کسی نئے موضوع پر اپنے خیالات سے اپنے سامنے بیٹھوں کو نوازتے تھے۔ لیکن یہ بھی کسی حد تک غنیمت تھا کہ حاضریں کو اپنے طور پر تو کسی کتاب کو پڑھنے کا یارا نہ تھا۔ چلو کچھ یہاں سے تو سُن ہی جاتے تھے۔
مولانا صاحب نے سوال کی اجازت مانگنے کی تخریبی کارِ روائی سے ٹوٹنے والے سلسلے کے بعد اپنا براہِ راست نشریہ از سرِ نو جاری کیا۔ اگر چِہ نئے سِرے سے مُنقطع بات شروع کرنے میں انہیں اپنی یاد داشت پر کچھ زور دینا پڑا۔ اس زور کے اثرات کا اُن کی آنکھوں کے خم دار ہونے اور پیشانی پر پڑنے والی شِکنوں سے بہ آسانی اندازہ کیا جاسکتا تھا۔ شاید اپنے روزانہ کے درس کو حفظ کر کے آتے تھے اور مَتن سے کسی طرح سے ہٹنا بحالی کے کام کو مشکل کر دیتا تھا۔ خیر، مددِ باری تعالیٰ سے حافظے کی لڑی کا ٹوٹا سسلسہ بحال ہوا تو فرمایا:
“حج ایک بدنی اور مالی عبادت کے دونوں عوامل سے جامع ہے۔”
اس طرح انہوں نے کچھ وقت بعد اپنا درس و بیان کا آج کا سلسلہ ختم شُد کیا۔ حاضریں اس وقت اپنی نیم وا آنکھوں کو مَلتے ہوئے اُٹھنے لگے۔ کچھ کی ٹانگوں میں اتنی دیر اِسی حالت میں بیٹھے رہنے سے ہلکا سا ورم آ گیا ہوا تھا، جسے علاقے کی زبان میں کہا جاتا تھا کہ ٹانگ سَو گئی ہے۔ بہ ہرحال ایسے سَوئی ٹانگوں والے اپنے خون کی روانی کو سہلا سہلا کر بحال کرتے اٹھ گئے۔ سب نے مولانا صاحب کے دائیں ہاتھ کو اپنی دونوں مُٹھیوں میں لے کر با ادب سلام کہا اور جاتے جاتے اُن کے ہاتھوں کو بوسہ بھی دیا۔
لیکن دو آدمی وہاں ابھی تک بیٹھے رہ گئے۔ ان میں سے ایک تو تھے ہمارے عاجز علمی صاحب اور دوسرے تے مسجد کی انتظامی کمیٹی کے اہم رُکن میاں انار سلطان۔ ان کی سمجھ بُوجھ کے انداز گو کہ مختلف ہیں، پر ایک ہی محلے کی ایک ہی گلی میں رہتے ہیں۔ اب عاجز علمی نے مولانا صاحب سے اُس سوال کے کرنے کی اجازت چاہی جس کے پوچھنے پر کچھ لمحے پہلے وہ میاں انار سلطان کا چُپ کرا دینے والا ڈرون برداشت کر چکے تھے۔ اب کی بار مولانا کے بیان میں کسی مداخلت اور رکاوٹ کا مسئلہ نہیں رہا تھا۔ اجازت مل گئی۔ سوال کچھ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ عاجز صاحب نے محض اتنا دریافت کیا:
“عمرے کی بطورِ عبادت کیا فقہی حیثیت ہے؟”
جس فقہ کے مقلد مولانا تھے عین اُس کی رُو سے انہوں نے واضح لفظوں میں اور مثالوں کے ساتھ کھول کھول کر عمرہ کی شرعی حیثیت واضح کر دی۔ اب بھی بھی وہ متن سے نہیں ہٹے؛ کہ متن سے ہٹنے پر کسی پڑھے لکھے صاحب نے خبر دار کیا تھا کہ قوم و ملت کا محض شامل باجے ہی بننا مقدر ہوجائے گا۔ انہوں نے یہ بات مضبوط گرہ لگا کے پلو سے باندھ رکھی تھی۔ اب وہ ایسا رویہ مُتُون کی چند خاص تشریحات کے سلسلے میں بھی برتتے تھے۔ بس اکابرین دیں اور مولانا لیں والی بات تھی۔
مولانا صاحب کے اس شرعی مسئلے کے بیان کی عبارت کو پورے کا پورا یہاں نقل کرنا ہمارا مَطمَحِ نظر ہر گز نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ اس عمرے کے فرض ہونے کے متعلق مولانا کے مُنھ سے کوئی لفظ نہیں نکلا تھا۔
یہ سُن کر عاجز علمی اور میاں انار سلطان اپنے گھروں کو چل دیے۔ اب جب کہ عاجز علمی صاحب کو اہم گواہی مِل گئی کہ عمرہ فرض نہیں ہے تو آپ گُم سُم سے ہوگئے۔ سوچنے لگ گئے:
“ہماری موجودہ حکومت کے سر کردہ ارکان کو ہر سال جانے رمضان میں کون سی خلش اُٹھ پڑتی ہے کہ سارے سرکاری فرائض چھوڑ چھاڑ کے عمرہ کی ادائیگی کے لیے نکل جاتے ہیں؟ کیا عوام کے رُک رُک کر رُکے ہوئے کام اتنے غیر اہم ہیں کہ غیر فرض عبادتیں بھی اُن پر حاوی ہیں؟ کتنے سارے حکومتی زُعماء اپنے فرائض کو چھوڑ چھاڑ کے سعودی عرب روانہ ہو چُکے ہیں؟”
یہ سوچتے سوچتے ایک آہ بھری۔ اسی آہ بھرنے میں ہی ایک جملہ سانس کے ساتھ بلند آواز میں مُنھ سے نکل گیا:
“یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟”
پاس ہی کھڑے میاں انار سلطان نے فوری طور پر خود کار روانی سے جواب دیا:
“اللہ میاں ہے نا!”
حقیقت پر مبنی یہ سوالات آج کے ہر اس نوجوان کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں جو حقیقی طور پر اسلام کی روح سمجھنے کے لئے بےتاب ہیں لیکن چند ٹھیکیدار قسم کے ناعاقبت اندیشوں نے وہ سارے رستے مسدود کر دئیے ہیں جو علم اور دانش کی طرف جاتے ہیں ۔۔۔۔
بہت شکریہ بیگ صاحب تبصرہ کرنے کا