کلام لا حاصل
ڈرامہ از، نصیر احمد
(انور کی سٹدی کا منظر۔ انور ایک کرسی پر بیٹھا اپنے سامنے دھرے میز پر رکھی کتابیں الٹ پلٹ رہا ہے۔ نغمہ سٹڈی کے اندر داخل ہوتی ہے۔ انور کی طرف بڑھتی ہے۔ نغمہ کے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ ہے۔ انور بھی نغمہ کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔ انور کی مسکراہٹ میں ایک اطمینان ہے جو اچھی کارکردگی دیکھ کر چہرے کے تاثرات میں در آتا ہے۔)
نغمہ: انور جی کلیم آیا ہے۔
انور: ٹال دو۔
نغمہ: نہیں ٹلے گا۔ ملنا پڑے گا۔
انور: کلیم سے ملنا پڑے گا؟ کلیم کے لیے کون مجبور ہوتا ہے۔ کہیں انقلاب تو نہیں آ گیا؟
نغمہ: اللہ نہ کرے۔ میں بس اوتنی کی اوتنی ہوں۔ بھول جاتی ہوں کہ کلیم تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بس مشورے پر ذرا زیادہ اصرار کر گئی کہ حکم لگنے لگا۔
انور: ہاہا، ٹھیک جگہ پر تمھارا موجودگی پر اصرار تمھاری ذہانت کا شاہ کار ہے اور مجھے بہت پسند ہے۔ مگر مشورے پر اصرار کیوں؟
نغمہ: کلیم بہت پریشان ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں دیوانگی بھی بڑھی ہوئی لگتی ہے۔ اس کے ساتھ دیبا بھی ہے۔ دیبا کی قربت اور بڑھتی دیوانگی میرے خیال میں اچھا آمیزہ نہیں ہے۔ مل لیں، دونوں کی تسلی ہو جائے گی۔
انور: دیبا کی قربت اور بڑھتی دیوانگی کچھ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جس بات نے فیصلہ کرنا ہے، اس تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن تم بھی ٹھیک کہہ رہی ہو، مل لیتے ہیں۔ تم سے عشق بھی تو بہت بڑھ گیا ہے۔ تمھاری بات ٹالی بھی تو نہیں جاتی۔
نغمہ: میری خوش نصیبی۔ میری بات کو اپنے پاؤں تلے روند دیں، مٹھی میں بھینچ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، بے دردی سے مسترد کر دیں، میں اپنی جگہ پر ہی رہوں گی۔
انور: دشمن ایک بات تو سچی ہی کہہ گئے کہ سچ آزاد کرتا ہے۔ ہم دونوں نے سچ تسلیم کر لیا تو خوشی کتنی بڑھ گئی ہے۔
نغمہ: اور سچ کیا ہے؟
انور: کچھووں نے ساحل پر آنا ہے اور کتوں نے انھیں چیرنا ہے۔ کوئی طاقت ہے جو ہر کسی کو اس کی جگہ کی طرف دھکیلتی ہے۔
نغمہ: (ہنستی ہے) کش مکش سے مجھے قرار دو، سیبوں سے مجھے تازہ دم کرو کہ میں عشق کی بیمار ہوں۔
انور: یعنی ابھی واہمے چاہییں؟
نغمہ: نہیں، واہموں کی بناوٹیں۔ مفید ہوتی ہیں۔ چیر پھاڑ کوئی اچھا سین تو نہیں ہوتا۔ بناوٹیں مشکل مرحلے سہل کر دیتی ہیں۔
انور: یعنی ابھی واہمے چاہییں؟
نغمہ: میں اپنی جگہ پر موجود ہوں، چند قدم ہمیشہ آپ سے پیچھے۔
انور: ہڑش۔
(نغمہ کتیا کی طرح بھونکنے لگتی ہے۔ انور ہنسنے لگتا ہے۔)
انور: تو چلیں ساحل پر، کچھووں سے ملتے ہیں۔
(نغمہ بھونکتی رہتی ہے۔)
انور: ناصر کو بھی بلا لینا۔ کچھووں پر جمی اس کی نگاہیں کھیل کے نتیجے کو استقلال بخشتی ہیں۔ استقلال، انحطاط، جمود، ثبات، دیکھنے والے کے بَہ غیر ایک بے یقینی سی بن سکتی ہے اور ان دیکھے پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ جانے کیا کر بیٹھے؟ اچھا اب یہ سب بند کرو، سب کو لِوِنگ روم میں لے آؤ، دیکھتے ہیں، دیبا اور کلیم کیا کہتے ہیں۔
(لِوِنگ روم کا منظر: کلیم ایک خستہ حال سا شخص ہے۔ دیبا خوش حال ہے اور بنی ٹھنی ہوئی ہے، اور کافی حسین ہے۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑے ہیں۔ کمرے کا ایک کونے میں ناصر کھڑا ہے، بے تاثر چہرہ لیکن سب کو گھورے جا رہا ہے۔ نغمہ اور انور کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ کلیم ڈر جاتا ہے، دیبا بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ کلیم کی ہمت کچھ بندھ جاتی ہے۔)
کلیم: جنابِ عالی … دو دن سے بھوکا ہوں۔ جیب میں ایک پیسہ نہیں۔ بیمار بھی ہوں۔ اب وہ اور پیسے مانگ رہے ہیں۔ کہاں سے لاؤں گا اتنے پیسے؟
دیبا: انور صاحب… تو یہ ہے آپ کی فردوس۔ امپریسو۔ ریمبراں، اور یہ چیخ، ڈاؤنچی، صادقین، چغتائی، فیض صاحب، علامہ صاحب، جون سرکار، یہ گُل دان، یہ شیشے کا کام، اور وہ سب پوسٹ ماڈرن چیزیں، لطف کی انتہا، ساری حِسّیات جیسے کوئی لطیف ذائقہ بن گئی ہیں۔
کلیم: جناب عالی… بس گوبھی اور نہیں کھائی جاتی۔
انور: شکریہ دیبا۔ لطف رستے کی بات ہے۔ ایسا رستہ جو تکلیف پر ختم ہوتا ہے۔ راستے کب کے طے ہو چکے۔ تکلیفیں تمام ہو چکیں۔ اب بس اطمینان ہی اطمینان۔ ٹھیک جگہ پر پہنچنے کا اطمینان۔ اپنی جگہ پر پہنچنے کا اطمینان۔ تم نے سب دیکھا لیکن پھول نہیں دیکھے، تر و تازہ مہکتے پھول۔ پتی پتی دیکھو تو مرگ لیکن پھول میں گھس کر دیکھو، تو سب تصویریں زندہ۔ کہانی کے کردار سے دوری، دوری جو تفہیم قتل کرتی ہے۔ کہانی کے کردار سے ایک جذباتی رشتہ، زندگی رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے اور کوئی طاقت منزل کی طرف دھکیلنے لگتی ہے۔
کلیم: میں لیکن کہیں بھی جاؤں، کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔
نغمہ: بکواس بند کرو، اشتہا پر ٹھہرے تم، تفکر کی رفعت تک پہنچ نہیں سکتے۔ ایسے تو تمھاری بھوک نہیں مٹے گی۔ فکر کی رفعت کے سامنے دو زانو ہو جاؤ۔ پھر مراد پاؤ گے۔
کلیم: تو کیا پھر کچھ کھانے کو ملے گا؟ (انور کے سامنے دو زانو ہونے کی کوشش کرنے لگتا ہے، فرش پر گر جاتا ہے، دیبا حیران ہو جاتی ہے۔)
انور: ہاہا، ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا ہے۔
(دیبا کلیم کو اٹھانے لگتی ہے۔)
دیبا: کلیم اپنے آپ کو سنبھالو۔ یوں گرے پڑے رہو گے، تو کچھ نہیں ملے گا۔ سامنے کھڑے ہو جاؤ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مطالبہ کرو۔
(کونے پر کھڑا ناصر کھنکھارتا ہے۔)
نغمہ: اسے کیا پٹیاں پڑھا رہی ہو؟ اس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کسی کا کوئی فائدہ نہیں۔
دیبا: یہ ہمارے تمھارے جیسا انسان ہے۔ فرش پر پڑا یہ اچھا نہیں لگتا۔ اچھی سی گاڑی اس کے پاس ہو تو یہ بھی مصوری کے دقائق بیان کر سکتا ہے۔ بڑا سا بنگلہ، اس کے پاس ہو تو یہ بھی مراعات النظیر اور تجنیسِ تام کے حسن سے لطف اٹھا سکتا ہے۔ شان دار سا بستر اس کے پاس ہو تو یہ بھی فلسفے کی پیچیدگیاں سلجھا سکتا ہے۔ اچھی اچھی مصنوعات اس کے پاس ہوں تو فکر کی رفعتیں اس کی بلند نگاہوں سے کچھ دور نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کو اسے اچھی سی گاڑی دینی پڑے گی، بڑا سا بنگلہ اسے دینا پڑے گا، شان دار مصنوعات اسے دینا پڑیں گی۔ یہ اس کے حقوق ہیں، یہ اسے ملنے چاہییں۔
کلیم: باجی، ابھی تو تھوڑی سی مچھلی، تھوڑے سے چپس، تھوڑے سے مٹر اور تھوڑی سی شراب ہی کافی ہو گی۔ اگر کچھ بندوبست ہو جائے۔
(نغمہ ہنستی ہے، ناصر قہہقہے لگاتا ہے، انور سوچنے لگتا ہے، دیبا کھسیا جاتی ہے۔)
انور: کلیم تم اپنی بیوی سے محبت کرتے ہو؟
کلیم: (اسے بات سمجھ نہیں آئی) بیوی سے محبت؟
انور: (مسکراتا ہے) ہاں
کلیم: جناب عالی… کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ اس بارے میں سوچوں بھی۔
انور: سوچنے سے ہوتی بھی نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ ساری چیزیں جنھیں دیبا حقوق کہہ رہی ہے، تمھارے پاس ہوتیں اور تم یوں فرش پر نہ گرتے۔ تم جس سٹیج پر ہو، وہاں ہوتی بھی نہیں، لیکن نہیں ہو گی تو اسی سٹیج پر پڑے رہو گے۔ تم اپنی منزل تک پہنچ گئے ہو۔ لیکن بیوی سے نہ سہی لیکن محبت ہی تمھارا درمان ہے۔ نغمہ کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟
نغمہ: میں جہاں ہوں، آپ کے عشق کی دین ہے اور میں مالا مال ہوں۔
انور: ناصر کیا تم محبت کرتے ہو؟
(ناصر تھوڑا سا مسکراتا ہے لیکن چپ رہتا ہے۔
انور: تم نے تو دیبا محبت کئی بار کی ہو گی؟
دیبا: (تھوڑی حیران ہو کر) ہاں، کئی بار، مگر ایک دفعہ بھی کام یاب نہیں ہوئی۔ کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے، جس کے بعد لگتا ہے کہ محبت بس اک بات ہی ہے جس کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ شاید یہ اس معاشرے میں رہنے کا نتیجہ ہے۔ میں نے تو در اصل کسی کو بھی یہاں محبت کرتے نہیں دیکھا۔ بس سہولتوں کی ایک مسلسل تلاش، ملتی رہیں تو ٹھیک، جہاں کچھ کٹھنائی آئی، محبت معطل۔
انور: پھر نہ جانے کیوں ہم ایک دوسرے سے دور ہیں۔
دیبا: شاید اس لیے کہ میں نے کسی کو محبت کرتے نہیں دیکھا مگر میں کرتی ہوں۔
انور: کلیم سے۔
دیبا: کلیم سے بھی۔
کلیم: باجی، محبت ہے تو پھر بھوک کیوں نہیں مٹتی؟
انور: مٹ جائے تو دوبارہ لگ جاتی ہے۔ تمھاری باجی کی محبت کی طرح۔
دیبا: انور صاحب، آپ محبت نہیں سمجھ سکتے۔
انور: شاید،جس درجے کی تم لوگوں کی محبت ہے، وہ نہیں سمجھ سکتا۔ فطرت کی زندگی میں بٹے ہوئی ٹکڑوں کی یک جائی جو تحرک پیدا کرتی ہے اور اس تحرک سے پوری کائنات کسی کی سانسوں کے سنگ ہما ہم دما دم رواں ہوتی ہے، اس روانی میں کسی کے حسن کر پرستش محبت کا اصلی مقام ہے، لمحہ بہ لمحہ بدلتا دریا۔ کامل کا ایک کامل تجربہ، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، ڈگر سے کٹی ہوئی، مقصد سے ہٹی ہوئی مردنی جو مایوس کرتی ہے، وہ محبت نہیں ہوتی۔ مکمل میں مسلسل منتقل ہوتی توانائی گل مریم جس کی کرامت ہے، میں اس محبت کا رازدار ہوں۔ اور تخلیق کے امکانات پیش کرتی یکتائی کا ساتھ دینے کی ہمت رکھتا ہوں۔ محبت تو مجھے ہے اور تم سب کو مجھ سے ہی محبت ہونی چاہیے۔ یہ کیا تھوڑی بھوک لگی اور گلے کرنے لگے۔ اور بھوک کے ارد گرد نا جائز گلوں کے سکینڈل بنانے لگے۔ اشتہاء اور مادے میں الجھے ہوئے بے کار وجود کائنات کے سنگ دھڑکنے سے انکار کرتے ہیں۔ تو ایسے بے معنی جسموں اور بے کار دماغوں کو پوری کائنات میں دھڑکتی زندگی سے روشن کرنا تو ہر چیز کو جگہ سے ہٹانے کی مانند ہو گا۔
(کمرے میں اندھیرا چھانے لگتا ہے۔)
دیبا: انور صاحب، اس لفاظی کے ذریعے آپ ہمارے حقوق معطل کرنا چاہتے ہیں۔
انور: حقوق؟ جس آدمی سے کھڑا نہیں ہوا جاتا، اس کے کیسے حقوق؟ گرے پڑے آدمی کے کیسے حقوق؟ بھوکے ننگے کے کیسے حقوق؟ اور کسی بے حیا فاحشہ کے کیسے حقوق؟ حق تو اس آدمی کے ہوتے ہیں جس سے دنیا ڈرتی ہے۔ رضا کی بلندی پر جلوہ افروز نا قابلِ شکست طاقت کے حقوق ہوتے ہیں، باقی تو مسکینوں، یتیموں، لاچاروں، معذوروں، بے کَسوں اور بے بسوں کی سازشوں بھری آہیں ہوتی ہیں جنھیں مرد جواں دھتکارتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ نا توانی کو طاقت بنا کر مجھے روکنا چاہتے ہو؟ چھوٹے لوگوں کی غیر ضروری اخلاقیات بڑے آدمی کی توہین ہے۔ تم مجھے اس جال میں الجھا نہیں سکتے میں نے اپنی خلاقی کی منزل تک پہنچنا ہے، میں مکمل بنوں گا۔ اور رزم گاہِ حیات میں نا توانی کو وہی عطا کروں گا، جس کی وہ مستحق ہے اور نا توانی کو بس تذلیل، توہین اور مرگ کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا۔
(انور پر ایک تشنجی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں، اس کا جسم جھٹکے کھانے لگتا ہے اور وہ فرش پر گر جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں پھینکنے لگتا ہے۔)
کلیم: (مُنھ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے) یہ کیا ہوا؟
دیبا: بے لگام طاقت کی منزل، وہی دیرینہ نا گواری، ٹھیک مقام پر پہنچ گئی۔
کلیم: باجی، میری یہ دیکھ کر واقعی بھوک مر گئی ہے۔
(نغمہ بھونکنے لگتی ہے، ناصر دیبا اور کلیم کو گالیاں دیتے ہوئے دھکے دے کر کمرے سے نکال دیتا ہے، اور فون کی طرف لپکتا ہے)۔