(نعیم بیگ)
شام ساڑھے چار بجے اسلام آباد پہنچنے والے اے ٹی آر ۴۲ طیارے کے بدنصیب سنتالیس مسافر بشمول سٹاف سی۔اے۔اے کے قانون اور پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی لاپروائی اور غفلت کا شکار ہوگئے۔
یہ المناک خبر جب ٹی وی پر نشر ہوئی تو راقم کو حیرت ہوئی کہ اے ٹی آر طیارے دنیا بھر میں محفوظ پرواز کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ایسا کیسے ہو گیا؟ یقینی طور پر کوئی غفلت ہوئی ہے یہ وہ پہلا خیال تھا جس سے راقم کے ذہن میں فوری طور پر ایک جھماکہ ہوا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب رات گئے تک سامنے آگیا۔ میڈیا میں پی آئی اے کے چئیرمین محمد اعظم سیگل کے اس مبینہ بیان سے واضح ہو گیا جس میں انہوں نے کہا کہ “ہمیں امید تھی کہ طیارہ ایک انجن پر اپنے سفر کو مکمل کر لے گا۔” اگر ہم اس مفروضہ کو لمحہ بھر کے لئے مان جائیں کہ کیا یہ ایسا نہ تھا کہ پرواز سے پہلے ہی ایک انجن خرابی کا شکار تھا اور اگر واقعی ایسا تھا تو پی آئی کے اندر بدترین حالات کی آگہی دیتا ہے۔
چیئرمین سیگل نے تاہم اس بات کی وضاحت بھی کی کہ اس بدنصیب جہاز کا مکمل معائنہ گزشتہ ماہ ہی ہوا تھا۔ لیکن اس بیان پر کہ ’پرواز سے پہلے ایک انجن خراب تھا۔‘ پر سی۔اے۔اے کے سابقہ وفاقی سیکرٹری محمد علی گردیزی کہتے ہیں کہ اگر واقعی ایسا تھا تو کلیرنس کیوں دی گئی اور کہاں سے دی گئی؟ ( جنگ لاہور ۸، دسمبر ۲۰۱۶.ء)
درحقیقت یہ ایک بڑا سوال ہے؟ انسانی جانوں سے یوں بے پروائی اور غفلت؟ کیا محکمانہ نا اہلی اور ڈنگ ٹپاؤ رویے اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ انسانی جانوں سے کھیلنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ کمرشل ائیر لائنز کا وطیرہ تو پروفیشنل ازم کی ترویج ہوتا ہے۔ وہاں کیسے غیر ذمہ دارانہ رویے جنم لے سکتے ہیں؟ یہ وہ دوسر بڑا سوال ہے جس کا جواب ہمیں آج کے مضمون میں تلاش کرنا ہے۔ گزشتہ کئی ایک برسوں سے پی آئی اے ’جیسی نابغہ روزگار ائیر لائن جس نے دنیا کی کئی ایک بڑی ائیر لائنز کو جنم دیا ہے‘ شدید مالی مشکلات، بد عنوانیوں اور مِس مینجمنٹ کا شکار ہے۔ اوپر تلے کئی ایک چیئرمینوں کی تقرری ، مسائل کا انبار۔ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں کا انبوہ، غیر ملکی چیف ایگزیکٹو کا تقرر، ائیر لائن میں معاشی مفادات کی سیاسی جنگ، ہوٹل روز ویلٹ کا مبینہ سستے داموں نیلام و دیگر نچلے درجے کے معاملات میں کرپشن عمومی خبروں کی طرح گاہے بگاہے میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ ان تمام مسائل پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیسے ان مسائل سے نبٹا جائے؟ کی تمام تر ذمہ داری ایوی ایشن کے منسٹر کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایوی ایشن کی ڈائیریکٹوریٹ کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت آتی ہے جس کے انچارج خود وزیر اعظم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایوی ایشن کے منسٹر خود وزیر اعظم ہی ہیں۔ یہاں ایک ذیلی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کہ کیا وزیراعظم کے پاس معمول کے حکومتی کاموں کے بعد اتنا وقت نکلتا ہے کہ وہ کیبنٹ ڈویژن میں پانچ محکموں کی سر براہی خود کریں؟
درحقیقت یہی وہ خفیف اور مخفی لائن ہے جہاں سے کراس کرتے ہوئے حکومتی سربراہ خود بیورو کریسی کے توسط سے اپنے بظاہر جمہوری لیکن فاشسٹ رویوں کو آشکار کرتے ہیں۔ وہ تمام تر ’لیوکریٹو‘ یعنی سود مند یا نفع آور محکمہ جات اپنے ذات یا فمیلی کے کنٹرول میں رکھتے ہیں، جہاں انہیں ذرا سا بھی شائبہ ہو کہ حکومتی فرائض کی انجام دہی میں نفع آوری کی توقع ہو سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین برس سے تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود حکومتی اقدامات کے نتائج ویسے سامنے نظر نہیں آ رہے جن کی توقع تھی بلکہ جس کلاس طبقے کو انہوں نے پروان چڑھایا ہے انہی کی بدولت اب قدم قدم پر میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ غربت و افلاس عام ہو چکی ہے۔ بیک وقت صحت و تعلیم کے محکہ صوبوں کے حوالے کرنے اور وسائل کو اپنے قابو میں رکھنے سے جو عدم توازن پیدا ہو چکا ہے اسے کئی ایک برسوں تک حل نہیں کیا جاسکے گا۔ جس کی وجہ سے عام اور متوسط افراد کی زندگی اجیرن ہو
چکی ہے۔
جب گھر کے سربراہ خود کرپشن کی لپیٹ میں ہوں، پانامہ لیکس و دیگر الزامات کی بوچھاڑ ہو، عدلیہ اس پر طوعاً کرہاً عوامی دباؤ پر انصاف کی بازیابی کی کوشش میں مصروف ہو، ایسے میں بد انتظامی و بدعملی کے مظاہر معصوم ہوائی مسافروں کی قسمت بن جاتے ہیں۔
پوری دنیا میں اخلاقی اور سولائیزڈ طریقہ ہے کہ کسی بھی حادثہ ( یہاں ناگہانی حادثات بھی شامل ہیں) کی ذمہ داری محکمہ کا سربراہ اپنے اوپر لیتا ہے اور از خود مستعفی ہو جاتا ہے یہاں عموماً یہ رویہ دیکھنے کو ملا کہ ٹرین کے پے درپے حادثات پر وزیر ریلوے یہ کہتے ہیں ’ڈرائیور کی غلطی تھی وہ مر گیا اب میں کیا کروں۔‘ یہ ہے وہ مایوس کن ذہنی میلان جو حکومتی حلقوں میں بڑا سراہا جاتا ہے جس کے اثرات نچلے درجے پر مڈل کلاس مینجمنٹ پر آتے ہیں اور وہ بھی کرپشن اور ڈنگ ٹپاؤ رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
عوامی دباؤ کا تقاضا ہے کہ اس حادثہ کی فوری طور پر تحقیقات آؤٹ سائیڈر ایوی ایشن کے ماہرین سے کرائی جائے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ورنہ اس قسم کے جانی و مالی حادثات ملکی ایئر لائنز اور ملکی وسائل کو دیمک کی طرح کھا جائیں گے۔
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ ساری قوم اس المناک حادثے پر نمناک اور پرملال ہے لیکن جس طوفانِ رقت و وجد کا مظاہرہ اس وقت بالخصوص بیشتر ٹی وی چینلز کر رہے ہیں وہ نا قابلِ بیان، غیر انسانی اور دل دکھانے والا عوامی پہلو سامنے لاتا ہے، اسے حادثاتی ٹریجڈی کی بجائے کسی قدرتی آفات و ٹریجڈی سے ملقب کیا جا رہا ہے۔ انجانے میں اس حادثہ کو ایسے پورٹرے کیا جا رہا ہے جیسے فطرت کو دل و جان سے یہ حادثہ مطلوب و مقصود تھا۔ کل شام سے بیشتر ٹی وی چینلنز نے اس المناک سانحہ پر جو رپورٹنگ کی ہے اور آج مارننگ پروگرامز میں جس طرح شام غیریباں منائی جا رہی ہے ۔۔۔ روتے ہوئے میل اور فی میل اینکرز رینکنگ کے دباؤ میں اس طرح کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں جس سے غفلت اور نااہل اسے حادثاتی رنگ ہٹ کر فطری حادثے کے رنگ نمایاں نظر آنے لگتے ہیں۔۔۔ یہ رویہ اس المناک حادثے سے کوئی سبق لینے یا کسی کو سزا وار ٹھہرائے جانے کی بجائے بد انتظامی اور مس مینجمنٹ کو پردوں چھپائے جانے کے مترادف ہے۔
کسی بھی چینلی دانشور کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس حادثہ پر سائنسی انداز سے کوئی گفتگو کرے یا اس حادثے کے مضمرات اور سماج پر اسکے اثرات پر بات کرے۔ ایسے میں پنجابی زبان میں ایک لفظ ذہن میں گونجتا ہے مجھے وہ بھی ناکافی لگتا ہے۔