(ڈاکٹر عامر سعید)
معاشی نظام کو موسم کے نظام پر قیاس کرنے کے پیچھے وہی تاریخی عوامل ہیں یعنی چرچ کا ظلم اور اُسکے ردِ عمل میں مذہب اور خدا کا انکار اور اُسکی جگہ پر علم کے کسی نئے منبع کی تلاش۔ فطرتی مظاہر کے پیچھے خدا کے جگہ اب ’فطرت‘ نے لے لی اور یہ کہا جانے لگا کہ مہربان فطرت یہ سارے کام کرتی ہے۔ اور اسی طرح انسانی اور معاشرتی معاملات میں بھی فطرت ہی کارفرما ہے۔ لیکن اگر عنادِ مذہب کا تعصبانہ چشمہ اُتار کر عقلی طور پر دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ طلب و رسد کی قوتیں موسمی قوتوں کی طرح فطرتی قوتیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسان کی خواہشات، مقاصد، نظریات، جغرافیہ، ماحول وغیرہ کے تابع ہیں۔ مسلم معاشروں میں سور کے گوشت کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے اور کم ترین قیمت پر بھی وہ نہیں بکتا، حالانکہ جب پولٹری فارمز میں برڈ فلو کی موجودگی کے حوالے سے خبریں آئیں تو مرغی کے گوشت کی قیمت پچیس تیس روپے تک پہنچ گئی تو کم قیمت کیوجہ سے لوگوں نے مرغی کے گوشت کو بہت زیادہ مقدار میں خریدنا شروع کردیا۔ سور کے گوشت کی کم طلب معاشرے میں نظریات کے اثر کی ایک مثال ہے۔
اسی طرح طلب و رسد کو انسانی لالچ و حرص بھی متاثر کرتی ہے جیسے ذخیرہ اندوز کھانے پینے کو چیزوں کو بڑے پیمانے پر خرید اور ذخیرہ کرکے کسی شے کی رسد میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمت بڑھا لیتے ہیں۔ ابھی چند سال پہلے آلو کی قیمت ۷۰،۸۰ روپے فی کلو تک جا پہنچیں اور سارا سال آلو اسی قیمت پر بکتا رہا۔ اب معاشایات کے اصولوں کے مطابق تو اس صورتحال میں ایسے علاقوں سے آلو کی درآمد ہونی چاہیے تھی جہاں آلو سستا تھا تاکہ رسد بڑھ جاتی اور قیمتیں پرانی سطح پر آ جاتیں۔ لیکن پورے سال قیمتیں تقریباً اسی سطح پر رہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اُسکی وجہ جو بیان کی جاتی ہے کہ کسی سرمایہ دار نے پورے ملک سے آلو کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کرلی اور حکومتی عناصر کی مدد سے اُسکی درآمد نہ ہونے دی، نتیجتاً مارکیٹ میں آلو کی رسد کم ہی رہی اور آلو پورا سال اس مصنوعی قیمت پر بکتا رہا۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کے مقاصد طلب و رسد کو متاثر کرتے ہیں اور طلب و رسد موسم کی قوتوں کی طرح فطری قوتیں نہیں ہیں۔
,Lynn Stout Cornell Law School میں کارپوریٹ اور بزنس لاء کی ایک ممتاز پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے ایک حالیہ مضمون جو Brookings Institute کی ویب سائٹ میں چھپا اور جس کا عنوان How Economists Killed Your Conscience میں کہتی ہیں کہ اکثر قانونی اور پالیسی ساز ماہرین انسانوں کو ایک ’مفادپرست مخلوق‘ گردانتے ہیں جو صرف جزا و سزا کے ردعمل میں اپنے اعمال سرانجام دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر پرائیویٹ کمپنیوں کے سربراہان کمپنی کے معاملات کو درست طریقے سے نہیں چلا رہے تو اُن کی تنخواہ کو شیئر کی قیمتوں کے ساتھ منسلک کردینا چاہیے۔ اگر امریکہ کے بچے اے بی سی نہیں سیکھ پا رہے تو اساتذہ کو بونس کا لالچ دینا چاہیے اور اگر پھر بھی گریڈ نہ بڑھیں تو اُنہیں نوکری سے برخواست کردیا جانا چاہیے۔ اور اگر صحت کے اخراجات بہت زیادہ ہونے لگیں تو ’تنخواہ بر بنائے کارکردگی‘ سکیم شروع کردینا چاہیے جو ڈاکٹروں کو براہ راست مالی فائدہ دے تاکہ وہ اخراجات بڑھنے نہ دیں۔
انکے مطابق اس سوچ کے پیچھے Homo Economicusکا ماڈل ہے جو انسانی رویہ کو صرف مفاد پرست گردانتا ہے۔ یہ ماڈل بنا تو تھیوریٹیکل ایکنامکس کے لئے تھا تاہم اب بہت سے پالیسی ساز، کاروباری قائدین اور پولیٹیکل سائنس سے لیکر فلسفہ تک کے ماہرین انسان کے بارے میں تھیوریز بناتے وقت اُسے مفاد پرست ہی تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ انسان میں ہمدردی، رحمت، محبت، اخوت، بھائی چارہ، بے غرضی، قربانی جیسے کئی مثبت جذبات بھی پائے جاتے ہیں لیکن چونکہ ایکنامکس کا ریاضیاتی ماڈل بنانے کے لئے ضروری تھا کہ ماڈل میں استعمال ہونے والے مختلف variables کی کوئی ایک غیر متغیر تعریف یا خاصیت متعین کی جائے جس کی بنا پر اُسے کسی ماڈل میں استعمال کیا جاسکے۔ جیسا کہ مادی سائنسز میں ہوتا ہے مثلاً پٹرول کی یہ خاصیت ہے کہ آگ لگانے کی صورت میں وہ جلے گا۔ اب یہ خاصیت بدل نہیں سکتی اور انجن میں پٹرول اسی لئے ڈالا جاتا ہے کہ آگ دکھانے پر وہ جلنا شروع ہوجاتا ہے اور انجن سٹارٹ ہو جاتا ہے۔ اگر پٹرول کبھی آگ پکڑے اور کبھی نہ پکڑے تو انجن کے اس ماڈل میں پٹرول کو کبھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح سائنس کی پیروی میں بنے ایکنامکس کے ماڈل میں بھی ضروری تھا کہ انسان کے بھی کچھ ایسے خواص فرض کر لیے جائیں جن کو ہر صورت میں درست مانا جائے تاکہ اُس کے رویے کی درست پیشین گوئی کی جاسکے کیونکہ اگر انسان ایک وقت میں بے لوث ہو جائے اور دوسرے وقت خود غرض تو پھر انسان کے رویے کی پیشین گوئی ممکن نہیں رہتی۔ اور فرضی ماڈل بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ وہ مختلف حالات و واقعات اور ترغیب کے ردِعمل میں انسان کے رویے کی پیشین گوئی کرسکے۔ انسان کی ایسی تعریف کرنے والے مفکرین غالباً ایسے دور اور ایسے علاقے میں پلے بڑھے اور اُنکا پالا ایسے انسانوں سے پڑا جن میں مفاد پرستی غالب تھی چنانچہ اُس نے سہولت کے لئے اُسے مفاد پرست ہی سمجھ لیا۔
اسی ایکنامکس کے بنے مائیکرو اور میکرو قوانین جو کہ دراصل قوانین نہیں مفروضے ہیں کے تحت پوری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ ایکنامکس ترقی اور کامیابی کا معیار مال کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کو قرار دیتی ہے۔ جبکہ زندگی کے مختلف شعبوں جیسے صنعت، زراعت وغیرہ میں پیداواری صلاحیتیں اور خود پیداوار پچھلے دو سو سال میں سینکڑوں گنا بڑھ چکی ہے، لیکن اس کے باوجود دنیا میں غریبوں اور غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ارب پتی لوگوں کی تعداد اور اُنکی دولت بڑھتی جارہی ہے۔ درحقیقت دنیا کا اصل مسئلہ تو پیداوار کی منصفانہ اور ہمدردانہ تقسیم ہے لیکن ایکنامکس کے ’آفاقی‘ اصولوں پر کھڑے سرمایہ دارانہ نظام نے پیداوار کی بڑوھتی کے نعرے میں پوری دنیا کے مفکرین کو پرویا ہوا ہے۔
پبلک ایڈمنسٹریشن کا مضمون جو حکومتی اداروں کےمعاملات چلانے کے حوالے سے معلومات پر مبنی تھا کی نوعیت ہی بدل دی گئی ہے اور اب اُس کا نام پبلک مینیجمنٹ رکھ دیا گیا ہے جس کے مطابق اب حکومتی اداروں کو بھی کمرشل اداروں کی طرح منافع کمانے کے مقصد سے چلایا جائے نہ کہ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے۔ یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ وہ ادارے جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنائے گئے اب عوام سے پیسے کما رہے ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں سے یعنی سوویٹ روس کے انہدام کے بعد سے Washington consensus کے تحت نجی سیکٹر اور اُسکے متعلقہ اصول و ضوابط کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ فرضی اور پیسے دے کر کروائی گئی ریسرچ سے ثابت کیا جارہا ہے کہ نجی سیکٹر کے اصول، قوانین، طریقے حکومتی سیکٹر اور اداروں کے اصول، قوانین اور طریقوں سے بہتر ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ نجی ادارے زیادہ منافع کماتے ہیں، زیادہ مؤثر اور کم خرچ ہیں جبکہ درحقیقت دونوں کی نوعیت ہی بالکل فرق ہے، نجی اداروں کا مقصد ہی منافع کمانا ہوتا ہے جبکہ حکومت عوام سے ٹیکس لے کر ایسے ادارے قائم کرتی ہے جو بلا تفریق امیر اور غریب کو بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہیں ان کا مقصد منافع کمانا ہوتا ہی نہیں۔
نجی ادارے جن لوگوں کو اپنی اشیاء یا سہولیات بیچتے ہیں ان کو کسٹمر گردانتے ہیں جبکہ ایک سرکاری ہسپتال میں سرکاری ڈاکٹرمریض کو کسٹمر نہیں مریض ہی سمجھتا ہے، ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں وہ طلباء کو گاہک نہیں بلکہ طالب علم گردانتا ہے اور پیسے کے لالچ کے بغیر اپنا فرض سمجھتے ہوئے طلباء کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ نجی ادارے کم سے کم افراد کو نوکری دے کر اپنا کام کرواتے ہیں لیکن سرکاری اداروں میں پسماندہ علاقوں کے افراد کو بھی روزگار فراہم کرنا پڑتا ہے اور جو قابلیت کے اعلیٰ معیار پر بھی پورے نہ اُترتے ہوں۔ اسی طرح غربت کا سبب بننے والے (سرمایہ داری) نظام کو ختم کرنے کے بجائے غریبوں کو کم مالیت کے سودی قرضوں (مائیکرو فنانس) کے چکر میں پھنسایا جاتا ہے جو ان کی غربت میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کے سرمایہ کی بنیاد پر کروائی گئی اسی فرضی اٹکل پچو ریسرچ کے تحت دنیا کے اکثر ممالک بشمول پاکستان میں بہت سے عوامی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ نجی اداروں کے ہاتھوں بیچا جارہا ہے۔ 22000 سے زیادہ پرائمری سکول اور بہت سے کالج نجی اداروں کے حوالے کردیے گئے ہیں اور یا انہیں تنظیمی اور مالی خود مختاری دے دی گئی ہے جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ماضی میں ان اداروں کو ملنے والی حکومتی مالی امداد ختم کردی جائے گی اور یہ ادارے فیس بڑھا کر اپنے خرچے پورے کریں گے ۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے والے ادارے بند کر کے نجی کمپنیاں بنائی جارہی ہیں جن کو حکومت وسائل بھی مہیا کرتی ہے اور بعد میں وہ عوام سے سہولیات فراہم کرنے کے بدلے فیسوں کے نام پر پیسے بھی بٹورتے ہیں پارکنگ، مذبحہ خانے، ٹرانسپورٹ کمپنیاں، نادرا، وغیرہ چند مثالیں ہیں۔
سائیکالوجی کی اکثر تھیوریز (مفروضے) انسان کے رویوں، کردار اور بیماریوں کی بنیاد اُسکے دماغ، جبلتوں، تحت الشعور وغیرہ کو سمجھتے ہیں جس کی بنیاد سگمنڈ فرائڈ کا مفروضوں بھرا علم ہے۔ آسان لفظوں میں انسان کے رویے، اُسکی خوشی و غم، ذہنی رُجحانات، پریشانی، غصہ، محبت وغیرہ اُسکی جنسی جبلتوں وغیرہ کی مرہون منت ہیں۔ یہ علم انسان کو صرف ایک زاویہ سے دیکھتا ہے، حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ماحول انسان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کے بچے بھوکے سوئیں گے، یا عید پر نئے کپڑے نہ لے سکیں، یا بجلی کا بل اُسکی آمدنی کے نصف کے برابر یا اُس سے بھی زیادہ آ جائے، یا وہ پوری کوشش کے باوجود اپنی تنخواہ سے اپنے ماہانہ اخراجات پورے نہ کرسکے، یا گھنٹوں ٹریفک میں پھنسا رہے، یا وہ بے روزگار ہو اور خاندان کو واحد کفیل ہو، تو لامحالہ وہ پریشان ہو گا، اُسکا فشارِ خون بلند ہو گا،بے چینی (anxiety)بڑھے گی، ڈپریشن میں جائے گا، لیکن سائیکالوجی ان ساری پریشانیوں کا سبب اکثر اوقات انسان کے اندر ڈھونڈتی ہے اور کوئی نشہ آور دوائی دے کر اُسے کچھ دیر کے لئے ماحول سے بے خبر کر دینا ہی اُسکا واحد حل سمجھتی ہے۔ اس لئے بشپ اپنی کتاب میں بہت سے محققین کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ علمی اور عملی سائیکالوجی نے معاملات درست کرنے سے زیادہ خراب ہی کئے ہیں۔ یہ علم معاشرے پر نافذ عالمی نظریات، سیاسی و معاشی نظام، اصول و ضوابط وغیرہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
یہ مختلف مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قدرتی سائنسز کے طریقے سماجی علوم کے لئے موزوں نہیں۔ ان طریقوں کو استعمال کرکے پیدا کیا جانے والا علم اصل سماجی حقیقت کی صحیح ترجمانی نہیں کرسکتا۔ سماجی حوالے سے پیش کیا گیا کسی مفکر یا مفکرین کا قول آفاقی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا، وہ ہمیشہ کسی ایک شخص یا کسی گروہ یا معاشرے کے نقطہ نظر کو ہی پیش کر ے گا۔ طاقتور عناصر کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے اور رہے گی کہ اپنے بنائے گئے ان علوم کو آفاقی بنا کر پیش کیا جائے تاکہ تمام دنیا اُن کے نقطہ نظر کو اپنا لے، اس سے اُس طاقتور کی مخالفت بھی ختم ہوجائے گی اور دنیا کے معاملات بھی اُسکے نقطہ نظر کے مطابق ہی چلیں گے، اسطرح اُس کی حکومت کو عروج در عروج ملے گا۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ سوشل سائنسز دراصل امیر سرمایہ دار کا آلہ کار علم ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
اگرچہ بعد کے ادوار میں مختلف تجربات اور مشاہدات کے بعد مفکرین پر سماجی اور مادی میدانوں کے یہ اختلافات کسی حد تک عیاں ہوئے تاہم تب تک یہ معاشرتی یا سماجی علوم (سوشل سائنسز) نیچرل سائنسز کی پیروی میں مختلف مضامین کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ماضی میں یہ بات زیرِ بحث ہوتی تھی کہ کیا یہ مضامین سائنس ہیں یا آرٹ، لیکن آہستہ آہستہ یہ بحث بھی تمام ہوئی اور یہ مضامین سائنس کی ٹوپی پہن کر سائنسی بن گئے۔ پولیٹیکل سائنسز، ایکنامکس، سوشیالوجی، اینتھروپولوجی، جغرافیہ اور دوسری سوشل سائنسز میں موجود تھیوریز دراصل مفروضے ہی ہیں، ان میں سے اکثر دوسری تہذیبوں کے حالات بیان کرنے یا انکے مسائل حل کرنے کے لئے موزوں نہیں کیونکہ بنانے والا ایک خاص پس منظر سے تعلق رکھتا تھا، جن لوگوں سے اُس نے رائے لی انکا طرزِ زندگی دوسروں سے مختلف ہوسکتا ہے، انکے انسان، زندگی اور کائنات کے بارے میں تصورات دوسری قوموں سے فرق ہوسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ مفروضے سائنسی مضامین کی طرح جانچے ہی نہیں جاسکتے کیونکہ جانچنے کے طریقے تو بنے ہی غیر جانبدار، غیر متغیر خصوصیات رکھنے والی مادی اشیاء کے لئے ہیں۔ جبکہ یہ سماجی مفروضے تو کسی خاص شخص کے خاص حالات میں کی جانے والے مشاہدے پر مبنی ہیں۔
ایک ملک میں خانہ جنگی میں ملوث شخص کو غدار کہا جائے گا تاہم دشمن ملک اُس شخص کو بہادری کے ایوارڈ دے گا اور اُسے ہیرو تسلیم کرے گا۔ اب دونوں ملکوں کے سوشل سائنسسٹ اُس شخص کے بارے میں متضاد مفروضے دیں گے تو پھر اُس کے بارے میں ایک متفقہ مفروضہ کیسے بنایا جاسکتا ہے جبکہ مختلف قوموں کے نظریات، تجربات، مقاصد، تاریخ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ موجودہ روس میں انکے سابق صدر گورباچوف کو تاریخ کا ایک بڑا غدار سمجھا جاتا ہے کہ جس نے امریکہ کے ایجنٹوں سے ملکر روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، لیکن سرمایہ دار مغرب اُسے ہیرو کا درجہ دیتا ہے۔
سوشل سائنسز کا تمام علم یورپ میں وہاں کے مفکرین نے بنایا جو یورپ کے حالات، محلِ وقوع، نظریات، تاریخ، تصورات وغیرہ کی عکاسی تو کرتا ہے لیکن وہ یورپ کے علاوہ دوسرے علاقے میں پائے جانے والے لوگوں کی مکمل طور پر ترجمانی نہیں کرسکتا، کیونکہ وہاں کے حالات، محلِ وقوع، نظریات، تاریخ، تصورات یورپ سے فرق ہیں۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپ نے امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک پر قبضہ کر کے انہیں غلام بنا لیا اور اگلے دو سو سال وہاں کی معدنیات، غلہ جات، سونا چاندی، دولت لُوٹ کر یورپ لے گئے اور اُن کے لوگوں کو غلام بنایا۔ اس سارے دور میں ایک ایسا سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے اکثر ممالک پر مسلط کرگئے جو انکے جانے کے بعد آج بھی لوگوں کو ذہنی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی طور پر غلام بنائے ہوئے ہے۔ تو کیا غلام اور غلام بنانے والوں کا نقطہ نظر، نظریات، تاریخ ایک ہو سکتے ہیں؟ تو پھر ایسے علم کے آفاقی ہونے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
یہ ساری بحث ثابت کرتی ہے کہ سوشل سائنسز کا دعویٰ کہ اُسکے مفروضے (تھیوریز) نیچرل سائنسز کے قوانین کی طرح آفاقی ہیں ایک بہت بعید از حقیقت بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس علم کو دنیا بھر میں ایک آفاقی علم کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ ترقی کے مختلف ادوار کے حوالے سے جو ماڈل پیش کیا جاتا ہے وہ مغرب کی تاریخ سے نکلا ہے اور اُسکی ترقی کے مختلف ادوار کو بنیاد بناتا ہے۔ جبکہ ممالک کی تاریخ بہت مختلف ہوتی ہے۔ ترقی کے پانچ مراحل بتائے جاتے ہیں، روایتی معاشرہ، ترقی کی طرف لپکنے سے پہلی چند شرائط کا پورا ہونا، ترقی کی طرف لپکنا، معاشرے کا بالغ ہونا، زیادہ خرچ کرنے کا دور، زیادہ خرچ کرنےکے بعد کا دور۔ ترقی کا یہ ماڈل Rostow نے پیش کیا ہے اور اگر ان تمام مراحل کی تفصیل دیکھی جائے تو وہ ہر مرحلہ کی مثال مغربی تاریخ سے دیتا ہے جو اُسکی آفاقیت کی صریح نفی کرتی ہیں تاہم ہر ملک میں یہ مفروضی مراحل ایک آفاقی ماڈل کے طور پر پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں اور پالیسی ساز ان مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے لئے پالیسیاں بناتے ہیں ۔اور دوسری بات اس ترقی کے ماڈل میں یہ ہے کہ یہ ترقی کو صرف مادی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کے دوسرے زاویے مثلاً اخلاقی، روحانی ترقی وغیرہ اس تعریف سے باہر ہیں۔
بشپ اپنے کتاب میں سوشل سائنسز کی پشت میں پائے جانے والے چند سماجی تصورات (Cultural ideals) کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ’آلہ کار عقل‘ (instrumental reason)ہے جس کا واحد مقصد بہترین اور کم خرچ طریقے سے مادی خواہشات کا حصول ہے اس کے علاوہ دوسرے تصورات میں سیاسی آزاد خیالی (political liberalism)، آزادانہ انفرادیت (Liberal individualism) وغیرہ شامل ہیں جو یورپ کی تاریخ کی کوکھ سے نکلے ہیں۔ چرچ اور بادشاہوں کے گٹھ جوڑ سے جو طاقتور حکومت بنی اُس نے عوام پر بہت سے ظلم ڈھائے چنانچہ ’سیاسی آزادی‘ کے تصور کے مطابق حکومت کو طاقتور نہیں ہونا چاہیے اور زندگی کے معاملات جیسے معاشیات، سماجیات وغیرہ میں اُس کا عمل دخل بہت محدود ہونا چاہیے۔ ’ آزادانہ انفرادیت‘ کا مطلب ہر طرح کی شخصی آزادی ہے، جس کے مظاہر شادی کے بغیر ازدواجی تعلقات کی صورت میں یورپ میں نظر آتے ہیں۔ بشپ ان تصورات کو سوشل سائنسز کی پوشیدہ بنیادیں(hidden ideology) قرار دیتا ہے جو آفاقیت (universality)اور مقصدیت (objectivity) کے لبادے میں مستور و ملفوف تیسری دنیا کے دانشوروں پر ہنس رہی ہیں۔ تمام سوشل سائنسز ان یورپی تصورات سے لُتھڑے، متاثر اور انکے تابع ہیں جو انکے نظریات، تاریخ، مقاصدِ زندگی کے عکاس ہیں اور یورپ کے باسیوں کی تاریخ، نظریات اور مقاصدِ زندگی دنیا کے دوسرے خطوں میں پائے جانے والے افراد کے نظریات، تاریخ اور مقاصد سے بہت سے حوالوں سے مختلف ہیں۔
یہ وہ وجوہات ہیں کہ جن کی بنیاد پر بشپ سوشل سائنسز کو دنیا کے معاشرتی اور سماجی بگاڑ کا سبب سمجھتا ہے اور کچھ سکالرز کا ذکر کرتا ہے جو ان علوم کو frighteningly manipulative behavioral technology گردانتے ہیں۔ یہ ساری بحث اس مضمون کے شروع میں پیش کئے گئے تضاد کے عقدے کو کھولنے کی ایک عاجزانہ سی کوشش ہے۔
یہ بحث سائنس اور مذہب کی مشہورِ زمانہ دشمنی اور مخالفت کے معاملے کو سمجھنے میں بھی مددگار ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چرچ نے غیر عقلی، تشدد پسندانہ، اور روایاتی علم کے ذریعے یورپ کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے، اور ایسا مادی اور فطری علم بھی اپنی کتب اور ایمان کا حصہ بنا لیا جو خدا نے نازل ہی نہیں کیا تھا۔ اُن غلط معلومات کی تصحیح بعد میں عقل نے کردی۔ خالقِ کائنات نے الہامی کتب تو انسانوں کی انسانی اور معاشرتی رہنمائی کے لئے اتاریں اور فطری مظاہر کا ذکر تو خالق کی خالقیت کے مظہر کے طور پر کیا۔ چنانچہ یہاں یورپی مفکرین کا مذہب کو کوسنا اور موردِ الزام ٹھہرانا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن دوسرے مذاہب کے پیرو کاروں کا یورپ کے مفکرین کی اندھی تقلید میں اپنے مذاہب کو بھی اُسی لاٹھی سے ہانکنا ’شریکاں دا منہ لال ہویا تے اپنا پِٹ کے کرلو‘ والا معاملہ لگتا ہے۔
دوسری غلطی جو اس ضمن میں کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی نظریے کے افکار کی سمجھ بوجھ لینے کے لئے ان کے منابع یعنی کتب و رسائل کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ان کے پیرو کاروں کے اعمال کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ایسے افراد اپنی کم علمی، سستی، نااہلی اور خطاکاری کی بنا پر اپنے نظریے کی پیروی نہیں کرتے لیکن انکی تمام خطائیں اس نظریے کی کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اور یہ کام اسلئے بھی آسان لگتا ہے کیونکہ معاشرے کے عمومی رجحانات جو طاقتور عناصر کی خواہشات کا مظہر ہوتے ہیں، ایک خاص نظریہ کے مخالف ہوتے ہیں کیونکہ وہ نظریہ انکے مظالم عیاں کرنے اور عوام کو ایک متبادل نظام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگرچہ یہ ایک ضروری امر ہے کہ دنیا بھر کے سماجی معاملات کو چلانے کے لئے ایک آفاقی علم ہو مگر مندرجہ بالا سطور سے یہ تو واضح ہے کہ سوشل سائنسز اپنے’good life’ کے دعویٰ کے باوجود اس خلا کو پر کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ تو کیا دنیا ہمیشہ سے ایسے آفاقی علم سے تہی دامن رہی ہے؟ کیا انسان کے پاس سائنس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہے کہ جس سے وہ ایسا علم حاصل کر سکے؟ کیا یورپ کے علاوہ دنیا کا کوئی اور علاقہ انسانیت کو ایسا علم نہیں دے سکتا ہے؟ سماجی میدان میں ایسے علم کی تلاش ضروری ہے ورنہ دنیا اس طرح ظلم و جبر کے نظام میں پستی رہے گی اور مزید پستی کی طرف اُس کا سفر جاری رہے گا۔
غیر از یورپ علاقوں کے تعلیمی ماہرین اور مفکرین کو انسان، حیات اور کائنات کے بنیادی مفروضوں کو چیلنج کرنا اور بدلنا ہو گا اور اس حوالے سے اپنی تہذیب اور معاشرے میں پائے جانے والی کتب سے مٹی جھاڑنا ہو گی اور صدیوں سے اکٹھے کیے علم کو سورج کی روشنی دکھانی ہوگی تاکہ انسانیت ان مشکوک، کمزور اور قابلِ تصحیح مفروضوں پر کھڑے موجودہ سماجی علوم کا کوئی متبادل ڈھونڈ سکے۔ ہر پرانی چیز کو بوسیدہ، پرانے زمانے کی کہانیاں اور موجودہ دور سے غیر مطابق قرار دینا اگر کوئی قابلِ تقلید و تعریف بات ہوتی تو یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کبھی ممکن نہ ہوتی۔ ایسا کرنا شاید تیسری دنیا کی اقوام اور مفکرین کے لئے یورپ کی ذہنی غلامی سے چھٹکارا پانے کی طرف پہلا قدم ہو ۔ کسی بھی قوم کی رہنمائی اُسکے مفکرین اور دانشور کرتے ہیں، کہیں اُن پر اقبال کے یہ شعر نہ صادق آ جائیں ؎
شاعر بھی ہيں پيدا ، علما بھی ، حکما بھي
خالی نہيں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ايک
ہر ايک ہے گو شرح معانی ميں يگانہ
بہتر ہے کہ شيروں کو سکھا ديں رم آہو
باقی نہ رہے شير کی شيری کا فسانہ
کرتے ہيں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاويل مسائل کو بناتے ہيں بہا نہ
ہ پہلے پارٹ سے بہتر ہے-لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آفاقیت کو بالکل بھول کر اپنی اپنی دنیا میں گم ہوجائں-بات سوشل یا نیچرل کی نہیں مشترک اور منفرد کی ہے-انسانیت کے مشترکہ مسائل (یا انسانوں کے ایک بڑے حصے کے مسائل) کے حل کے لئے سائنسی طریقہ ہی بہتر ہے چاہے یہ سوشل معاملات میں ہی کیوں نہ ہوں-ہاں منفرد معاملات میں ہمیں سائنس سے زیادہ سچ بیان کرنے ‘ یاد رکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے’چاہے یہ انفرادی سچ ہی ہو جیسے میرا آپکا نام’ پسند ناپسند۔۔۔۔۔۔اس میں سے علم صرف چند بڑے افراد کی تفصیلات ہی ہوگا -Ali Izetbegovic کی کتاب Islam between East and West میں انسان کی تصویر کشی بتا سکتی ہے کہاں سائنس استعمال کرنی چاہیے اور کہاں آرٹس-میرا education university کا 30 نومبر کا لیکچر(سائنسی رویہ اور اسلام میں اس کا استعمالscientific attitude and its use in Islam) اسی موضوع پر تھا-