یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران کی کچھ تقریبات کی یادیں
از، نصیر احمد
یہ مشرف کی آمریت کے ابتدائی سالوں کا قصہ ہے کہ ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اوریونیورسٹی میں سیمینار ہوتے تھے اور ہم ان میں نامور لوگوں سے رنگ برنگے سوالات بھی پوچھا کرتے تھے۔ ہم نے سوچا آپ سے ان سیمیناروں کا کچھ احوال ہی شئیر کردیں۔
ویسے پڑھنے میں تو ہم نالائقوں کی پیری کے درجے پر فائز ہونے کو ہی تھے کہ دوچار اور نالائقوں نے کچھ مقابلے کی فضا بنا دی تھی لیکن ہم اپنی ہی بات کریں گے کہ آج کل حسیاسیت اتنی فزوں ہو گئی ہے کہ کسی سے بھی جعلی اور نقلی گفتگو کے علاوہ کوئی گفتگو ممکن ہی نہیں رہی۔ اور ہم ہیں کہ جعلی اور نقلی گفتگو ہنسی مذاق میں یا کسی انتہائی مجبوری میں ہی کر پاتے ہیں۔
ایک سیمینار میں انور مسعود مدعو تھے۔ وہ بہت اچھے پرفارمر تھے اور اس دن ان کی خوش ادائی اور خوش مزاجی جوبن پر تھی اور کسی ساحر کی طرح انھوں نے سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رکھی تھی۔ مر کے رسوا ہوتے تو ہم لوگ بھی علم کی جستجو معطل کرتے ہوئے موت اور رسوائی کے تمنائی ہو جاتے تھے۔
کبھی غرق دریا ہو تے تو ہم لوگوں کو ڈوبنا کوئی سعادت لگتی تھی۔ اور جو جنازہ اٹھاتے تو کفار بھی ٹوپی پہنے جنازے کو کندھا دینے آ دھمکتے تھے اور جب مزار استوار کرتے تو ہم لوگ بھی پھول اٹھائے ان کے ساتھ ساتھ شمع مزار جلانے پہنچ جاتے تھے۔ خوش گفتاری کا ایک ہنر بہرحال انھیں آتا تھا۔
ان سے ہم نے ایک سوال پوچھا تھا کہ موسیقی، مصوری اور شاعری میں سے فنکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کو سب سے بہترین ذریعہ کون سا ہے؟ وہ شاعر تھے ،اس لیے شاعری کو ہی انھوں نے ترجیح دی اور پھر چند تصویریں بناتے اور گانے گاتے بہت اچھے شعر پڑھے اور ان شعروں کے ساتھ ساتھ ایسا ڈراما کیا کہ لندن کے تھیٹر والے بھی انھیں داد ضرور دیتے۔ ہمیں آج تک یاد ہے سیمینار کے بعد ہمیں وہ کافی دیر تک دیکھتے رہے تھے۔
ایک اور سیمینار میں جھوٹے روپ کے درشن والے راجا انور بلوائے گئے تھے۔ ہم نوجوانوں میں ان کا اک یہی حوالہ زیادہ معتبر تھا ورنہ عالمی سیاست کے تناظر میں افغانستان کے بارے میں ان کی ایک کتاب زیادہ مشہور تھی۔ وہ ہمیں کچھ خود پرست اور نقلی سے ہی لگے۔ انھوں نے جھوٹے روپ کے درشن سے کچھ اقتباسات بھی سنائے تھے جن میں انھوں نے اپنی معشوقہ کو بددعائیں وغیرہ دی تھیں۔
جب سوالات کی باری آئی تو ہم نے صاف صاف کہہ دیا کہ آپ کی طبیعت میں بہت آمریت ہے، وہ اچھی بھلی خاتون جنھوں نے آپ پر نظر کرم کی تھی، اس کی صورت بگاڑ رہے ہیں کہ اس کہ کچھ مجبوریاں تھیں اور خود اتنے دلاور بنے پھرتے ہیں لیکن بھٹو صاحب کی آمریت کے اس قدر اسیر ہوئے کہ سب دلاوری بھول گئے۔ اب وہ کیا کہتے، آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
ایک دفعہ انگار وادی والے روف خالد بھی آئے تھے۔ اب جو ہماری فیکلٹی کے صحافی تھے۔ ان سے شاید کچھ جلتے تھے۔ ان سے انھوں نے تند و تیز سوالات کرنا شروع کر دیے۔ انھوں نے اس تندی اور تیزی کو شرمندہ کرنے کے لیے نیلام گھر کھیلنا شروع کردیا کہ کسی جاہل کو اس بات کا علم ہے کہ میکیاولی کی جمہوریت کی حمایت میں لکھی کتاب کا کیا نام ہے؟ ہمارے جو اساتذہ تھے ان کو پتا ہی نہیں تھا میکیاویلی کون تھا تو پھر وہ کیا بتاتے کہ میکیاویلی نے جمہوریت کے حق میں یا جمہوریت کی مخالفت میں کون سی کتاب لکھی تھی۔ اتفاق سے ہمیں میکیاویلی کے مکالمات کی کچھ خبر تھی۔ ہم نے بتا دیا ،اور روف خالدصاحب ڈائس سے اتر کر ہم سے مصافحہ کرنے لگے اور ہمیں سراہنے لگے۔
ان سیمیناروں میں اسلم سید بھی تشریف لائے تھے۔ وہ کافی بزرگ تھے اور زندگی کے حقائق سے کچھ زیادہ ہی آشنا تھے۔ ان سے ہم نے امید کے امکانات کے بارے میں کچھ بات کرنی چاہی لیکن وہ کچھ زیادہ پر امید نہیں تھے۔ بہرحال ان کی ناامیدی قابل دید تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں کم ازکم ان کی ناامیدی کی وجوہات کی تفہیم بھی ہو گئی۔
یونیورسٹی میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اداروں کے استعمال کے ذریعے کیسے سیاسی سودے بازیاں کی جاتی ہیں۔مشاہد حسین صاحب کا مشرف آمریت سے سمجھوتا بھی یونیورسٹی کے ایک سیمینار کے ذریعے ہی ہوا تھا۔ اس سیمینار میں ہم نے کوئی احمقانہ بات ہی پوچھی تھی جس کو کسی چالاک مہمان نے ہنسی میں اڑا دیا تھا۔
ایک سیمینار میں اسلامی یونیورسٹی کے کوئی ممتاز عالم بھی آئے تھے، ان کا ہمیں نام یاد نہیں آرہا۔انھوں نے مغرب زدگی کے خلاف خاصا طویل لیکچر دیا تھا۔ ہم اقوام متحدہ کی قانون سازی کا قصہ لے بیٹھے اور فیض کے شعر پڑھنے لگے
فقیہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں
دردانہ بٹ اس سیمینار میں موجود تھیں۔ انھوں نے ہماری بات اٹھا لی اور فقیہہ شہر کی ایسی کی تیسی کر دی۔
یہ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، اس وقت فقیہِ شہر سے کچھ دل لگی ممکن تھی ،اب تو فقیہان شہر ایسے راکٹ ہو گئے ہیں ان سے بات چیت بھی ممکن نہیں رہی کہ گالی کے ہجوم میں گفتگو ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسی زمانے میں کشور آپا سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ اس وقت وہ کپڑے بیچا کرتی تھیں۔ ارے نہیں،پٹھان مزدوروں کی طرح نہیں، اس وقت بھی ان کی فیشنی سی اک دکان تھی لیکن محنت کشوں کی حمایت اس وقت بھی بڑے خلوص سے کرتی تھیں۔
کچھ اور لوگ بھی تھے، دی نیشن کی عائشہ ہارون تھیں، بڑی لائق فائق تھیں، اور مزاج بھی ان کا شاہانہ تھا، ہم نے سیمینار کرانا تھا، اس لیے ہم نے ان کی خوب غلامی کی لیکن فیکلٹی کے مردوے ان سے بدتمیزی کرنے لگے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں کوئی خاتون لائق فائق ہو جائے تو مردوے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں۔ لیکن عائشہ پھر عائشہ تھیں، انھوں نے فیکلٹی کے مردووں کو بڑے شاہانہ انداز میں نظر انداز کر دیا۔ وہ انگریزی کی جانی پہچانی صحافی تھیں، وہ چیتھڑوں میں اول فول لکھنے والوں کو کب خاطر میں لاتی تھیں۔ اب تو چیتھڑوں کے رنگ ڈھنگ ہی اور ہو گئے ہیں، اس وقت کچھ فرق موجود تھا۔