اَن کہی فریاد
کہانی از، حسین خالد مرزا
ایک دفعہ کُچھ یوں ہوا: گاؤں والوں کو حُکم ہوا کہ سب باری باری دربار میں آؤ اور اپنی گزارشات بیان کرو۔ ایک ایک کر کے فریادی آئے، اور اپنی فریادیں مانگیں۔
سارا گاؤں دربار میں اکھٹا ہو گیا کیوں کہ گاؤں والے اِس بات سے با خبر تھے کہ آج بادشاہ سلامت سب کو خوش ہو کر عطا کریں گے۔ کسی کو یہ یقین دِلایا جائے گا کے اُس کی پریشانی ختم کر دی جائے گی اور کسی کی تمام فریادیں سُن لی جائیں گی۔ وہاں موجود ہر کسی کی چاہ یہ تھی کہ وہ جلد از جلد بادشاہ سلامت کے پاس حاضری دے تا کہ اُس کی فریاد سُنی جائے۔
پانچ سال کی سکینہ بھی لمبی قطار میں اپنی حاضری کا اِنتظار کر رہی تھی۔ جو بہت سے دھکے کھانے کے بعد بھی اپنے سے بڑوں کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے، اُن لوگوں کو بھی پہلے آنے کا موقع دے رہی تھی جو اُس کے بارے میں یہ خیال رکھتے تھے کہ وہ بِلا مقصد دربار میں آئی ہے۔
اکثر ایسا ہوا کہ سکینہ اپنی جگہ کسی دوسرے کو اِس وجہ سے دے دیتی کیوں کہ اُن کا مُسکراتا ہوا چہرہ اُس کے دل میں نرمی پیدا کر دیتا۔ وہ لوگ اُس سے کُچھ یوں کہتے ہمیں جلدی ہے، مہربانی فرما کر، ہمیں پہلے حاضر ہو لینے دیں۔ اور کُچھ لوگ اپنی مجبوری سکینہ کے سامنے رکھ دیتے جس سے اُس کا دِل فَٹ سے پسیج جاتا۔
ایک شخص نے آکر کُچھ یوں کہا مُجھے دفتر جلدی جلدی پہنچنا ہے، مہربانی کر کے مجھے جلدی حاضر ہو لینے دیں۔ میں پہلے ہی دو دِن سے دفتر دیر سے پہنچ رہا ہوں۔ اگر آج بھی دیر سے پہنچا تو میری تنخواہ سے پیسے کاٹ لیے جائیں گے۔
اِس طرح سکینہ کو کافی دیر قطار میں کھڑا ہونا پڑا اور جیسے تیسے کر کے اُس کی باری آئی تو وہ تخت کے سامنے اپنی کم زور ٹانگوں کو جُھکا کرگُھٹنوں کے بَل ہوئی، وہ دو زانوں ہو کر اپنا سر جُھکائے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے تخت کے سامنے عاجز تھی۔
وہ سُرخ لِباس میں ننگے سر اور جوتوں سمیت اپنے آقا سے ہم کلام ہونے ہی لگی تھی کہ سارے دربار میں ایسے شور ہونے لگا جیسے کسی کمرۂِ جماعت میں بچوں کے شور کرنے سے ہوتا ہے۔
بادشاہ کو اُس شور کی پروا نہ تھی اور نہ ہی اِس بات کی فِکر تھی کے اِس کے سامنے ایک لڑکی ہے جو کے ننگے سر ہے اور تخت کے پاس جوتوں سمیت آ گئی ہے۔
بادشاہ بچی کی معصومیت اور عاجزی دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ اُس کا دِل اِتنا خوش ہو رہا تھا کہ وہ سوچنے لگا آج یہ کُچھ بھی مانگ لے اِسے سب عطا کیا جائے گا۔
سکینہ نے کہیں سُنا تھا، اگر فریاد آنسووں کے ساتھ مانگی جائے تو ضرور سُنی جاتی ہے۔
وہ بادشاہ کے سامنے بیٹھی اپنی آنکھوں میں آنسو اکھٹے کر رہی تھی۔ سکینہ نے سوچا ہوا تھا کہ آج پورے گاؤں کے لیے مانگنا ہے۔ گاؤں میں خوش حالی ہو، ہر گھر دانوں سے بھرا ہو اور کوئی بیماری میرے گاؤں کا راستہ نہ دیکھے۔
ابھی سکینہ بولنے ہی لگی تھی کہ ہجوم سے ایک سخت مزاج خاتون جن کو اپنے وزن کی وجہ سے چلنے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔ وہ غصے میں، ماتھے پر بَل لیے سکینہ کی جانب آئیں اور اُس کا بازو زور سے دبوچا اور یہ کہہ کر دکھیل دیا اے پاگل لڑکی! ایک تو تم گستاخانہ حُلیے میں بادشاہ سلامت کے سامنے حاضر ہو گئی ہو، اور دوسرا بادشاہ سلامت کا وقت ضائع کر رہی ہو ۔ تُمہارے علاوہ بہت سے لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا اِنتظار کر رہے ہیں۔
سکینہ نے روتے ہوئے دربار کو چھوڑ دیا، بادشاہ کو یہ عمل ہر گز پسند نہ آیا۔ اِس سارے معاملے کے بعد بادشاہ کی خوشی کا وہ عالَم نہ تھا جو سکینہ کی حاضری سے پہلے تھا۔ بادشاہ سلامت نے سب کی گزارشات سُنیں مگر کسی کی خواہش پوری نہ کر سکے۔
گاؤں کا حال کُچھ اِس طرح سے ہے کہ اب گاؤں میں قحط تو نہیں ہے مگر خوش حالی بھی نہیں ہے۔