اقلیتیوں کی بابت سنگ دلی اور منافقت
از، نصیر احمد
اس مضمون کی بابت ادارتی نوٹ: ہم وطنِ عزیز پاکستان کے کچھ قارئین کو کہتے ہیں کہ وہ اس مضمون کو اپنے ضمیر پر کسی قسم کی خلش کے بغیر پڑھیں۔ اس میں پاکستان میں اقلیتوں سے روا سلوک پر ایک جملہ بھی نہیں کہا گیا۔ یہ نوٹ اس لیے لکھا گیا کہ آپ کی انصاف پسند طبیعتیں ایسے ہی گالیاں اور مغلظات ارزاں نا کر دیں۔
آج کل دن یا میں اقلیتوں کے حوالے سے جو سنگ دلی اور منافقت پائی جاتی ہے اس کی کوئی سائنسی، منطقی اور انسانی توجیہ نہیں ہے مگر پاکیزگی کے نام پر وہ رجعت پسندی برپا ہے کہ زندگی کے حقائق کی طرف بہت سارے لوگوں کی نظر ہی نہیں جاتی۔ اب بھارت کے وزیر اعظم بھارت مودی کو ہی دیکھ لیں، اقلیت دشمنی کی گھناؤنی سیاست کرتے ہیں اور بھارت کے ہندؤوں کی ایک کثیر تعداد میں کافی مقبول ہیں۔
مقبولیت کی وجوہات مسلم دشمنی کے علاوہ بہت سارے معاشی اور معاشرتی عوامل سے منسلک ہو سکتی ہیں لیکن مسلم دشمنی ان کی سیاست کا ایک نمایاں پہلو ہے جو ان کے الفاظ اور اعمال میں صاف نظر آتا ہے
2002 میں گجرات کے فسادات کے بعد جو مسلمان پناہ گزینوں کے لیے جو امدادی کیمپ قائم کرنے کے بارے میں نریندر مودی ایک تقریر میں یوں کہتے ہیں کہ بھائی کیا ہم ولادتوں کے مرکز قائم کریں؟ اور مسلمانوں کی شرحِ پیدائش کے بارے میں ہم پانچ اور ہمارے پچیس جیسے تضحیک آمیز اشارے کرتے پائے گئے۔
اب ایک اقلیت جس کو اپنی وزارت کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مروا دیتے ہیں اور پھر ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے گری پڑی گھسی پٹی گفتگو کرنے لگتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ منافقت اور سنگ دلی سے کام لے رہے ہیں۔
اسی تقریر میں وہ کہتے ہیں ہم کسی عالی، مالی اور جمالی کے ارادے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے نام بگاڑ کر ان سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ جرمنی کی ناٹزی پارٹی کا ایک طریقہ کار ہوتا تھا کہ وہ یہودی جو ان کے ملک میں اقلیت ہوتے تھے، ان کی شکلیں، نام اور حلیے بگاڑ کر ان کے لیے سفید جرمنوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کیا کرتے تھے۔ اسی تقریر کے دوران وہ سفید فام انسانوں کی جو ان کے ملک میں ایک محدود سی اقلیت ہیں ان کی بھی تضحیک کرتے ہیں، جو کھلم کھلا نسل پرستی ہے۔
پھر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پردھان منتری ہیں اب پارٹی کے لیڈر اقلیتوں کے بارے میں اپنے پردھان منتری کی پیروی میں سنگ دلانہ بیانات دیتے رہتے ہیں۔ پارٹی کے ہریانہ کے وزیر اعلٰی مسلمانوں کی بھارت میں رہنے کی شرط گائے کا گوشت نہ کھانے سے جوڑ دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے جمہوری، انسانی، سیاسی، معاشی اور غذائی حقوق کی تردید کردیتے ہیں۔
اسی پارٹی کے ایک اور لیڈر نریندر مودی کے مخالفوں کو پاکستان پِدھارنے کے مشورے دیتے پائے جاتے ہیں۔ اب غیر جمہوری باتوں کا حماقت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ پاکستان پہلے ہی سے گِریہ کرتا رہتا ہے کہ ان کے پاس پناہ گزین ان کے وسائل سے زیادہ ہیں۔ اب مودی کے لاکھوں کروڑوں مخالفوں کو پاکستان کہاں سنبھال پائے گا اور مخالفت اگر ملک بدری کی وجہ بن جائے تو معاشرے کی سنگ دلی کی عکاسی کرتی ہے لیکن گری راج کے پاس عقل و شعور کا سمے ہی نہیں ہیں اور نفرت کی بدرو میں بہتے رہتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے اس طرح کے بے شمار بیانات ہیں اور کہیں کہیں گفتگو کا معیار اتنا پست ہے کہ پڑھنے والوں کا کچھ خیال آجاتا ہے کہ ان کو اس قدر پستی سے کاہے کو آشنا کیا جائے لیکن یہ پستی اس قدر عام ہے کہ اس سے گریز کرنا مشکل ہی ہو جاتا ہے۔
لیکن کروڑوں کی تعداد میں لوگ یہ باتیں سنتے ہیں مگر ووٹ دینے کے وقت انھیں یہ باتیں یاد نہیں رہتیں۔ ووٹ دینے کی جو بھی وجوہات ہوں لیکن عوام کو اپنے شہری فرائض سے غفلت نہیں برتنی چاہیے اور اقلیت دشمنی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
دوسری طرف منافقت کا حال دیکھیں، مودی ایران جاتے ہیں تو نس بندی وغیرہ بھول جاتے ہیں۔ اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف مودی اور ان کی جماعت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو بڑھاوے دیتی رہتی ہے مگر ایران جا کر مودی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایران کی دوستی کی تعریفوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایران سے تجارتی سودے کرتے ہین، مسلمانوں کی روشن نظری اور سخاوت کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں بھارت میں روشن خیال مسلمانوں کی ایران کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد ہو گی یعنی اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر جو مقدمہ قائم کیا ہوا ہے، اس کی عالمی سطح پر تردید کر آتے ہیں۔
لیکن وطن واپس آکر وہ تعصب ختم نہیں کرتے۔ عوام کو یہ بات سمجھنی چاہیے لیکن تعصب کی بنیاد نفرت ہوتی ہے اور نفرت میں شاید کچھ نفسیاتی مزے ہیں جو آنکھوں دیکھے سچ کا انکار آسان کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی زندگی کی حقیقت ہے کہ نفسیاتی مزے حقائق سے منسلک کیے جا سکتے ہیں، مگر اس کے لیے نہ صرف اپنا آپ تبدیل کرنے کی کوشش کرنے پڑتی ہے بلکہ معاشرے میں بہتر تبدیلیوں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح سعودی عرب میں مسلمانوں سے اعزاز حاصل کرتے ہیں، پھر پانچ اور پچیس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ اور مسلمانوں کو سبق سکھانا بھول کر ان کے مال پر نظر گاڑ دیتے ہیں۔ اب سعودی بادشاہوں سے تو بھارتی مسلمان اچھے ہیں، کم از کم بھارت کے اپنے ہیں۔ اب جس آدمی کی انسانوں کی تفہیم صرف ان کی دولت اور ظاقت کے ارد گرد قائم ہو، اس آدمی کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی انسانیت دریافت کرنا ملتوی کر دیا ہے اور جب انسان انسانیت دریافت کرنا ملتوی کر دیں تو انسانیت کا زوال شروع ہو جاتا ہے یا اور گہرا ہو جاتا ہے اور ووٹروں کو اس سمت دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نر نارائین نیل کنٹھ سوچتا سمجھتا انسان نہیں بلکہ دولت اور طاقت کا ایک پجاری ہے۔
اسی طرح انگریزوں اورعیسائیوں کو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی برا بھلا کہتی رہتی ہے، کبھی ان کو پرایا کہتے ہیں، مدر ٹریزا کو بھارت کو عیسائی بنانے کی سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اور کبھی انھیں ہندو قوم کے دشمن قرار دیتے ہیں لیکن ہندوستان سے باہر اہم عیسائی شخصیات کے قصائد میں مبتلا رہتے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتے کہ عیسائی دنیا کے تمام انسانوں کی طرح عالمی طور پر بد نہیں ہیں۔ جب عیسائی عالمی طور پر بد نہیں ہیں، تو علاقائی طور پر بھی بد نہیں ہو سکتے۔ عیسائی کیا، کوئی کمیونٹی بھی اجتماعی طور پر بد نہیں ہوتی، امریکہ اور یورپ میں بھاجپا کو یہ بات یاد آجاتی لیکن وطن میں آکر سب آفاقی سچائیاں بھلا دی جاتی ہیں۔
یہ ہے سنگ دلانہ سی شقاوت اور مجنونانہ سی منافقت جس کو بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت میں پروان چڑھا رہی ہے جس کا نتیجہ اقلیتوں کے خلاف قساوت ہے۔ کہ نفرت میں رچے لفظ کبھی خنجر بن کر کسی دل میں کُھبتے ہیں، اور کبھی بم بن کر کسی کی جان زار میں پھٹتے ہیں، کبھی گولی بن کر کسی کے نازک جسم میں دہکتے ہیں اور کبھی چھرے بن کر کسی کا چہرہ مسخ کرتے ہیں۔
اور اس شقاوت، منافقت اور قساوت کے پیچھے انسان سے نفرت کرتا شجر ظلمت ہے جس کے سائے تلے بھارتیہ جنتا پارٹی فروغ پا رہی ہے۔ اور صدیوں سے قائم اس شجرظلمت کو انسان حق جوئی، حق گوئی اور حق شناسی کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتے ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس، 16 اکتوبر، 2015
دی ہندو، 25 جون 25 2000
دی ہندو، 03 اپریل 2016
دی ہندو،23 مئی ،2016
دی اکنامک ٹائمز،21 جون، 2016
ہفٹنگٹن پوسٹ، جون 19، 2017