اردو میں تنقید کی ایک بہترین کتاب : فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت
تبصرۂِ کتاب از، محمد شیراز دستی
فرخ ندیم کی کتاب فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت Fiction, Discourse and Cultural Spatiality ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعے کے دوران قاری کئی کیفیتوں سے گزرتا ہے۔ میرے نزدیک ان میں سے تین کیفیتیں ایسی ہیں جن کا ذکر انتہائی ضروری ہے۔ یہ کیفیتیں خوشی، حیرت اور تجسس کی ہیں۔
مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ اس کتاب کے لیے بنیادی مسئلہ وہی ہے جو میرا مسئلہ ہے اور اس مسئلے پر ہمیں بے باک بحث ملتی ہے۔ میرے دوست اور شاگرد میری زندگی کی پرابلم اسٹیٹمنٹ سے آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں کس مسئلے کو اس دنیا کا اہم ترین مسئلہ سمجھتا ہوں۔ لہذا جب یہ کتاب طاقت اور سرمایے کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے؛ اس کتاب میں ہمیں ہماری عمومی ثقافتی تنقید میں عدم رونیت کا شکار اُس پسماندگی کا نوحہ سنائی دیتا ہے “جو بھٹے کی تپش کے ساتھ ایک ایک پائی کے لیے جون کی جھلسا دینے والی دھوپ اور حبس برداشت کرتی ہے”۔
اس میں ہم اور تم کی بائنری کے سچ کو کسی پوسٹ سٹرکچرلزم کی نظر نہیں ہونے دیا گیا بلکہ کئی مقامات پر تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کتاب “ہم” کا مقدمہ لڑنے کے لیے لکھی گئی ہو؛ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب نے سیکڑوں اصطلاحات وضع کر کے اردو کو ایک بہترین تنقیدی لغت دیا ہے [مصنف چاہیں تو اس کتاب میں سے اردو میں ادبی و تنقیدی اصطلاحات کی ایک فرہنگ نکال سکتے ہیں]؛ پھر ہماری مابعد نو آبادیاتی حسییت کی تسکین کے لیے انہوں ایک مقام پر تو انتہا ہی کر دی: انگریزی متن کو “وائٹ سلیو” White slave بنا کر اس کے بیس پچیس صفحوں کو دائیں سے بائیں لکھ ڈالا۔
اس کتاب کو پڑھ کر ایک اور کیفیت جس سے ہم بغل گیر ہوتے ہیں وہ ہے حیرت کی کیفیت۔ حیرت اس بات پہ کہ فرخ ندیم جو ایک تخلیق کار ہیں کیسے پرو تھیئری ہو سکتے ہیں؟ ایک افسانہ نگار اس قدر رواں تنقید کیسے لکھ سکتا ہے؟ پھر تنقید کی ایک کتاب ایک ہی وقت میں ڈسکورس شکن اور ڈسکورس ساز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک ہی کتاب کے بطن میں سیکڑوں ناولوں، داستانوں، ڈراموں، فلموں، کہانیوں، قصوں اور تنقیدات کا علم کیسے سما سکتا ہے؟ ایک شخص کو ہمارے سماج کی اتنی اچھی تفہیم کیسے ہو سکتی ہے؟
اب آئیے میری تیسری اہم ترین کیفیت پر جو کہ تجسس کی کیفیت ہے اور یہ سب سے زیادہ اس کتاب کی زبان سے متعلق ہے۔ اس کتاب کا اسلوب خاصا علمی اور مشکل ہے۔ دراصل یہ موضوع کی پیچیدگی اور فرخ ندیم کی تنقیدی بصیرت کی وسعت اور گہرائی ہے جو کتاب کو ایک مشکل محاورے سے مضمون کرتی ہے۔ ایک مقام پر لکھا ہے: “ادیب کا تخیل لا لسان نہیں، نہ ہی لسان لا انسان، نہ ہی انسان لا تجربہ، نہ تجربہ لا سماج، نہ سماج لا ساخت، نہ ساخت لا نشان، نہ نشان لا نظریہ۔” اب اس پہ میرا تجسس یہ ہے کہ انگریزی کے معلم نے اپنی اردو میں لکھی کتاب میں اس طرح کی عربیائی ہوئی زبان کا اہتمام کیوں کیا؟
مزید ملاحظہ کیجیے: بھیانک خوابوں اور سانحات کی کتھائیں : نعیم بیگ کا ناول، ڈئیوس، علی اور دیا
خدا گواہ ہے میں نے آج تک اردو میں اس سے زیادہ ثقیل کتاب نہیں پڑھی۔ مجھے یہ خوش گمانی بھی ہے کہ میری اردو اچھی ہے۔ مگر پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ پہلی ریڈنگ میں کم و بیش ایک چوتھائی حصہ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ فرخ صاحب کی یہ کتاب ملتوی المعنی ہے۔ اس میں معنی کا ایک جہان آباد ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اسے سمجھنا مشکل ہے تو دراصل میں یہ کہہ رہا ہوتا ہوں کہ ایسے وقیع کاموں کی تفہیم ایک ریڈنگ میں ممکن نہیں ہوتی۔ انہیں بار بار پڑھنا پڑتا ہے، ان کی شرح لکھی جاتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اردو دنیا کے فاضل مبصرین ہمارے لیے اس کی تفہیم ضرور آسان بنائیں گے۔
بہت عمدہ کتاب اور اس پر شیراز دستی صاحب آپ کا گو مختصر لیکن بے حد جامع تاثراتی مضمون ۔ یہ فرخ ندیم کی پہلی کتاب ہے مجھے یقین ہے کہ ان کے تنقیدی جوہر ابھی کھلنے ہیں ۔ اس کتاب میں انھوں نے عمومی اور میسر تنقیدی تھیئریز کو نئی تفہیم دی ہے۔