2017ء کا فکشن اور فکشن تنقید: ایک جائزہ
از، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری، صدرِ شعبۂِ اردو میرُوت یونیورسٹی، بھارت
ہر سال جنوری کے مہینے کے آ نے پر ہم نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔ گزشتہ سال کا محاسبہ کرتے ہیں۔ نئے نئے منصوبے بناتے ہیں اور نشانے طے کرتے ہیں۔ ہم میں سے بعض منصو بے ہی بناتے رہتے ہیں اور سال خموشی سے گذر جاتا ہے۔ بعض اپنے اہداف سے بھی زیادہ عمل کر لیتے ہیں۔ بہر حال، زمانہ اور وقت یوں ہی لمحہ لمحہ، صبح سے شام،رات اور پھر نئے دن کی شروعات، سے گذرتے ہوئے دن، ہفتے، مہینے اور پھر ۱۲ مہینوں کے بعد سال، تبدیل ہو کر وقت نامی سمندر میں محض ایک بوند کی طرح سما جاتا ہے۔ سال کی ابتدا میں بارہ مہینوں اور365 روزہ سال خاصا طویل نظر آتا ہے لیکن یہ کس برق رفتاری سے گذر جاتا ہے، اس کا احساس دسمبر کے آخری ہفتے میں شدید ہوتا ہے۔ اسی ہفتے، پورے سال کا محاسبہ کر کے نفع و نقصان کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ادب میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ ہر سال نئے ادب کی آ مد ہوتی ہے اور متعدد تحریریں پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ کئی نئے ادیب جلوہ گر ہوتے ہیں اور متعدد، ہم سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک 2017ء کے فکشن کا تعلق ہے تو کئی ناول، افسا نوی مجمو عے، فکشن تنقید کی کتب نے اپنی جانب توجہ مبذول کی ہے۔
2017ء کے ناول:
اس برس ہند و پاک میں متعدد ناول شا ئع ہوئے۔ اما وس میں خواب( حسین الحق)،خواب سراب( انیس اشفاق) ،ہم جان( فارس مغل)، بے رنگ پیا( امجد جا وید)، خزاں کے بعد( نو شا بہ خا تون)،دکھ دان( اسلام اعظمی) جج صا حب( اشرف شاد)میرے ہونے میں کیا برا ئی ہے( رینو بہل) اینکر( وقاص عزیز) خلش(سفینہ بیگم)،یہ راستہ کوئی اور ہے(اقبال حسن خاں)،کوہِ گراں(خالد محمد فتح)، سائے (محمد عامر رانا)، ڈئیوس ،علی اور دِیا (نعیم بیگ )، غلام باغ(مرزا اطہر بیگ) ہندو ستان میں پہلی بار شائع ہوا۔
جہاں تک اردو ناول کی سمت و رفتار کا تعلق ہے تو یہ بات لائق اطمینان ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے نا ولوں کی اشاعت مسلسل ہورہی ہے۔ 2017ء میں بھی یہ رفتار اور تسلسل قائم رہا ہے۔ اس سال جن نا ولوں نے خاصی شہرت حاصل کی ان میں حسین الحق کا ناول’’ اما وس میں خواب‘‘ ہے۔حسین الحق کا یہ نیا ناول ایک طویل خا موشی کے بعد آ یا ہے۔ اس سے قبل ان کے دو ناول’’ بولو مت چپ رہو‘‘ اور’’ فرات‘‘ شا ئع ہو چکے ہیں۔1970ء کے بعد کی نسل میں آپ کا شمار سنجیدہ ناول نگاروں میں ہو تا ہے۔ اما وس میں خواب ان کا اس سال شائع ہو نے وا لا تازہ ترین ناول ہے۔یہ2017ء میں شائع ہونے والا یہ ایک دھماکہ خیز ناول ہے۔ ناول تقسیم کی کوکھ سے جنم لینے والے ایسے انسان کی کہانی ہے جو تہذیب کی شکست و ریخت سے نہیں بلکہ تہذیب کے ہر پل بدلتے منظر نامے سے پریشان ہے۔ جو اپنے آپ کو ۴۷ سے موجودہ عہد2016ء تک کے زمانے میں کہیں فٹ نہیں کر پاتا ہے۔ یہ ایسا انسان ہے جو مسلمان ہی نہیں، اسماعیل ہی نہیں، رمیش بھی ہے،، نہال سنگھ بھی ، نائلہ بھی ہے، اسما عیل، جو ناول کا مرکزی کردار ہے، در اصل خواب اور تعبیر کے درمیان ہچکولے کھانے والے شخص کا نما ئندہ ہے۔ جس کے اپنے خواب ہیں، تمنائیں اور آ رزوئیں ہیں۔لیکن اس کے خواب، خواب ہی رہ جاتے، انہیں حقیقت کی زمین نہیں ملتی، کیونکہ حقیقت کی زمین تو ممبئی کے واقعات سے لے کر بہار اور پھر دہلی کے جے این یو تک تہذیب کے بدلتے منظر نامے میں گم ہوگئی ہے اور اس کے خواب چکناچور ہوئے ہیں،ورنہ اسمٰعیل کے خوا ب بھی، رنگین تھے، ان میں بھی زندگی کی تمام تر رعنائیاں موجود تھیں۔ اسمٰعیل کے خواب میں شریک ہو کر قاری بھی تھو ڑی دیر کے لیے خوا بوں کی حسین وادی میں پہنچ جاتا ہے۔حسین الحق نے بہترین اسلوب کا استعمال کرتے ہوئے اسماعیل کا خواب بُنا ہے:
’’اور پردہ ابھی اٹھا نہیں تھا، حریری پردوں کی سر سراہٹ نرم بھی تھی اور ریشم جیسی کومل بھی، پردے ساکن نہیں تھے، مگر اٹھ بھی نہیں جا رہے تھے۔ اہتمام یہ تھا کہ کچھ چھپا بھی رہے، کچھ جھلملا تا بھی رہے۔ ایسے ستر پردوں کے پرے وہ ساعد سیمیں ایک مستانہ سی بوجھل اور سر شار کیفیت میں مکّیف ہوئیں کہ ماتھے پہ ان کے شکنیں مثل صٖف تشنگاں تھیں اور بھویں طلب کی آگ میں جل کر زلف زلیخا کی مانند سیاہ اور آنکھوں کی پتلی میں سیاہی تھیں، سفیدی تھی، شفق تھی، ابر باراں تھا، مگر یہ ابر کچھ رکا رکا سا تھا اور ناک کی کیل پھول پر شبنم اور لب…گلاب کی دو پنکھڑیاں ایک دوسرے سے وصل کے نشے میں سر شار، رخسار ڈوبتے ہوئے دو سرخ سورج جو رو شنی کی ہلکی ہلکی پھوار پھینکتے ہیں، مگر اپنی گرمی سے پریشان نہیں کرتے، گردن انگوری شراب کا، ایسا جام جس کی ساری شراب کف ساقی کو بھگو تی محسوس ہو، سینہ خلد کے دو گنبدوں کا بیضوی عرصہ جس پر مینار کی انتہا کا نوکیلا پن بھی نمایاں ہو،کہنی سے ہتھیلی تک جلد ایسی شفاف کہ رگوں میں دوڑتا خون آئینے کی طرح عکس آ سا اور شیشے کی طرح آر پار…‘‘
[اماوس میں خواب، حسین الحق، ص30-31]
خواب کی عکاسی میں حسین الحق نے حسن کے بیان میں قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔
اسی سال ایک اور بہت خو بصورت اور عمدہ ناول شا ئع ہوا’’خواب سراب‘‘ انیس اشفاق کا یہ خوبصورت ناول بھی حسین الحق کے خواب کی طرح کبھی خواب،کبھی حقیقت اور کبھی دو نوں ،سراب کی صورت سامنے آتے ہیں۔انیس اشفاق، اس سے قبل’’ دکھیارے‘‘ لکھ کر ناول کی دنیا میں تہلکہ مچا چکے ہیں، جسے معروف فکشن نگار انتظار حسین نے کافی سراہا تھا۔ انیس اشفاق افسا نے بھی عمدہ لکھتے ہیں۔ تنقید میں بھی انیس اشفاق کا نام خاصا معروف ہے۔
انیس اشفاق کا ناول’’ خواب سراب‘‘ادبی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل کرچکا ہے۔ اس ناول میں انیس اشفاق نے لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کوPresurve کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے مرزا ہادی رسوا کے ناول’’امرا ؤ جان ادا‘‘ کے قصے سے قصے کو جوڑ کر لکھنؤ کی تہذیب کے با قیات اور موجو دہ عہد میں سانس لیتی زندگی کو فنی چابک دستی سے ناول میں پرو یا ہے:
’’میں اندر داخل ہوا تو دیکھا ایک بڑے کمرے میں جو کبھی بیٹھکے کے طور پر استعمال ہو تا رہا ہوگا، چاروں طرف تخت بچھے جن پر طرح طرح کے پرانے سامان قرینے سے رکھے ہیں۔ ان سامانوں میں نقشی پاندان، حقے، جریبیں، خاص دان اور سر مہ دانیاں، قد آدم آئینے، اگا لدان، چپکنیں، اچکنیں اور زر کار دوشالے، سلفشیاں، آفتابے، سماور اور میر فرش، بہت عمدہ نقاشی والے چینی کے برتن اور نایاب نگوں والی انگوٹھیاں تھیں۔ تختوں کے پیچھے لکڑی کی دو بڑی میزیں تھیں جن میں سے ایک پر موٹی موٹی جلدوں والی بہت سی جہازی سائز کی کتابیں اور دوسری پر چھوٹے بڑے سائز کی جلد اور بغیر جلد والی کتابیں رکھی تھیں۔انہیں میزوں سے کچھ دورپر کرم خوردہ کتابوں کے کئی بنڈل رکھے ہوئے تھے۔‘‘
[خواب سراب ،انیس اشفاق ،ص19]
انیس اشفاق کا یہ ناول،ہماری روایت کو استحکام بخشتا ہے۔
اس سال ڈا کٹر رینو بہل کا ناول’’ میرے ہونے میں کیا برا ئی ہے‘‘ بھی منظر عام پر آ یا ہے۔ ناول کا مو ضوع بہت نیا نہیں تو عام بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر رینو بہل نے بڑی فن کا ری سے مرد، عورت کے علاوہ تیسری جنس کو مو ضوع بنا کر ایک خو بصورت ناول تحریر کیا۔ شیکھر نامی بچے کو جب آ ٹھ نو سال کی عمر میں یہ احساس ہو تا ہے کہ وہ تیسری جنس سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زندگی کتنی بھیانک اور خطر ناک ہو جا تی ہے۔ گھر ،محلے کے افراد اور دوست احباب حتی کہ خونی رشتوں میں جو رویے کی تبدیلی آ تی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔انہیں سب سے راہ فرار حاصل کر کے شیکھر، شکھا بن جا تی ہے۔ ناول سماج کی ایک دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے سماج کی گندی ذہنیت کی نقاب کشا ئی کرتا ہے۔ پاکستان کے ناقد ڈا کٹر ریاض احمد لکھتے ہیں:
’’ڈا کٹر رینو بہل نے جس پیرا ئے میں یہ ناول لکھا ہے، اسے پڑھنا، شروع کر کے ختم کیے بغیر چھوڑنا آ سان نہیں۔ آخر میں وہ قارئین کی سوچ، رہنمائی اور عمل کے لیے اسی مجبور اور بے قصور فرد کی زبان میں ایک سوال چھوڑ جاتی ہے کہ میرے ہونے میں کیا برا ئی ہے۔‘‘
[میرے ہونے میں کیا برا ئی ہے، ڈاکٹر رینو بہل]
ناولوں کی دنیا میں کئی برس سے تہلکہ مچا نے والے پاکستانی ناول’’غلام باغ‘‘ کو اس سال ہندوستان میں نئی آب و تاب کے ساتھ عرشیہ پبلی کیشنز نے از سر نو شائع کیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول’’ غلام باغ‘‘ نے ہندو ستان میں بھی خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ در اصل یہ ایک نئے طرز کا ناول ہے جس میں ماضی، حال اور مستقبل کچھ اس طور ضم ہوتے ہیں کہ انسانی زندگی کے راز منکشف ہو تے جاتے ہیں۔ تقریبا900صفحات پر پھیلے اس ناول میں زندگی کے نشیب وفراز حقیقت کے آئینے میں اپنی اصل شکل میں نظر آ تے ہیں۔ ناول کے تعلق سے معروف فکشن نویس عبد اللہ حسین نے لکھا ہے:
’’غلام باغ اپنے مقام میں اردو ناول کی روا یت سے قطعی ہٹ کے واقع ہے بلکہ انگریزی ناول میں بھی یہ تکنک نا پید ہے۔ اس کے ڈانڈے یوروپی ناول، خاص طور پر فرانسیسی پوسٹ ماڈرن ناول سے ملتے ہیں۔ ناول ایک انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’نیا‘‘ نہیں بلکہ اس کے اصل معنی’’ انو کھا‘‘ ہیں۔اس لحاظ سے’’ غلام باغ‘‘ صحیح معنوں میں ایک ناول ہے۔‘‘
[غلام باغ، مرزا اطہر بیگ]
’’ڈئیوس،علی اور دیا‘‘ عکس پبلی کیشنز، لاہور کے ذریعے شائع ہونے وا لا نعیم بیگ کا ایک اہم ناول ہے۔ نعیم بیگ موجودہ وقت میں پا کستان کے اہم فکشن نگاروں میں شمار ہو تے ہیں۔ انہوں نے مذکو رہ ناول میں موجودہ سیاسی اور سماجی صو رت حال کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ ناول میں جہاں سیاسی معرکے، دھوکہ با زیاں اور طوطا چشمی موجود ہے تو حسن و عشق یعنی رو مان بھی موجودہے۔ زمینی حقائق کو اپنے دا من میں سمیٹے’’ ڈیٹوس علی اور دیا‘‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں دلچسپی، حیرت اور واقعات و شخصیات کا ایسا تصادم ہے کہ پڑھنے والا ایک بار ناول شروع کرے تو پھر ختم کر کے ہی دم لے۔ ناول میں سارہ، نعمان،علی،دیا وغیرہ اہم کردار ہیں جو ہمارے آج کو پیش کرتے ہیں۔
خالد محمد فتح کا نیا ناول’’کوہِ گراں‘‘، ناول کے قارئین کے لیے نیا پہلو لے کر آ یا ہے۔ خالد محمد فتح یوں بھی منفرد فکشن نگار ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں نے بھی چو نکایا تھا۔’کوہِ گراں‘ میں خا لد فتح محمد نے پانی کی قلت اور بحران کو کچھ اس طور موضوع بنایا ہے کہ وہ انسانی زندگی کی حقیقت بن گیا ہے، فاطمہ، گڈو، ویسو وغیرہ اس کے اہم کردار ہیں۔ ناول کی زبان متاثر کرتی ہے۔
سفینہ بیگم کا پہلا ناول’’ خلش‘‘ نے خاتون ناول نگاری کی روایت کو آ گے بڑھا نے کا کام کیا ہے۔’’خلش‘‘ میں چار لڑکیوں کے کردار ہیں جو اپنی اپنی قسمت سے مختلف النوع زندگی گذارتی ہیں۔ مرد اساس سماج میں خوا تین کے کردار کا کیا مقام و مرتبہ ہے،’خلش‘میں بہتر طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ناول میں پلاٹ، کردار، مکالمے اور تصادم وغیرہ ناول نگار کی فن پر دسترس کے غماز ہیں۔پروفیسر عقیل احمد صدیقی ناول کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان لڑکیوں میں بعض کی تقدیر مرد اساس معاشرے کے تشدد سے لکھی جاتی ہے، جس میں ایک نمایاں پہلو استحصال بھی ہے اور جس کے خلاف مصنفہ نے اخلا قی جرأت کا اظہار کرتے ہوئے ان لفظوں میں احتجاج کیا ہے کہ عورت جیت کر بھی نہیں جیت پاتی اور مرد ہار کر بھی جیت جاتا ہے۔‘‘
[خلش،سفینہ بیگم، فلیپ کور، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس]
محمد عامر را نا کا ناول’’سائے‘‘ نے بھی اپنی موجودگی در ج کرا ئی ہے، لا ہور کی زندگی، عام زندگی کے کرب اور رشتوں کے نشیب و فراز کو عمدگی سے ناول میں سمو یا گیاہے۔ نوجوان فکشن نگار سلمان عبد الصمد کے ناول’’لفظ لفظ لہو‘‘ کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آیا ہے۔
2017ء کا افسانہ
جہاں تک2017ء کے افسا نوں کا معا ملہ ہے تو اس سال افسا نوی مجمو عے کچھ کم شا ئع ہوئے۔ پھر بھی ’’پورٹریٹ‘‘(اقبال حسن آزاد)اضطراب(افشاں ملک)،اب میں وہاں نہیں رہتا(دیپک بدکی)،جہاں گم گشتہ (نگہت سلیمی)،بات کہی نہیں گئی(سیمیں کرن)،کھویا ہوا جزیرہ( عبد القیوم خالد)،دعا کی قبو لیت( حسن نظامی کیراپی) آئینہ گر(منزہ احتشام)،لہو لہو منظر(سلیم خان)،آخری بوند( توصیف احمد)کلشیے(خرم بقا) ،خاک کی مہک(ناصر عباس نیر)،فرشتہ نہیں آ یا،(ناصر عباس نیر)، اب صبح نہیں ہو گی( ابو للیث جاوید)،ٹوٹی ہوئی سڑک(محمد جمیل اختر)، پرانے کپڑوں کا سودا گر(عبد المتین جامی)کی اشاعت نے امید کو باقی رکھا ہے۔
اقبال حسن آزاد کہنہ مشق افسا نہ نگار ہیں ۔ان کا تا زہ افسا نوی مجمو عہ’پورٹریٹ‘ کی اشاعت نے ادبی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ اقبال حسن آز اد کے اس سے قبل دو افسا نوی مجمو عے’’قطرہ قطرہ احساس‘‘۱۹۷۷، او’’مردم گزیدہ‘‘۲۰۰۷ء میں شا ئع ہو چکے ہیں۔اب اقبال حسن آ زاد نئے مجمو عے کے ساتھ حاضر ہیں۔ ’پورٹریٹ‘ میں ۲۳؍ افسانے شامل ہیں۔ اقبال حسن آ زاد کے افسا نے عام سماج اور عام آ دمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ مجمو عے کے کئی افسانے پورٹریٹ، گملے میں اگی ہوئی زندگی، جلتی ریت پر ننگے پاؤں سفر، بریکننگ نیوز،محبت، حصار،پھر کب آ ؤ گے، عمدہ افسانے ہیں۔
ڈاکٹر افشاں ملک کا شمار نئی نسل کی ان خاتون افسا نہ نگاروں میں ہو تا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے اواخر میں اپنا سفر شروع کیا اور نئی صدی میں استحکام حاصل کیا۔ افشاں ملک کا پہلا مجمو عہ’’ اضطراب‘‘ شائع ہوتے ہی، ایوان ادب میں چھا گیا، ’اضطراب‘ میں افشاں ملک کے16؍ افسا نے شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں اور فلیپ کور پر معروف افسانہ نگار اور اسکالرز نے افشاں ملک کی افسا نہ نگاری پر عمدہ تجزیے کیے ہیں جن میں نجمہ محمود، شموئل احمد، نعیم بیگ،طارق چھتاری اور انجم عثمانی نے افشاں کے افسانوں کو موجودہ عہد کے افسا نے کے لیے نیک فال بتایا ہے۔ مجموعے کے کئی افسا نے’کاٹھ کے گھوڑے‘، یاجوج ماجوج، گود لی ہوئی ماں،کلنک، گورِغریباں،سونے کا ڈھکن، سمندر،جہاز اور میں ایسے افسا نے ہیں جو چونکاتے ہیں۔یہ افسا نے مستقبل میں افشاں ملک کی شناخت بنیں گے۔
بزرگ افسانہ نگار مرحوم حسن نظامی کیرا پی کا مجمو عہ’’ دعا کی قبو لیت‘‘ کی اشاعت بھی گزشتہ برس ہوئی۔ حسن نظامی کیرا پی کا تعلق جمشید پور سے تھا۔ ان کا شمار بزرگ افسا نہ نگاروں میں ہو تا تھا۔وہ ایک خاص قسم کے افسا نے تحریر کرتے تھے، جو حق پرستی اور حق و صدا قت کو منظر عام پر لانے کا کام کرتے تھے۔ مذکورہ مجمو عہ ان کا آخری مجمو عہ ہے۔ اس سے قبل’تحفہ‘ اور’انشاء اللہ‘ نام کے دو مجمو عے شا ئع ہو چکے ہیں۔ ’دعا کی قبو لیت‘ میں تقریباً46؍ افسا نے اور22؍افسانچے شامل ہیں جب کہ صفحات144ہیں۔ آپ اندا زہ لگا سکتے ہیں کہ افسا نچوں کی طرح افسا نے بھی مختصر ہیں۔ در اصل یہ سب حالات حاضرہ اور انسانی اخلاق و کردار کے عکاس ہیں۔ زیادہ تر افسا نے، افسا نہ نگار کے آس پاس وقوع پذیر ہونے وا لے سیاسی اور سماجی واقعات و حادثات کا موثر اظہاریہ ہیں۔
’لہو لہو منظر‘ سلیم خان کی کہا نیوں کا پہلا مجمو عہ ہے۔ اس سے قبل بچوں کے لیے کہانیوں کا مجمو عہ’نیم چندن اور کوئل‘ شائع ہو چکا ہے۔ سلیم خان کے زیادہ تر افسا نے موجودہ سماج پر گہرا طنز ہیں۔ وہ چھوٹے افسا نے لکھنے کے عادی ہیں۔ یوں بھی مختصر افسا نے تحریر کرنا کوزے میں سمندر بھر نے کے مصداق ہے۔ مجمو عے میں ان کے تقریباً20افسانے شامل ہیں۔ ان میں کئی ایک تو یاد رہ جانے وا لے افسا نے ہیں۔ لہو لہو منظر، آخری قبر، مٹی کا رشتہ، بدنام گلی، سمجھوتا، خارزار کا مسافر وغیرہ۔ حقا نی القاسمی نے ان کی افسا نہ نگاری پر بجا لکھا ہے:
’’سلیم خان کی یہ مختصر کہانیاں آج کے عہد کے مسائل سے مکمل مکالمہ ہیں، یہ سیاست، سماج کی بے چہرگی، قدروں کے زوال، قدری ترجیحات کی تبدیلیوں کا مکمل بیا نیہ ہے، مہنگائی، بے رو زگاری، تشدد، بد عنوانی، سیاسی مکرو فریب جو آج کی عصری زندگی کا لازمہ بن چکی ہیں۔ یہ تمام مو ضو عات ان کی کہانیوں کا حصہ ہیں۔‘‘
[حقا نی القاسمی، فلیپ کور، لہو لہو منظر،2017، جلگاؤں، مہا راشٹر]
’اب صبح نہیں ہو گی‘ ابو للیث جا وید کا چوتھا افسا نوی مجمو عہ ہے۔ ابوللیث جاوید اصلاحی فکر کے معروف افسا نہ نگار ہیں۔ ان کے افسا نے انفرادیت کے حامل ہیں۔ اسلامی فکر،اخلاق و کردار، اسلامی طرزِ معاشرت پر ابو للیث جاوید نے متعدد عمدہ افسا نے تخلیق کیے ہیں۔ اس سے قبل بھی ان کے تین مجمو عے ’کانچ کا درخت‘، کنا رے کٹ رہے ہیں، جاگتی آنکھوں کا خواب، منظر عام پر آ چکے ہیں۔ مجمو عے کے کئی افسا نے مثلاً ’چراغ کی لو،زبان یار من ترکی، نصیب دشمناں، اب صبح نہیں ہو گی، سنا ٹا بولتا ہے، پیج تھری وغیرہ نہ صرف لیک سے ہٹ کر ہیں بلکہ ابوللیث جاوید کی شناخت بھی ہیں۔ ’پیج تھری‘ میں سپریم کورٹ کے ذریعے ہم جنسی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد ہم جنس جوڑے کے رد عمل کو موضوع بنایا گیا ہے اور دورانِ افسا نہ اصلاحی نقطۂ نظر اپنا تے ہوئے مصنف نے قرآن کے قومِ لوط کے واقعے کوبھی پیش کیا ہے:
’’ہزاروں سال قبل حضرت لوط علیہ السلام پیغمبر دین ہوئے تھے۔ ان کی گمراہ قوم نے انہیں جھٹلایا ۔حالانکہ لوط علیہ السلام نے قوم کو ڈرایا اور خود کو خدا کا امانت دار و رسول بتایا۔ قوم جو ایک نہایت ہی قبیح فعل میں مبتلا تھی اسے ترک کر نے کو کہا اور اپنی بیویوں سے رجوع کرنے کو کہا جو ان کے لیے حلال تھیں۔قوم نے ان کی بات نہ ما نی۔‘‘
[اب صبح نہیں ہو گی، ابوللیث جاوید،ص142، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی،2017ء]
گلزار جاوید اپنے طرز کے انو کھے افسا نہ نگار ہیں۔ بے با کی اور سلیقے سے بات کہنا، ان کا خاصا ہے۔ ان کا تازہ افسا نوی مجمو عہ’’ وہی خدا ہے‘‘ ابھی شائع ہوا ہے۔ اس سے قبل ان کے مجمو عے’’ خود ساختہ ناخدا‘‘ کی اشاعت نے گلزار جاوید کی انفرادیت کا سکہ جما دیا تھا۔ گلزار جاوید، گزشتہ کئی دہائیوں سے’’چہار سو‘‘ کے ذریعے ادب کی بے بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔’’ وہی خدا ہے‘‘ کے افسا نے اپنے پس منظر اور پیش منظر کے مطابق بو لی اور زبان میں کچھ اس طور گندھے ہوتے ہیں کہ وہ ہر شخص کی کہا نی معلوم ہو تے ہیں۔ معروف فکشن نگار شمو ئل احمد گلزار جاوید کی افسا نہ نگاری کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’گلزار کے افسا نے ذہن و شعور کی فنی جہت کی باز یافت کرتے ہیں۔ خا رجی اور با طنی حقیقت کی عکاسی میں یہ افسانے گردو پیش کی دنیا کے آ ئینہ دار ہیں۔‘‘
’سنو کہانی، سنو کہانی‘ کے عنوان سے ایک بے حد خوبصورت کتاب دو جلدوں میں منظر عام پر آ ئی ہے۔ اس کتاب کو جامعہ ملیہ کے استاد ڈا کٹر ندیم احمد اور ان کی ریسرچ اسکالر غزالہ فا طمہ نے مرتب کیا ہے۔ بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیوں کے اس بے حد جامع انتخاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اردو والوں کی بچوں کے ادب کی طرف رغبت میں اضا فہ ہو۔ بچے ان کہانیوں کو پڑھیں تو ان کی اخلا قی تربیت عمل میں آ ئے۔ ڈا کٹر ندیم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ دونوں جلدوں میں معروف قلم کاروں،منشی پریم چند،احمد جمال پاشا، مشیر الحق،، سراج انور،غلام حیدر، عبد اللہ ولی بخش،اطہر پرویز،،مسعودہ حیات، رشید احمد صدیقی، خلیق انجم اشرفی،زکی انور، عبد الستار صدیقی، آصفہ مجیب، صالحہ عا بد حسین، سلام بن رزاق، مرزا ادیب، محمد مجیب، فیض احمد فیض،اشفاق حسین،حامد علی خاں، قاضی سلیم، شمیم حنفی، محمد طیب،صہبا لکھنوی، سیدہ سیدین، سید منیر الحسن،جیلا نی بانو،دولت خانم،غلام ربانی،خواجہ احمد عباس،راشد الخیری، مولوی عبد الحق، رابندر ناتھ ٹیگور، بیگم سلطا نہ حنفی، آمنہ ابوالحسن، رام لال، سری نواس لاہوری،یوسف ناظم، مناظر عاشق ہر گانوی، عبد الحلیم ندوی،حیات اللہ انصاری وغیرہ تقریباً144مصنفین کی195کہا نیوں کو جمع کیا گیا ہے۔ کہانیوں کے انتخاب میں ترتیب زمانی کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ ویسے یہ کتب طا لب علموں خصوصاً بچوں کے ادب پر کام کر نے وا لوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ پرو فیسر خالد محمود نے دیباچے میں ان کہانیوں کے تعلق سے لکھا ہے:
’’ کہا نیاں پڑھیے تو مو ضو عات کی رنگا رنگی، مضا مین کا تنوع، زبان کی سادگی،سلاست، بیان کی دلکشی، برجستگی،روانی، مکالموں کی برجستگی، ڈرا مائیت، اور شگفتگی سے لے کر کہانی پن تک سبھی کچھ ان میں موجود ہے۔ کہا نیاں کیا ہیں لطف و انبساط کا نگار خانہ ہیں۔بیشتر سبق آموز کہانیوں میں اس خوبی سے سبق پڑھا یا گیا ہے کہ سبق سے بھا گنے وا لے بچوں کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ انہیں سبق پڑھا دیا گیا ہے۔‘‘
[سنو کہانی، سنو کہانی، ڈا کٹر ندیم احمد، غزالہ فاطمہ،کتا بی دنیا،2017ء]
معروف افسا نہ نگار مرحوم نیر مسعود کا افسا نوی مجمو عہ’گنجفہ‘ جسے پہلے ہی شہرت دوام حاصل ہو چکی ہے۔ عرشیہ پبلی کیشنز نے اسے نئے گیٹ اپ، خوبصورت سرورق اور کم وزن کاغذ پر شاندار طریقے سے شائع کیا ہے۔
2017ء فکشن تنقید
گزشتہ برس فکشن تنقید کے معا ملے میں اچھا رہا ہے۔ اس سال کئی اہم کتب شا ئع ہوئیں۔ متعدد مونو گراف تحریر ہوئے۔ فکشن نگاروں اور فکشن ناقدین پر بھی کتابیں اور رسا لوں میں خصوصی گوشے شا ئع ہوئے۔ متعدد انتخابات بھی سامنے آئے۔
’’کلیات سہیل عظیم آ بادی‘‘ کی شکل میں بہار اردو اکا دمی کا ایک فخریہ کا ر نامہ سامنے آ یا۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم گزشتہ کئی برسوں سے اس پرو جیکٹ پر کام کررہے تھے۔ اس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے سہیل عظیم آ بادی کے سبھی افسانے تین جلدوں میں جمع کیے ہیں ساتھ ہی ایک مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں سہیل عظیم آ بادی کے افسا نوں اور زندگی کے مختلف پہلو ؤں کو فنی بصیرت سے قلم بند کیا ہے۔
پروفیسر ارتضی کریم کی ایک اور کتاب’’ سہیل عظیم آ بادی کے منتخب افسا نے‘‘ ادبی حلقوں میں ستائش کی نظروں سے دیکھی گئی۔ در اصل یہ کتاب نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کے ذریعے شا ئع ہو نے والا مونو گراف ہے۔ کتاب میں پروفیسر ارتضیٰ کریم نے سہیل عظیم آ بادی کے28افسا نے شامل کیے ہیں۔ ارتضیٰ کریم نے اس کتاب سے سہیل عظیم آ بادی کے تعلق سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ان پر خواہ مخواہ ہمارے نا قدین نے پریم چند سے کلی طور پر متاثر ہو نے کا دعویٰ کیا یا یہ کہہ دیا کہ پریم چند اگر پورے ہندوستان کے گاؤں کی تصویر پیش کررہے تھے تو سہیل عظیم آ بادی بہار کی دیہی زندگی کو اپنے افسا نے کا موضوع بنا رہے تھے،اس لیے انہیں پریم چند کا پیرو کار اور بہار کا پریم چند بھی کہا گیا۔ جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے کلی اعتبارسے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے بہا ر اور چھو ٹا ناگپور کو اپنی تحریروں میں نمایاں جگہ دی ہے مگر ان کی کہانیوں میں پو را ہندو ستان اور پورا انسان چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
[سہیل عظٰیم آ بادی کے منتخب افسا نے، ارتضیٰ کریم، این بی ٹی،2017ء]
پروفیسر ارتضیٰ کریم کی دو نوں کتاب،سہیل عظیم آبادی کے تعلق سے نہ صرف تمام غلط فہمیوں کا ازا لہ کرتی ہیں بلکہ سہیل عظیم آ بادی کے فکشن کی تفہیم و تعبیر میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
فکشن تنقید میں بشیر مالیر کو ٹلوی کی کتاب’’ گستا خی معاف‘‘ نے خاصا ہنگا مہ بر پا کیا۔ کتاب کے عنوان سے واضح نہیں ہو تا کہ یہ فکشن پر تنقید ہو گی۔ بشیر مالیر کو ٹلوی نے اردو کے معروف افسانوں’بو‘،ٹھنڈا گوشت،پھو جا حرام دا شہید سازی،بابو گوپی ناتھ، موذیل(سعادت حسن منٹو) پیتل کا گھنٹہ(قاضی عبد الستار)بین( احمد ندیم قاسمی)لاجونتی (راجندر سنگھ بیدی)لحاف( عصمت چغتائی)مہا لکشمی کا پل( (کرشن چندر) کے تجزیے با لکل نئے انداز میں کیے ہیں بلکہ انہیں تجزیہ نہ کہہ کر افسا نوی آپریشن کہا جائے تو غلط نہ ہو گا اور اسی منا سبت سے شا ید انہوں نے کتاب کا نام’’گستاخی معاف‘‘ رکھا ہے۔ انہوں نے بر سوں سے چلی آ رہی ان افسا نوں کی ساکھ اور عام تفہیم سے الگ، حقائق اور زبان کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے اور بعض غلطیوں، خامیوں،بعید از قیاس باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ منٹو کے افسانوں کے ایسے متعدد گوشوں کی طرف انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے۔’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ کے ایک پہلو پر بشیر مالیر کوٹلوی کی رائے ملا حظہ کریں:
’’تمہیں میری قسم….بتاؤ.! کہاں رہے…..؟ شہر گئے تھے….؟‘
یہ مکا لمہ اپنی سمجھ سے با ہر ہے۔ استاد نے (بشیر مالیر کوٹلوی ،سعادت حسن منٹو کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں)پہلے ہی جملے میں بتا دیا کہ دونوں ہوٹل کے کمرے میں ملتے ہیں۔ ظا ہر ہے ایسے ہوٹل جن کے کمرے رہائش کے لیے کرایہ پر ملتے ہوں، وہ شہروں میں ہی ہو تے ہیں۔کسی گاؤں میں ہو ٹل اینڈ ریسٹورینٹ بھی نہیں کیا جاسکتا وہ بھی اس دور میں،جس دور میں افسا نہ سانس لے رہا ہے۔شروعا تی جملوں میں استاد واضح کررہے ہیں۔
’’شہر کا مضا فات ایک عجیب پر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔‘‘
یہ جملہ خود اپنے اندر ایک بڑا ثبوت ہے کہ اس وقت کلونت اور ایسشرشہر میں موجود تھے۔پھر کلونت کا یہ سوال کہ شہر گئے تھے…؟بے معنی سا لگتا ہے۔‘‘
[گستاخی معاف، بشیر مالیر کوٹلوی، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس]
پروفیسر صغیر افرا ہیم فکشن تنقید کا ایک اہم نام ہے۔ گزشتہ برسوں ان کی متعدد کتب فکشن تنقید کے حوا لے سے شائع ہو چکی ہیں۔’’ پریم چند کی تخلیقات کا معروضی مطالعہ‘‘ ان کی تا زہ ترین کتاب ہے۔ گزشتہ سال کے آ خر میں ان کی اردو ناول پر ایک عمدہ کتاب’’ اردو ناول:تاریخ، تعریف اور تجزیہ‘‘ آ چکی ہے۔موجودہ کتاب پریم چند پر ان کی اہم کتاب ہے۔ یوں بھی اردو فکشن میں پریم چند پر خا طر خواہ کام نہیں ہوا ہے۔
پروفیسر صغیر افرا ہیم نے مذکو رہ کتاب میں پریم چند کے افسا نوں، ناولوں اور دیگر تحریروں کا اچھا محاکمہ کیا ہے۔ پریم چند کے فکشن کے متعدد گو شوں کو سامنے لانے وا لی اس کتاب میں صغیر افرا ہیم نے پریم چند کی حب الوطنی کی طرف ٹھوس اشارے کیے ہیں۔ تحریک آ زادی کے لیے وہ کس طرح نو جوانوں کے جذبے کو ابھا رتے ہیں:
’’پریم چند نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقا ضوں سے قوم کو واقف کرایا اور اس بات پر زور دیا کہ ملک کے نو جوان ایک محاذ پر جمع ہو کر غلامی اور بگڑی ہوئی صورت حال کا مقا بلہ کریں۔ اپنی دھرتی سے قلبی لگاؤ، آ زادی کے لیے تڑپ اور لگن کا اظہار، پریم چند کے ناولوں اور افسا نوں کے علاوہ ان کی دیگر تحریروں سے بھی ہوتا ہے۔‘‘
[پریم چند کی تخلیقات کا معرو ضی مطا لعہ، پروفیسر صغیر افراہیم، علی گڑھ2017ء]
’’فکشن کا صغیر رحمانی(صغیر رحمانی کے افسانے)‘‘ انجم پروین کی ترتیب شدہ کتاب ہے۔ ادھر ایک صحت مند رجحان یہ شروع ہوا ہے کہ نئی نسل کے بعض معروف افسا نہ نگاروں کے حوالے سے بھی کام ہونے لگے ہیں۔ صغیر رحمانی،نئی نسل کے منفرد فکشن نگار ہیں جن کے ناول اور افسا نے اپنے معاصرین سے نہ صرف الگ ہوتے ہیں بلکہ ان کا اسلوب انہیں بالکل واضح شناخت عطا کرتا ہے۔
انجم پروین نے صغیر رحمانی کے۱۵؍ افسا نوں کا انتخاب کیا ہے اور ایک طویل اور بھر پور مقدمہ بھی تحریر کیاہے۔مقدمے میں انجم پروین نے صغیر رحمانی کے معاصرین کا بھی مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ صغیر رحمانی کے فکشن کے تعلق سے وہ لکھتی ہیں:
’’انہوں نے جو کچھ لکھا اور جب لکھا وہ نہ تو ہوا ئی قلعے ہیں اور نہ محض ذہنی اختراع ہے بلکہ سماج کے ایسے کریہہ پہلو اور تلخ حقائق ہیں اور وہ غلا ظت ہے جس کی بساندھ پر لوگ ناک تو بند کرسکتے ہیں اسے وہاں سے ہٹا نے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ صغیر رحمانی کے قلم میں جو نوکیلی دھار ،ذہن میں جو تلملا دینے والا خیال ہے جب یہ دو نوں با ہم ضم ہو تے ہیں تو ایسی ایسی سفاک سچائیاں اور دلدوز واقعات و حقائق بے نقاب ہوتے ہیں کہ انسانی ضمیر بھی چند ثانیوں کے لیے جھنجھنا اٹھتا ہے۔‘‘
[صغیر رحمانی کا فکشن،انجم پروین، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2017ء]
راقم کی کتاب’’ اردو فکشن کے پانچ رنگ‘‘ بھی اس سال شا ئع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں داستان، ناول، ناولٹ، افسا نہ اور افسا نچہ پر تفصیلی مضامین اور متعدد تجزیے شامل ہیں۔ پروفیسر ساغر برنی مرحوم کا تحقیقی مقالہ ’’جدیدیت اردو افسا نہ: بدلتی قدریں‘‘ اردو افسا نے کی تنقید کے حوا لے سے ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ کوشش کتابی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
’’اردو کی معروف خوا تین افسا نہ نگار‘‘ (جلد اول) اسما ء نینی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ کتاب میں نذر سجاد حیدر، خاتون اکرم،رشید جہاں،حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، شکیلہ اختر، رضیہ سجاد ظہیر، ممتاز شیریں،قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، ہا جرہ مسرور، جمیلہ ہاشمی،صالحہ عابد حسین سے موجودہ عہد کی افسا نہ نگار جیلا نی بانو، ذکیہ مشہدی، نگار عظیم، ترنم ریاض، شائستہ فاخری تک تقریباً26؍ خواتین افسانہ نگاروں کے بارے میں ہر ایک پرتین چار صفحات پر مبنی مختصر نوٹ شامل کیے ہیں۔ان میں زیادہ تر وہی نام ہیں جو اکثر اس طرح کی کتاب میں شامل ہو چکے ہیں۔
’’حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات‘‘ ڈا کٹر عشرت ناہید کی مرتبہ کتاب ہے۔ حیات اللہ انصاری کا شمار اردو کے معروف افسا نہ نگاروں میں ہو تا ہے۔ ترقی پسند افسانے کی عمدہ مثال حیات اللہ انصاری کے تمام افسا نوں کو عشرت ناہید نے کتاب میں جمع کر کے اہم کام کیا ہے۔ اس سے حیات اللہ انصاری پر کام کر نے والوں کو سہولت ہو گی۔
’’انتظار حسین: حیات و فن‘‘ ڈا کٹر نعیم انیس کے ذریعے مرتب کردہ کتاب ہے۔ یہ کتاب در اصل انتظار حسین پر مغربی بنگال اردو اکادمی کے ذریعے منعقدہ سیمینار کے مقا لات کا مجمو عہ ہے جس پر ڈا کٹر نعیم انیس کا بھر پور مقدمہ شا مل ہے۔ کتاب میں انتظار حسین کے فکشن اور تنقید کے مختلف گو شوں پر26مضا مین شامل ہیں۔
ڈاکٹر رضوا نہ پروین کا تحقیقی مقالہ’’ الیاس احمد گدی اور سنجیو کی ناول نگاری: تقابلی مطالعہ‘‘ کتابی شکل میں سامنے ہے۔ ڈا کٹر رضوا نہ پروین نے بڑی محنت سے نہ صرف اردو اور ہندی کے دو ایسے ناول نگار جو ایک ہی علاقے اور ایک ہی عہد کے ہیں ،کا تقا بل کیا ہے بلکہ تقا بلی مطا لعے پر بھی خاصی بحث کی ہے۔ تقابلی تنقید کے حوالے سے ایک اچھی کتاب ہے۔
’’اردو کے غیر مسلم افسا نہ نگار‘‘ دیپک پدکی کی ایک اہم کتاب ہے، دیپک بدکی، خود ایک معروف فکشن نگار ہیں۔ انہوں نے تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کو برو ئے کار لاتے ہو ئے غیر مسلم افسا نہ نگاروں پریم چند سے لے کر جو گندر پال، رتن سنگھ تک کے تمام افسا نہ نگاروں کو شامل کیا ہے۔ ایک اچھی تحقیقی کتاب ہے۔
ادھر کئی اچھے مو نو گراف معروف اردو فکشن نگاروں پر شائع ہوئے ہیں۔ جن میں الیاس احمد گدی(ڈاکٹر ہمایوں اشرف)،غیاث احمد گدی(ڈا کٹر نسیم احمد نسیم) دیویندر سیتارتھی(عبد السمیع) خاص ہیں۔ مونو گراف کا فا ئدہ یہ ہو تا ہے کہ شخصیات کا ایک مختصر اور جامع محاکمہ ہما رے سا منے آ جاتا ہے۔
’’صغیر افرا ہیم کا تنقیدی شعور‘‘ڈاکٹرمظفر اقبال کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو کتابی صورت میں سامنے ہے۔ صغیر افراہیم معروف فکشن تنقید نگار ہیں۔ انہوں نے پریم چند اور عہد پریم چند پر خاصا کام کیا ہے۔ ان کی دیگر متعدد کتابیں بھی انہیں بحیثیت نا قد مستحکم کرتی ہیں۔ادھر انہوں نے افسا نے بھی لکھے ہیں جو گزشتہ برس’’کڑی دھوپ کا سفر‘‘ مجموعے کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی شخصیت اور تنقیدی کارناموں کا ڈا کٹر مظفر اقبال نے سلیقے سے احا طہ کیاہے۔
صادقہ نواب سحر، نے گزشتہ10-12برسوں میں بطور فکشن نگار اپنی مستحکم شناخت قائم کی ہے۔ ان کی فکشن نگارشات پر ایک ضخیم کتاب’’صادقہ نواب سحر:شخصیت اور فن ،فکشن کے تناظر میں‘‘ پروفیسر میر تراب علی اور اسلم نواب نے ترتیب دی ہے۔ کتاب میں صادقہ نواب کے افسانوی مجمو عے اور ناولوں پر مشاہیر کے مضامین، تبصرے، تجزیے وغیرہ شامل ہیں۔
’’طارق چھتاری: کردار و افکار‘‘ نئی نسل کے معروف ناقد ڈا کٹر راشد انور راشد کی نئے طرز کی کتاب ہے۔ ڈاکٹر راشد نے با لکل منفرد انداز میں طارق چھتاری کی شخصیت اور فن کے حوا لے سے کتاب تحریر کی ہے۔
’’خالد جاوید: شخصیت وفن‘‘ پر نو جوان ناقد محمد نہال افروز کی نہایت خوبصورت کتاب شا ئع ہوئی ہے۔ نہال افروز نے سنجیدگی کے ساتھ خالد جاوید کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں پر اظہار خیال کیا ہے۔
’’افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ(دہلی کے حوا لے سے‘‘ ڈا کٹر سر فراز جاوید کی تحقیقی و تنقیدی کتاب کا تیسرا ایڈیشن ، عرشیہ پبلی کیشنز سے نئے گیٹ اپ میں شا ئع ہوا ہے۔
اسی سال اردو افسا نوں کے دو اہم عالمی انتخاب شا ئع ہو ئے۔ رابعہ الرباء نے اردو افسا نے کا عالمی انتخاب کیا۔ دو جلدوں پر مشتمل اس انتخاب’’ اردو افسا نہ عہد حاضر میں‘‘ کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ اس پر اعترا ضات بھی بہت آ ئے کہ اس میں بہت سا رے افسا نہ نگار اس لیے چھوٹ گئے کہ انہیں خبر نہیں ہوئی اور مرتب نے اپنی سی کوشش کے بعد اسے شائع کردیا۔لیکن اب اس کی تیسری جلد شا ئع ہو نے والی ہے جس میں شا ید فہرست مکمل ہو جائے۔ دو نوں جلدوں کی مجمو عی ضخا مت۱۷۰۰صفحات کے قریب ہے۔
’’امریکا میں اردو افسانہ‘‘ مامون ایمن کی انتہائی اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ مامون ایمن نے بڑی محنت سے امریکہ میں رہنے وا لے تقریباً45 ایسے افسا نہ نگاروں کے افسا نے شامل کیے ہیں جو ہندو ستان اور پاکستان سے ہجرت کر کے امریکا پہنچے، یا جنہوں نے طویل عرصے تک وہاں قیام کیا۔کچھ امریکی اردو افسا نہ نگاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ویسے زیادہ تر افسا نہ نگار پا کستانی ہیں۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں افسا نہ۔ افسانے کے موضو عات، کردار، پلاٹ وغیرہ کے تعلق سے بھی مامون ایمن نے خاصی بحث کی ہے۔ مامون ایمن نے افسا نہ نگاروں کے احوال و کوائف کے علاوہ ان کا ایک افسا نہ اور تجزیہ شامل کیا ہے۔ امریکا میں اردو افسا نے کے تعلق سے یہ اولین کاوش ہے جسے مثال پبلشرز ،فیصل آباد نے شا ئع کیا ہے۔ کتاب 1150صفحات پر محیط ہے۔
2017ء کا ایک اہم واقعہ پروفیسر بیگ احساس کو ساہتیہ اکادمی انعام کا اعلان بھی ہے۔ انہیں یہ انعام ان کے تازہ ترین افسانوی مجموعے’’دخمہ‘‘ کے لیے دیا جائے گا۔ پروفیسر بیگ احساس اردو کے معروف فکشن نگار اور رسالہ ’سب رس‘ کے مدیر بھی ہیں۔ بیگ احساس کے افسانے انسانی اخلاق وکردار کے عروج و زوال کا نو حہ ہیں۔ عصری حسیت کو فنی مہارت سے استعمال کرنا ان کا خاص وصف ہے۔
2017ء میں ادب میں ایک نیا معا ملہ بھی سامنے آیا۔ ڈا کٹر ایم اے حق نے’’افسانچۂ اطفال‘‘ کے نام سے بچوں کے لیے افسا نچے لکھنے کی شروعا ت کی۔ افسا نچے اور افسا نچہ اطفال میں خاص فرق مو ضو عات اور اس کا طرزِ بیان ہے۔ شاعر نے اس پر خاص گوشہ بھی شائع کیا ہے۔
نوجوان صحا فی و ناقد منصور خوشتر کی کتاب ’’اردو ناول کی پیش رفت‘‘ نے بھی خاصی دھوم مچا ئی۔ کتاب میں اردو ناول کی مو جودہ صورت حال، موضو عات، کردار اور اہم ناولوں اور نا ول نگاروں پر مضا مین کے ساتھ ساتھ بعض ناولوں کے تجزیے بھی شا مل ہیں۔ کتاب اکیسویں صدی میں اردو ناول کے ارتقا کو سمجھنے میں خاصی معاون ہے۔
2017ء میں بعض رسائل کے اہم شمارے اور گو شے فکشن نگاروں پر شا ئع ہوئے۔ غالب نا مہ کا خصوصی نمبر ’’قرۃالعین حیدر ایک منفرد فکشن نگار‘‘شائع ہوا۔ اس میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے منعقدہ بین الا قوامی’’قرۃ العین حیدر سیمینار کے مقالے شامل ہیں۔ یہ خاص شمارہ قرۃ العین حیدر کے فکشن کی تفہیم و تعبیر میں طلبا اور اسا تذہ کے لیے خاصا مفید ثا بت ہو گا۔
عالمی اردو ادب ،دہلی نے انتظار حسین نمبر شا ئع کیا، ہماری آواز کا بھی تازہ شمارہ گوشہ انتظار حسین پر مشتمل ہے۔ مژگاں نے گوشۂ اسلم جمشید پوری شا ئع کیا۔تحریک ادب کا صغیر افراہیم پر گو شہ شائع ہوا۔زاویے کا خصوصی شمارہ مختصر افسانہ پر شائع ہوا۔ یہ رسالہ بریلی کالج کے شعبۂ اردو سے شا ئع ہوا ہے ۔ اس کے مدیران میں ڈاکٹر انوار وارثی اور ڈاکٹر شیویہ تر پاٹھی ہیں۔ ندائے گل پاکستان کا مائکرو فکشن نمبر شائع ہوا ہے جس میں مائکرو فکشن یعنی چھوٹی چھوٹی کہانیاں شامل ہیں۔
2017ء میں ہمارے کئی فکشن نگار ہم سے دائمی طور پر رخصت ہوئے۔ نیر مسعود(لکھنؤ)،بانو قدسیہ (پاکستان)، بلراج مین را(دہلی)،احمد جاوید(پاکستان)،اشفاق احمد (پاکستان)،ارشاد امرو ہوی( امروہہ)،حسن نظامی کیراپی (جمشید پور) وغیرہ اردو فکشن کی خدمت کر کے ملک عدم کو روا نہ ہو ئے۔
سوشل میڈیا پر فکشن
2017ء کو اس معنی میں مزید اہم کہا جاسکتا ہے کہ اس سال سوشل میڈیا خصوصا فیس بک اور وہاٹس ایپ پر فکشن کی دھوم مچی رہی۔ فکشن کے فروغ کے لیے متعدد گروپ سامنے آ تے رہے۔ پہلے جو اردو افسا نہ فورم تھا، وہ عالمی افسانہ فورم اورافسا نہ فورم کی شکل میں آگے آ یا ہے۔ اردو فکشن، قصہ کہا نی، کہانیاں، عالمی افسانوی کارواں ،انہماک فورم، کے علاوہ اردو نیٹ جاپان، شعرو سخن، اردو سخن، عالمی پرواز، ریختہ، اردو لائف ڈاٹ کام، اردو دوست ڈاٹ کام، دید بان اور وہاٹس ایپ پر اردو فکشن، عالمی اردو پروفیسرز گروپ، دستک ادبی فورم بی ایچ یو، اردو اسکالرز گروپ، ضیائے حق اردو اسکالرز گروپ، ادب سلسلہ، نیا دور، قمر صدیقی،اردو چینل ڈاٹ ان، صرف ادبی خبریں وغیرہ پر پرا نے شاہکار افسا نے، ناول، موجودہ افسانے، افسا نے اور ناول پر تنقید کی بھر مار ہے۔ وہاٹس ایپ پر پورے پورے ناول اپ لوڈ کیے جارہے ہیں۔ ہندوستان میں منصور خوشتر ، قمر صدیقی،راغب دیش مکھ،محمد علیم،صدف اقبال وغیرہ اور پاکستان میں اشرف شاد، سید تحسین گیلانی، حسیب اعجاز،دیگر ممالک میں صدف مرزا،سبین علی، وحید قمر، اسماء حسن، رابعہ الرباء، سرور غزالی وغیرہ سوشل میڈیا پر فکشن کی تبلیغ و اشاعت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اردو فکشن کا مستقبل بہتر ہے اور مزید بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔