اردو کا نیا فکشن
(معراج رعنا)
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی
کانپور، بھارت
The implied author is ‘always distinct from the ‘real man’. Whatever we may take him to be who creates a superior version of himself, a ‘second self,’ as he creates his work.”
The Rhetoric of Fiction, Wayne C. Booth, P.151, Chicago 1961
کسی ادبی تحریر کو پڑھنے کے بعد اگر طبیعت میں گرانی پیدا ہوتی ہے تو پڑھنے والے کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہونا چاہیے کہ اُس کی اس گرانیِ طبیعت کی وجہ کیا ہے؟ کیا زیرِ مطالعہ تحریر اجتماعی لا شعور کی پامال خواہشوں کا اظہار ہے؟ یا پھر وہ تحریر کسی سیاسی تقریر کی صفت سے متصف ہے؟
جب ہم یہ سوال قائم کرتے ہیں تو اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اجتماعی لا شعور کی پامال خواہشوں کا انکشاف کسی تحریر کو اتنا گراں بار بنا دیتاہے کہ اُس کا قاری گرانیِ طبیعت میں مبتلا ہو جائے؟ یا پھر یہ کہ سیاسی تقریر عام طور پر ہر نوع کی بصیرت افزائی سے عاری ہوتی ہے؟ کیوں کہ اس میں عوام کے ایک بڑے طبقے کو سامعین کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان سوالوں کا جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ اجتماعی لاشعور کے اظہار کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی تقریر کی عمومیت کے بیان کا مسئلہ، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دیکھا جائے تو ادب میں موضوعات و مسائل کی تقسیم و تخصیص ہی بے سود ہے۔ ادب کی سب سے بڑی قوتِ متحرکہ انسان کا داخلی وجود ہے جو اُس کی خارجی صورتِ حال سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اُس پر برابر اثر انداز بھی۔
وہ ادبی تحریر جو فرد کے داخل اور اُس کے خارج کے بیچ کے انسلاک و اتحاد سے پیدا ہوتی ہے، اُس میں ایک ناقابلِ بیان فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن وہ تحریر جو فرد کی داخلی اور خارجی دنیاؤں کے درمیان کے تعطل سے معرضِ ظہور میں آتی ہے، اُس میں قاری کی گرانیِ طبیعت کا سامان وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
آٹھویں دھائی کی شاعری کے بر عکس آٹھویں دھائی کی افسانوی تحریروں میں سے اگر ہم سلام بن رزاق، عبدالصمد، سید محمد اشرف، طارق چھتاری، شفق، حسین الحق، خالد جاوید اور ناصر عباس نیر کی افسانوی تحریریں الگ کر دیں تو باقی تحریروں کے مطالعے سے گرانیِ طبیعت کا اندازہ خوب ہوتا ہے کیوں کہ اُن میں فرد کی کسی بھی داخلی بصیرت کا خارجی حوالہ نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسی تحریروں کا قبح اُن کے لکھنے والوں کی نظر میں حُسن ہو لیکن دراصل وہ ایک بڑا قبح ہے۔
اردو کے اکثر و بیشتر نئے فکشن نگار اس حقیقت سے بے نیاز ہیں کہ مسائلِ محض کے اظہار سے کوئی افسانوی بیانیہ قائم نہیں ہوتا۔ لیکن جب یہ بات کہی یا لکھی جاتی ہے تو اِس سے یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ افسانوی بیان کے ظہور کی کیا صورت ہے؟ یا پھر یہ سوال بھی نا گزیر حد تک اپنے جواب کا متقاضی ہوتا ہے کہ اگر مسائل کا افسانے سے کوئی علاقہ ہے تو اُس علاقے کی نوعیت کس حد تک کسی افسانوی بیانیے کو تقویت بخشتی یا بخش سکتی ہے؟
یہ ایک سیدھی سادی بات ہے کہ جب ہم کسی تحریر کواُس کی ہیئتی شناخت کے ساتھ قبول کرتے ہیں تو اُس کے سارے اسرار و رموز ہمارے ذہنِ سلیم پر خود بہ خود واضح ہو جاتے ہیں۔ مثلا اگر کوئی افسانہ ہے تو ظاہر ہے کہ اُس میں ایک قصہ بھی ہوگا پلاٹ، کردار، جزئیات نگاری، مکالمہ نگاری اور ایک نقطۂ نظر بھی ہوگا۔
غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان تمام عناصرِ مرکبہ میں مسئلے یا مسائل کا کہیں بھی مذکور نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ فکشن کی بافت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فکشن میں کردار کا وجود ہی اس لیے قائم و دائم ہوتا ہے کہ وہ واقعات کے سلسلے کو آگے بڑھائے جو کسی ناول یا افسانے میں قصے کی تقسیم سے پیدا ہوتے ہیں۔
پھر اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں افراد( کردار )ہونگے وہاں ایک معاشرہ بھی ہوگا۔ جہاں معاشرہ ہو گا وہاں مسائل بھی ہوں گے۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ افسانے کی بنت میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ لیکن گڑ بڑ اُس وقت پیدا ہوتی جب کسی ناول یا افسانے میں مسئلے کے سپاٹ بیان کو افسانوی بیانیہ سمجھنے کی سخت غلطی کی جانے لگتی ہے۔
اعتراض کیجیے تو اُن فکشن نگاروں( جو فکشن نگار کم اور بیان کُنند گان زیادہ ہیں )کی طرف سے متعدد عاری الدلیل دعوے کیے جانے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کے ہر دعوے کی مشترکہ خوبی مسائل کی ندرت سے مشروط ہوتی ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے بات تسلیم کر بھی لیں کہ فکشن کے ظہور کی شرطِ اساسی مسئلہ ہوتا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کس نوع کا ہوگا؟ چلیے یہ بات بھی تسلیم کرلی جائے کہ یہاں ہر نوع کے مسائل( سماجی، سیاسی، مذہبی، اقتصادی )کو مساوی طور پر فضیلت حاصل ہوگی۔
صاحب، جب فکشن کے توسط سے سماج، سیاست، مذہب اور اقتصادیات پر گفتگو مقصود ہے تو پھر فکشن پڑھنے سے کہیں زیادہ اچھا ہے کہ Max Weber کی Economy and Society ،Howard Zinn کی The Politics of History، ابو حنیفہ کی کتاب الاطہر اور کارل مارکس کی Das Kapital پڑھ لی جائے کہ اِن کی تحریریں علومِ مذکورہ کی مصادرِ اولین ہیں۔
جدید فکشن کے متعلق جو گمراہیاں ترقی پسندوں نے پھیلائی تھیں وہ آج کے نئے فکشن کی کوتاہیاں بن گئی ہیں۔اس لیے نئے فکشن میں مسائل کی متبدل صورتِ حال سے پیدا ہونے والی کشش نظر نہیں آتی۔ مسئلے کو چند خانوں میں منقسم کر کے اصل مسئلہ جو فرد (کردار )کے درونِ ذات سے تعلق ر کھتا ہے، اردو کے زیادہ تر نئے فکشن میں معدوم الوجود نظر آتا ہے، اور جو فکشن نگار کی لاعلمی سے زیادہ اُس کی تادیبی سازش معلوم ہوتی ہے۔
مذکورہ سطور سے کچھ ثابت ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات ضرور نمایاں ہو جاتی ہے کہ فکشن حقیقت کا نرا بیان نہیں کہ اِس کی بنیاد ہی جھوٹ پر قائم ہوتی ہے۔ یعنی حقائق جب تک کسی تخیلی دنیا سے اپنے منطقی روابط استوار نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ تو مسئلے کی صداقت قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی افسانوی بیانیہ کا ظہور ممکن ہو سکتا ہے۔
چونکہ یہ تخلیقی شعور نئے فکشن میں ناپید ہے اس لیے زبان کی وہ سحر آفرینی بھی نظر نہیں آتی جو افسانوی بیانیے کی تولیدی سبیل بھی ہے اور خارجی مسائل کی تخیلی تحلیل بھی۔ اس بات کو مندرجہ ذیل مثالوں سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
وہ دلیر عورت ہے۔ میں جانتا ہوں۔ ورنہ میں نے
ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو ایک گھر
میں پانچ پانچ بچے جننے کے بعد دوسرے
مرد کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں۔ وہ رکا، عورتیں
بری نہیں ہوتیں۔ یہ میرا یقین ہے، پر اپنے اپنے
حوصلے کی بات ہے۔ جس کا حوصلہ نہیں ہوتا
وہ کبھی محبت نہیں کر سکتی۔ اسے ساری
عمر دھوکہ دہی سے کام لینا پڑتا ہے۔
(اداس نسلیں۔ص۱۰۵)
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور جب الیاسف
نے آنکھیں بند کیں تو اُس کا دھیان اندر کی
طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے
کنوئیں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف نے
درد کے ساتھ کہا کہ اے میرے معبود میرے باہر
بھی دوزخ ہے، میرے اندر بھی دوزخ ہے۔
(آخری آدمی،ص ۲۶)
اب راماناتھن کہہ رہا ہے۔ اگر تم لوگ نہ آئے ہوتے
تب بھی ہندوستان مغربی علوم سے بہرہ ور ہو
جاتا، ٹیپو سلطان شہید اور راجہ رام موہن رائے
دونوں فرانس کے مداح تھے۔۔۔ اب ہمارے مقابلے
پر ایک ہیرو کی ضرورت محسوس ہوئی، تم
چالاک لوگوں نے اُسے اور سراج الدولہ کو ہیرو
بنا لیا۔ دونوں اینٹی ہندو تھے۔
(آخرِ شب کے ہمسفر، ص ۱۸۸)
بس وہی منظر یاد آتا ہے۔ ایک گھوڑے پر تیمور بیٹھا
ہے،اس کا چہرہ دشمنوں کے خون سے لتھڑا ہے۔
سامنے گھوڑے پر ایک بے سر کا دھڑ ہے جو ابھی
تک گھوڑے پر سوار ہے اور فضا میں ہیبت سے پھٹی
آنکھوں والا ایک سر ہے جو ابھی زمین پر گرا نہیں
ہے۔دونوں ایک ہی وجود کے حصے ہیں اور دونوں
میں ابھی روح ہے۔
(آخری سواریاں،ص ۱۹۱)
مندرجہ بالا اقتباسات اردو کے چند مشہور ناول اور افسانے سے لیے گئے ہیں، جن میں حقائق کی متبدل صورتِ حال سے ایک نئے قصے کی بافت نمایاں ہے اور زبان کا وہ طلسم بھی جو بیانیہ کی شرطِ اساسی بھی ہے حقائق کو تخیل سے مربوط کرنے کا وسیلہ بھی۔
اردو کے نئے فکشن نگاروں کے یہاں یہ غلط فہمی بھی رائج ہو گئی ہے کہ کسی حادثے کا من و عن بیان ہی در اصل حقیقت پسندی ہے۔ جب کہ حقیقت پسندی یہ ہے کہ خیال کی مدد سے کوئی ایسا واقعہ گھڑا جائے جس پر حقیقت کا گمان گزرتا ہو یا گزرنے کا امکان رکھتا ہو۔
شائد یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات ہمیشہ حادثے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نتیجتا معاشرے میں جوں ہی کوئی حادثہ رو نما ہوتا ہے، اُن کے قلم سے دھڑا دھڑ افسانے اور ناول نازل ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اُنھیں یہ کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ٹھہر کر یہ سوچ سکیں کہ اُن کے ناولوں اور افسانوں میں کوئی ایسا بابِ معنی بھی ہے جہاں قاری داخل ہوکر متحیر ہو جائے۔