اردو کی خوشبو
فرہاد احمد فگارؔ
جب انسان کو دنیا میں بھیجا گیا تو اس کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے زبان بھی ودعیت کی گئی۔ہر قوم اور ہر قبیلے کی الگ الگ زبان رکھی گئی۔زبان ایک ایسا ذریعہ ہے جو آپس میں میل جول اور رابطے کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔دنیا میں جتنی بھی قومیں ہیں ان سب کے لیے جہاں دیگر کئی علامات شناخت کا باعث ہیں وہیں ایک بہت اہم علامت اس قوم یا قبیلے کی زبان بھی ہوتی ہے۔زبان دنیا میں موجود کسی بھی قوم یا قبیلے کی واضح اور منفرد پہچان کہلاتی ہے۔آج دنیا میں جو قومیں عروج پر ہیں انھوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اپنی زبان سے استفادہ ضرور کیا۔۱۹۴۷ء میں ہمیں عظیم اور لازوال قربانیوں کے بعد ایک الگ ملک حاصل ہوا تو بانئ پاکستان نے اس پاک سر زمین کی قومی زبان’’اُردُو‘‘کو قرار دیا۔
قائداعظم کی دور اندیشی نے اس زبان کے اندر اُن خوبیوں کو جانچ لیا تھا جو اس ملک کی قومی زبان میں ہونی چاہئیں تھیں۔ یہ زبان اس وطن کے ہر ہر مردم کے مابین بہترین رابطے کا ذریعہ بننے کی اہل تھی کیوں کہ اس کے اندر دیگر زبانوں کے الفاظ سمونے کی اہلیت بہت زیادہ ہے۔ ایسی زبان کو قبول کرنا اس ملک کے ہر شہری کے لیے نسبتاً آسان تھا جس میں علاقائی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہو سکیں۔یوں بھی ۱۹۴۴ء میں کشمیر کے مہاراجا نے اسی زبان کو اس کی اہمیت اور لوگوں کی دل چسپی کے پیشِ نظر کشمیر کی سرکاری زبان کا درجہ بھی دے دیا تھا۔ جس وقت تحریکِ پاکستان عروج پر تھی اس وقت بھی عوام میں مقبولیت اسی زبان اردو کو حاصل تھی اور یہ لوگوں کی محبوب زبان تھی۔ برصغیر پاک و ہند میں اردو کو مسلمانوں ہی کی زبان کہا جانے لگا تھا ۔ چوں کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تو مسلمانوں کی اسی زبان کو اس کی قومی زبان کے لیے اہم سمجھا گیا۔ انھی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس قوم کو اُردو سے بہتر دوسری کوئی زبان نہیں نظر آتی۔
بہ حیثیتِ مجموعی بھی اس زبان کا دیگر علاقائی زبانوں سے مضبوط رشتہ اور گہرا تعلُق ہے۔ ہمارے ہاں جتنی بھی زبانیں ہیں سب عربی اور فارسی کے زیرِ اثر ہیں جب کہ رسم الخط بھی سبھی کا وہی ہے جو کہ اردو کا ہے۔اردو کا چلن بھی عربی اور فارسی سے ہی ہے اس لیے اُس وقت تبلیغِ اسلام کے لیے بھی اردو کو استعمال میں لاتے ہوئے بزرگانِ دین نے اسی کا سہارا لیا۔ وقت بدلا فارسی کی جگہ اردو نے لے لی اور رفتہ رفتہ یہ زبان انگریزی کے زیرِ تسلط آگئی۔انگریزی کا چلن عام ہوادفاتر،اسپتال،دکانیں اور بازار وغیرہ اردو کی بہ جائے انگریزی زبان میں لکھی گئی تختیوں اور کتبوں سے سج گئے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے تحریکِ نفاذِ اردو کے ذریعے قومی شاہراؤں پر آویزاں کتبوں کو کسی حد تک اردو کا جامہ پہنایا لیکن وہ بھی اردو کو مکمل طور پر نافذ کروانے میں ناکام رہے۔ ایسے ہی اردو سے محبت رکھنے والوں نے اس زبان کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اس کے فروغ کے لیے اپنی اپنی خدمات پیش کیں۔
حیف کہ ہمارے حکمرانوں اور منتظمینِ اعلا کی غلامانہ سوچ ہمارے عوام کو اس جال سے نکلنے نہیں دے رہی جس میں وہ مکھی کی طرح پھنسی ہوئی ہے۔۱۹۴۷ء میں انگریز سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن اس کے تسلط سے ذہنی طور پر آزاد ہونا ابھی باقی ہے۔کیوں ہم اس کی غلامی کے چولے کو اتارنے میں ناکام ہیں؟ہم نے گونگوں کی طرح اپنی زبان سے ناتا کیوں توڑ لیا ہے؟کیا ہماری زندگی میں انگریزی اس قدر ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان بولنے میں عار محسوس کریں؟ایک صاحبہ جن کو انگریزی بولنے کا خبط تھا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول کر مطمئن رہتی تھیں۔ ایک دن اسی جنون میں اپنے نونہال کو پیشاب کرواتے وقت انگریزی میں یوں گویا ہوئیں ڈو سو سو (DO SU SU)اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خود اپنی کو آتی نہیں غیر کی کو لکھے جا رہے ہیں اور انگریزی کی چوسنی کو منہ سے نکالنا باعثِ ذلت سمجھتے ہیں۔میں کسی زبان کا مخالف نہیں لیکن مجھے اپنی زبان سے محبت ہے ۔میرے ساتھ ساتھ محبانِ اردو کی ابھی بھی نایابی نہیں۔اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے اقدامات اٹھانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
ہمارے وہ مہربان جنھوں نے اس زبان سے وفا کی ۔وہ یقیناًہمارے محسن ہیں جنھوں نے حالات کو جانچتے ہوئے اپنی قومی زبان کے رائج کرنے میں اہم پیش رفت کی۔ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ یا عدالتِ عظمیٰ ہے۔اس عدالت میں جتنے بھی احکامات جاری ہوتے ہیں وہ انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے محترم جسٹس جواد ایس خواجا نے مُلک میں قومی زبان کے نفاذ کے جو احکامات جاری کیے اُس سے اس زبان کی عظمت پہلے سے بھی بڑھ گئی۔دنیا کی دوسری بڑی زبان اردو ہی ہے۔جب تک ہم ذہنی طور پر انگریز کی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے علم و تحقیق کے چشمے خشک رہیں گے۔جسٹس خواجا کے بعد آزاد ریاست جموں و کشمیر کی عدالتِ عظمیٰ کے سینئر جسٹس چودھری ابراہیم ضیا نے اردو میں کئی مقدمات کے فیصلے صادر کرتے ہوئے قومی زبان کی ترقی میں ایک بڑا قدم اٹھایا۔انھوں نے ایک ایسی شمع جلائی جس کی ضیا سے زمانہ منور ہو گا۔چودھری ابراہیم ضیا کے اس تاریخی فیصلے کی تحسین کے لیے آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی شعبۂ اردو میں ۳، جنوری ۲۰۱۶ء کو ایک خوب صورت تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔
یہ تقریب در اصل ان لوگوں کے لیے ایک پیغام بھی تھا جو انگریزی کی وکالت کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان یہ سکت نہیں رکھتی جو اس ملک میں ذریعۂ ابلاغ بن سکے۔ہمارے ملک میں انگریزی پڑھانے والا بھی اپنی تفہیم کے لیے اردو کا ہی محتاج ہے اور ریاضی پڑھانے والے کے لیے بھی اردو ہی معاون و مدد گار ہے۔ اردو زبان ہر کس و ناکس کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے چین میں چینی،جاپان میں جاپانی، فرانس میں فرانسیسی ،فارس میں فارسی ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ اردو زبان ملک کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں سمجھی جاتی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر یونی ورسٹی مظفر آباد میں شعبۂ اردو ڈاکٹر عبدالکریم کی سربراہی میں اردو کے نفاذ کے لیے علم بلند کیے ہوئے ہے۔شعبے کے اساتذہ کے ساتھ ساتھ جملہ طلبہ کے اندر بھی یہ سوچ تحریک بن کر پنپ رہی کہ اردو ہماری زبان ہے اور ہم اس کے علم کو کبھی سر نگوں نہ ہونے دیں گے۔ محمد علی ساحل کے اس ہم ہیں تہذیب کے علم بردار
ہمکو اردو زبان آتی ہے