بھارت میں اردو کی صورت حال
(ڈاکٹر ناصرعباس نیر)
بھارت میں اردو کی صورتِ حال کی تفہیم چند ٹھوس لسانی حقائق کی روشنی میں بہتر طور پر ہو سکتی ہے۔ بھارت ایک کثیر لسانی ملک ہے۔ بھارت کے ۱۹۵۰ کے آئین کے آٹھویں شیڈول کے مطابق مرکزی حکومت بائیس ہندوستانی زبانوں کی سرپرستی و ترقی کی ذمہ دار ہے۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ اسی آئین میں ہندی کو دیو ناگری رسم خط کے ساتھ بھارت کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ چوں کہ ہندی کو فوری طور پر سرکاری دفتری زبان بنانا ممکن نہیں تھا،اس لیے اسی آئین میں یہ شق شامل کر دی گئی کہ آئندہ پندرہ برسوں تک انگریزی سرکاری، دفتری زبان کے طور پر رائج رہے گی۔ (ہم نے بھی ۱۹۷۳ کے آئین میں انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لیے پندرہ برس کی مدت مقرر کی)۔
۱۹۶۴ میں جب ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں تو جنوبی بھارت میں اس کا شدید ردّعمل ہوا۔تامل ناڈو ،مغربی بنگال، کرناٹک ، آندھرا پردیش میں لسانی فرقہ واریت کے بھوت نے بھارت کی قومی یک جہتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا۔ ان لسانی فسادات سے اگر کسی زبان کا مقدر چمکا تو وہ انگریزی تھی۔ہندی کا قومی زبان بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا،مگر ۱۹۶۷ میں آئین میں ترمیم کر کے انگریزی کے بہ طور سرکاری دفتری زبان بدستور شامل رہنے کی کی شق شامل کر دی گئی۔ جنوبی ہند کی ریاستوں نے مقامی زبان ہندی کی بجائے ،نو آبادیاتی عہد کی یادگار، غیر مقامی انگریزی زبان کی بالادستی کو قبول کر لیا۔ شاید اس لیے کہ ہندی اپنے قومیت پرستانہ دعوے میں تامل، تلگو، ملیالم، کنڑ کی حریف بنتی تھ، اور ایک قسم کے مقامی لسانی استعمار کی صورت اختیار کرتی تھی۔ ویسے اپنی جگہ یہ کافی دل چسپ بات ہے کہ غیر مقامی لسانی استعمار قبول، مگر مقامی لسانی استعمار نہیں۔ اسی سے کچھ مماثل صورتِ حال پاکستان میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ یہاں کے قوم پرست اپنی مقامی زبانوں پر انگریزی کی بالادستی بخوشی قبول کرتے ہیں،مگر ’’اردوکے استعمار ‘‘ کو نہیں۔
بھارت کی سرکاری لسانی پالیسی سہ لسانی فارمولے پر مبنی ہے۔ یہ فارمولہ بھی بڑی حد تک ۱۹۶۴ کے بعد کے لسانی فسادات کی کوکھ سے پیدا ہوا۔ ۱۹۶۸ کے نیشنل پالیسی ریزولیشن کے تحت رائج ہونے والا یہ فارمولہ واضح کرتا ہے کہ تمام ہندوستانی طالب علم ثانوی جماعت تک تین زبانیں سیکھیں گے۔ ہندی بولنے والے علاقوں میں ہندی، انگریزی اور کسی ایک مقامی زبان کا انتخاب کیا جائے گا۔ مثلاً نیو دہلی میونسپل کارپوریشن کے تحت سکولوں میں ہندی پہلی، انگریزی ثانوی اور پنجابی، سنسکرت اور اردومیں سے کوئی ایک تیسری زبان کے طور پر منتخب کی جائے گی۔غیر ہندی علاقوں میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے۔پہلی زبان مقامی ہوگی،انگریزی ثانوی زبان کے طور پر موجود رہے گی ،اور تیسری زبان ہندی ہوگی۔ گویا ہندی اور انگریزی کو اس فارمولے میں تحفظ حاصل ہے۔ یہ فارمولہ بڑی حد تک سوویت یونین کی لسانی پالیسی سے مطابقت رکھتا تھا۔ (ہم نے اگر امریکا کو ماڈل بنایا تو بھارت نے سوویت یونین کو۔اس طوردونوں ملک برطانوی نو آبادیات کے بعد نئی نو آبادیات کے زیرِ اثر آئے) ۔سابق سوویت یونین میں جس طور روسی زبان کو وسطی ایشیائی ریاستوں میں، ان کی مقامی زبانوں پر مسلط کرنے کی کوشش ہوئی،اسی طرح کی کوشش ہندی کے سلسلے میں ہوئی۔حالاں کہ روسی ہی کی مانند ہندی پورے ملک کی زبان نہیں تھی ۔البتہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں اس کے بولنے والوں کی تعداد بہ ہر حال زیادہ ہے۔سوویت یونین کی طرف بھارت کے جھکاؤ نے برطانوی استعماری اثرات کو مٹانے میں بلاشبہ مدد دی ۔مثلاً۱۹۶۷ میں سوشلسٹ لیڈر رام منوہر لوہیا نے انگریزی کو اانگریز استعمار کی نشانی سمجھ کر ہی انگریزی ہٹاؤ تحریک چلائی،مگر چوں کہ اسے ہندی کے حق چلایا گیا،اس لیے جنوب میں اس کابھی ردّعمل ہوا۔
۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق ہندی بولنے والوں کی تعداد ۴۲۲ ملین تک ہے۔ واضح رہے کہ راجھستانی ، بھوجپوری ،اودھی اور چھتیس گڑھی کو ہندی کی بولیاں قرار دے کر اس میں شامل کیا گیا ہے ۔اس کے بعد بنگالی (۸۳ ملین)، تیسرے نمبر پر تلگو(۷۴ ملین)،چوتھے نمبر پر مراٹھی(۷۲ ملین) ،پانچویں نمبر پر تامل (۶۱ ملین)، جب کہ چھٹے نمبر پر اردو ہے ،جسے ۵۶ ملین لوگ اپنی مادری زبان قرار دیتے ہیں۔بھارت کی تمام ریاستوں پر یہ لازم کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کو پرائمری کی سطح پر ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی سہولیات فراہم کریں۔ اسی طرح ہر ریاست اپنی سرکاری زبان کا فیصلہ کر سکتی ہے۔مگر مادری زبان میں تعلیم اور سرکاری زبان کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اردو ،بھارت کی کسی ریاست کی اکثریتی زبان نہیں۔ لہٰذ ا اسے سوائے جموں کشمیر کے کسی ریاست میں پہلی زبان کا درجہ حاصل نہیں۔البتہ دہلی، اتر پردیش، آندھرا پردیش، بہار میں اسے ثانوی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ثانوی زبان کا مطلب یہ ہے کہ ان ریاستوں کی سرکاری دستاویزات ،اعلانات ، قوانین ،عوام سے خط کتابت کا اردو میں اہتمام کیا جائے گا۔ کبھی اس قانون پر عمل ہوتا ہے ،کبھی نہیں۔ تاہم جب کوئی بات آئین میں شامل ہوجاتی ہے تو اس کے ضمن میں تذبذب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
دہلی ،جو اردو کا سب سے عظیم مرکز رہا ہے ،وہاں اردو کی حقیقی صورت حال کیا ہے؟ چند حقائق اس کا جواب فراہم کر سکتے ہیں۔ ۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں فقط چھ اعشاریہ تین ایک فی صد اردو بولنے والے ہیں،جب کہ ہندی بولنے والوں کی تعداد ،۸۱ فی صد کے برابر ہے۔ہندی، اردو کا یہ شماریاتی فرق ،تاریخ کے کئی المناک ابواب یاد دلاتا ہے۔ تاریخی اور لسانیاتی اعتبار سے ہندی، اردو ایک ہی زبان یعنی کھڑی بولی کی معیاری شکلیں ہیں،مگر رسم خط اور ہندی و اسلامی نیشنلزم نے دونوں میں دنیا کی دوسری بڑی تفریق کو پیدا کیا ہے۔پہلی تفریق اسلام و عیسائیت کی تھی اور دوسری زبان کی بنیاد پر ہندو، مسلم کی ہے ۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ہندی اور اردو زبانیں ہیں،اور دونوں کے ساتھ مذہبی جذبات اور مذہبی شناختیں وابستہ ہیں۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت میں اردو،بھارتی مسلمانوں ہی کی طرح اقلیتی زبان ہے۔
۲۰۰۸ تا ۲۰۱۰ کی لسانی کمشنر کی بھارت کی اقلیتی زبانوں سے متعلق رپورٹ میں دہلی کی ایک کروڑ اڑتیس لاکھ پچاس ہزار کی آبادی میں اردو سکولوں سے متعلق چشم کشاباتیں ملتی ہیں۔ نیو دہلی میونسپل کارپوریشن کے تحت پرائمری سطح پر صرف ۹ سکول ہیں جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے ۔ان میں دہلی کی چھ اعشاریہ اکتیس فیصدیعنی بائیس لاکھ سے اوپر اردو بولنے والی آبادی کے صرف ۷۳۵بچے زیر تعلیم ہیں۔انھیں ۳۲ اردو اساتذہ پڑھاتے ہیں۔جب کہ چار پرائمری سکول ایسے ہیں جہاں اردو بہ طور مضمون پڑھائی جاتی ہے ۔ان میں طلبا کی تعداد ۲۷۸ اور اساتذہ کی چار ہے۔ پرائمری درجے سے اوپر صرف چار سکول ہیں جہاں اردو ذریعہ ء تعلیم ہے ۔یہاں فقط ۱۹۵ طلبا اور آٹھ اردو اساتذہ ہیں۔اسی طرح صرف چار سکولوں میں اردو بہ طور مضمون پڑھائی جاتی ہے ۔محض ایک اردو میڈیم سیکنڈری سکول ہے ،جہاں طلبا کی تعداد صرف اور صرف ۳۴ ہے جنھیں تین اساتذہ پڑھاتے ہیں۔اس درجے کے چار سکولوں میں اردو بہ طور مضمون پڑھائی جاتی ہے ۔چار اساتذہ ۲۷۸ طلبا کو پڑھاتے ہیں۔
۱۹۷۰ کے بعد ان تمام علاقوں میں اردو اکیڈمیاں قائم کی گئیں جہاں اردو بولنے والوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے۔ انھیں حکومت فنڈ دیتی ہے،جن سے کتابیں شایع کی جاتیں، جلسے کیے جاتے اور کتابوں پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یوپی ،بہاراور آندھراپردیش کی بیش تر جامعات میں اردو کے شعبہ جات ہیں۔ چوں کہ سکول و کالج کی سطح پر اردو بہ طور مضمون کم جگہوں پر ہے ، اس لیے ان جامعات کے اردو شعبوں میں زیادہ تر دینی مدارس کے طلبا داخل ہوتے ہیں۔ وہی ایم اے سے پی ۔ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرتے ہیں،اور انھی میں سے کچھ لوگ با قاعدہ طور پر اردو تحقیق و تنقید لکھتے ہیں۔بھارت میں اردو زبان کے حوالے سے یہ ایک مکمل پیراڈائم شفٹ ہے۔بیسویں صدی کے اوائل تک اردو یوپی کے’ شریف طبقات ‘(یعنی ایلیٹ کلاس) کی زبان تھی؛مگر اب اسے معاشی طور پر پس ماندہ طبقات اختیار کر رہے ہیں۔ ہر چند انیسویں صدی میںیوپی کے مسلمان شرفا ہی نے اردو کو اپنی زبان قرار دیا ،مگروہ مزاجاً سیکولر تھے ،لہٰذا انھوں نے اپنی مذہبی شناخت اور زبان کی مذہبی شناخت کو گڈ مڈ نہیں کیا۔لیکن اب صورتِ حال دوسری ہے۔دینی مدارس کے طلبا ،اردوکو بہ یک وقت اپنی مذہبی لسانی شناخت کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ اس کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ ان طلبا کو ادب کی انسان دوست ،مذہب و فرقے سے بالاتر روایت سے کم تعلق ہوتا ہے۔
ان حقائق ہی سے اردو کی صورتِ حال کا کچھ حصہ از خود سامنے آجاتا ہے۔ مثلاًبھارت کے مجموعی لسانی منظرنامے میں اردو ایک اقلیتی زبان ہے۔ اردو کا اقلیتی زبان سمجھا جانا خاصا معمائی یعنی problematic ہے۔ بادی النظر میں اردو اس لیے اقلیتی زبان ہے کہ اس کو مادری زبان قرار دینے والے نسبتاً کم ہیں،مگر اس کا اقلیتی ہوناخاص مفہوم رکھتا ہے۔ بھارت میں کئی اور زبانیں ہیں جنھیں بولنے والوں کی تعداد نہایت کم ہے ۔جیسے مین پوری،(پندرہ لاکھ)،سندھی (پچیس لاکھ)،ڈوگری(تئیس لاکھ)اور سنسکرت(ایک لاکھ)۔مگر یہ زبانیں نہ تو اردو کی طرح حاشیے پر ہیں اور نہ ہی انھیں اکثریتی زبان کے جبر کا سامنا ہے۔ایک تو انھیں ان کا حق ملا ہے،دوسرے وہ اس لسانی سیاست کا شکار نہیں ہوئیں ،جسے آزادی سے پہلے ہندی قومیت پرستی نے شروع کیا۔ہندی قومیت پرستی کی زد جنوب کی زبانوں پر پڑی تو انھوں نے اپنا حق منوا لیا،مگر اردو کو اپنے ہی وطن سے جلا وطن ہونا پڑا۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اردو کی صورتِ حال کو اگر کوئی ایک نام دیا جا سکتا ہے تو وہ یہی جلا وطنی کا ہے۔
یہ درست ہے کہ بھارت میں اردو کے متعدد ممتاز ادیب، دانش ور موجود ہیں؛معاصراردوفکشن ،تنقید اور تحقیق میں اکثر بڑے ناموں کا تعلق بھی بھارت سے ہے ،اسی طرح متعدد اردو رسائل ،کتابیں خاصی تعداد میں شایع ہورہی ہیں۔مگر اسی کے ساتھ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اردو سکول کی تعلیم ،سرکاری دفاتر ،کاروبار خط کتابت سے خارج ہے۔خود اردو ادبا کے بچے اردو نہیں پڑھ سکتے۔بھارت سے اردو کی جلاوطنی کا آغاز اگرچہ اس وقت ہوا تھا جب اسے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا،تاہم حقیقی طور پر اردو بھارت سے اس وقت جلا وطن ہوئی جب بھارت میں ۱۹۵۶ میں لسانی بنیادپر ریاستیں بنائی گئیں،جن میں مہاراشٹر، آندھرا پردیش ،کرناٹک اور کیرالا شامل ہیں۔ اردو والوں نے بھی اسی بنیاد پر یوپی کواردو کی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا ،مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو کو کسی علاقے کی زبان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ڈاکٹر گیان چند نے لکھا ہے کہ ’’اردو کی ریاست کہیں نہیں بنی کیوں کہ اس کا کوئی علاقہ نہ تھا‘‘۔ (ایک بھاشا دو لکھاوٹ ،دو ادب ، ص ۲۶۱)۔ جسے ماہرین لسانیات نے اردو کا علاقہ قرار دیا ہے،اسے قومیت پرستی کی سیاست نے ہندی کا علاقہ قرار دیا ۔صداقت پر سیاست کس طور غالب آتی ہے ،اس کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
اس وقت بھارت کے اردو دانشور اردو کے سلسلے میں دو قسم کے ڈسکورس کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت قائم کرنے، اور انھیں یک جہتی سے ہم کنار کرنے میں اردو اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بھارت کی جمہوری سیاست بھی اس نکتے کو پیش نظر رکھ کر مسلمان اکثریت والے علاقوں میں اردو کے لیے مراعات کا اعلان کرتی ہے،تاکہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔دوسرا ڈسکورس اردو کو ایک سیکولرزبان قرار دینے سے عبارت ہے۔اس میں زبان کی مذہبی شناخت کی بجائے اس کی ثقافتی شناخت پر اصرار کیا جاتا ہے،لہٰذا اردو کو مشترکہ تہذیب کی زبان قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹر عابد حسین، آل احمد سرور،گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی ،مشیر الحسن ،ستیہ پال آنند ،اطہر فاروقی اور کئی دوسرے دانش ور وں نے اردو کو مشترکہ، گنگاجمنی تہذیب کا علم بردار قرار دیا ہے،ہمارے انتظار صاحب بھی اسی رائے کے حامی ہیں۔
یہ سب لوگ اردو کے اس کردار کی توضیح کرتے ہیں جو ہندو مسلم خلیج کو کم کرسکتا ہے ۔ عبدالجمیل خاں نے ایک بڑی عمدہ بات لکھی ہے۔ یہ کہ ’’ زبان و کلچر جوڑکر رکھنے والے، حرکیاتی ،اور کلیت پسند ہیں ،جب کہ مذاہب عموماً تقسیم پسند اورفرقوں میں قابلِ تقسیم ہوتے ہیں‘‘(The Politics of Language,Urdu/Hindi, An Artificial Divide،ص ۱۹۷۔چناں چہ جہاں لسانی سیاست ،مذہب کو زبان سے وابستہ کرتی ہے ،وہاں فرقہ واریت جنم لیتی ہے ،مگر جہاں زبان کو کلچر سے جوڑا جاتا ہے، وہاں مختلف فرقوں اوراکائیوں میں اتحاد کے ممکنات تلاش کیے جاتے ہیں۔
تاہم بھارت میں اردو کے سیکولر ہونے کے تصور کو ٹھیس لگنے کا خطرہ اکثر رہتا ہے، خاص طور پر کسی بھی وقت پھوٹ پڑنے والے ہندو مسلم فسادات سے۔ یہ فسادات اگرچہ معاشی طبقاتی تفریق کی بنیاد پر بھی ہوتے ہیں،مگر ان کے جواز میں عموماً بھارتی مسلمانوں کی ایک خاص شناخت کو پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً حالیہ مظفر نگر کے فسادات کا شکار ہونے والے ایک مسلمان نوجوان یاسین کی کہانی دہلی کی ارجمند آرا نے شایع کی،جس میں یاسین بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو ہوا ،وہ سنہ سنتالیس سے ہورہا ہے۔وہ مسلمان ہیں،اور مسلمان ہونے کا مطلب پاکستان کا ہمدرد ہونا ہے۔ اردو ،مسلمان اور پاکستان :تاریخ کے محور پر وجود میں آنے والی یہ آئیڈیالوجی بھارت میں اردو کی صورتِ حال پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے۔حالاں کہ پاکستان میں اردو کو اس قومی ،مذہبی ولولے کے ساتھ رائج کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ،جس کا مظاہرہ ہندو قوم پرستوں نے ہندی کے سلسلے میں کیا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.