اردو پڑھیے ، اردو بولیے

اردو پڑھیے ، اردو بولیے

(قاسم یعقوب)

اُردو زُبان ایک کلچر کی نمائندہ زبان ہے اور اپنے کلچر کی ترویج و ترقی کا باعث بھی۔دیکھنا یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور استعماریت کے ایجنڈوں میں مقامی کلچرز کی تباہی کا کتنا میلان ہے۔عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مغربی فکر کی نمائندہ فکر’’مابعد جدید فلسفے‘‘ میں رونما ہوئی ہے۔مگرگلوبلائزیشن کے بر عکس مابعد جدیدیت’’ مقامیت ‘‘کے حق میں ہے۔ ’’مقامیت‘‘ اور ’’گلوبل ازم‘‘ دو الگ الگ فلسفۂ ہائے فکر ہیں۔گلوبل فکر دنیا کو صارفیت کے آئینے میں دیکھتی ہے اور ساری دنیا کو وحدت میں پرو کے اُن کے صارفی رجحانات کو یک سوئی دینا چاہتی ہے۔جب کہ مقامیت کا نظریہ مقامی حقائق کے دلائل پر کھڑا ہے جس میں مقامی سطح پر عمل آرا معنی ہی اُس کے عالمی اثاثے کی پہچان بنتے ہیں۔عالم گیر سچائی کا یہ مطلب ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے ہیومن جذبات و رجحانات عالم گیرہوتے ہیں۔جس کی بِناپردنیا میں ایک ہی طرح کے قوانین اور کلچرز کی یکسانیت پیدا کی جا سکتی ہے۔حالاں کہ عالم گیر رجحانات اور جذبے تو انسانی سطح پر ایک ہوتے ہیں مگر اُن کے اظہار کا تناظرContext مختلف ہوتا ہے(اگرکہیں نہیں تو ہو سکتا ہے)۔ایسی صورت حال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم عالم گیر جذبے کے مرکز کو دیکھتے ہوئے اُس کے Context کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔یہ رجحانات اور جذبے اپنے مرکزOrigin میں تو عالم گیر ہوتے ہیں مگراُن کا اظہار یا بہاؤاضافی(Relative) ہوسکتا ہے۔یہیں سے عالم گیر اظہار یا Meta Narrative کی حتمیت کے خلاف فلسفہ وجود پاتا ہے۔مثلاً زبان بولنا قوتِ گویائی رکھنے والا کا جبلی،فطری اظہار ہے مگر یہ اظہار اپنے تناظر کی تشکیل میں مختلف ہو جاتا ہے۔کبھی اطالوی زبان میں کبھی انگریزی اور کبھی اُردو میں۔۔۔اسی طرح غصہ،محبت،افسوس،ڈر انسان کے جبلی اظہار ہیں۔موت کا ڈر اور حیات کا تحفظ بھی انسانی جبلی رویے ہیں مگریہ سب اپنے تناظر کے اندر اپنا وجود پاتے ہیں۔ کسی بات پر غیرت کا اظہار، ممکن ہے کسی دوسرے تناظر Context کے بدلنے سے وہ محض ہنسی کی کیفیت تک محدود ہو ۔گلوبل ازم کا فلسفہ چیزوں کویک رنگی دے کے نیچر کے قوانین کے خلاف ایک قاعدہ بنانا چاہتا ہے۔مابعد جدیدیت نے اشیاء کے تناظر Context کو اہمیت دے کرگویا اشیا کو اہمیت دی ہے۔جب کہMeta Narrative کے قوانین تناظر کی حتمیت کی بات کرتے ہیں۔جو ایک قسم کی ’’گلوبلائی فکر‘‘ ہی کا پرتَوہے۔زبان کی رنگا رنگی گلوبل ازم کے ساتھ ساتھ تمام مہابیانیوں (Meta narratives)کے حق میں بھی نہیں۔’’فلسفۂ الٰہیات‘‘میں ایک مخصوص زبان کو مکمل،سچی اور اعلیٰ زبان قرار دیا گیا ہے۔حالاں کہ زبان ایک من مانا(Arbitrary) نظام رکھتی ہے جو بدلتا رہتا ہے۔اس کا بدلنا اورہر خطے میں اس کا مختلف ہونا ہی اُس کے گرد تنے ہُوے تناظرContext کے بدلنے کا اعلامیہ ہے اور یہ تناظر کلچر؍ثقافت کے بدلنے سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
گلوبل ازم کا فلسفہ زبان کی یکسانیت میں ،اصل میں اُن ہیومن رویوّں کی رنگا رنگی کے خلاف ہے جس سے انسانی کلچر میں تنوّع پیدا ہوتا ہے۔یہ تنوّع ایک طاقت کے زوال کا اعلامیہ بنتی ہے تو کہیں کمزور کو طاقت ور بنا ڈالتی ہے۔زبان کا وژن،انسان کے World Viewکا وژن ہے لہٰذازبان کے مرنے سے یا ضم ہونے سے ایک World View کی موت واقع ہوتی ہے۔کوئی زبان کسی زبان سے بہتر نہیں ہوتی ۔زبان کی اہمیت اُس کے استعمال سے جنم لیتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ایک دفعہ پاکستان میں آئے ہوئے امریکی دانش ور و ماہرِ لسانیات’’نوم چومسکی‘‘ سے ایک انٹرویو میں پوچھا تھا کہ اگر پوری دنیا میں ایک ہی زبان ہو جائے تو کیا یہ بہتر نہیں؟اس پر چومسکی نے جواب دیا تھا:
’’ہم تمام کیوں انگریزی بول رہے ہیں کیوں کہ یہ انگریزی بولنے والی زبان کی طاقت کی وجہ سے ہے۔پہلے برطانیہ اور اب امریکہ۔۔۔ان ممالک کے پاس بے حد طاقت ہے جو ان ممالک کے لوگوں کو تنہا کر دیتی ہے امریکہ اُن چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دوسری زبان Second Language سیکھنا کوئی ضروری نہیں۔یورپ کے بہت سے حصوں میں لوگ بہت سی زبانیں بولتے ہیں ہندوستان میں اگر ٹیکسی ڈرائیور سے بات کریں تو وہ پانچ سے زائد مختلف زبانیں جانتا ہوگا۔یہ لوگ امریکیوں کی نسبت زیادہ ثقافتی(Cultured) لوگ ہیں۔امریکی اس ضمن میں بہت غیر مہذب (Non-Cultured) ہیں وہ صرف ایک زبان جانتے ہیں باقی کچھ نہیں۔میں تو اسے غیر صحت مند انہ صورتِ حال قرار دوں گا اور یہ صحت مند بھی ہو سکتی ہے جب انگریزی بولنے والے دوسری ثقافتوں اور زبانوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔‘‘ ۱؂
ہم نے اُردو کی تباہی کا واویلا تو مچا رکھا ہے اور اُس کے اسباب کی تلاش میں ’’استعمار‘‘ کا سراغ بھی پا لیا ہے مگر مقامی سطح پر موجود ایک اہم قضیہ ابھی تک حل نہیں کر سکے۔

مزید دیکھئے: اردو کے دیئے کی مدھم پڑتی ہوئی لو

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: بھارت میں اردو کی صورت حال، از ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

جہاں ’’گلوبلائزیشن‘‘کے ہاتھوں اُردو کو شدید خطرات کا اعلامیہ پیش کیا جا رہا ہے وہاں اُردو کے مقابل مقامی یا علاقائی زبانوں کا تھیسس بنا کے اس زبان کی اہمیت ایک فنگشنل اور رابطے کی زبان کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔گلوبلایزیشن کے ہاتھوں تباہی سے بہت پہلے ہمارے مقامی دانش واروں کے سولات کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے کہ کیا یہ زبان مقامی نہیں ؟اُردو زبان کی بقا پر اٹھائے جانے والے سوالات مندرجہ ذیل قسم کے ہیں:
۰ پاکستان میں بولی جانے والی اُردو صرف پنجابیوں کی زبان ہے یا بہار اور اُس کے ملحقہ علاقوں سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کی زبان ہے۔
۰ اُردو علاقائی زبانوں کے مقابلے میں دوسری زبان (second language) کے طور پر رائج ہے۔
۰ اُردو پڑھے لکھے طبقے کی زبان ہونے کے ناتے ایک power discourse کی شکل اختیار کر گئی ہے۔یعنی اس کے بولنے والے ایک مخصوص کلاس کی نمائندہ قوت بن کے سامنے آئے ہیں۔
۰ علاقائی زبان کی تعلیم کے بعد ایک رابطے کی زبان کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا مقامی یا علاقائی زبانوں کے بعدانگریزی کو گلوبل زبان کے طور پر اپنانا چاہیے۔
۰ اُردو کم اظہار کی زبان ہے وہ علاقائی زبانوں کی طرح اپنا اظہار نہیں کر سکتی۔اس میں ایک مصنوعی رنگ موجود ہے۔
۰ زبان اپنی ضرورت(need) پر اپنے آپ منواتی ہے۔لہٰذا اس وقت اُردو سے زیادہ انگریزی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
رابطے کی زبان یا فنکشنل زبان کی وضاحت بہت ضروری ہے۔رابطے کی زبان (communication) کا سہارا لینے والے دو افراد میں سے عموماً ایک فرد ،کسی دوسرے شخص کی زبان کو اپناتا ہے جیسے ہندوستانی شخص اپنی مقامی زبان کی بجائے کسی امریکی فرد سے انگریزی میں بات کرے گا۔ امریکی کے لیے انگریزی اُس کی مادری زبان ہو گی جب کہ ہندوستانی کے لیے محض رابطے کی زبان ہو گی۔رابطے کی زبان کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں افراداپنی مادری زبانوں کی بجائے کسی باہم قابلِ تفہیم زبان کا سہارا لیں۔جیسے چینی شخص اور ایرانی فرد کے درمیان بولے جانے والی انگریزی دونوں کے لیے ایک رابطے کی زبان قرار پائی گی۔کیا اُردو دوسری زبان(2nd language)ہے؟ اور کیا برصغیر کی علاقائی زبانوں کے ساتھ اس کی اہمیت ایک رابطے کی زبان سے زیادہ کچھ نہیں؟اس کے تفصیلی جواب سے پہلے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا ایک ذاتی تجربہ سنیے:
’’(اُردو) برّ اعظم کی ساری زبانوں کے(ریاضی کی اصطلاح میں)’’عادِ اعظم مشترک‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا تجربہ ہمیں اس وقت خاص طور پر ہوا جب ’’دیوانِ حسن شوقی‘‘ مرتّب کرتے وقت حسن شوقی کی ایک مثنوی’’میزبان نامہ‘‘ کے ابتدائی سو شعر ہم نے پنجابی،سندھی،سرائیکی،پشتو،گجراتی،مرہٹی اور بلوچی بولنے والوں کو دے دئیے اور ان سے اپنی اپنی زبانوں کے الفاظ کی فہرست بنانے کے لیے کہا۔فارسی،عربی،ترکی اور ہندی کے الفاظ کی فہرست ہم نے خود بنائی۔جب یہ فہرستیں آئیں تو معلوم ہوا کہ اب ایک لفظ بھی ایسا باقی نہیں رہا تھا جسے ہم خالص اُردو کا لفظ بھی کہہ سکیں۔یہی عمل صرف و نحو کی سطح پر ہُوا ہے۔ہر اُصول ایسا تھا جس پر دوسری زبان والے اپنا دعویٰ کرتے تھے۔‘‘ ۲؂
اُردو زبان کا خمیر اسی خطے سے ہے۔یہ پہلے سندھ، پنجاب اور پھر جنوبی ہندوستان کے علاقوں میں پلتی رہی۔اُردو زبان کا مزاج اور کلچر مقامی سطح پر تیار ہوا۔مزاج اور کلچر چار طرح زبانوں کےTexture میں شامل ہوتا ہے:
۰ روزمرّہ اور محاورات کا استعمال لوگوں کے مقامی جذبات و اظہارات کے عین مطابق ہوتا ہے۔
۰ الفاظ کی دروبست اور ان کے مأخذات لوگوں کے میل ملاپ اور اُن کے استعمال کردہ ماحول کے مطابق ہوتے ہیں۔
۰ زبان کی تشکیل میں مقامی لوگ شامل ہوتے ہیں یا زبان کے ارتقائی مراحل میں بعد میں شامل ہو جاتے ہیں۔
۰ زبان، علاقائی؍مادرری زبان کے طور پر عمل نہ کرتے ہوئے بھی ماحول میں اخبارات، ٹیلی ویژن اور دیگرثقافتی صورتوں میں موجود ہوتے ہوئے کلچر سازی میں شامل رہتی ہے۔
ہمیں ان مذکورہ نکات کی روشنی میں اُردو کو دیکھنا ہو گا کہ کیا اُردو کی Formation اور استعمال (جو صدیوں سے جاری ہے)کوئی باہر سے آ کرکر تا اور لوٹ جاتا رہا ہے۔چوں کہ برصغیر ایک کثیر لسانی خطہ ہے اسی وجہ سے یہ گمان پیدا ہو جاتا ہے کہ جب ہر خطے میں ایک مضبوط علاقائی زبان کھڑی ہے توکسی دوسری زبان کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔زبان کی دوئی کا یہ فلسفہ بہت سطحی ہے۔اگر صرف یورپی ممالک کا تجزیہ کر لیا جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔کہ جرمنی میں جرمن کے علاوہ بھی مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔اسی قسم کا معاملہ ہسپانوی زبان، ترکی زبان،اطالوی زبان اور برطانوی انگریزی کے ساتھ بھی ہے۔ان زبانوں کے ساتھ دیگر مقامی زبانیں بھی پوری طرح متحرک ہیں مگر وہاں کبھی اطالوی،ترکی،انگریزی یا ہسپانوی کو Second Language نہیں کہا جاتا۔بلکہ یہ نیشنل اور انٹر نیشنل سطح پر عوامی اظہار کی نمائندہ زبانیں مادری زبانوں کی طرح ہی نمائندگی کرتی آ رہی ہیں بلکہ اُن سے کچھ زیادہ______
یہاں مادری زبان یاFirst Language اور دوسری زبان یا Second Language کی وضاحت بہت ضروری ہے۔مادری زبان صرف وہ زبان نہیں ہوتی جو بچے کی ماں شیر خواری میں بچے کے ساتھ بولتی ہے۔بلکہ زبان کا وہ ماحول ہوتا ہے جس میں بچہ تیار ہوتا ہے۔بلوغت تک پہنچتا ہے۔چومسکی نے کہا تھا کہ بچہ اپنے ابتدائی سالوں میں زبان سیکھنے کے مراحل میں سب سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔اُس کی Senses بہت شارپ ہوتی ہیں۔ایک وقت تک وہ ،ہروہ زبان سیکھ سکتا ہے جس کے اثرات اُس پر زیادہ پڑ رہے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ ماں کی بجائے گھر میں یا باہر کے ماحول کے اثرات کے زیادہ طابع ہو۔یوں اُس کی مادرری زبان؍First Language ماں کی زبان کی بجائے دیگر کسی زبان کے اثرات زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی اورہو گی۔جب کہ Second Language وہ زبان ہوتی ہے جو بچہ ایک زبان سیکھنے کی پختگی کے بعد دوسری زبان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اور اسے سیکھتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے علاقوں میں اُردو زبان(میں یہاں ہندی کو بھی اُردو میں شمار کرر ہا ہوں) کے ماحول سے دور رہتے ہوئے بھی بچے کسی نہ کسی طرح اُردو کے قریب رہتے ہیں۔پنجابی زبان تو اپنے نحوی اورذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے اُردو کے بہت قریب ہے۔اسی لیے پنجاب کے علاقوں میں اُردو ایک اپنائیت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے۔ اُردوکو Dying Language بھی کہا جارہا ہے۔یعنی ایسی زبان جس کا مصرف کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔یہ مصرفNeed سے جنم لیتا ہے۔کیا اُردو زبان کے سامنے انگریزی زبان کی ضرورت اُردو کی اپنی قیمت(Cost) ادا کرکے پوری ہونی چاہیے۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی غیرزبان کی اہمیت جنم لیتے ہی مقامی زبانوں کو خیر باد کہہ دیا جائے اور درآمد زبان اُس علاقے کے تہذیبی اور جمالیاتی اظہار کے تقاضوں کواُس خطے کے جذبات کے عین مطابق پورا کرنا لگے!ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اُردو کے آنے سے علاقائی زبانوں کو خطرہ پیدا ہوا اور اب انگریزی کے آنے یا اُس کی ضرورت پیدا ہونے سے اُردو کو خطرہ پیدا ہونے لگا۔ یہ سوال زبانوں کے سائنسی قضیے سے زیادہ ہمارے اپنے فکری انتشار کے سامنے دست کشاہے۔
اُردو زبان کی ایک بہت بڑی Contribution یہ رہی کہ اس نے برصغیر جیسے کثیر لسانی خطوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی۔اس زبان کا Textureچوں کہ سارامقامی سطح پر تیار ہوااس لیے اس نے مختلف خطوں کو ایک متحدہ زبان کے طور پر اُن کے مقامی کلچرز اور مزاجوں کی جھلک کے ساتھ آپس میں جوڑ دیا۔آج آپ شمالی علاقوں سے نکل کر بلوچستان کے پہاڑوں تک چلے جائیں یا ہندوستان کے بنگال،بہا راور دور دراز علاقوں میں چلے جائیں۔کسی بھی شخص کے آگے ذرا مائیک کرنے سے آپ اُس کو پورے خطے کے لسانی ورثے کے ساتھ جوڑ دیں گے۔ یہاں پاکستان میں ٹرکوں پر لکھی جانی والی تحریریں کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔یہ ٹرک تقریباً سارے ملک میں گھومتے ہیں اور کلچرل شراکت کی عمدہ مثال ہیں۔حال ہی میں ’’تجزیات‘‘ میں ایک مضمون چھپا ہے جس کا موضوع’’ٹرکوں پر لکھی عبارتیں اور طالبان‘‘ اسی طرز کی تحریروں کے تجزیے پر مبنی ہے۔مضمون نگار’’طارق رحمن‘‘ نے لکھا ہے:
’’ٹرک کے پیچھے جو عبارتیں ہوتی ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ پیچھے چلنے والی گاڑیوں والے پڑھیں ۔یہ زبان زیادہ تر رومانی ہوتی ہے۔اکثر یہ غزلیہ اشعار ہوتے ہیں۔جن میں عشق و محبت،نسوانی حسن،زندگی کی ناپائیداری اور تقدیر کا تذکرہ ہوتا ہے۔خال خال غالب اور میر جیسے اساتذہ کے اشعار بھی نظر آتے ہیں لیکن بالعموم ڈرائیور وں کا انتخاب گمنام شعرا کا یا پھر احمد فراز جیسے مقبول جدید شعرا کا کلام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔اُردو چوں کہ پاکستان کے تمام تجارتی مراکز میں استعمال ہوتی ہے اور ملک بھر میں ابلاغ کی مشترک زبان ہے۔جو بیشتر پاکستانی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔اس لیے ٹرکوں پر سب سے زیادہ تحریریں اسی زبان میں ہوتی ہیں۔‘‘ ۳؂
اُردو زبان صرف اس لیے ٹرکوں کی زینت نہیں ہے کہ وہ پورے ملک میں سمجھی جاتی ہے بلکہ وہ اُس کلچر کی اپنایت کا بھی دعویٰ کر تی ہے جو ایک خطے کو چھوڑتے ہی دوسرے خطے میں جا کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انگریز جب اس خطے میں آئے تو اُن کا اُردو زبان کو اپنانا ایک درست فیصلہ تھا۔اُن کے مقاصد بلا شبہ سیاسی تھے مگر انھیں کوئی دوسری زبان کیوں نہ ملی؟کیا یہ معمولی بات ہے کہ اُردو اُس وقت پورے خطے میں سمجھی جانے والی زبان تھی۔کیا کوئی زبان بغیر کسی وجہ کے خطے کی ترجمان بن جاتی ہے؟لوگ خوامخواہ اُسے اپنانے لگتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو ہمارے خطے میں گذشتہ ۲۰۰ سال سے پڑھائی جانے والی انگریزی زبان اپنے کلچر کے بیشتر اثرات کے باوجود کوئی ۱۰ فیصد بھی اپنا اثبات کروانے میں ناکام ہے۔ عربی اور فارسی زبانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زبانیں اُردو کے ماخذات یابنیادی تشکیل میں شامل تھیں۔ایسا صرف اثرات کی حد تک تو درست ہے۔مگرفارسی اور عرابک زبان کے Texture ،کلچراور اُردو کے مزاج میں بہت فرق ہے۔اُردو پر پڑنے والے فارسی اور عرابک کے اثرات کے حوالے سے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:
’’اس غلط فہمی کو اب دور ہونا چاہیے کہ اُردو،عربی،فارسی کا ظلِ ثانی ہے یا اس کی اپنی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں۔۔۔۔۔۔اُردو ہند آریائی زبان ہے اور ہندی سے اس کا اٹوٹ رشتہ ہے۔یہ اگر صحیح ہے تو اُردو کسی بھی دوسری زبان کا نقشِ ثانی کیسے ہو سکتی ہے۔اُردو لفظیات کا بہ مشکل ایک تہائی حصہ فارسی،عربی،ترکی سے مستعار ہے لیکن ان لفظوں کو بھی اُردو نے کس طرح اپنے پر اُتارا،اور کس طرح انھیں اپنایا،اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ تہنید اور تارید کا یہ عمل صرف آوازوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا لفظوں اور تراکیبوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔۔۔۔۔یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ اُردو نے دیسی بدیسی عناصر میں جیسا اعتدال پیدا کیا ہے اس کی نظیر دوسری زبانوں میں آسانی سے نہیں ملتی۔صرف روزمرّہ ہی کو لیجیے۔آتش ،آگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ’’چولھے میں آتش جلا دو‘‘ اُردو میں کہا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘ ۴؂
گویا اُردو پر دیگر زبانوں کے اثرات تو بہت ہیں مگر ایسا نہیں کہ اُردو کی بنیاد (Core) کسی ایک زبان پرکھڑی ہو۔البتہ پنجابی کے متعلق بڑی حد تک درست ہے کہ اُردو نے اپنا نحوی اورلسانی نظام پنجابی سے اُٹھایا ہے۔
گلوبل ازم فلسفے کی صارفیت نے جہاں ہر چیز کو یکسانیت عطا کر دی ہے وہاں پر اب زبانوں بھی محفوظ نہیں۔مگراس سلسلے میں زبانوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کو بھی روکا جا رہا ہے۔مثلاً فارسی،عربی،سنسکرت اور مقامی زبانوں کے اثرات کی طرح اُردو زبان پر انگریزی کے بھی بہت سے اثرات پڑے۔مگر چوں کہ انگریز مخالف رویوں نے بھی اپنا زور قائم رکھا لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اُردو زبان میں شامل انگریزی کے الفاظ آج بھی ایک دوئی کے ساتھ شامل ہیں۔مثلاً اسکول اور کالج کا اُردو میں (اپنے اطلاقی مفاہیم میں)کوئی متبادل نہیں۔مگر کسی چھوٹے سے بچے سے بھی پوچھا جائے تو وہ فوراً ان الفاظ کے انگریزی ماخذات کی نشان دہی کرے گا۔ اگر فارسی اور عربی کے ہزاروں الفاظ ’’اُردوائے‘‘ گئے ہیں تو انگریزی زبان کے جائز اثرات کو کیوں نہیں اُردو کا حصہ بنایا جاتا۔مثلاً اگر اُردو میں آسمان کے مترادف معنوں میں فلک،چرخ،امبر کے ساتھ سکائی کھڑا ہو گا تو کیا بُرائی ہے۔مگر مذکورہ بالا الفاظ تواُردو کا حصہ کہلائیں گے مگر’’ سکائی‘‘ ایک اجنبیت کے ساتھ کھڑا دیکھائی دے گا۔عماد اظہر کا ایک شعر دیکھے ،کس طرح ایک انگریزی لفظ اُردو صیغۂ جمع کے ساتھ غزل کے شعر کی نازکی کا ساتھ دے رہا ہے:
آنکھوں میں بجھ گئی ہیں حویلی کی لائٹیں
چوکھٹ پہ جل رہا ہے سلگتا ہُوا وجود
حال ہی میں اورینٹل کا لج کے مجلے ’’بازیافت‘‘کے ادارئیے میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
’’یہ مسئلہ اس قدر گھمبیر ہے کہ اس کا دردمند قومی حلقوں اور مقتدر ہ قومی زبان جیسے اداروں کو فی الفور نوٹس لینا چاہیے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے نشریاتی ادارے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اُردو کو رومن حروف میں لکھنے اور اس روش کو عام کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے بے دریغ بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔کچھ پروگراموں کے نام دیکھیے جو ہیں تو اُردو میں مگر معلوم نہیں کس مجبوری یا مصلحت کے تحت ان کے عنوان رومن میں دکھائے جاتے ہیں۔دو جمع دو،حد ہو گئی،دین آسان،کھیل ہمارے ساتھ،کچھ اپنے کچھ پرائے،حیرت کہانی۔ابھی کچھ دیر باقی ہے،پانی کی دیوار،محبت یوں بھی ہوتی ہے،وغیرہ وغیرہ کہاں تک گنواتا جاؤں۔۔۔سوال یہ ہے کہ اُردو کو رومن میں اس کثرت سے پیش کرنے سے ہمارے نشریاتی ادارے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ ۵؂
تحسین فراقی صاحب کا نقطہ درد مند جذبات کا عکاس ہے مگر میرے خیال میں رومن میں لکھنے سے اُردو کی انگریزی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔رسم الخط کی تباہی تو اُس وقت ہو جب ان نشریاتی پروگراموں میں اُردو رسم الخط ساتھ نہ لکھا جا رہا ہو۔اُردو رومن خط کے ذریعے انٹرنیٹ،موبائل کی زبان بن گئی ہے۔بجائے کہ ہم انگریزی میں ان میڈیاز کا استعمال کریں،رومن خط کے ذریعے اُردو کے ساری لسانی ڈھانچے کو قبول کروا رہے ہیں۔ رسم الخط اصل میں کسی بھی زبان کا چہرہ ہوتا ہے ۔ رسم الخط کی موت یا جبراًتبدیلی اُس کے ورثے کی موت کا علان سمجھا جاتا ہے۔ اُردو زبان کو رسم الخط کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد اُردو رسم الخط سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے جس میں زیادہ تعداد مقامی سطح پر انگریزی سکولوں میں زیرِ تعلیم بچے اور بیرونی ممالک میں رہنے والی نئی نسل ہے۔ اُردو کی بقا اور اُس کے لسانی نظام کی زندگی کے لیے ایک طبقہ اُردو رسم الخط کی جگہ رومن کو قبول کرنے کا حامی ہے مگر ایسے نہیں کہ دو رسم الخطوط کے درمیان رومن کو صرف اس لیے چن لیا جائے کہ یہ ہماری نئی نسل کو لکھتے ، پڑھنے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ میرے خیال میں اُردو رسم الخط بھی اب تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے یہ ایک فیصلہ سنایا کہ تمام اےئر پورٹس اور سڑکوں پر اُردو رسم الخط میں اطلاعات اور اشارے لکھے جائیں۔ اسی طرح اُردو ٹی وی چینلز نے بھی اُردو رسم الخط کی ترویج میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ہر وقت اُردو رسم الخط کے ساتھ مقامی خبروں اور اطلاعات کا سلسلہ دن بھر جاری رہتا ہے جس سے اس خط کے پڑھنے (Readability) کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ۲۰ کے قریب بین الااقومی معیارکے اخبارات ہیں جو اُردو کی نمائندگی کر رہے ہیں حالاں کہ کوئی ۱۰سال پہلے تک ان کی تعداد بہ مشکل پانچ،چھ تک تھی۔(یاد رہے کہ بین الااقوامی معیار کے اخبارات کی تعداد ۲۰ کے قریب ہے ورنہ پاکستان میں اُردو اخبارات کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے) اسی طرح سیٹیلائٹ الیکڑانک میڈیا کے سیلاب نے بھی اُردو کے فروغ میں بہت اہم کردار اداکیاہے۔ ان میں کوئی ۴۰ کے قریب چینلز اُردو میں اپنے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ان چینلز پر اُردو رسم الخط کے فروغ کے علاوہ اُردو بولنے والوں کے درمیان علاقائی تفاوت(Regional Disparities) کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے۔ گلوبل کلچر کی طاقت کے آگے میڈیا کا ایک مثبت کردار علاقائی زبانوں میں بننے والے چینلز کا بھی ہے
انگریزی زبان دنیا بھر میں گئی اور اس قدر ٹوٹی کہ پہچانی بھی نہیں جا سکتی تھی مگر آج بھی اس زبان کا ادب اور مرکزی ڈھانچہ اسی طرح قائم ہے۔فارسی بھی ہمارے ہاں جب آئی تو برصغیر میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔بلکہ اُردو میں تو اُس کے محاوروں اور لفظوں کو توڑ کے رکھ دیا گیا۔عربی آئی تو اس کے تلفظ اور لفظوں کو اکھاڑ کے دکھ دیا گیا مگر کیا اس طرح عربی اور فارسی زبانیں بگڑ گئیں؟دنیا کی کوئی زبان بھی اپنے خالص پن کو اُس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک اُس میں لکھنے بولنے والے زندہ ہیں۔بلکہ یہ بگاڑ اور ٹوٹ پھوٹ اُس کے کینوس کو وسیع کرنے کا نام ہوتا ہے۔اسی طرح کے تجربوں سے زبان کا دامن وسیع ہوتا ہے اور وہ دوسرے علاقوں کے لوگوں کے لیے بھی کارآمد بنتی جاتی ہے۔زبان کا ایک خاص طرح کا استعمال اورخاص نفسیات اصل میں مخصوص لوگوں کا Power Discource بن جاتا ہے۔جو ایک قسم کی لسانی اشرافیہ کو جنم دیتا ہے۔انگریزی کا برطانوی اور امریکی Accend تو مشہور تھا اب ہندوستانی Accend بھی اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے۔کیا یہ کوئی برائی ہے؟خود اُردو میں پشتون لہجہ،بہاری لہجہ اور پنجابی لہجہ موجود ہیں۔صرف لہجہ ہی نہیں بلکہ لفظوں سے لے کر مقامی ثقافتی اظہار تک کا کچھ نہ کچھ فرق بھی ملے گا۔
اُردو زبان پر فی الحال وہ وقت نہیں آیا اور نہ کوئی امکان ہے کہ ختم ہو جائے۔فارسی یہاں صدیوں تک رہی مگر درباری ہالے کو نہ توڑ سکی۔ اُردو بہت جلد عوام کے قریب رہنے لگی اورہر طرح کے مزاجوں کے لیے تسکین کا باعث بنتی گئی۔ آج اُردو بہ یک وقت، اظہار کے اُن رویوں کی نمائندگی کر رہی ہے جو طاقت اور محروم طبقوں کے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ناصر عباس نیر نے بھی اپنے مضمون’’گلوبلائزیشن اور اُردو زبان‘‘ میں کہا ہے:
’’اُردو زبان کا استعمال ان زبانوں میں بہ ہر حال نہیں ہوتا ،جو گلوبلائزیشن کے زہریلے اثرات کی وجہ سے مر رہی ہیں یا مرنے کے قریب ہیں۔کوئی زبان اس وقت تک نہیں مرتی جب تک اس کو بولنے والے موجود ہوں۔اُردو میں اگر بولی جانے والی ہندی بھی شامل کر لی جائے تو یہ چینی اور انگریزی کے بعد تیسری بڑی زبان ہے۔‘‘ ۶؂
اُردو کے فروغ کے لیے ہمیں گلوبل ایجنڈے کے تحت نہیں بلکہ اپنے معیار بنا نے ہوں گے۔ اس کے لیے ہمیں ہر اُس کام (Activity)کو قبول کرنا ہو گا جو اُردو بولنے یا لکھنے کی حوصلہ افزائی کرے ۔اُردو زبان کی اہمیت کا عملی سطح پر انتظار کرنے کی بجائے،مجموعی طور پر ایک کلچر پیدا کرنا چاہیے۔خالص زبان اب کہیں بھی نہیں رہ گئی۔ہر زبان ایک دوسرے سے اثرات قبول کررہی ہے اور بہت جلد اپنی جگہ چھوڑ رہی ہے۔اس دوران بہت کچھ اُس زبان کا حصہ بن گیا ہوتا ہے۔یہی زبان کی زرخیزی کا جدید نظریہ ہے۔اب ’’خورشِید‘‘ کو خورشَید‘‘ پڑھنے سے ہم زبان کی purity کو قائم رکھنے کی بجائے اُسے نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ زبان کے زندہ اور طاقت ور ہونے کا پہلا نقطہ اپنی شناخت قائم رکھتے ہوئے، دوسرے کلچرز کو اپنے اندر نفوذ کرنا ہے۔آج ذرا ایک نظر دیکھیے کہ گلوبل دنیا کے اس تصور کے باوجود امریکہ،اور یورپی ممالک میں کس بڑی تعداد میں اُردو بولی جاتی ہے۔کیا وہاں اُردو بولنے والوں کے ہاں مقامی دیسی اثرات نہیں آئے گے؟اگر آئیں گے تو کیا وہ اُردو کا بگاڑ ہوں گے؟ اور کیا وہ ’’استعماریت‘‘ کی چال کہلائی گی؟


حوالہ جات

۱۔ (انگریزی سے ترجمہ)(www.Chowk.com)
۲۔ تاریخِ ادب اُردو(جلد اوّل)،مجلسِ ترقی ادب۱۹۹۴ء،ص:۵۸۷
۳۔ تجزیات،شمارہ ۱۰،اکتوبر۲۰۰۹ء،ص ۱۱۵،۱۱۶
۴۔ اُردو زبان اور لسانیات ،سنگِ میل پبلی کیشنز ،لاہور،۲۰۰۷،ص۴۶،۴۷
۵۔ مجلّہ بازیافت،شمارہ۱۴،جنوری یا جون ۲۰۰۹،ص۸،۹
۶۔ لسانیات اور تنقید،پورب اکادمی اسلام آباد،۲۰۰۸،ص:۱۹۲

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔