ہمارا زیادہ تر ادب تفہیم کے خلاف سازش ہی تو ہے
از، نصیر احمد
داستانوں میں کیا رکھا ہے؟ بس زبان و بیان کا حسن جس میں انسانی زندگی کی تفہیم نہیں ہے اور شاید قارئین کو اچھی ہی اسی وجہ سے اچھی لگتی ہیں کہ ہمارا زیادہ تر ادب تفہیم کے خلاف سازش ہی تو ہے۔
بہت زیادہ تفہیم ہے تو انسانی رشتوں کے اردگرد بدی اور اچھائی کی سادہ سی انتہا نگاری۔
بات کیوں اور کیسے تک پہنچتی ہی نہیں۔
بس زبان و بیان کا حسن تھوڑا بہتر بنا کر تفہیم اور تفہیم کے نتیجے میں انسان دوست مقاصد کو فروغ دینے میں کام آ سکتا ہے۔ باقی سب تو کچرا ہی ہے اور ردی کے ٹوکرا ہی اس کی منزل ہے۔ اس کچرے کو سنبھالے رکھنے سے کیا فائدہ۔
زیادہ تر شاعری بھی ایسی ہی ہے۔ کم اَز کم جو ہم پڑھتے رہے ہیں زیادہ تر افسانہ بھی ایسا ہی ہے۔ کم از کم جو ہم پڑھتے رہے ہیں۔
زیادہ تر تنقید بھی ایسی ہی ہے۔ کم از کم جو ہم پڑھتے رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے ہم نے کچھ اچھا نہ پڑھا ہو۔ لیکن نام تو بڑے بڑے تھے۔ تھوڑی معیاری تنقید ہو تو سب آئیں بائیں شائیں ہو جاتا ہے۔
شہریت کا بحران ہے، بڑی بڑی انسانی نا کامیاں ہیں، جمہوریت کا فقدان ہے اور ان کے ارد گرد اتنے موضوعات ہیں، ان پر اپنی دانش ورانہ صلاحیتیں آزمائیں ناں کہ لوگوں کا کچھ بھلا بھی ہو۔
کاملیت پرستی کی کسی شکل میں اور جمہوری نا کامی کی کسی شکل میں کوئی عظمت نہیں ہے۔ ان ساری عظمتوں کے نتائج سامنے ہیں۔
کوئی بھی شے معیاری نہیں ملتی۔ دوسرے اچھے آدمی سے ملاقات میں میلوں اور سالوں کے فاصلے بن جاتے ہیں۔ بس غیر ضروری بناوٹیں جن کے لیے زندگیاں مسلسل برباد ہو رہی ہیں۔ خرد، تجربے، تخیل، ہم دردی اور مہربانی سے منسلک ہر چیز اجنبی ہے۔
قریبی سے قریبی آدمی سے ایسی محبت ہو نہیں پاتی جس کا وہ مستحق ہے۔
ہمارے زمانے میں جو داستان مشہور ہوئی تھی وہ غنڈہ پرستی کا شاہ کار تھی لیکن تعریفیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔
اچھا لکھنے کی کوشش کریں اور معاشرتی بہتری ذہن میں رکھیں۔ اور اس کے لیے تفہیم میں بھی مسلسل بہتری کی کوشش کریں۔
متقدمین کی بے جا عقیدتوں میں نہ دھنسے رہیں اور ان کی جہالتوں کو فاش و ظاہر و برملا کریں تا کہ قارئین بھی ان کے دیوانے نہ ہوں اور کھیل سمجھ سکیں۔
اس کے با وُجود بھلائی کے مقاصد حاصل نہ ہوں تو، نہ تو تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے، جیسے مقام سے غم و خوشی کے ناتے استوار کر لیں اور جو کچھ لکھنا ضروری ہے، لکھتے رہیں۔