مرثیے کا ادبی سفر
از، معصوم رضوی
مرثیے کا ذکر ہو تو بھلا انیس و دبیر کیسے نہ یاد آئیں، دونوں حضرات اس صنف کو ایسی ادبی معراج پر پہنچا گئے کہ آج بھی مرثیہ ان کے سِحَر میں گرفتار ہے۔ کسی بھی صنفِ سخن کی طرح مرثیے پر بھی فکری تقاضوں کا اثر پڑا، سوچ، زاویہ، لحن و لہجہ بدلا، مگر پھر بھی آج مرثیہ زوال کا شکار ہے۔ زوال کا ایک عُنصر شاید یہ بھی ہے کہ انیس و دبیر مرثیہ کو جس بلندی سے سر فراز کر گئے تھے، آنے والے شُعَراء کے لیے یہ معیار ایک کڑا امتحان ثابت ہوا۔
انیس اور دبیر، مرثیے کے دو عظیم المَرتبت شاعر، کون بڑا کون چھوٹا، یہ بحث آج تک ہو رہی ہے، میں فیصلہ کرنے کا قطعی اہل نہیں، مگر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ دبیر کو چھوٹا بنانے میں علامہ شبلی نعمانی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس طرح مرثیے کی تاریخ انیس و دبیر کے بغیر ممکن نہیں، ویسے ہی دونوں کے تقابل کا معاملہ ہو تو شبلی نعمانی کی موازنۂِ انیس و دبیر کے بَہ غیر کس طرح ممکن ہے؛ گو کہ ایک صدی گزر گئی مگر آج بھی یہ کتاب موضوعِ بحث ہے۔
علامہ شبلی نعمانی دانش ور، تاریخ دان، استاد، عربی و فارسی کے ماہر، اس کتاب کے مقدمے میں ہی فیصلہ صادر کرتے ہیں اردو ادب کی جو تاریخ لکھی جائے گی اس کا سب سے عجیب تر واقعہ یہ ہو گا کہ مرزا دبیر کو ملک نے میر انیس کا مقابل بنایا، اور اس کا فیصلہ نہ ہو سکا کہ ان دونوں حریفوں میں ترجیح کا تاج کس کے سر رکھا جائے۔
اب فرمائیے اس قطعی فیصلے کے بعد موازنے کی گنجائش ہی کیا رہ جاتی ہے۔ نقاد تو اس کتاب کے حوالے سے بہت کچھ کہتے ہیں، ایک لمبی بحث ہے، مگر جناب المیہ یہ ہے کہ جہاں انیس و دبیر کے تقابل کا معاملہ ہو تو علامہ شبلی نعمانی جیسا جید جن بیچ میں آ جاتا ہے، جسے نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس عہد میں یہ دونوں شاعر مقبولیت کی ایسی معراج پر تھے کہ انیس کو ماننے والے اَنیسیے اور دبیر کو ماننے والے دَبیریے کہلاتے تھے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا خوب کہا ہے کہ مولانا شبلی موازنۂِ انیس و دبیر لکھ کر انیسیے بن گئے۔
بَہ ہر حال، میرا خیال ہے کہ کربلا کے واقعات کو عرب ماحول سے جذبات و احساسات تبدیل کیے بغیر مقامی تناظر میں ڈھالنا ایک عظیم تخلیقی کار نامہ ہے۔ اس سے بڑھ کو کار نامہ یہ ہے کہ انیس و دبیر نے مرثیے کو مذھب کے دائرے سے نکال کر ادب کا لا زوال حصہ بنا دیا۔ شاید ان میں سے ایک نہ ہوتا تو یہ عمل نا ممکن تھا، بَل کہ، یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دونوں ایک ہی عہد میں نہ ہوتے تو بھی شاید یہ مسابقت ادبی شہ پاروں کو نوعیت اختیار نہ کر پاتی۔
مرثیہ عربی و فارسی سمیت دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی رائج ہے، مگر اس صنف کو جو ادبی حیثیت اردو میں حاصل ہے وہ کسی زبان میں نہیں ملتی۔ متحدہ ہندوستان میں حیدر آباد دکّن میں لگ بھگ 1503 اردو مرثیے کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ حضرت اشرف بیابانی کی کتاب نو سرہار میں پہلی بار مرثیہ لکھا گیا۔ اس زمانے کے اہم مرثیہ گو شُعَراء میں حضرت شاہ راجو، غواصی، وجہی، شاہ برہان حاتم، عبداللہ قطب شاہ شاہی، محمد قلی قطب شاہ شامل ہیں۔
شمالی ہند میں مرثیہ نگاری کا آغاز 1688 کے آس پاس روشن علی کی عاشور نامہ اور اسی زمانے میں فضل علی کی کربل کتھا کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ گویا یہ مرثیے کا دورِ اوّلین ہے۔ اس کے بعد سب سے اہم نام مرزا سودا کا ہے جنہوں نے اردو مرثیہ کو مسدّس کی ہیئت عطا کی۔ ضمیر، سوز، خلیق، انیس، دبیر کا دور مرثیے کا عُروج ہے۔
تیسرا اور موجودہ دور جس کا بانی جوش صاحب، سید آل رضا کو قرار دیتے ہیں۔ جدید مرثیے میں رثائیت سے زیادہ پیغامِ حسینی کی عظمت اور فلسفۂِ کربلا کو مِحوَر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے با وُجود یہ سچ ہے کہ مرثیہ آج تک انیس و دبیر کے سِحَر میں گرفتار ہے۔
جدید مرثیہ کی تحریک میں میں جوش، سید آل رضا، رزم ردلوی، مہدی نظمی، قمر جلالوی، وحید اختر، نجم آفندی، محسن جونپوری، شوکت تھانوی، رئیس امروہوی، کوکب شادانی، راغب مراد آبادی، امید فاضلی، صبا اکبر آبادی، خمار فاروقی، شاہد نقوی اور نسیم امروہوی جیسے نام نمایاں ہیں جنہوں نے مرثیے کو نئی جِہتیں و لہجہ عطا کیا۔ دلو رام کوثری کا مرثیہ، قرآن و حسین، جوش کا آواز حق، نسیم امروہوی کا گل خوش رنگ، اور عزیز لکھنوی کا درس وفا، اہم گردانے جاتے ہیں۔
بھارت میں آج بھی روایتی مرثیے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جمیل مظہری سمیت دو چار ایسے ضرور ہیں جنہوں نے جدید مرثیے کی روش اپنائی۔ قطعِ نظر مذھب و مسلک، اردو سے وابستہ بیش تر مسلم شُعَراء نے مرثیے کی صنف میں طبع آزمائی کی ہے، مگر ہندو شُعَراء کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں قرار دیا جا سکتا۔
کون ایسا ہو گا جس نے منشی چھنو لال دل گیر کا گھبرائے گی زینب، نہ سنا ہو، چھنو لال دل گیر کے اس مرثیے کو ناصر جہاں نے امر بنا دیا۔ چھنو لال دلگیر ناسخ کے شاگرد تھے، اور کم و بیش 417 مرثیے لکھے ہیں۔ ان کے علاوہ اہل بیت کے غم گساروں میں دلو رام کوثری، منشی لچھمن داس، رام پرکاش ساحر، حکیم چھنو مل، مہا راجہ بلوان سنگھ راجہ، روپ کماری کنور، بالا جی تسامباک، جوش ملسیانی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کالی داس گپتا رضا سمیت طویل فہرست ہے۔
کراچی میں ایک زمانہ تھا کہ مرثیۂِ نو تصنیف کی محافل ہوا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر یاور عباس مرحوم نے بھی مرثیے کے ترویج میں بڑا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ہلال نقوی، شارب ردولوی اور ڈاکٹر نیئر مسعود نے رثائی ادب کی تحقیق کے حوالے سے بڑا کام کیا ہے۔ استاد سبطِ جعفر مرثیے گوئی اور خواندگی کے حوالے سے بڑا نام ہے۔ جاوید حسن اور فرحان رضا مرثیہ خواں کی حیثیت سے معروف ہیں۔
گو کہ آج پاکستان میں مرثیے اور فروغ کے لیے متعدد ادارے قائم ہیں، محافل کا با قاعدگی کے انعقاد بھی ہوتا ہے، اس کے با وُجود مرثیہ زوال سے کیوں دو چار ہے۔ وحید الحسن ہاشمی اس کا تجزیہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ ماضی میں مرثیے کو مجالس عزا میں مرکزی حیثیت حاصل تھی، مگر اب یہ جگہ ذاکر نے لے لی ہے۔ انتظار حسین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے اور شاید اسی باعث مرثیہ اب عوام کے بَہ جائے خواص تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔
میری کیا بساط کہ مرثیے جیسی عظیم صنفِ سخن پر کچھ کہہ سکوں، اس میدان میں بڑے محقق و مصنف موجود ہیں، بس آج کچھ درد میرے دل میں سَوا ہوتا ہے کے مِصداق اسے معدوم ہوتی صنف کا مرثیہ جانیے۔ موضوع کی وسعت کو کالم میں سمونا بھی نا ممکن ہے بے شمار نام، اور کلام موجود، اسی باعث اَشعار کو شامل نہ کیا، اپنی جہالت پر معذرت خواہ ہوں۔ چلتے چلتے جوش صاحب کا قطعہ:
کربلا اب بھی حکومت کو نِگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوؤں سے مَسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا، آگ پہ چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
کربلا قَلعۂِ فولاد ہے جرّاروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا