اردو میں نئے افکار کی آمد اور اقبال آفاقی کی کتاب
از، صفدر رشید
علمی، فکری اور ادبی دنیا میں گذشتہ دو دہائیوں میں ما بعد جدید صورتِ حال خاص طور پر زیر بحث آئی ہے۔ ہر دور کا ایک حاوی محرک ہوتا ہے، جس کا اظہار کم یا زیادہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں ہوتا ہے اور جو انسان کی حتیٰ کہ داخلی زندگی کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا۔
ہمارے ہاں (پاک و ہند) مابعد جدیدت پر عمومی طور پر درج ذیل اعتراضات سامنے آئے ہیں:
۱۔ یہ مغرب سے درآمدہ نظریات و تصورات ہیں۔
۲۔ ہمارے نقاد مغربی نظریات و افکار کا ترجمہ یا چربہ پیش کرتے ہیں۔ وہ اوریجنل نہیں ہوتے۔
۳۔ مابعد جدیدیت عدم مرکزیت اور انتشار کا دوسرا نام ہے۔ متن کے معنی متعین نہیں، جس کا جو جی چاہے متن کو معنی پہنا دے۔ اس طرح مذہبی متون کو بھی خطرہ ہے۔
۴۔ مصنف کی بجائے قاری/نقاد کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور انڈے کھائیں کوئے۔
اب ان اعتراضات کا ترتیب وار جائزہ لیتے ہیں:
بالکل درست، یہ خیالات، واشنگ مشین کی طرح، پہلے پہل مغرب میں نمودار ہوئے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کے بعد ، بقول شمس الرحمن فاروقی، ہم نے اپنی شعریات کو فراموش کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت غلط یا صحیح کی بحث نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ اُس وقت سے لے کر آج تک کم و بیش تمام اصناف مغرب سے آئیں۔ وہاں کی تمام تحریکوں کے اثرات یہاں کم یا زیادہ محسوس کیے گئے۔ واحد تحریک ترقی پسند تحریک ہے جو واقعی مغربی نہیں، لیکن ہے تو یہ درآمدی اور ادبی منصوبہ بندی کی تو یہ واحد مثال ہے۔ کیا گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران ہماری کسی توانا ادبی تحریک یا رجحان کو خالص مقامی کہا جا سکتا ہے؟
جزوی طور پر یہ بات درست ہے۔ لیکن اس کا اطلاق صرف و محض ما بعد جدید نقادوں پر کیوں کیا جائے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری فکری روایت کا تسلسل کمزور ہو چکا اور گذشتہ چند صدیوں سے ہم مغربی نشاۃالثانیہ کی episteme میں جی رہے ہیں، جس سے فرار ممکن نہیں۔ یہاں یہ مراد نہیں کہ ہم اپنی فکری و ادبی روایا ت سے منحرف ہو جائیں، بلکہ یہ کہ ہمارے قدم اپنی زمین پر ہوں اور دماغ دَور کی episteme سے بیگانہ نہ ہو۔ جہاں جہاں نو آبادیاتی نظام گیا، وہاں کی تہذیب میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ ’نئی روشنی‘ سے متاثرین کی پہلی نسل یقیناًنئے خیالات کا تعارف ہی پیش کرتی ہے، مثلاً حالی نے جن خیالات کا اظہار اس وقت کیا آج بہت سی باتیں سطحی معلوم ہوتی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بے شک یہ غلطی کی کہ مغربی بلکہ انگریزی نظم کی شعریات کا اطلاق اردو غزل پر کر دیا۔ لیکن پھر بھی وہ اس وقت کے لحاظ سے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ اسی طرح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی ابتداء میں مابعدجدید تصورات کا ٹھیک ٹھیک تعارف اردو دنیا میں کرا دیالیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود اور یہ تصورات آج کہاں کھڑے ہیں۔ دوسری نسل کے اہم نقاد کے طور پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا نام نمایاں ہے۔ کیا وہ محض چربہ کر رہے ہیں؟ چربہ سازی کا الزام لگانا بہت آسان ہے مگر ثابت کرنا بہت مشکل کیونکہ اس کے لیے اصل متون کو پڑھنا پڑے گا۔ کاش یہ فلاحی کام کوئی اردو کا ناقد کر لے اور مابعد جدید نقادوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے توڑ ڈالے۔ اپنے طور پر یہ کام بظاہر شاہد بھنڈر صاحب کر چکے ہیں مگر ان کا کام آج علمی دنیا میں کہاں کھڑا ہے؟ (اب سنا ہے کہ وہ اقبال کا تیا پانچا کرنے کی ٹھان چکے ہیں۔)
دوسرا یہ کہ نارنگ ہوں یا وزیر آغا، قاضی افضال احمد ہوں یا ناصر عباس نیر، تمام نے ہی ما بعد جدییت کو اپنی شرائط پر قبول کیا ہے۔ آغا اور نارنگ اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔ اردو شاعری کو اس دھرتی سے جوڑ کر سمجھنے کا مضبوط تھیسس آغا صاحب نے پیش کیا۔ مشرقی شعریات پر ڈاکٹر نارنگ کا کام ہے۔ کیا ان لوگوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہر مغربی خیال کا چربہ بے سوچے سمجھے کرنے لگیں ۔ افسوس کہ مذہب اور سیاست کے نام پر غدار کہنے کی روش اب اردو دنیا میں بھی پنپنے لگی ہے۔
اپنی اصل میں یہ ایک جائز اعتراض ہے۔ یہ درست ہے کہ مابعد جدید صورت حال کیا ہے، اس کے واضح خدوخال کیا ہیں، یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں۔ اس اصطلاح سے ہی واضح ہے کہ یہ ایک عبوری نام ہے۔ لیکن اتنا ضرور واضح ہے کہ بنے بنائے سانچوں کا دور بیت گیا۔ یہ اعتراض بے معنی ہے کہ متن میں من مانے معنی سموئے جا سکتے ہیں کیونکہ معنی بہرحال وہی برآمد ہوں گے جن کا متن متحمل ہو گا، مثلاً
ع ’کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ‘
کی تشریح میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میاں واعظ دراصل غالب کے ہمسائے کا نام ہے۔ جہاں قاری کے ساتھ تناظر ہوتا ہے وہاں متن کے ساتھ اس کا سیاق (perspective) جڑا ہوتا ہے، جو متن کو ہلنے نہیں دیتا اور خلافِ واقعہ معنی کو رد کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی دور آ جائے مذہبی متون کی من مانی تعبیرات نہیں کی جا سکتی کیونکہ سیاق متن کے ساتھ ہے۔
اردو دنیا میں ’مصنف کی موت‘ پر بہت آہ و زاری بلکہ سینہ کوبی کی گئی۔ جن افراد کا ان مباحث سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا کاندھا دینے نکل پڑے۔ زیادہ تر افراد نے اس اصطلاح کوبالکل ظاہری اور سطحی معنوں میں لیا۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ ما بعد جدید تصور کے مطابق مصنف متن کا اصل خالق نہیں ہے کیونکہ خام مواد وہ معاشرے سے لیتا ہے، زبان معاشرے کی بنائی ہوتی ہے، وہ اپنے زمان و مکاں سے ماورا نہیں ہوتا۔ اسی بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ متن کی تخلیق کے بعد متن ’’خالق‘‘ کی ملکیت نہیں، لہٰذا منشائے مصنف کی اہمیت ایک قاری کی منشا سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ ایک تخلیقی متن میں زیادہ سے زیادہ معنی کے امکانات اور gaps رکھے جاتے ہیں، جن کی بدولت نئے نئے معنی کے امکانات زندہ رہتے ہیں۔ کیا اس سے متن زیادہ ثروت مند نہیں بن جاتا۔ معنی کو، محض منشائے مصنف سے مشروط کر کے، محدود کر دینا کوئی عقلمندی نہیں۔
یہ معترضین کا ایک مجموعی مؤقف بھی ہے۔ گویا مغربی سیاسی اور سماجی ایجنڈے کو اردو زبان و ادب پر گذشتہ کوئی دو دہائیوں سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل کے دور بارے راوی چین لکھتا ہے۔ حالانکہ انہی دو دہائیوں میں اردو زبان و ادب کے ورثے پر ایک نظر واپسیں ڈالی گئی ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد یہ سانحہ ہماری تہذیبی اور ادبی زندگی میں پہلی مرتبہ رونما ہوا کہ ہمیں اپنے ورثے سے شرمندہ ہونے لگے اور ہمیں اپنی شاعری ’’ناپاک دفتر‘ معلوم ہونے لگے۔ غزل، قصیدہ، داستان وغیرہ بے معنی محسوس ہونے لگے۔ اگر آج اپنی تنقیدی تاریخ پر بانداز دگر نظر ڈالی جائے تو کیا یہ اپنے معتبراردو نقادوں سے دامن چھڑانے کے مترادف ہو گا؟ ہر گز نہیں۔ حیرت ہے کہ حالی، کلیم الدین احمد، عظمت اللہ خاں وغیرہم جن کے ہاں بآسانی ایسا مواد مل جاتا ہے جسے استعماری ایجنڈے کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے، وہاں تو تھیوری کے معترضین خاموش ہیں اور تھیوری پر بیرونی ایجنڈا ہونے کی تہمت لگائی جا رہی ہے۔ تاہم جس انداز سے ہمارے بعض بزرگوں کا اپنے تہذیبی و ادبی ورثے سے دستبردار ہونا کوئی صحت مند رویہ نہیں تھا، اسی طرح ان بزرگوں کو رد کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے۔ مابعد جدید فکر کی بڑی دین یہ ہے کہ چیزوں کا مطالعہ سیاہ اور سفید میں تقسیم کر کے نہیں کرتا اور حتمیت اور اداعیت کے رویے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
اردو میں اب یہ موضوع اجنبی نہیں رہ گیا۔ مضامین اور کتابوں کی شکل میں کافی کام سامنے آچکا ہے ۔ ہر شعبۂ علم کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جنہیں سمجھے بغیر اس علم کی مبادیات سے واقفیت ممکن نہیں۔ تھیوری سے متعلق اصطلاحات نے بھی کافی مسائل کو جنم دیا ہے۔ بعض اصطلاحات کے ظاہری معنی لیے گئے۔ بعض اصطلاحات کا ترجمہ اردو میں غلط کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر چونکہ یہ فلسفہ اور سماجیات کے علاقے کے تصورات ہیں، اس لیے ایک فطری مشکل پن ان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
روایتی تنقید کا عادی ہونے کے باعث یقیناً تھیوری کی تفہیم ہمارے لیے ادق ضرور ہے۔ اردو میں تھیوری کی اصطلاحات کے تعارف پر مبنی حال ہی میں سامنے آنے والی ڈاکٹر اقبال آفاقی کی اس کتاب نے یہ مۂلہ ایک حد تک حل کر دیا ہے۔ آفاقی صاحب کی اس کتاب میں پہلی دفعہ ایسی ٹرمز کو بھی اُردو میں پیش کیا گیا ہے جو ابھی تک زیرِ بحث نہیں آئیں تھیں۔ اس ضمن میں اس کتاب کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس کتاب نے مابعد جدید تھیوری کو ایک نئے رُخ سے سمجھنے میں مدد دی ہے۔وہ نیا رُخ اس کتاب کی شکل میں کلی شکل میں سامنا آنا بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تھیوری اور اس سے وابستہ لسانی نظریات ادق ہیں۔ نئے طالب علموں حتی کہ اساتذہ کے لیے بھی ان مباحث کو ’’ہضم ‘‘ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اقبال آفاقی صاحب نے اس کتاب کی شکل میں بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ اس کتاب کی ایکا ور خوبی سلیس اور رواں نثر میں بھاری اصطلاحات کی وضاحت ہے۔آپ کتاب کو کھول کے پڑھتے جائیں ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی ٹرم کی وضاحت نہ ہو پائے۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہُوا ہے کیوں کہ آفاقی صاحب کا بنیادی میدان فلسفہ ہے اور وہ فلسفے کو بہت اچھے طرح سمجھتے ہیں۔ ادب اور ادبی جمالیات پر بھی انھیں کامل عبور ہے اس لیے ان دونوں میدانوں میں ماہر ہونے کی وجہ سے اقبال آفاقی صاحب نے تھیوری کو ادب کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
امید ہے کہ اردو دنیا اس کا خیر مقدم کرئے گی اور یہ کتاب بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ بنیادی طور فلسفے کے آدمی ہیں اور ادب میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، اس لیے ان سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جو ہمارے لیے ان اصطلاحات کو آسان کر دے۔ ایسی فرھنگ مرتب کرتے پر وہ یقیناًمبارک باد کے مستحق ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.