اردو ناول کو اپنی حقیقی پہچان کے لیے طویل سفر کرنا ہو گا
از، نعیم بیگ
اردو ادب میں ناول کے تاریخی پسِ منظر اور روایتی ارتقاء سے منازل طے کرتے ہوئے عصری ناول کو جس نظر سے دیکھا جا رہا ہے، وہ نظر بھلے ایک قاری کی ہو یا کسی ثَقّہ نقاد کی، بَہ ہر حال اس میں بے تحاشا غیر ضروری عناصر اور گفتگو کو زیرِ بحث لا کر کچھ دوست اِس ناول یا تخلیق کو ادب کا شاہ کار قرار دے دیتے ہیں۔
بَہ حیثیتِ قاری تو یہ سب سنبھالا اور قبولا جا سکتا ہے، لیکن تنقیدی نظر یہ معاونت قبول نہیں کرتی۔ یہاں ہر قابلِ گفتگو تخلیق میں نقاد اپنے نظریات کو ہی حتمی سمجھتا ہے، اور انھی تھیوریز کے تحت وہ تخلیق کا محاکمہ کرتا ہے۔
احقر اس ضمن میں حسنِ مظنون سے معرفتِ نفس کے سانچے ڈھالے جانے کے ان پیمانوں، parameters، کو یک سر مسترد کرتا ہے جو ہمارے ہاں اردو ادب میں سکّۂِ رائج الوقت بن چکے ہیں۔
نقاد کا بنیادی کام میرے تئیں تخلیق کے ان مخفی پہلووں پر قاری کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہوتی ہے اور متن و معانی کو یک ساں سطح پر لا کر علامتی، استعاراتی، بینُ السُّطور، یا زیریں سطح کی تخلیقی و جمالیاتی مظہریات کو ایک معنیٰ دینا ہی مقصدِ اولیٰ ہوتا ہے۔
اولاً، ادب میں ہر صنف اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ بیسویں صدی میں اردو داستان کے بعد ایک خلاء تھا جسے افسانے نے پُر کیا۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے افسانہ جیسی صنف کو اس قدر معتبر کر دیا کہ بیسویں صدی اس سِحَر سے نہ نکل سکی۔
یہ معاملہ صرف اردو ادب میں ہی نہ تھا، بَل کہ دنیا بھر میں کہانی، short stories نے ایک تہلکہ مچایا ہوا تھا۔ جہاں روسی افسانہ نگاروں نے فکشن کو نئے زاویے دیے وہیں دھیمے لہجے میں War and Peace جیسے ناولوں نے الگ رنگ جمایا۔ جو 1899 میں ترجمہ ہو کر بیسویں صدی میں دنیا تک پہنچا۔
مزید متعلقہ تحریریں:
اردو ناول کی تخلیق، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق از، کامران کاظمی
فطرتی ماحول، ماحولیاتی مسائل اور عصری اردو ناول از، یوسف نون
گزشتہ تین ماہ میں پڑھے گئے چند ناولوں کا تعارفیہ از، ضیغم رضا
پھر میکسم گورکی نے حقیقت نگاری میں ٹالسٹائی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بعد اور درمیان میں ناول آتے رہے لیکن گیبریل گارشیا مارکیز نے جادوئی حقیقت سے ناول کو موضوعاتی تنوُّع سے کہیں اوپر لا کھڑا کیا۔
تبھی میلان کنڈیرا نے The Joke اور The Book of Laughter and Forgetting لکھ کر قارئین پر نفسیاتی ناولوں کے لیے نئے افق وا کر دیے۔ وہی تجربے جو پہلے جین آسٹن الگ طرح سے نسائی معاملات میں کر چکی تھیں۔
یہاں ہم اور ہمارے نقاد (استثناء اپنی جگہ) اردو ادب میں مکھی پر مکھی بٹھا رہے تھے کہ اورحان پامُوک نے جو کافکا سے لے کر کامیو تک سے زیادہ متأثر تھے، لیکن اپنے ناولوں میں دوستوئیفسکی اور کامیو کا رنگ لے کر دنیائے ادب میں ابھرے۔
پاموک کا مقبول ترین ناول My Name is Red ١٩٩٨ میں آیا اور مواد کے حوالے سے یوں لگا کہ وہ انتظار حسین کے ناول بستی ١٩٧٩ سے متأثر ہو کر لکھا گیا ہو۔
جب کہ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہو گا، کیوں کہ بستی ۲۰۰۷ میں انگریزی ترجمہ ہوا تھا__ لیکن ان کے ناول میں جب وہی نفسیات، وہی تاریخی مُو شگافیاں، محبت اور اس کی اقسام اور انسانی خواہشات کا ایک انبوہ__ مجھے حیرت ہوئی کہ تاریخی ناول لکھتے ہوئے کردار نگاری پر تکیہ کیا گیا، جو میرے تئیں ناول کے لیے نا کافی ہے۔
ناول میں کردار نگاری، منظر نگاری، پلاٹ اور کہانی، اُسلُوب و بیانیہ کے پسِ منظر میں بڑے کینوس پر mighty مرکزی فکر و مقصد اگر نہیں تو تیکنیکی لحاظ سے وہ ناول بڑا ہو سکتا ہے __ ممکن ہے کہ مقبول بھی ہو جائے__ لیکن ادب کا لطیف مقصد مکمل نہیں ہوتا۔
میرا مطلب کسی طور پر اورحان پاُموک اور انتظار حسین کا تقابلی جائزہ لینا نہیں ہے۔ انتظار صاحب کے بستی ناول کو طرح داری تقسیم کے موضوع سے ملی جب کہ اورحان نے My Name is Red ناول کی مقبولیت سے نام کمایا۔ تاہم میری رائے میں اورحان پامُوک کا The Snow موضوعاتی لب و لہجے میں کہیں بڑا اور بہتر ناول ہے۔
تاہم ناول کی دنیا میں تب ایک انقلاب آیا اور جدید ناول اُسلوبیاتی، لسانی و ساختیاتی سطح پر نئے تجربے کے ساتھ اولگا تکارزک نے The Flight لکھ کر ناول جیسی صنف کو تخلیق کرنے میں مشکلات پیدا کر دیں بَل کہ یوں کہیے ناول نگاروں کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
٢٠٠٧ کے ترجمے سے عالمی قاری ناول کے پورے ڈھانچے کو بدلتا ہوا دیکھتا ہے۔ یہی انداز اور تجربہ اور موضوع ۲۰۱۸ کا نوبیل حاصل کر گئے۔
١١٦ مختصر کہانیوں/ ابواب پر مشتمل ناول اپنے پورے سفر کو ایک انجان سفر نامے، travelogue، کی زبانی سنتا ہے قوم پرستوں کے جبر سے نکلتا ہوا نظریات کی آبیاری کرتا ہے۔ وہ ساری عمر ان مسائل سے نفسیاتی طور پر دور دوڑتا رہا۔
مختصر یہ کہ اردو ناول کو اپنی حقیقی پہچان کے لیے ابھی طویل سفر کرنا ہے۔ اردو ادب میں ایک اور مسئلہ بھی ابھرا ہے۔ ناول جیسی مہان صنف کو لکھنے اور شائع کرنے کے مراحل میں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں مقبول ناول نگاروں کی زُود نویسی نے تو اردو ناول کے سفر کو مزید مشکل کر دیا ہے، جہاں ناول کا سفر ادب سے پاپولر ادب کی طرف مراجعت کرتا محسوس ہوتا ہے وہیں اپنی روایتی ساخت کی وجہ سے دیمک زدہ محسوس ہوتا ہے۔
اس ضمن میں مصنف کے ساتھ نقاد بھی قابلِ رحم ہے کہ تخلیقی و تنقیدی میدان میں نِت نئے تکنیکی، لسانی و اسلوبیاتی تجربات اور جائزے کے لیے ان کے پاس عالمی ادب پڑھنے کا وقت نا کافی ہے۔