اردو ادب میں ناول کا ارتقاء اور آج کے ناول نگار

Naeem Baig
نعیم بیگ

 اردو ادب میں ناول کا ارتقاء اور آج کے ناول نگار

از، نعیم بیگ

ادبی حلقوں میں یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اردو ادب میں ناول کی پیش رفت تھم گئی ہے؟ جب ہم اس سوال کا عمیق جائزہ لیتے ہیں تو تصرفاتی سطح پر دو ضمنی سوال بھی اٹھ جاتے ہیں۔ اولاً کیا اردو ادب کے حوالے سے بر صغیر پاک و ہند میں گزشتہ چند دھائیوں سے اُسلُوبیاتی، یا موضوعاتی سطح پر کوئی بنیادی مسئلہ درپیش تو نہیں؛ یا ثانیاً جب ہم اردو ادب اور اس میں لکھے جانے والے فن پاروں کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ تمام ادب جو اردو زبان کے حوالے سے لکھا جا رہا ہے اس میں ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ عالمی سطح کے وہ بڑے ملک بھی شامل ہیں جہاں اردو ادیب بستے ہیں۔

تاہم جہاں تک ان فن پاروں کی پبلشنگ، یا اشاعت کا کام ہے وہ انھی دو ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے۔ جہاں نقاد انھی سانچوں میں ڈھلے فن پارے تلاش کرتے ہیں جو نظریاتی طور پر بَہ ظاہر جدیدیت کی نمائندگی کرتے ہوں، لیکن اپنی تاثیر میں کنزرویٹو، یا یوں کہیے کہ وہی روایتی انداز لیے ہوئے ہوں۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سیاسی طور پر نا سازگار حالات نے اردو ادب کے ان دو سر چشموں (پاکستان و ہندوستان) پر ہر دو طرفہ پابندیاں اس قدر لگا رکھی ہیں کہ ترسیلِ معلومات و کتب اور ان کی قاری تک فراہمی کو دشوار ترین بنا دیا گیا ہے۔

گاہے گاہے کوئی خبر پہنچ جاتی ہے ورنہ تفصیل سے پاکستان والوں کو یہ خبر تک نہیں ملتی کہ ہندوستان میں ادبی رحجانات کیا ہیں اور ادب کس سمت میں سفر کر رہا ہے۔

اس طرح ہندوستان میں بھی یہ خبر ذرا کم پہنچتی ہے۔ چند ایک جریدے ہیں جو باعثِ تقویت ہیں اور تھوڑا بہت جو کچھ یہاں پہنچتا ہے انھی ادبی آن لائن جریدوں کے توسط سے پہنچتا ہے۔

 اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا فورمز اور ورچُوئل ادبی جرائد کی معلومات نے کسی حد تک اس مسئلے کو حل تو کیا ہے لیکن مکمل آگہی ابھی بہت دور ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اردو ناول کی پیش رفت کیا تھم گئی ہے؟ میرا نہیں خیال ایسا ہے۔ وہی بات کہ گذشتہ ایک سال میں ہمارے ہاں، یعنی پاکستان میں، اردو ناول جنھیں اردو ادب میں مقام مل رہا ہے وہ تعداد میں کچھ زیادہ تو نہیں۔ سال بھر میں یوں تو کئی ایک ناول سامنے آتے ہیں لیکن جن سنجیدہ ناولوں کو نقد و نظر کے احباب خاطر میں لاتے ہیں یا پرنٹ میڈیا ان پر گفتگو کرتا ہے وہ چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ جیسے میرزا اطہر بیگ کے ناول غلام باغ اور حَسن کی صورتِ حال: خالی جگہ پر کریں وغیرہ۔

اس سے پہلے انتظار حسین کا ناول بھی آ چکا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ناولوں کی پش رفت تھم گئی ہے، بیرون اَز قیاس ہے ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ رفتار سست ہو چکی ہے۔ اقبال حسن خان لکھ رہے ہیں۔ عاطف علیم لکھ رہے ہیں۔ خاکسار کا ایک حالیہ اردو ناول ڈئیوس، علی اور دیا سامنے آ چکا ہے۔ چند ایک نوجوان ادیب جیسے سید کاشف رضا، اختر رضا سلیمی، خورشید اقبال، زیف سید وغیرہ بھی لکھ رہے۔

ہندوستان میں بھی مشرف عالم ذوقی اور شموئیل احمد لکھ رہے ہیں۔ 2014 میں ان کے ناول سامنے آئے ہیں ۔ اس سے پہلے پیغام آفاقی لکھ چکے ہیں۔

ہاں البتہ ہم اکیسویں صدی میں لکھے جانے والے چند اہم ناولوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہندوستان میں شائع ہونے والے حالیہ ناولوں کے بارے میں پیغام آفاقی کے علاوہ مشرف عالم ذوقی، شموئیل احمد اور رحمان عباس لکھ رہے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کا ناول سِنہ 2014 میں سامنے آیا تھا۔ ان کا حالیہ ناول مرگ انبوہ آیا ہے۔ کچھ اور دوست بھی لکھ رہے ہیں۔ رحمان عباس روحزن لے آئے ہیں۔ جو ہندوستان اور پاکستان دونوں طرف پڑھا جا رہا ہے۔

پاکستان میں ایسا نہیں ہے کئی ایک ناول اردو ادب میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ پیغام آفاقی کے مکان سے لے کر انتظار حسین کے سنگھاسن بتیسی، سعید کی پُر اسرار زندگی، میرزا اطہر بیگ کا غلام باغ، اور حسن کی صورتِ حال: خالی جگہیں پُر کریں، اقبال حسن خان کا گلیوں کے لوگ اور یہ راستہ کوئی اور ہے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ کا بہاؤ، خس و خاشاک زمانے اور غزالِ شب ہیں۔ سلیم شہزاد کا ناول پلوتا ہے۔ یہیں پر میرزا حامد بیگ کا تاریخی ناول انار کلی سامنے آیا۔ صفدر زیدی کے دو ناول چینی جو میٹھی نہ تھی اور بھاگ بھری۔

ابھی حال ہی میں نوجوان ادیب اقبال خورشید کا ناول تکون کی چوتھی جہت اور سید کاشف رضا کا ناول چار درویش اور ایک کچھوا منصۂِ شہود پر آیا۔ کاشف رضا نے اس ناول پر یو بی ایل ایوارڈ بھی جیتا۔

اختر رضا سلیمی کے دو ناول جندر اور جاگے ہیں خواب میں۔ محمد عاطف علیم کے دو ناول مشک پوری کی ملکہ اور گردباد ہے۔ علی اکبر ناطق کا ناول نولکھی کوٹھی، خالد فتح محمد کا ناول زینہ اور شہرِ مدفون، فارس مغل کا ناول ہم جان، حسن منظر کا ناول دھنی بخش کے بیٹے، انیس اشفاق کا پری ناز اور پرندے، ڈاکٹر صولت ناگی کا شب گزیدہ سحر، زیف سید کا آدھی رات کا سورج، محمد عاصم بٹ کا ناول نا تمام اور بلوچستان سے فاروق سرور کا ناول سگ بان شامل ہیں۔ اِن کے علاوہ محمد عامر رانا، محمد اقبال عابد، اے خیام اور شاعر علی شاعر کے ناول بھی شامل ہیں۔

سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ نِت نئے تجربات ہو رہے ہیں اور اردو ادب کے ناول کا سفر بَہ خوبی جاری ہے۔

پاکستان میں خواتین ناول نگاروں کی بڑی اکثریت سرگرم عمل ہے لیکن سینئر خاتون رائٹرز جن میں کمیلہ شمسی، الطاف فاطمہ، بپسی سدھوا، زاہدہ حنا حیات ہیں لیکن ان کا کوئی کام اب سامنے نہیں آ رہا ہے۔ (فاطمہ ثریا بجیا چلی گئیں۔)

آمنہ مفتی لکھ رہی ہیں۔ نیلم احمد بشیر کا حالیہ ناول طاؤس فقط رنگ سامنے آیا ہے۔ ہندوستان سے صادقہ نواب سحر لکھ رہی ہیں۔

اکثر دوسری خواتین ناول نگار جن میں بہت سے غیر معروف نام شامل ہیں بہت کام کر رہی ہیں جو عام طور پر خواتین کے ڈائجسٹوں میں شائع ہو رہا ہے۔ اسے ہم پاپولر ادب کہہ سکتے ہیں جس میں شاہ بانو بلگرامی، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد وغیرہ، نمایاں ہیں۔ تاہم سنجیدہ ادب میں ان کی کوئی تخلیق سامنے نہیں آئی۔ ویسے خواتین میں نسیم سید، کوثر جمال سبین علی، منزہ احتشام گوندل شارٹ سٹوری رائٹرز کے طور پر نمایاں ہیں۔

یہاں ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ جو بے حد اہم سوال ہے۔ جیسا پہلے عرض کیا ہے کہ ہمارے ہاں ثقافتی و ادبی رحجانات سماج میں بڑھتی ہوئی نئی نظریاتی و سیاسی تبدیلیوں سے تیزی سے متأثر ہو رہے ہیں۔

اور وہی موضوعات ان ناولوں میں سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں مَثبت پہلو یہ ہے کہ مرد ناول نگاروں کی طرف سے زندگی سے متعلق، انسانی نفسیات پر اور دیگر عصری موضوعات پر فلسفیانہ انداز سے لکھا جا رہا ہے، جب کہ خواتین میں تانیثیت و نسائی حوالوں سے کام ہو رہا ہے۔

مجھے معلوم ہوا کہ فہمیدہ ریاض نے اپنا ناول مکمل کیا ہے۔ زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔ اب یہ ناول کب شائع ہو معلوم نہیں، لیکن ان کے موضوعات ہمیشہ سے سماجی فکری تناظر میں تانیثیت کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔

فاطمہ ثریا بجیا انھی معاشرتی اور تانیثی مسائل کو اپنے ناولوں، ڈراموں میں زیرِ بحث لا چکی ہیں۔ صرف بانو قدسیہ کچھ الگ لکھتی رہی ہیں لیکن ان کے ہاں بھی موضوع نسائیت اور مبہم مذہبی دلائل سے دور نہ رہ سکے۔

اب ادبِ عالیہ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں اس کی تشریح اور اس پر بات اہم سوال ہے۔ کسی ترقی پسند کے ذہن سے اعلیٰ ادب مزدور اور آجر کا رشتہ اور اس کے مسائل پر آجیر کی فوقیت ہی ادب کا اہم سوال ہے لیکن کسی دوسرے ادیب کے سامنے ادب صرف جمالیاتی حَظ کا نام ہے۔ وہ فلسفیانہ رد عمل اور اس سے جڑے مسائل سے منسوب و مطلوب کو غیر اہم مانتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر ادب کو کسی نظریہ کے تحت نہیں دیکھتا۔ ادب بَہ راہِ زندگی ہونا چاہیے اور اس میں فرسودہ و اسطوری داستانی رویوں سے نکل کر سیمابی لیکن کڑی حقیقت نگاری ادیب کا منشاء و منتہاء ہونا لازم ہے، ورنہ ادب صرف ادب ہی رہ جائے گا اور سماج کا وہ سقیم الحال حصہ ادبی افادے سے محروم رہے گا، جسے عمومی طور پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔

اب اس میں تخلیقی وفور کس قدر اہم ہے یہ تخلیق کار پر مبنی ہے کہ وہ کس قدر راسخ النظریہ (خالصاً ادبی معنوں میں) ہو کر مرکزی خیال کو جنم دیتا ہے اور اس کی ٹریٹمنٹ متن کو کس طرح سامنے لاتا ہے۔ ہاں جو آج کل بیانیہ میں جدیدیت کے ساتھ ترقی پسند رچاؤ سامنے آ رہا ہے وہ بہت اعلیٰ ہے۔

اردو ادب میں ناول کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اور سوال طویل گفتگو کا حامل ہے لیکن مختصر عرض کروں گا کہ کیا اردو ناول اب افسانے سے کہیں دور ہے یا اپنی تاثیر میں بڑے کینوس کا احاطہ کر پا رہا ہے؟

اس سوال کو گذشتہ چند دھائیوں سے مجموعی عالمی سائنس اینڈ ٹیکنالوجیکل ڈیویلپمنٹ (تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی سائنسی ترقی یا ارتقاء) کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ عالمی سطح پر پہیہ کی ایجاد کے بعد جب ٹیکنالوجیکل سائنسی پیش رفت ہوئی تو میکینکل انجینئرنگ نے زندگی کو مہمیز دی اور انسان ذہن نے جب مشین ایجاد کی تو وہ مکینیکل شعور کی بہترین امثال تھیں۔ لیکن جسامت میں بہت بڑی تھیں۔

اس کے کوئی سو سال بعد انسیویں صدی کے اختتام پر یہی انجینئرنگ اپنے الیکٹریکل دور میں داخل ہوئی تو جہاں کار کردگی میں بہتری آئی وہیں ان کی جسامت یا حجم کم ہو گئے۔ بیسیوں صدی میں الیکٹرونک دور آیا تو مزید ایسا ہوا کہ جسامت و حجم اور کم ہوا، اور کارکردگی بہترین ہوتی چلی گئی۔

آج ڈیجیٹل دور ہے۔ مغرب میں پہلا کمپیوٹر آج سے کوئی ستر سال پہلے وجود میں آیا تو اس کی تاریخی حیثیت و جسامت دیکھیے۔ آج کمپیوٹر آپ کی ہتھیلی پر موبائل کی شکل میں موجود ہے۔ اب ہم نینو چپ کی طرف جا چکے ہیں اور مصنوعی ذہانت کے در کھل رہے ہیں۔

سو عالمی سطح پر ہر شعبۂِ زندگی میں اور انسانی نفسیات پر اس تبدیلی کے نا قابلِ یقین اثرات آئے ہیں۔ جب ابتداء میں اساطیری کہانیاں، طلسمِ ہوش ربا اور طلسماتی کہانیاں رائج تھیں تو وہ عَمرو عیار کی پٹاری کی طرح طویل، پیچ در پیچ داستانیں ہمارے ادب کا حصہ تھیں۔ اب مختصر ہوتے ہوئے آج افسانے کو بھی مائکرو فکشن میں برتنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

لہٰذا وقت کی کمی، سائنسی و لسانی ارتقاء پر اختصاری انحصار، پروفیشنل لیول پر اختصار نویسی نے کہانی کو اس درجہ پر لا کھڑا کیا ہے۔ انگریزی میں شارٹ سٹوری بھی بیسویں صدی کا تحفہ ہے۔ اب فلیش فکشن یا مائیکرو فیکشن رائج ہو رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قاری مکمل طور پر اختصار نویسی کو ہی پڑھ رہا ہے۔

ابھی کثیر تعداد میں ایسے قاری موجود ہیں جو ناول پڑھ رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ناول کے بعد اسی طرح افسانہ بھی پڑھا رہا ہے لیکن ایک ارتقائی صورتِ حال ہے جو شاید اس صدی کے آخر تک ہمیں مزید مختصر کر دے ۔ یہی وجہ ہے کہ شارٹ سٹوریز یا مائیکروفکشن/افسانچے میں کچھ کہنے کو تکنیکی لحاظ سے ایک چیلنج مانا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس، جین آسٹن کے پرائیڈ اینڈ پرَے-جُوڈِس جیسے ضخیم ناول اب نہیں آ رہے۔

اس ضمن میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ناول کی شاخوں کے برگ و بار نیوکلیائی معاشرے کا منظر نامہ پیش کرنے میں کام یاب ہو رہے ہیں؟ یہاں یہ عرض کر دوں کہ یہ تجربات عالمی سطح پر تو بہت ہو رہے ہیں۔ گذشتہ برس کے نوبیل پرائز کی مصنفہ اولگا تکارزک اپنے ناول فلائٹس میں جہاں انسانی نفسیات کو پرکھا وہیں انسانی جسم، اس کی کلِپ زدہ زندگی (بندھی ہوئی زندگی… بروچنگ لائف) موت کے متحرک اسباب اور ہجرت کے نا مساعد ذہنی اثرات پر لکھا۔

تجربات ہوتے رہتے ہیں کھبی کام یاب کبھی نا کام لیکن عصری عہد کو رقم کرنے والا، یا لکھا جانے والا ادب ہی زندہ رہے گا، کیوں کہ وہ ادب بَہ یک وقت مستقبل کی راہیں استوار کر رہا ہے اور بعد میں پڑھنے جانے پر ماضی کا عکاس ثابت ہو گا۔

باقی تجربات نا کام ہو جائیں گے۔ کہانی یا ادب میں تاریخ پنہاں ہوتی ہے جو آنے وقت میں ادب کی تاریخ بھی بنتی ہے سو اس سے مفر نہیں کہ وہی ادب زندہ رہتا ہے جو عصری عہد کو پینٹ کرتا ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

 ایک بات اور کہی جاتی ہے کہ کیا جنس اور عورت کے بَہ غیر معیاری ناول لکھنا ممکن ہے۔ دیکھیے بنیادی بات یہ دیکھنی ہے کہ کیا جنس یا عورت کیا کسی دوسری کائنات کی مخلوق ہے، جسے ہم اپنی کہانی میں نہیں لا سکتے۔

بھئی زندگی کے ہمہ جہت پہلووں میں سے ایک بڑا ناتا تو خود عورت کی تخلیق ہے۔ اس قدر اہم موضوع سے کیسے دور رہا جا سکتا ہے۔

منٹو نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کہا تھا کہ اگر عورت مرد کے سر پر سوار نہ ہوگی تو کیا مرد کے سر پر گدھے گھوڑے سوار ہوں گے؟

ہاں ادبی نقطۂِ نظر سے اس تمام پہلووں کی لطیف جہات اور جمالیات کا خیال رکھا جانا از حد لازم ہے۔ جنسی مسائل یا علوم کی کتب میں انسانی مرد و عورت کے اعضائے مخصوصہ کی تصاویر تک شائع ہوتی ہیں تو کیا انھیں فحاشی کہیں گے ہم؟

ایک حقیقی ادیب کو اس جمالیاتی سطح کا علم ہوتا ہے اور وہ اس کا خیال بھی رکھتا ہے۔ اسی کے ساتھ سماجی و اخلاقی اقدار بھی کہیں ذہن میں ہوتی ہیں وہ ادیب اسے بھی دیکھتا ہے۔

لہٰذا میں قطعی طور پر جنس یا عورت کے بغیر ادب کو نا مکمل سمجھتا ہوں۔

ناول کے حوالے سے ایک پہلو مزید سامنے آتا ہے۔ نقاد کہتے ہیں زوال آمیز تہذیب کے بدلتے نقش کو کیا آج کے ناول کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آج کے ناول نگار اظہار کے اثرات سے کس قدر مطمئن ہیں؟

پہلا حوالہ قدرے ابہام کا شکار ہے؟ تاہم یہ کہوں گا کہ جدید موضوعات کو مشرف عالم ذوقی بڑے کینوس پر اپنے مرگ انبوہ میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ خود میں نے اپنے حالیہ ناول ڈئیوس، علی اور دیا میں پوسٹ کالونیل اثرات کو رگیدا ہے وہیں عصری تہذیب کو زیرِ بحث لایا ہوں۔ گو اس ناول کا اسلوب نیم جدید ہے لیکن جدید عصری عہد پر مکمل گفتگو کی ہے۔

جدید اسلوب کو کاشف رضا نے برتا ہے۔ صفدر نوَید زیدی نے نیوکلائی جنگ کا نقشہ پیش کیا؟ ناطق نے پارٹیشن کے بعد نو آبادیاتی پہلووں پر گفتگو کی ہے۔ مشرف عالم نے مرگ انبوہ میں جدید اسلوب اور جدیدیت کے اثرات پر گفتگو کی ہے۔ رحمان عباس بالکل الگ پوسٹ ماڈرن المیہ کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔

جہاں تک تعلق ہے کہ آج کے ناول نگار کیا اظہار اور اس کے تأثرات سے مطمئن ہیں؟ میرا خیال ہے کہ یہ کسی معاصر ادیب کا کام نہیں کہ وہ کسی دوسرے ادیب کے اسلوب اور ڈکشن پرکوئی حتمی بات کرے۔ ہاں اپنی رائے دی جا سکتی ہے۔

بنیادی طور پر ادب میں کماحقہ ابلاغ و ترسیل کا قائل ہوں اور مقصدیت کے بَہ غیر گفتگو کو زیرِ بحث لانا فضول سمجھتا ہوں۔ بھلے وہ علامت میں ہو یا تجرید میں۔ تشکیک کا عمل آپ کی فکر میں ہونا لازم ہے لیکن الفاظ کی ترتیب مبہم نہ ہو۔ وہ نثر یا شاعری، جسے ہم افسانہ، ناول یا کسی بھی نثری حیثیت میں تخلیق کرتے ہیں یا شعری کیفیت میں ڈھالتے ہیں اگر قاری تک اپنا مکمل ابلاغ نہیں پہنچاتی تو اپنے مقاصد میں نا کام ہو جاتی ہے۔

کسی بھی تخلیق کو مجموعہِ ہائے ادب کے ان تمام پہلووں کا احاطہ کرنا مقصود ہوتا ہے جس میں پہلا قدم ابلاغ، دوسرا شعوری ادبی حظ اور تیسرا بین السطور لا شعوری سطح لطیف ادبی جمالیات اور لطافت کا وہ پہلو جسے روحانی سطح پر محسوس کیا جائے۔

دوسرے لفظوں میں نظر آنے والے وہ تمام عناصر درست یا مکمل ہوں اور مخفی سطح پُر کیف بھی ہوں اور احساسات کو یقین کی حد تک مطمئن کریں۔ اگر یہ سب کچھ ہے تو وہ نثر کام یاب ہے۔ آج کے اردو ناولز میں ایسا چیدہ چیدہ ہی ہے۔ اس کی وجہ صرف ٹریٹمنٹ کی سطح پر سہل پسندی کہیں گے۔ ورنہ جمالیاتی سطح پر اس ادیب نے اپنا کام کیا ہوتا ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔