خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے والا نجم الدین احمد
از، خالد فتح محمد
کہا جاتا تھا کہ ہر کوئی ایک ناول لکھ سکتا ہے، بات دوسرے ناول پر کھلے گی۔ اب اِس سوچ میں ایک تبدیلی آ گئی ہے۔ کہا جانے لگا ہے کہ دو ناول تو ہر کوئی لکھ لیتا ہے، اصل معاملہ تو تیسرے ناول کے لکھنے کا ہے۔ نجم الدین احمد نے جب دوسرا ناول لکھا تو کوئی معرکہ سر انجام نہیں دیا تھا۔ جب تک اُنھوں نے تیسرا ناول نہیں لکھ لیا۔
مدفن، کھوج اور سہیم اُن کے تین ناول ہیں۔ اِس طرح اُنھیں اس فہرست میں شامل ہونے کر جائے گا کہ نہیں، جو ناول نگار مانے جانے کے لیے ضروری ہے۔ نجم الدین احمد ایک مستند مترجم، عمدہ افسانہ نویس اور صاحبِ طرز ناول نگار ہیں۔
اُردو زبان میں پچھلی صدی کی آخری دَھائی تک ناول کم تعداد میں لکھے گئے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ان وجوہات میں ایک تو ناول کے کَینوَس کا وسیع تر ہونا ہے اور دوسری بات یہ کہ افسانے کی اُردو فکشن پر وہ گرفت جو ایک عہد ساز دور میں قائم ہو گئی تھی،
اِس گرفت کی مضبوطی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ نقاد ابھی تک اُس دور میں گُم ہے، یعنی وہ وہاں سے نکل نہیں پایا۔
اِس صدی میں روَیّوں اور سوچ میں تبدیلی آئی اور ناول ایک مقبولِ عام صنف کے طور پر سامنے آیا۔ ہمارا نقاد فیصلہ صادر کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور ہمیشہ کی طرح اِس صدی کو ناول کی صدی قرار دے دیا ہے جو قبل اَز وقت ہے۔ کون جانے کہ افسانہ اپنی تمام تر قوت کے ساتھ فکشن کی بساط پر بازی لے جائے۔
نجم الدین احمد کے ناول ایک با خبر مصنف کا پتا دیتے ہیں۔ ایسا مصنف جو حقیقت اور حقیقت سے اوپر ایک ایسا خط، جو حقیقت اور تصور کو جدا کرتا ہے، کی شناخت کرتا ہے؛ وہ خط ایک ایسی رکاوٹ ہے جسے ہر کوئی پار نہیں کر سکتا۔
اِس خط کو پار کرنے کے لیے ناول نگار کو کئی رکاوٹیں پار کرنا ہوتی ہیں اور پہلی رکاوٹ اُس کا اپنا خوف ہے۔
تصور کا کوئی وجود نہیں ہوتا، لیکن یہ پھر بھی جسمانی وجود دیے بَغیر اشیاء کو وجود دے سکتا ہے اور حقیقت، معلوم یا نا معلوم وہ سب ہے جو وجود رکھتے ہیں۔ جب بھی انسان کے نفسیاتی عدم توازن کو موضوع بنایا جائے، وہاں یہ خط مصنف اور قاری دونوں کے لیے کئی ایک مشکلات پیدا کرتا ہے۔ نفسیاتی عدم توازنی تصوراتی نہیں، کیوں کہ یہ موجود ہے۔ اِس کا وجود نہیں لیکن یہ حقیقی ہے۔ اِسے دیکھا نہیں جا سکتا، لیکن یہ رویوں میں نظر آتی ہے۔
انسان کا یہ نفسیاتی اُلجھاؤ، نجم الدین احمد کے تینوں ناولوں میں موجود ہے۔ مدفن میں بڑا کردار ایک خود ساختہ اُلجھن کا شکار ہو کے نفسیاتی ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ کھوج کا بڑا کردار بچپن میں سسی پنوں کی کہانی سنتے ہوئے سسی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنی جان کی پَروا کیے بَغیر اُس کی قبر ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے اور سہیم کی مرکزی کردار مرنے سے پہلے اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ جب وہ حجلۂِ عروسی میں داخل ہوتا ہے تو وہ اکیلا نہیں چار افراد ہوتے ہیں۔
مزید دیکھیے:
بنجر زمینوں کو سیراب کرتا خالد فتح محمد از، خلیق الرحمٰن
پانچ نسلوں کی داستان : خالد فتح محمد کے ناول شہر مدفون پر ایک نظر تبصرۂِ کتاب از، حفیظ تبسم
اردو ناول کی تخلیق ، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق ، کامران کاظمی
عزیز احمد کے ناول ‘آگ’ میں سلگتا ہوا کشمیر تبصرۂِ کتاب از، محمد عاطف علیم
ناول ڈئیوس، علی اور دِیا … تاثرات تبصرۂِ کار: سید صداقت حسین
ہر دور میں معاشی بے چینی اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں، جن کا اثر بَہ راہِ راست فرد کی نفسیات پر پڑتا ہے جو مصور، مصنف اور اداکار کی تخلیقات میں بھی نظر آتی ہیں۔
اِن پیچیدگیوں کو دکھانے کا ڈھنگ اور اسلوب جداگانہ ہونا یقینی ہے کیوں کہ دو افراد کی سوچ ایک تو ہو سکتی ہے لیکن پیش کش کا ڈھنگ مختلف ہو گا۔
موجودہ دور کے ہر ناول میں نفسیاتی اُلجھنوں کا موجود ہونا لازمی ہے، لیکن کیا اُن کی پیش کش مناسب ہوتی ہے؟ ایک اداکار کے لیے نفسیاتی اُلجھن میں گِھرے شخص کا کردار بَہ خوبی نبھانا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ کردار پاگل نہیں، ایک عام انسان ہے، لیکن عام نہیں۔ The Night of Generals میں اداکار Peter 0’tool یا The Collector میں Terence Stamp، نیلا پربت میں طالش اور خاموش رہو میں محمد علی۔
نجم الدین احمد کے اِن تینوں ناولوں میں ایسی نفسیاتی اُلجھنیں ہیں جو اُن کرداروں کے بَہ جائے اُن کے وسیب اور انفرادی ذہنی مزاج کا حصہ ہیں۔
عموماً فکشن نگار ایسی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے یا تو اُلجھ جاتے ہیں اور یا پھر وہ اُنھیں کسی حتمی شکل میں ختم کرنے سے خود سے ہی خائف ہو کے سہولت کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں جو ناول لکھے گئے اُن میں اختر رضا سلیمی کے ناول جاگے ہیں خواب میں میں چند ایک نفسیاتی اُلجھنیں ہیں جن سے ناول نگار بَہ طریقِ احسن نبرد آزما ہوا ہے۔ لیکن اُس ناول میں نفسیاتی اُلجھنوں کے ساتھ سرابِ خیال کا بھی ایک پہلو ہے جو اُسے ایک دوسری سمت میں لے جاتا ہے۔
حفیظ خان کے ناول ادھ ادھورے لوگ کا بڑا کردار فیاض ایک معمول کی زندگی سے آغاز کر کے اپنے لیے ایسی پیچیدگیاں پیدا کرتا جاتا ہے کہ اُن سے جان چھڑانے کے لیے ریاست کو گولی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
مدفن، اسد اور نازیہ کے تعلق کا ایک پر پیچ قصہ ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کی خوش نُودی حاصل کرنے کے لیے ایسی نفسیاتی اُلجھنوں میں پڑ جاتے ہیں جو اُنھیں مسلسل گرداب میں ڈالے رکھتی ہے اور جن کا حل ماہرین کے پاس بھی نہیں۔
کھوج کا شہزاد اساطیری شخصیت سسی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہ اُن سنی ہوئی کہانیوں کے ردِ عمل کا نتیجہ ہے جو ہ بچپن سے سنتا آیا ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے سسی پنوں ایک عوامی روایت ہے، جسے شہزاد درست تسلیم کر لیتا ہے۔
وہ سسی کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے، ایک ایسا کام جس کے آغاز میں ہی نا کامی ہے، لیکن شہزاد اپنی سوچ میں زندگی تک قربان کر نے کو تیار تھا۔
سہیم کا کردار اپنی بیوی کے موت سے پہلے والے بیان کے بعد ایک شدید نفسیاتی اتھل پتھل میں سے گزرتا ہے جو اُسے ایک شکست خوردہ یا ناکام شخص بنا دیتی ہے۔ نجم الدین احمد کے کردار زندگی کا حصہ ہیں۔
وہ زندگی کی حقیقتوں اور تلخیوں سے خائف ہو کے نفسیاتی مریض نہیں بنے۔ ایک آدمی سکون کی زندگی گزار رہا ہے، اور وہ کردار اپنے گرد بنے گئے جالے میں سے خود نکلتے ہیں، یا نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ وون گف کی تصویروں کی طرح نفسیاتی اُلجھنوں میں گھرے ضرور ہیں، لیکن زندگی سے مفرور نہیں، وہ زندگی کے تسلسل میں یقین رکھتے ہیں۔
اُردو ناول کی تاریخ اتنی مختصر نہیں، لیکن اتنی طویل بھی نہیں۔ جس زمانے میں روس اور فرانس میں اعلیٰ پایے کے ناول لکھے جا چکے تھے اُسی دور میں اردو کا ایک اہم ناول (جسے اردو ناول نگاری کا پیش خیمہ بھی کہا جاتا ہے) اُمراؤ جان ادا لکھا رہا تھا جو ایک صدی پیچھے تھا اور اُس کے بعد پریم چند کے ناولوں نے نئی طرح ڈالی۔
اُردو کا یہی المیہ رہا ہے کہ یہاں جدید اسالیب کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنا دینے کی ضرورت تھی اور ہر قصہ لگے بندھے اصولوں کو طے کر کے لکھا گیا تھا۔
کرشن چندر اور عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں کہیں کہیں اِن اصولوں کو توڑنے کی کوشش کی، لیکن صحیح معنوں میں قراۃ العین حیدر نے اپنے ناول میرے بھی صنم خانے میں اِس انحراف کا آغاز کیا۔ یہ شاید اُس لسانی تشکیل کا آغاز تھا جس کے تحت سمیع آہوجا نے ایسی زبان ایجاد کی جسے سمجھنے کے لیے پڑھنا آنا ضروری ہے۔
اُردو میں epic لکھنے پر توجہ نہیں دی گئی، یا اردو ناول نگار کے ہاں یہ ضُعف تھا کہ لکھ نہیں سکا۔ آگ کا دریا اور خس و خاشاک زمانے ہی دو epic لکھے جا سکے ہیں۔
اُداس نسلیں اور غلام باغ کو کسی بھی طرح epic نہیں کہا جا سکتا، اور دونوں کے درمیان میں ایک طویل وقفہ ہے۔ اِس بیچ ایک بھی epic نہیں لکھا جا سکا؟
کیا تجربات نے ناول نگار کو اُس طرف توجہ نہیں کرنے دی؟ انور سجاد کا خوشیوں کا باغ ایک مثال دی جا سکتی ہے۔ نجم کا ناول کھوج ایک epic نہیں اور نہ ہی یہ خوشیوں کا باغ کی طرح ایک تجرباتی ناول ہے۔
اِس کی کہانی واضح اور اپنی بصیرت، تصور اور پیش کش کی وجہ سے منفرد ہے، ہمارے ناول، سوائے epics اور چند تجرباتی ناولوں کے ایک ہی ڈگر پر چلتے رہے ہیں اور کھوج میں ایک ایسی تلاش ہے جو فکشن نگاری میں متعدد دَر وا کر سکتی ہے۔ لیکن ایسا ہو نہیں پایا کیوں کہ ہمارا نقاد وہی تجزیہ کرتا ہے جو اُس کے مفاد میں ہے، اُردو فکشن کے نہیں۔
ناول ایک پیچیدہ صنف ہے جس میں ایک قصے کے اندر کئی قصے ہوتے ہیں اور اُنھیں ایک ترتیب میں رکھنا، جزئیات کو باندھ کے رکھنا، time and space جیسے اہم عُنصر کی پیچیدگی کو نظر میں رکھنا اور کرداروں کے رویوں اور احساسات کو کسی بھی مرحلے پر مصنف کے ماؤتھ پیس نہ بننے دینا جیسے لوازمات مصنف کو ہر وقت ایک گُھمّن گھیری میں رکھتے ہیں اور یہ ناول نگار کے لیے ایک اہم چیلنج ہوتا ہے۔
نجم نے اپنے تیسرے ناول سہیم کے لیے ایسا موضوع منتخب کیا ہے جس میں واقعات ہیں لیکن واقعات کی بھرمار بھی ناول کو پاپولر فکشن کے زمرے میں نہیں لے جاتی۔ واقعات کا صرف بیان کوئی ہنر وری نہیں، واقعات کو کس ترتیب اور کس موقع پر کھولنا ہے ہی تو فن ہے۔
سہیم میں نجم مسلسل کَسے ہوئے رسے، یا پھسلن والی چڑھائی پر چلے ہیں جہاں ہر وقت کسی وادی یا گہری کھائی میں گر جانے کا گمان رہتا ہے۔
اِس ناول میں مجبوری، ظلم، تشدد، جبر، برداشت، اصول پرستی، بے اصولی، درد، تکلیف، بے وفائی اور بدلہ ہیں۔
خاوند کو جب معلوم پڑتا ہے کہ شبِ عُرُوسی کو اُس کے ساتھ اور لوگ بھی کمرے میں داخل ہوئے تھے تو یہ اُسے نفسیاتی طور پر ریزہ ریزہ کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔
ایک وقت وہ تھا جب یہ آدمی مبالغہ آمیز زندگی گزار رہا تھا، پھر ایک ہی فقرے نے اُس کی زندگی میں سے ہر مبالغہ نکال کر اُسے شکست سے دوچار کر دیا۔ جب ایسے حالات ہوں تو ناول نگار فلموں کی طرح مقدر کا سہارا لیتا ہے لیکن نجم نے اِس صورتِ حال کو زندگی کے حوالے کر دیا جو اپنا تسلسل قائم رکھتی ہے اور اُس نے اِس شخص کو اُس راستے پر ڈال دیا جہاں اُسے پہلے ہی ہونا چاہیے تھا؛ نہ مقدر کی بالا دستی اور نہ مصنف خواہش۔
مدفن ایک نفسیاتی ناول ہے جس میں نازیہ ایسا رویہ اپنا لیتی ہے جو اُس کے معمول کا حصہ نہیں تھا اور جو اسد کے لیے پریشانی کا باعث تھا اور اسد کا رویہ نازیہ کے لیے۔
اِس ناول میں انسانی رویے کے ایسے پہلو کو سامنے لایا گیا ہے جو تقریباً ہر گھر کے عقبی صحن کا قصہ ہے۔ یہ نجم کا پہلا ناول ہے، اور ہر پہلے ناول میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا محرک نا تجربہ کاری ہوتی ہے، لیکن اِس ناول میں نا تجربہ کار ناول نگار کی فنی صلاحیتیں پختہ کاری کی نشان دَہی کرتی ہیں۔
اُنھوں نے ایک ذہنی مریض کی تمام کیفیات تفصیل سے بیان کی ہیں۔ اتنی باریکی سے جس طرح موبی ڈَک میں جہاز سازی کا بیان کیا گیا ہے۔ ناول کی خواندگی میں عام قاری کے لیے بیش تر چیزیں نئی ہیں لیکن نجم نے اُنھیں اتنی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ سب کچھ نظر کے سامنے ہوتا محسوس ہوتا ہے اور پھر جس باریکی سے نازیہ کی بیماری کی وجہ کھولی گئی ہے، وہ ہنر وَری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
جس طرح رنگ تصویر کے، سُر دُھن کے لازمی حصے ہوتے ہیں، اِسی طرح زبان فکشن کو شکل دیتی ہے۔ زبان کا موٖضوع کی مناسبت سے ہونا ضروری ہے؛ امریکی ادببوں ولیم فاکنر اور جان سٹائِین-بَیک کی زبان کے عالمی ادب پر اَن مِٹ نشان ہیں جس کی وجہ اُن کی کہانیوں کی پیش کش کے ساتھ اُن کا زبان کا برتاؤ بھی ہے۔
قراۃ العین حیدر کے ہاں زبان کہانی سے بھی مؤثر پہلو ہے اور کچھ ایسا ہی عبد اللہ حسین کے ہے، لیکن اُن کی زبان قراۃ العین سے مختلف لیکن اُتنی ہی مؤثر ہے۔ اُنھوں نے زبان کو اپنے استعمال کے لیے پابندیاں بھی توڑی ہی۔
اِس توڑ پھوڑ کا آغاز جیمس جوائس، James Joyce سے ہوا تھا۔ نجم کے ہاں زبان کے تجربات تو نہیں ہوئے، لیکن اُن کی زبان فکشن کی زبان ہے۔ فکشن کی زبان تنقید، تبصروں اور کالموں میں لکھی جانے والی زبان سے مختلف ہوتی ہے؛ اِس میں بیان کی جانے والی کہانی کا درد یا رَس ہوتا ہے۔
بعض فکشن نگار اپنی زبان میں فکشن کا پہلو لانے میں کام یاب نہیں ہوتے اور اُن کے ہاں خواندگی نہیں ہوتی۔ نجم کے ناول خود کو پڑھوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اُن کے ہاں فکشن کی زبان کا ہر پہلو موجود ہے اور جہاں تجربہ کرنے کی ضرورت ہو، اُنھیں کسی قسم کی جھجک نہیں ہوتی۔
قصہ تب تک مؤثر نہیں ہوتا جب تک اُسے مؤثر انداز میں پیش نہ کیا جائے۔ بات کرنے کا ڈھنگ ہی بات کو بدل دیتا ہے۔ اے حمید کا ناول منزل منزل خطوط پر مبنی ہے، ایسے ہی کرشن چندر کا طویل افسانہ جو ایک مختصر ناول بھی ہے، خطوط کے ذریعے لکھا گیا ہے، انور سجاد کے خوشیوں کے باغ میں کہانی بیان کرنے کا اپنا ڈھنگ ہے۔
قراۃ العین حیدر کے ناول گردشِ رنگ چمن میں بھی پیش کش کے چند تجربات ہیں۔ نجم نے اپنے تینوں ناولوں میں قصہ کہنے کی تین مختلف تکنیکیں استعمال کی ہیں۔
مدفن میں کہانی کے تین حصے ہیں اور وہ متوازی آگے بڑھتی ہے، چوڑے محاذ پر پیش قدمی کرتی فوج کی طرح، جب کہ کھوج میں ایسا نہیں ہے اور کہانی سیدھے خطوط پر چلتی ہے، ایک دراڑ ڈالتے ہوئے اور ہر قدم پر قاری ایک نئے تجربے میں سے گزرتے ہیں۔
سہیم میں وہ ایک الگ تجربہ کرتے ہیں، جو جدید فکشن میں کیا جاتا ہے۔ اِس ناول کی کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اُس کا اختتام ہونا چاہیے تھا اور پھر کہانی گھومتی ہے؛ دائروں میں اور کبھی نیم دائروں میں؛ اور قاری ہر دائرے اور قوس کے زاویوں کو ناپتے ہوئے اپنے تجسس کے مہمیز پر چلتے ہی جاتے ہیں۔ نجم کہانی کو کھولنے کے تجربات میں یقین رکھتے ہیں۔
نجم الدین احمد کے ناول اِس صدی میں لکھے گئے چند اچھے ناولوں میں شمار کیے جاتے ہی۔ اُن کے ناولوں میں جمالیاتی پہلو، تکنیکی ہنر وری، زبان کی چاشنی اور سماجی المیوں کا کولاج دیکھنے کو ملتا ہے جس میں اُنھوں نے وہ رنگ بھرے ہیں جو روایتی نہیں، جو اُن کے ذہن کی قوسِ قزح کا حصہ ہیں۔