اردو شاعری دماغ کے لیے اِکسیر ہے

Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی

اردو شاعری دماغ کے لیے اِکسیر ہے

از، رضا علی عابدی

اردو شاعری کے کمالات کا سائنس دانوں نے بھی اعتراف کر لیا ہے۔ بھارت کے بہت بڑے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے سرخی جمائی ہے: اردو اشعار دماغ کے لیے اِکسیر ہیں۔ لکھنؤ میں سائنسی تحقیق کا ایک ادارہ ہے جو سنٹر فار بائیو میڈیکل ریسرچز کہلاتا ہے۔ وہ اپنی ایک حالیہ تحقیق کے دوران اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اردو شاعری پڑھنے سے صرف یہی نہیں کہ دل کو راحت ملتی ہے بَل کہ یہ بھی کہ اردو اشعار کے مطالعے سے انسانی دماغ کی کتنی ہی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ غزل کے مطالعے سے دماغ کے وہ اگلے حصے متحرک ہوتے ہیں جن حصوں سے دماغ سوچنے سمجھنے کا کام لیتا ہے، مثلاً فیصلہ کرنا، اچھے اور برے میں تمیز کرنا، جذبات پر قابو پانا، ذہنی دباؤ سے نمٹنا، اطلاعات کی چھان پھٹک کرنا اور ان کو ترتیب سے لگانا۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو پڑھنے سے بڑھاپے کے ایک مرض کی روک تھام ہوتی ہے، وہ مرض جس میں انسان بھولنے لگتا ہے۔

یہی نہیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو پڑھنے سے ان بچوں کو مدد ملتی ہے جنہیں نئی نئی چیزیں سیکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ادارے کے سائنس داں اُتّم کمار نے دماغ سے نکلنے والی مقناطیسی لہروں کے نقشے بنا کر یہ سارے نتیجے نکالے ہیں۔ تحقیق کا یہ طریقہ آج کل ساری دنیا میں رائج ہے۔

اُتّم کمار نے ایک دل چسپ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ دماغ سے نکلنے والی شعاعوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کون سی زبان سیکھنا آسان اور کون سا رسم الخط سیکھنا مشکل ہے۔ ان کو معلوم ہوا کہ دماغ ہندی اور جرمن جیسی زبانیں آسانی سے اور انگریزی اور فرانسیسی مشکل سے سیکھتا ہے۔

معلوم ہوا کہ ان میں سب سے زیادہ مشکل زبان اردو ہے، اسے پڑھنے کے عمل میں دماغ کے اور کئی حصے متحرک ہوتے ہیں اور یہ بات دماغی صحت کے لیے اچھی ہے۔ اردو پڑھنے میں دو اور بھی فائدے ہیں، ایک تو اس کے حروف پیچیدہ ہیں دوسرے یہ دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی ہے جو دماغ کی ورزش کے لیے سُود مند ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے انسانی دماغ کے درمیانی اوراعلیٰ قسم کے اگلے حصے حرکت میں آتے ہیں اور توانائی پاتے ہیں۔


مزید دیکھیے:  کیا اکیسویں صدی میں بھی فیض مقبول شاعر ہیں؟  از، رفیق سندیلوی


یہ جو اردو شاعری والی بات ہے، سائنس دانوں نے بلا وجہ زحمت کی، ہم سے پوچھ لیا ہوتا۔ پہلی بات یہ کہ ہندی والے کیا جانیں کہ اردو کی وہ اساتذہ والی پابند شاعری یوں ہی چلتے پھرتے نہیں لکھ دی جاتی۔ اس میں تو دل اور جان داؤ پر لگائے جاتے ہیں تب کہیں شعر ہوتا ہے۔

ایک صاحب تو کہہ گئے ہیں کہ جن خیالات کو وہ شعر میں باندھتے ہیں، وہ خیال قلم سے نہیں نکلتے، غیب سے آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو اشعار اتنے دکھ جھیلنے کے بعد لکھے جاتے ہیں، وہ اشعار پڑھنے والے کے دماغ کی کون کون سی صلاحیتوں کو جِلا نہیں بخشتے ہوں گے۔

پابند شاعری کرنے والوں کا تو ایک زمانے میں یہ حال تھا کہ کوئی مِصرَع اک ذرا سا بھی وزن سے گرا ہوا ہو تو چاقو چل جاتے تھے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے، پاکستان کے علاقہ واہ کینٹ میں احباب شاعروں میں کسی شعر پر غضب کی بحث چھڑ گئی۔ کچھ کو یقین تھا کہ دونوں مصرعے وزن میں ہیں، کچھ کا اصرار تھا کہ ایک مصرع وزن سے گرا ہوا ہے۔ جب بحث نے طول کھینچا تو طے پایا کہ کسی ماہر طبلہ نواز کو بلایا جائے جس کی تال پر یہی شعر پڑھا جائے اور وہ بتائے کہ دونوں مصرعے ہم وزن ہیں کہ نہیں۔

اس نے ایک ہی جھونکے میں بتادیا کہ دوسرے مصرعے میں آدھی تال کا فرق ہے۔ تو یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور یہ بات طے ہے کہ شاعری کوئی کھیل نہیں ہے۔ بات یہاں تک آ گئی ہے تو ایک مزے کی بات۔ بھارت کے ہندی لکھنے پڑھنے والوں کو اردو شاعری کی تقطیع کا اندازہ نہیں ہے۔ وہ جو ہمارے شعر کی پڑھت ہے، اس کا مخصوص ڈھنگ ہندی والوں کو آتا ہی نہیں۔

اس کا بھی بہت دل چسپ واقعہ ہے۔ میں بی بی سی کی اردو سروس سے انیسویں صدی کی کتاب جواہر منظوم کے بارے میں پروگرام پیش کر رہا تھا جس میں بچپن کے عنوان سے انگریزی نظموں کے ترجمے شامل تھے۔ خیال ہوتا ہے کہ اشاعت سے پہلے یہ ترجمے مرزا غالب کو دکھائے گئے تھے۔

اس میں ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے: لڑکپن کی پہلی مصیبت۔ نظم میں ایک معصوم بچہ ماں سے پوچھ رہا ہے کہ اس کا مرحوم بھائی کہاں گیا۔ پروگرام میں بچے کا مکالمہ میں نے پڑھا اور ماں کا مکالمہ پڑھنے کے لیے مشہور ادا کارہ اور گلو کارہ ایلا ارون کو دیا (ایلا نے فلم اکبر جودھا میں ماہم انگا کا کردار ادا کیا اور بہت صاف اردو بولی)۔ ایلا با لکل چھوٹی بہنوں جیسی ہے۔

اب ایک مشکل آن کھڑی ہوئی۔ ایلا اردو شاعری کی بحر کو نہیں سمجھ سکی۔ مجھے پتا ہے کہ یہی اشعار طبلے کی سنگت پر گائے جاتے تو وہ با لکل صحیح گا دیتی، لیکن تحت اللفظ وہ اردو تقطیع سے اتری رہی۔ میں نے ریہرسل کے دوران میز پر طبلہ بھی بجایا جو کار گر نہ ہوا۔ کچھ بھی ہو، اس نے یہ مصرعے صحیح جذبے کے ساتھ ادا کیے جن میں ماں کہتی ہے:

میرے پیارے نہیں وہ سنتا صدا

پاس بھی اب نہیں وہ آ سکتا

خندہ زن جوں بہار وہ چہرہ

پھر زمیں پر نظر نہ آئے گا

زندگی خرّمی کی اور شباب

دے گئی تھی اسے مثالِ گلاب

جا کے تو کھیل اے پسر تنہا

باغِ جنّت میں ہے ترا بھیّا

نظم بچّے کے اس شعر پر ختم ہوتی ہے:

آہ جب بھائی ساتھ کھیلتا تھا

کاش میں خوب پیار کر لیتا

اردو شاعری کے اس چمتکار پر دھیان دیتا ہوں تو اس کے رسم الخط، اس کی نغمگی، اس کی لے اور تال، اس کا ڈسپلن جسے اردو میں نظم کہہ سکتے ہیں، اس کی نیرنگی، نفاستِ خیال، باریک بینی، اور سب سے بڑھ کے اس کا احساس اور جذبے میں ڈوبا ہوا ہونا۔ ان تمام باتوں پر غور کرتا ہوں تو آنجہانی کندن لال سہگل کے گائے ہوئے وہ بول یاد آتے ہیں:

میں کیا جانوں کیا جادو ہے

بشکریہ روز نامہ جنگ