دروازہ
کہانی از، عامر رفیق
وہ کرنا تو بہت کچھ چاہتا تھا، لیکن کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں تھا۔ اسی لیے وہ بے چین اور کُڑھتا ہوا اب خود کے ساتھ فِقرے بازی کرنے لگا تھا: ”کیا کرتے ہو تم؟”، “کرنا کیا ہے صاحب؟ بس موت کے انتظار میں جی رہے ہیں۔“ یہ خود کلامی دُہراتے بہ ظاہر اس پر مایوسی چھائی ہوتی اور بے شمار محرومیاں اور زندگی کے شکست و ریخت کے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے لیکن اندر سے وہ پُر اُمید ہی ہوتا تھا۔
البتہ یہ واقعہ، جو حال ہی میں اس کے ساتھ پیش آیا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے جھلملاتا تو اسے یقین سا ہو جاتا کہ وہ زندگی میں خوشیاں اور کام یابیاں سمیٹنے کی بجائے بس اپنی عمر کے دن ہی کاٹنے آیا ہے۔ اپنی ذلت بھری زندگی کا اندازہ کر کے اب وہ بے حد دکھی اور اداس ہو جاتا تھا۔ ویسے اس منظر کو یاد کرنے میں اُسے درد کی ٹِیسیں اُٹھتی محسوس ہونے کے ساتھ ساتھ خود پر ترحم بھری نگاہ ڈالنے پر دلاسا سا بھی ملتا جو اس کے لیے پین کِلر کا کام کرتا، اور اس کے وجود کو درد بھرے سرُور سے بھر دیتا، جس کی اسے اب عادت ہوتی جا رہی تھی۔
وہ منظر کچھ یوں تھا کہ وہ اپنے ایک متوقُّع کلائنٹ کے گھر اس کی بیمہ پالیسی کرنے گیا ہے جو شہر کے مہنگے ترین علاقے میں وسیع و عریض کوٹھی میں رہتا تھا۔ یہ کوٹھی تھی تو بہت قدیم لیکن کیا کِیا جائے کہ پرانی چیزیں ہی اسے زیادہ بھاتی تھیں کیوں کہ اسے ان میں کلاسیکیت محسوس ہوتی تھی۔ یوں تو وہ کوٹھی میں دو تین بار پہلے بھی جا چکا تھا، لیکن اب کی بار وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو لڑکے نے، جس کی اس نے پالیسی کرنی تھی، اس نے ٹی وی لاؤنج کی طرف کھلنے والا دروازہ بند نہیں کیا، ورنہ اس سے پہلے وہ اس کے آنے پر دروازہ بند کر دیا کرتا تھا، بَل کہ اب کی بار اُس نے بے تکلفی دکھاتے ہوئے اِسے چائے پینے کی دعوت دی اور بجائے اس کے، کسی کو بُلائے خود چائے لینے اندر چلا گیا۔
اس کی نظریں بھی، لڑکے کا تعاقب کرتیں، اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئیں تو وہ بے انتہا کشادہ ٹی وی لاؤنج دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس لاؤنج کی ایک پوری دیوار شیشے کی بنی تھی، جو باغ کی طرف تھی۔ جہاں سے ہری بھری گھاس کی زمین پر ایستادہ، بڑے بڑے درختوں اور ان گِنت کھلے پھولوں کے منظر نے اُسے ایسے کھلے پن اور فرحت کا احساس دلایا جو سکون اور ٹھنڈک لیے ہوئے تھا۔
اس نے اتنے بڑے گھروں کو ڈراموں اور فلموں میں تو دیکھ رکھا تھا لیکن ان کی وسعت کو کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ لیکن آج حقیقی دنیا میں، پہلی بار، کسی باغ کی مانند پھیلے وسیع و عریض گھر میں بیٹھنے نے اسے بے تحاشا اپنی طرف متوجُّہ کیا اور اس کے اندر ہل چَل مچا دی۔ لیکن ایسی ہَل چ٘ل جو انسان کو ردعمل پر نہیں اُکساتی بَل کہ مرعُوب کرتی ہوئی خاموشی کے جنگل میں لے جاتی ہے۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ لڑکا بڑی دیر تک ٹہلتا چلتا رہا تھا تب کہیں جا کر کچن آیا تھا۔ لا شعوری طور پر اس کا اپنا گھر، عزیز و اقارب اور دوستوں کے گھر اور ہر وہ گھر جس میں اسے جانے کا اتفاق ہوا تھا، اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئے۔جن میں ذرا سا ہی چلنے پر دیواریں راستہ روک لیتی ہیں۔ جن کے تنگ کمروں میں صوفہ رکھیں تو میز کی جگہ نہیں بچتی، بیڈ کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل رکھیں تو گزرنے کا راستہ نہیں رہتا۔
اتنا تو اس نے جان لیا تھا کہ یہ کل تین افراد اتنے بڑے گھر میں رہتے ہیں۔ یہ لڑکا ابھی غیر شادی شدہ ہے جس کے گھر والے اب اسے خود مختار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ معلومات تھیں جن کا پالیسی کرنے کے لیے جاننا تو شاید اتنا ضروری نہیں تھا، لیکن انھیں جاننے کے لیے اس کی ذاتی دل چسپی کا دخل زیادہ کارِ فرما تھا۔
ویسے تو وہ ڈرائنگ روم کی وسعت سے ہی مرعُوب ہو چکا تھا لیکن آج گھر کے اندر تک کی اس جھلک نے اسے اپنے کم حیثیت ہونے کے احساس میں دھنسا دیا تھا۔ لڑکے کی آمدن، جو اسے ابتدائی معلومات میں ہی معلوم ہو گئی تھی، کا خیال اس کے ذہن میں برقی رو کی مانند کوندا تو اسے احساس ہوا کہ لڑکے کو فکرِ معاش کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، تو اس نے کوئی گہری چُبھن سی محسوس کی۔ لیکن فیصلہ نہ کر پایا کہ اسے یہ چبَھن اور تکلیف اس لڑکے سے مارے حسد کے ہوئی تھی یا قدرت کے خلاف اس کی بے رحمی پر پیدا ہوئی تھی۔ جس نے اِسے اتنی مشکل زندگی عطا کی تھی جس میں ہر پل آس اور التجا کے در پر ہی کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ جس پر وہ ہزاروں بار دھتکارا جاتا اور کبھی ایک آدھ بار ہی مراد بر آور ہوتا اور اپنی لُڑھکتی ہوئی زندگی، جس کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا، کو محض ہلکا سا ہی دھکیل پاتا۔
وہ شروع سے ہی رونے دھونے اور قسمت کو مُوردِ الزام ٹھہرانے والا انسان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی جان کاری تو تھی کہ میں اپنی زندگی کو کام یاب زندگی تو ابھی دور کی بات، کام یابی کی ڈگر کھوج لینے والی زندگی بھی نہیں کہہ سکتا لیکن نا کامی کا احساس اور مایوسی کے بادل ابھی اس کی امنگوں پر، اس ملاقات سے قبل اس قدر گہرے نہیں چھائے تھے، بَل کہ وہ ہشّاش بشّاش محنت کر رہا تھا؛ اور اُس دن تو وہ بہت خوش تھا کیوں کہ اس لڑکے کے ساتھ بڑی بھر پُور گفتگو رہی تھی۔
لڑکے کے اخلاق اور دوستانہ پیش آنے پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس نے باتوں باتوں میں اس بات کا کھوج بھی لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا مجھے اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی بھی پالیسیاں لے دے گا۔ ان پالیسیوں سے ملنے والی کمیشن اور پھر ہر سال ان سے ملنے والا میرے حصے کا نفع مجھے بہت جلد خوش حال کر دے گا۔
لڑکے کے نئے لیپ ٹاپ پر مختلف سافٹ ویئرز انسٹال کرتے اور اس کو ان کے استعمال اور دیگر کار آمد باتوں کے متعلق بتانے پر مشتمل ملاقات بڑی دیر تک جاری رہی تھی۔ لڑکے کے اخلاق اور اپنائیت کے احساس نے اسے زمین سے چند قدم اوپر اُٹھا دیا تھا۔
ایسے میں جذبات کا اس پر غلبہ ہوا اور اس نے اپنے دل کی بات کہہ دی کہ آپ کے گھر میں بہت سکون ہے۔ آپ کو دیکھ کر مجھے احساس ہو رہا کہ میں محسوس کروں، کوئی معاشی فکروں سے آزاد انسان کس طرح کا ہوتا ہے۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ لمحہ ہمیں دوست بنانا چاہتا ہے اور وقت ہمیں اچھا دوست ثابت کرے گا۔ سکون کے اس پل میں وہ کچھ اسی طرح کے جذبوں کا اظہار کرتا رہا تھا۔
ملاقات اپنے اختتامی مراحل تک پہنچی تو بار بار جوس اور چائے پینے کی وجہ سے اسے یُورِن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسے معیُوب تو لگا لیکن اس نے سوچا واش روم سے فارغ ہو جانا بہتر ہے کیوں کہ دفتر کا فاصلہ بھی زیادہ ہے اور بے تحاشا ٹریفک کی وجہ سے زیادہ وقت لگنا بھی یقینی ہے، ایسے میں خود کو تکلیف میں ڈالنے کا کیا فائدہ۔ جس پر اس لڑکے، اس کے نئے بنے دوست نے اسے ڈرائنگ روم کے واش روم کی بجائے سرونٹ کواٹر کی طرف کا راستہ دکھایا تو وہ ہکّا بکّا رہ گیا۔ اسے لگا اسے ذلّت کے پاتال میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اسے اپنے قدم اُٹھانے مشکل ہو گئے تھے، لیکن ساتھ ہی اسے متوقُّع کلائنٹس ملنے پر اپنی خوش حالی کا دروازہ بھی کُھلتا نظر آ رہا تھا۔
ختم شد