
چشماٹو، زاہد اور جہنم
پوری زندگی سات دنوں کا عکس ہوتی ہے۔ ( طبع زاد کہاوت)
افسانہ از، حفیظ تبسم
زاہد کا ایک پیر گھر کی دہلیز پر تھا اور دوسرا گلی میں ، وہ یوں رکا ہوا تھا جیسے فیصلہ نہ کر پارہا ہو ۔ اس نے گردن گھما کر آتے جاتے لوگوں کو دیکھا جو مسجد سے واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اُس نے گھڑی پر وقت دیکھا اور اطمینان کا سانس لے کر گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
دائیں طرف غسل خانہ تھا۔ اس نے تیز قدموں سے چلتے ہوئے سوچا کہ اباجی ابھی مسجد سے لوٹے نہیں ہوں گے اور ان کے آنے سے پہلے منھ ہاتھ دھو کر اپنے کمرے میں گھس جانا چاہیے ۔
پانی کی ٹونٹی کھلتے ہی اُسے بدن میں کپکپاہٹ محسوس ہوئی لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ذرا سے ہاتھ گیلے کر کے منھ پر پھیر لیے۔ پیر دھونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایک تو اس نے لمبی جرابیں پہن کبھی تھیں، دوسرا سر دیوں میں پانی دیکھ کر اس کی جان پر بن آتی تھی۔ اس کی وقتی پریشانی کی وجہ بھی پانی ہی تھا۔ اتفاق سے پچھلی رات اس نے خواب (فحش ؟ ) دیکھا تھا۔ صبح اٹھ کر کپڑے تو بدل لیے مگر نہانے کے خوف نے دماغ میںایک واضح دلیل پیدا کر دی کہ معمولی باتوں کے ہو جانے پر غسل فرض نہیں ہوتا۔ اس وقتاسے بالکل ہی غیر متعلق خیالات آرہے تھے لیکن زیادہ دیر کے لیے نہیں ۔۔۔ دن چڑھےاسے یاد آیا کہ بھلے سردیوں کا موسم ہو یا گرمیوں کا، جمعے کے دن گھر میں پابندی سے غسل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مگر سردی پرکس کا زور ۔ ۔ ۔ وہ یہی سوچ کر گھر سے باہر نکل گیا اور دیر تک آوارہ گردی کر کے لوٹا آیا تو وہی نحس خیال دماغ میں گھس گیا تھا۔
غسل خانے سے نکل کر اسے زیادہ دور نہیں جانا تھا۔ اپنے کمرے تک چند قدم چلنے تھے مگر درمیان میں چھوٹا سا محسن پڑتا تھا۔ اس کے اباجی دھوپ میں چار پائی ڈالے بیٹھے تھے۔ بہر حال اباجی کا رخ دوسری طرف تھا مگر وہ ڈر رہا تھا۔ کچھ دنوں سے وہ الجھن اور تناؤ کی اس کیفیت میں تھا جو مراق سے ملتی جلتی تھی ۔ وہ اپنے آپ میں گم رہتا اور ہر چیز اور انسان سے بے تعلق ہو گیا تھا۔ اس کی یہ کیفیت اتنی طاقتور ہو چکی تھی کہ اسے صرف اباجی یا گھر کے دیگر افراد ہی نہیں بلکہ کسی سے بھی ملنے سے خوف آتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ بیکار کی خرافات چیزوں کے بارے میں سننے سے جن سے اسے کوئی سروکار ہی نہیں تھا، ڈرتا تھا۔ مذہبی رسوم کے سلسلے میں مطالبے ، دھمکیاں اور شکوے سنا اور انھیں جھیلناس کے بس میں نہیں تھا۔ اس سے تو اچھا تھا کہ بلی کی طرح دبے پاؤں یوں کھسک جانا کہ کوئی دیکھے نہیں اور اسی طرح واپس گھر لوٹ آنا۔
ڈرتے ہوئے دل اور اعصابی کپکپاہٹ کے ساتھ وہ اباجی کے پاس سے گزرنے لگامگر اباجی کی گرج دار آواز نے اس کے قدم روک لیے ۔
کہاں سے آرہے ہو ؟
ادھر ہی تھا ۔ اس نے حسب عادت رٹارٹا یا جواب دیا۔
کوئی شرم حیا کر۔۔۔ جمعہ پڑھنے کیوں نہیں گیا۔
شرم کی کیا بات ہے! وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہےاور میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کر سکتا ۔
ذاتی کے بچے .. اولاد کے کرتوتوں کی وجہ سے ماں باپ بھی جہنم میں سڑیں گے۔“
ہنہ ۔۔ جہنم ! وہ حقارت سے بڑ بڑا کر چلنے لگا تو اباجی غصے سے بھنائے ہوئے اٹھے ۔ ان کے منھ سے مغلظات ابل رہی تھیں۔ اتنی موٹی گالیاں سن کر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔ دماغ میں غصے کا طوفان اٹھنے لگا۔ وہ ابھی لفظی حملوں سے ہی نہیں سنبھل پایا تھاکه زور دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔ پھر ایک گھونسا اس کی پیٹھ پر لگا۔ وہ چکرا کر فرش پر گرا مگر فوراً اٹھ کھڑا ہوا جیسے کچھ بھی نہ ہوا تھا۔ اباجی نے اسے سنبھلتے ہوئے دیکھ کر دوبارہ دانت پیسے اور اب کی بارزور دارلات اُس کے پیٹ پر ماری۔ وہ زور سے پیچھے گرا اور اس کا سر فرش پر جالگا۔ درد کی شدت سے اسے یوں لگا جیسے وہ ہل نہیں سکے گا۔ مارے درد کے اس کا سر پھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا۔ اباجی اس کی جانب دوبارہ بڑھے مگر اُس کی ماں نے بھاگ کر انھیں کھینچ لیا۔
چل چھوڑ دے کرم دین ۔ ۔ ۔ جان توں ماریں گا۔
اباجی اپنا بازو چھڑاتے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے برابر گالیاں دے رہے تھے ۔ وہ اٹھنے کی کوشش میں لڑکھڑایا تو ماں بھاگ کر اس کی جانب بڑھی اور سہارا دے کر کمرے کی طرف لے جاتے صلواتیں سنانے لگی۔
ایک تو کہنا نہیں مانتا، اوپر سے زبان چلاتا ہے۔ اتنا بڑا ہو گیا، پر عقل نہ آئی ۔
- ••••
تنی ہوئی رہی پر اس کے پاؤں توازن سے ٹکے ہوئے تھے۔ وہ دونوں بازو پرندے کے پروں کی مانند پھیلا کر پتلی سی رسی پر ڈولتے سنبھلتے چل رہا تھا۔ کچھ لمحے پہلے وہ بڑے میدان میں کھڑا تھا ۔ تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے ۔ کچھ جاننے والے اور زیادہ تر اجنبی ۔۔۔ سب خوف زدہ تھے۔ وہ یہی سوچتے ہوئے رسی کی طرف بڑھا تھا کہ ہر کام کسی نہ کسی دن کرنا ہی پڑتا ہے۔ سرکس میں رسی پر چل کرفن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے آخر وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں بس بزدلی کی لکیر دماغ سے مٹانا پڑتی ہے۔۔۔ یہ تو کلیہ ہے۔۔۔ کاش کوئی بتا سکے کہ سب لوگ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟ رسی پر چلنے سے یا گر جانے سے ۔۔۔ رہی کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے آخری بار سوچا اور آگے بڑھ گیا تھا۔ رہی بہت لمبی تھی ، بہت لمبی ۔۔۔ پہلا سرا تو ایک گہرے گڑھے کے کنارے سے باندھا گیا تھا۔ گڑھا بہت تاریک تھا۔ اسے ذرا خوف محسوس نہیں ہوا بلکہ کھیل سا سمجھ کر مضبوطی سے پاؤں ٹکا تا چل پڑا تھوڑا چل کر توازن بگڑا بھی مگر سنبھل گیا۔ کامیابی سے پارلگ کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سارے لوگ نظروں سے اوجھل تھے ۔
ہڑ بڑا کر اس کی آنکھ کھلی مگر آنکھوں کے سامنے اندھیرے کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ رضائی سے ذرا سا منہ باہر نکال کر دیکھا۔ کمرے میں مدھم روشنی سے معلوم پڑتا تھا کہ دن نکلے کافی وقت گزر چکا تھا۔ اس نے بیٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ سر میں شدید درد تھا اور پورا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ وہ کل سے جھگڑا کر کے لیٹا تھا، خبر نہیں کب بخار چڑھا اور کتنی دیر بغیر کروٹ کے لیٹا رہا تھا۔ بخار کی نقاہت کے باوجود وہ خواب کسی جیسے گئے لمحے کی مانند اس کے حافظے میں زندہ تھا۔ پہلے پہل وہ اپنے خواب گنا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ خود اپنے خوابوں پر یقین نہیں کرتا تھا لیکن اب مہینے بھر بعد نئے خواب سے اپنی ناطاقتی اور وقت پر فیصلہ کر سکنے کی صلاحیت سے خواب کو گویا ایک مہم سمجھ رہا تھا۔
اتنے میں دروازہ کھول کر اس کی ماں اندر آئی اور دبے پاؤں آگے بڑھی ۔ بالکل قریب آکر بولی اٹھ جا پتر ۔۔ منہ ہاتھ دھولے۔ میں پراٹھا بنا کے چائے گرم کر دیتی ہوں ۔
وہ نہیں بولا لیکن اس وقت اس خاص قسم کی آواز سے اچانک کچھ یاد آگیا اور بالکل ہی اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ ماں اسے بے حس و حرکت لیئے دیکھ کر آگے ہوئی اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چونک سی گئی ۔ تجھے تیز بوفار چڑھا ہے ۔ ماں کے لہجے میں فکر تھی اور الٹے قدموں باہر نکل گئی۔
ذرا سی دیر میں گاؤں کا بوڑھا ڈاکٹر جس کے ہاتھ ہمہ وقت کا نپتے رہتے تھے اور غلط رگ میں ٹیکہ لگنے کا خطرہ رہتا تھا ، ہاتھ میں تھیلا لیے آگیا۔ ڈاکٹر نے اس کے منہ میں تھرما میٹر رکھ کر بخار چیک کیا اور سر بلاتے ہوئے بتانے لگا۔
تیز بخار ہے ۔ ٹیکہ تو لگے گا نہیں ۔ ۔ ۔ لال گولی دے جاتا ہوں ۔۔۔ دو پہر میں پھر چیک کروں گا۔
ڈاکٹر اس کے اباجی کو بتا رہا تھا جو کمرے کے دروازے میں آدھا اندر اور آدھا باہر کھڑے تھے۔ ڈاکٹر کے ساتھ ہی اباجی بھی نظروں سے اوجھل ہوئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔
- ••••
اتوار کا دن زاہد دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے گزارتا تھا مگر اس دن بے چینی سے لیٹا رہا۔ اسے اپنا بدن بے جان محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ دنیا کو تیاگ دے ۔ عجب تذبذب کی حالت میں تھا۔ وہ چاہے واقعی دنیا سے کٹنا چاہتا ہو، چاہے زندگی کے کھیل میں تھک کر سارے دکھوں سے آگاہ ہو چکا ہو مگر مایوس نہیں تھا۔ اسے زندگی کے ساتھ نئے کھیل کھیلنے میں لطف آرہا تھا۔
سہ پہر کے وقت ماں نے بتایا کہ اس کے دوست بیٹھک میں انتظار کر رہے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھک میں چلا گیا۔ شادے نے اسے دیکھتے ہی پوچھا ۔ بڑے سنجیدہ دکھائی دے رہے ہو ؟“
بخار چڑھا ہے ۔ وہ کہہ کر بیٹھنے لگا کہ زلفی نے آواز لگائی جسے دوسروں کے خیالات کی تہہ تک پہنچ جانے میں کمال حاصل تھا۔
کمال ہے بھئی ، سالی جب سے چشماٹو گئی ہے۔ اس کا بخار نہیں اترتا۔
سب نے زور دار قہقہہ لگا یا مگر وہ چشماٹو کا نام سنتے ہی غم کی اتھاہ گہرائی میں اتر گیا۔ اگلی آواز کاشی نے لگائی ۔ سمجھا بجھا کے تھک گئے کہ چالو مال ہے، پر مانتا نہیں تھا ۔
اس وقت وہ ایسے مذاق برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھا بولا ۔ تیرے پاس تو چالو مال کا کیا ثبوت ہے؟“
اسے جذباتی دیکھ کر شادا اُس کی حمایت میں آواز بولا ” نا بھئی ناں ۔۔۔ چالو مال ہر گز نہیں تھی۔ بس وہ کسی کو ناراض نہیں کرتی تھی ۔
زور دار قہقہہ لگا مگر درمیان ہی رکھنا پڑا بیٹھک سے ملحقہ صحن میں زاہد کے اباجی چار پائی ڈالے بیٹھے تھے اور زاہد نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ذرا مدہم آواز کا اشارہ کیا تھا۔ تینوں دوستوں نے بیٹھک کے اندرونی دروازے کی طرف دیکھا اور اس کے اباجی کو موجود نہ پا کر بات آگے بڑھائی ۔
چشما ٹو تھی تو دبلی پتلی مگر سینے کے ابھار کہ ۔۔۔ زلفی نے دونوں ہاتھوں سے سائز بتایا تو کاشی نے راز کی گرہ کھولنے میں مدد کی۔
بھئی ورزش کا کمال تھا۔
کیا ؟ زلفی نے حیران ہونے کی اداکاری کی تو کاشی نے ذرا سنجیدہ ہو کر سمجھایا۔
جس طرح قد لمبا کرنے کے لیے کسی چیز سے لٹکا جاتا ہے ، ویسے ہی ۔
شادے نے ہنسی روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ زلفی نے زاہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ لٹکنا اور لٹک جانا۔۔۔
ہنسی کا اتنا زور دار وارہ پھوٹا کہ تیز آواز پوری بیٹھک میں گونج گئی۔ اسے آواز میں سن کر اباجی کے آنے کا خوف محسوس ہوا۔ اس کا ذہن پہلے ہی بہت سی پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
مجھے بخار چڑھا ہے اور تمھیں مستی سوجھ رہی ہے ۔
وہ واپس بستر میں لیٹنے کے لیے بے چین تھا۔ تینوں دوست بھی اس کی پریشانی بھانپ کر اٹھ کھڑے ہوئے مگر جاتے ہوئے چشماٹو کے نام پر اسے تنگ کرنا نہیں بھولے تھے۔
- ••••
زاہد کے چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ دیر سے رنجیدہ اور دل گرفتہ بیٹھا تھا جیسے طوفان کے بعد سنسان ساحل پر اکیلا ڈال دیا گیا ہو۔ وہ خاکی رنگ کے لفافے کو دیکھ رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ سونیا جسے اس کے دوست چشما ٹو کہ کر پکارتے تھے، اس سے کتنی محبت کرتی تھی۔ چشماٹو نے اسے نومبر کے پہلے ہفتے میں خط لکھا کہ میں دن رات اپنے ایک ہو جانے کی دعائیں مانگتی ہوں تم بھی کثرت سے دعا مانگا کرو اور بابا کریر والی سرکار کے مزار پر منت مانگنا اور اس ملنگ سے بھی ملنا جس نے گلے میں بڑی بڑی مالائیں پہنی ہوئی ہیں ۔ یہ خط بھی ہمیشہ کی طرح خوش دلی سے زیادہ نصیحت آموز الفاظ سے بھرا پڑا تھا۔ وہ جواب لکھنے کی جرات کرتا اور تھک کر ارادہ ترک کر دیتا۔۔۔ تین ہفتوں سے برابر یہی چل رہا تھا۔
اس نے کالج کے رجسٹر سے خالی صفحہ پھاڑا اور پریکٹس کی غرض سے سامنے رکھ لیا۔ پہلی لائن پر قلم کی نوک ڈھکا کر بیٹھ گیا مگر بے سود ۔۔۔ ذہن میں ماضی کی فلم گھومنے لگی اور چشماٹو کا عکس دروں سا بننے لگا۔
چشماٹو کوٹ ادو شہر کی رہنے والی تھی اور اس کے گاؤں میں اپنے ننھیال کے پاس پڑھنے کے لیے آئی تھی ۔ گاؤں سے کالج پورے بارہ کلو میٹر دور تھا اور چشماٹو یہ فاصلہ رکشے میں طے کرتی تھی۔ وہ گھر سے نکلتی تو خود کو بڑی سی چادر میں چھپا کر نقاب کر لیتی تھی مگر اس کی وجہ مشہوری تو موٹے شیشوں والا چشمہ تھا۔ گاؤں کے آٹھ دس لڑکے، کچھ چشماٹو کے کزنز کے بے تکلف دوست جن کا آنا جانا اُن کے پاس تھا، استری کیسے کپڑے اور سر میں سرسوں کا تیل لگا کر پیٹ نکالے تعاقب میں رہتے تھے۔ گویا ایک پوری ٹیم چشما ٹو پر دل و جان سے فریفتہ تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ قریب قریب تمام لڑکوں میں سے کسی نے چشماٹو کو دیکھا تک نہیں تھا لیکن وہ کہانیاں جو اس سے وابستہ تھیں کچھ اس قدر پر اسرار، رنگین اور رومان پرور تھیں جنھیں سن کردم ہی نکلنے لگتا تھا۔ اس سے کیسے معاشقے کے احوال تمام لڑکوں کو معلوم تھے۔ بلکہ یہاں تک بھی سنا گیا کہ ایک بار ایک لڑکے کے ساتھ فرار ہونے کے لیے وہ گھر سے نکل بھی گئی تھی مگر پکڑی گئی اور پڑھائی کے بہانے یہاں بھیج دی گئی تھی۔
رومان پرور قصوں کی اس رنگ آمیزی نے بھی کو جذباتی بنا رکھا تھا اور ہر کوئی یہ سمجھے ہوئے تھا کہ وہ اس پر عاشق ہوئی کہ ہوئی ۔۔۔ در حقیقت چشماٹو اتنی آسان لڑکی نہیں تھی۔ بار بار تمام لڑکوں نے اظہار عشق کر کے دیکھ لیا لیکن اس نے خاموشی نہ توڑی کیسی کے اشعار بھرے رقعے کا جواب نہ دیا تھا۔
زاہد نے پہلی بار ہمت کر کے رقعہ پھینکا تو اس نے نہیں کر اٹھا لیا تھا۔ زاہد کی کوشش تو کئی ہفتوں سے متواتر جاری تھی ۔ اپنے کالج سے چھٹی سے پہلے نکلتا اور لڑکیوں کے کالج کے اسٹاپ پر اس انداز سے انتظار کرتا جیسے اپنی کسی جاننے والی طالب علی کو پک کرنا ہو۔
خلاف توقع چشماٹو نے جواب دیا اور اتنا کھل کر اظہار محبت کیا کہ وہ ششدر رہ گیا۔ اس نے اپنے تینوں دوستوں کو بھی پڑھوایا جو اس کے گہرے راز دار تھے تو تینوں نے به یک زبان ایک ہی بات کہی تھی۔
ہائے ظالم ! چشماٹو پر کون سا تیر چلایا ہے ۔
چشماٹو سے اس کا معاشقہ لگ بھگ اڑھائی سال جاری رہا۔ ہر خفیہ ملاقات پر وہ گم صم رہتا۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے اس کی زبان تالو سے چپک کر رہ گئی ہو اور غنودگی اس پر بری طرح حاوی رہی ہو۔ چشماٹو اُس کی اسی عادت پر کئی بار روٹھ گئی تھی لیکن ہر بار وہ اس کے سامنے یوں جھک جاتا جیسے وہ کوئی لڑکی تھی بلکہ دیوی تھی جسے چھونا گناہ کبیرہ تھا۔ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور چشماٹو کی رخصتی کے دن قریب آگئے ۔ آخری ملاقاتوں میں چشماٹو نے ہمت دکھائی اور اسے بالغ پن کا احساس دلایا، ورنہ وہ تو ندی کے کنارے بیٹھ کر بھی پیاساہی رہ جاتا۔۔۔ در حقیقت آخری ملاقاتیں ہی اس کی محبت کو پیش کی انتہا پر لے گئی تھیں۔
آخری ملاقات کی رات اس نے اپنی محبت کی آگ میں جھلتے ہوئے چشماٹو سے کہا تھا کہ ہم آج کی رات ہی کہیں دور بھاگ چلتے ہیں۔ اس نے بظاہر پورے عزم اور حوصلےسے کہا تھا مگر چشماٹو یکدم گھبرا کر بولی ۔
میں بھگوڑی کیوں بنوں !“
“کیوں؟
اس نے پوچھا تو چشما ٹو کا جواب حیران کن تھا۔
میں ماں پیوئی نافرمانی نہیں کر سکتی ۔
ماں پیو کی نافرمانی سے کیا ہو جاتا ہے؟“
اس نے غصے سے پوچھا تو چشماٹو نے بے ساختہ جواب دیا کہ ماں پیو کے نا فرمان کو اللہ پاک جہنم میں ڈالے گا اور پھر اس کے گلے لگ گئی تھی۔
وہ آج تک چشماٹو کی بے انتہا محبت اور جہنم کے خوف کو نہیں سمجھ سکا تھا!
وہ دیر تک کاغذ پر آڑے ترچھے پھول بنا تا رہا اور اچانک ہاتھ روک لیا جیسے ضروری کام یاد آگیا ہو۔ چند سطریں لکھنا اس کے لیے مسئلہ عظیم بنا ہوا تھا اور وہ سوچ میں پڑ گیا۔ خیالات کی جس رو میں بہہ رہا تھا ، وہی لکھنا تھا جو دشوار تھا۔ اس نے البتہ اتنا ضرور سوچا کہ خط کسی دوست کو دکھا دوں گا مگر اس خیال سے ہی حیا آئی ۔ تان اس پر ٹوٹی کہ ذہن میں مضمون مکمل ہونے تک مضبوطی سے مجلد ایک موٹی سی کتاب میں دبا دیا جائے ۔ (ضروری کا غذات کے ساتھ ہمیشہ یہی کرتا تھا تا کہ وقت ضرورت وہ فوراً مل جائیں ۔ )
- •••••
زاہد کی نظریں وارث شاہ کی ضخیم کتاب ہیر رانجھا پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ میں رانجھے کی بانسری ، ہیر کی دیسی گھی کی چوری اور کیدو کی بل کھاتی ڈانگ گھوم رہی تھی کتاب میں لکھی شاعری اس کی مادری زبان میں تھی مگر پڑھنے میں دقت ہورہی تھی۔ ظاہر تھا کہ وارث شاہ نے ٹھیٹ پنجابی لکھی تھی اور وہ جس زمانے میں پیدا ہوا اس میں پنجابی کم، اردو اور انگریزی کے حروف زیادہ شامل ہوتے تھے خالی زبان چوں چوں کامربہ بن کےرہ گئ تھی تھی۔ اس نے رک رک کر پڑھنا جاری رکھا۔ پورے چار منٹ میں دو سطریں ہی پڑھ پایا۔
بڑا عشق عشق توں کرناں ایں
کدی عشق دا گنجل کھول تے سئی
زاہد نے ذہن پر زور دیا۔ شاعر کا ساراز و رلفظ عشق پر ہی تھا۔ وہ جیسے سٹپٹا گیا کیا واقعی شاعر نے کوئی بلند و بالا خیال پیش کیا تھا ؟“ اس نے بجے کر کے دیکھے ۔ ع ش ق ۔۔۔ ایسا کرنے سے فوراً ذہن میں علیم الحق حقی کے ناول بمعہ سیاق و سباق یاد آنے لگے ۔ وہ غور کرتا رہا کہ شاید آخر میں یہ سب بہت معمولی بات ثابت ہو۔ شاعر نے چند خیالات اختصار سے لکھے تھے کوئی پر اسراریت کوئی ممنوع شھے ۔۔۔ وہ ٹامک ٹوئیاں مارتار با اور تنگ آ کر اگلی سطر پر دھیان دیا۔ اگلی سطر کے پہلے لفظ کا معنی ہی معلوم نہیں تھا، کیا خاک سمجھ آنا تھا۔ دوبارہ ایک منٹ کے قریب خاموش رہا۔ اس کی شہادت کی انگلی حرف پر تھی۔ بظاہر سوچ رہا تھا مگر اس کے زرد، بے رونق اور خوف سے مسخ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
جب پڑھنے میں گڑ بڑ ہو رہی ہے معنی میں تو ہوگی ہی ۔۔۔
تقریباً سرگوشی سے لیکن پورے یقین کے ساتھ بڑبڑایا اور ماضی کا ایک اور دروازہ کھلنے لگا کہ اس کے دادا مجلسی آدمی تھے اور تقریباً بلانانہ اپنے جیسے بوڑھوں کو ہیر رانجھا کی داستان پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ پڑھنا شروع ہوتے تو پہلے دومنٹ اٹکتے پھر لہجے میں ربط اور ہمواری پیدا ہو جاتی، آواز جم جاتی اور جو کچھ پڑھا جاتا اس میں سے معنی نکلنے لگتے کبھی کبھی شدید قسم کی کھانسی کے دورے سے یہ سلسلہ ٹوٹ بھی جاتا مگر زیادہ تر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ جاتا تو سننے والوں پر نیم مدہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
کتاب بند کر کے گدے کے نیچے چھپاتے اس نے عہد کیا کہ کل سے دادا کی طرحردھم میں پڑھنے کی کوشش کرے گا۔
- ••••
اسی طرح وہ بہت دیر تک پڑا رہا۔ آخر کار اس نے دیکھا کہ پورے ہفتے بعد باہر پھیلی دھند کم ہوئی تھی اور بجھا بجھا سا سورج نمودار ہوتے ہی دن کا اجالا ہونے لگ تھی ۔ دھوپ سینکنے کی خواہش نے اسے ٹہو کا بھی دیا لیکن پہلے لمحے میں خیال آیا کہ وہ پاگل ہوا جارہا ہے ۔ اسے بڑی سردی لگی لیکن یہ سردی بخار ی تھی جو پچھلے دنوں سوتے میں چڑھ چکا تھا۔
وہ چار پائی پر چت لیٹے اپنی تھوڑی دیر پہلے کی خود فراموشی کے سکتے اور حیرانی میں مبتلا تھا۔ ہوا یوں کہ وہ باہر جانے کی نیت سے اٹھا تو صحن میں اباجی حقے کے کش لگاتے دھوپ تاپ رہے تھے ۔ سردی کی شدت یا کوئلوں کی مقدار کم ہونے سے دھوئیں میں کڑواہٹ کم محسوس ہوئی تو چلم کا ڈھکن او پر ہٹاتے ہوئے ہاتھ جلا بیٹھے۔ فوراً اس کی ماں کا نام پکار کر بولے ۔ ذراسی آگ برداشت نہیں ہوتی ۔ ذرا سوچو، جہنم کی ستر گنا زیادہ آگ۔۔۔ وہیں سے جہنم پر مفصل گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ زاہد نے اذیت ناک تشویش کے ساتھ سنا اور الٹے قدم مڑ لیا اور ابھی تک دماغ میں یہی لفظ گونج رہے تھے۔
- ••••
سہ پہر کے تین بج رہے تھے مگر سورج ابھی سے دھند میں غائب ہو گیا تھا۔ سردی پہلے ہی جیسی تھی لیکن زاہد نے گھر کے گھٹے سے ماحول سے نکل کر بڑے اطمینان سے ایک گہری سانس بھری ۔ اس کے سر میں ہلکا سا درد ہونا شروع ہو گیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کدھر جانا تھا اور نہ اس کے بارے میں اُس نے سوچا تھا۔ وہ صرف ایک بات جانتا تھا کہ اس طرحجینا نہیں چاہتا ! وہ اس خیال کو بھگا رہا تھا اور خیال اس کے پرخچے اڑائے دے رہا تھا۔ وہ بس یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہر چیز کو بدل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح یا اس طرح چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن ذہن میں ایک کمینہ خیال لیک آیا۔ ہر چیز بدل جائے گی مگر ابا جی کیسے بدلیں گے۔ پہلا موقع تھا کہ وہ آپ ہی آپ مسکرایا تھا۔
پرانی عادت کے مطابق، اپنی سابقہ آوارہ گردیوں کے معمول والے راستے پر وہ سیدھا پیپل والے لے چوک کی طرف چل پڑا۔ چوک سے پہلے ہی بیچ سڑک میں ایک پر چون کی چھوٹی سی دکان کے آگے زلفی دکھائی دیا۔ جو اُس پر نظر پڑتے ہی بولا ۔ سنا یار ۔۔ تر ابخار اترا یا ٹیکہ لگانا پڑے گا۔ زلفی نے ٹیڑھی بات سے آغاز کرنا ہوتا تھا اور حسب عادت وہ یہ آغاز کر چکا تھا۔ زاہد کے چہرے پر بخار کی زردی پھیلی ہوئی تھی ۔ پھر بھی ذرا سا مسکرا کر جواب دیا ۔ یکی نہ کر ۔۔۔ بندہ بن زلفی نے کھلکھلا کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور آنکھ دبا کر بولا ۔ دربار پہ چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ جمعرات کی شام ہے، خوب رونق میلہ ہو گا۔
دربار کا سنتے ہی اُسے چشما ٹو کا خط یاد آیا اور وہ ہلکے پھلکے مذاق کرتے گاؤں سے باہر نکل گئے ۔ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی سے دربار کا رستہ تھا جو زیادہ دور نہیں تھا لیکن پیدل دس منٹ لگ ہی جاتے تھے۔ پچھلے دنوں جب وہ اداس رہنے لگا تو اس کا دربار پر جا کر دل لگنے لگتا تھا۔ مگر اس کے اباجی تھے جنھیں دربار کاذکرسن کر بھی سانپ کاٹ لیتا تھا اور زاہد کی در بار کی طرف نقل و حرکت پر پابندی لگا دی تھی ۔ اس وقت وہ کچھ سوچے بغیر ہی چلا جار ہا تھا۔
وہ دربار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ غالباً پانچ فٹ اونچی کچی اینٹوں کی چار دیواری تھی۔ درمیان میں ایک مقدس آیات والی چادر سے لپیٹی ایک قبر جو بابا کر یر والی سرکار کی تھی۔ قبر کے اندر مدفون بزرگ کا نام تو سی کو بھی معلوم نہیں تھا کیوں کہ مقامی لوگوں کے بقول قبر کم از کم دو صدیاں پرانی تھی۔ کریر والی کا لقب اس کریر کے درخت کی وجہ سے منسوب تھا جو قبر کے بالکل قریب لگا ہوا تھا۔ مزار کے احاطے کے اندر مرد تو زیادہ دکھائی نہ دیے البتہ عورتیں کافی تعداد میں موجود تھیں ۔ دروازے کے پاس حلوے کے لنگر کی دیگ پر عورتوں کی ایک بڑی ٹولی بھیٹر لگائے ہوئے تھی۔ زاہد نے نظریں گھما کر بھولے شاہ ملنگ کو تلاش کیا جو پیپل کے نیچے بنے چبوترے پر بھنگ کا گھوٹا لگا رہا تھا اور بلند آواز سے کہ رہا تھا۔
ٹھنڈ ہے ٹھنڈ ہے ٹھنڈ۔۔”
زلفی معمول کی طرح عورتیں تاڑ رہا تھا مگر اس کے اشارے پر پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وہ ملنگ کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ ملنگ کی سرخ آنکھیں دیکھ کر زاہد کو عجیب سا لگا ۔ آنکھیں تو اس کی سرخ ہی رہتی تھیں لیکن آج کچھ زیادہ تھیں ۔ اتنی زیادہ جیسے آنکھوں کی کٹوریوں میں جیتا جاگتا ہو بھر دیا ہو ۔ اسے ملنگ کی آنکھوں سے وحشت سی ہونے لگی۔ ملنگ اُن کو سامنے بیٹھتے دیکھ کر کچھ پل کے لیے خاموش ہوا تھا مگر پھر اپنی دھن میں بولنے لگا ٹھنڈ ہے ٹھنڈ ۔۔۔ زاہد پر ایک عجیب سی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ اس نے بے اختیار پوچھا۔
بابا جی ، اس سے جہنم کی آگ بھی ٹھنڈی پڑ سکتی ہے ۔
جہنم تو ہر کسی کے اندر ہوتا ہے بچے! ایک پیالہ پی کر اندر کی آگ بجھاؤ تو اپنی جنت کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔ اور اپنی جنت کی کیا بات ہے بچے کیابات !“
ملنگ اپنی دھن میں بولتا جار ہا تھا۔ زاہد کی نگاہ بھنگ کی کونڈی پر تھی مگر زلفی نے اُس کے کان میں کہان۔ یگانہ لینا، اس بوٹی کا نشہ چوبیس گھنٹے بعد اترتا ہے ۔ چار پائی پر لیٹو تو لگتا ہے کہ ہوا میں اڑ رہے ہو ۔
زاہدا بھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ زلفی نے ملنگ کے ذرا قریب ہو کر راز دارانہ انداز میں کہا بابا جی ، اس نے ایک دعا منگوانی ہے ۔
ملنگ نے زاہد کو سرخ آنکھوں سے دیکھ کر پوچھا۔ بیاہ کی ؟“
وہ جواب دینے ہی لگا تھا کہ ملنگ نے قدرے جذباتی اور بلند آواز سے کہا۔ جا تیرے نصیب میں کڑیاں ہی ۔ ۔ ۔ قریب کھڑی دو عورتوں نے چونک کر ملنگ کی طرف دیکھا۔ زاہد کا ساکت اور سنجیدہ چہرہ بھی ایک لمحے میں بدل گیا اور ذرا سا نہیں لگا کر بولا۔ باباجی ، بس ایک چشماٹو ۔
ایک آن میں غیر معمولی وضاحت کے ساتھ ملنگ کی سمجھ میں ساری بات آگئی ۔ اس نے اپنے پاس رکھے شاپر سے پتاشوں کی مٹھی بھر کر نکالی اور زاہد کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنا چہرہ غیر معمولی طور پر قریب کر لیا ۔ کڑی دے ابے لئی ست (سات) پتاشے ۔ ۔ ۔ پھر ملنگ نے اتنی زور سے یا علی مشکل کشا کا نعرہ مارا کہ پورا احاطہ گونج اٹھا۔ زاہد پتاشے پکڑ کر جلدی سے اٹھ گیا اور عورتوں کی بھیڑ میں راستہ بنا تا باہر نکل گیا۔
پگڈنڈی پر چلتے زاہد کے چہرے پر چڑ چڑاہٹ بھری ناگواری جھلک رہی تھی تو زلفی مسکراتے ہوئے بولا ۔ پتاشے نکال جیب سے ۔ ۔ کھاتے ہوئے چلیں ۔ وہ بولے بغیر تیز تیز قدم چل رہا تھا۔ زلفی نے دوبارہ چھیڑا چشماٹو کے ابے سے زیادہ مجھے پتاشے کھانے کی ضرورت ہے، تا کہ طاقت پکڑے ۔ زاہد نے کانوں پر مفلر لپیٹ لیا اور سنی ان سنی کرتا گاؤں تک کے راستے میں خاموش رہا تھا۔
عجیب بے چینی لیے گھر میں داخل ہوا تو ابا جی چولہے کے پاس بیٹھے اس کی ماں کو جلی کٹی سنا رہے تھے ۔ رشیدہ تجھے عقل نہیں آئی ۔ ۔ کتنی باری منع کیا کہ ہرے طوطوں کی نذر نیاز کی چیزیں کھانے سے گناہ ملتا ہے۔۔۔ پر تو ہے ہر جمعراتی پکڑ کے رکھ لیتی ہے ۔ رزق کا ستیا ناس ۔۔۔ اب پکڑ لیا ہے تو کھانا پڑے گا۔ اور پھر اباجی پلیٹ سے اس طرح سویاں کھانے لگے جیسے واقعی دشمن سے کوئی بدلہ لیا جار ہا ہو ۔
وہ ایک حد تک ناگواری سے دیکھتا دبے پاؤں اپنے کمرے میں گھس گیا۔
- ••••
وہ دن چڑھے جاگا تو بہت فکر مند اور سنجیدہ تھا۔ ساری رات گہری نیند میں اسے بہت سے خواب نظر آئے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے مگر رسی پر چلنے والا خواب دیکھا بھالا تھا۔ وہ خواب بھی ذرا بدلا ہوا تھا کہ وہ رسی سے نیچے گر گیا تھا۔ وہ بستر پر لیٹے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس کی ماں اندر آئی اور بولی ۔
اٹھ جاپتر منھ ہاتھ دھو کے روٹی کھائے ۔
روٹی کا سنتے ہی اسے شدید بھوک کا احساس ہوا اور اٹھ گیا کہ پچھلی رات بھی بغیر کچھ کھائے سو گیا تھا۔
چولہے کے پاس بیٹھے روٹی کھاتے ہوئے اس کی ماں نے ذرامہ ہم لہجے میں کہا۔
تھوڑی دیر تک میں پتیلی میں پانی گرم کر دیتی ہوں ۔۔۔ نہا دھو کے جمعہ پڑھ آنا، نہیں تو تیرے ابے نے شور مچانا ہے ۔ روٹی کا آخری نوالہ چہاتے ہوئے اس نے ارادہ کر لیا کہ جمعہ پڑھنے جائے گا۔ ایک جمعہ پڑھنے سے گھر میں پورے سات دن سکون سے گزر جاتے ہیں تو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں تھی، البتہ نہانے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے جب اذان کی آواز گونجی تو وہ نہا دھو کر گھر کے صحن میں دھوپ تاپ رہا تھا۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی تو اباجی حقہ چھوڑ کر اٹھے اور اس کی ماں کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا جو اس کے مسجد جانے کے لیے تھا اور ماں نے اسے آواز دے کر اباجی کے ساتھ جانے کے لیے کہا تھا۔ اس نے ماں کے حکم کی تعمیل کی اور بغیر کسی حیل و حجت کے چل دیا۔
اس کے گھر سے مسجد کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ بس درمیان میں سات آٹھ گھر ہی پڑتے تھے۔ وہ اباجی کے پیچھے چلتا گیا۔ ایک بار ابا جی نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا بھی تھا۔ وہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو ابا جی غسل خانے کی طرف بڑھ گئے اور وہ وضو کے لیے پانی کی ٹونٹیوں کی طرف چل پڑا۔ اتنے میں اس کے کانوں میں خطیب کی آواز پڑی ۔اے مومنو! خدا کے جہنم سے ڈرتے رہا کرو، جس کی آگ ۔۔۔
جہنم کا لفظ سننا ہی تھا کہ اس کے قدم خود بخود رک گئے جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بھولے شاہ ملنگ کا چہرہ گھوم گیا اور بھنگ کی کونڈی بھی۔۔۔ وہ کچھ لمحوں تک رکا رہا۔ پھر مسجد سے نکل کر تیز قدموں سے بابا کریر والی سرکار کے دربار کی طرف چل پڑا مگر خطیب کی گرج دار آواز اس کے پیچھے پیچھے سایہ بنی چلی آرہی تھی۔
000