اردو تنقید کا نیا منظر نامہ
از، رفیق سندیلوی
تنقید سوالوں اور قضیوں سے مبرا نہیں ہوتی البتہ ہرزمانے میں قضیوں اور سوالوں کی نوعیت اور سطح بدلتی رہتی ہے ۔ یوں آگہی کے اندر نئی آگہی جنم لیتی ہے اور نمو کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو تنقید ایک ہی نقطے پر رکی رہتی ۔موجودہ اردو تنقید کا منظر نامہ اگر ماقبل تنقید سے مختلف و متنوع اور وسیع و منقلب نظر آرہاہے تو اس کے عقب میں آگہی اور نموکی یہی قوت کار فرما ہے۔ اب تنقید سیدھا سادا معاملہ نہیں رہی۔ یہ ایک مشکل ڈسپلن ہے ۔فن پارے کے متن کی معنیاتی جڑیں پورے ادب اور پوری ثقافت کے رموزی نظام میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، اس لئے تنقید کو اپنے طریقۂ ادراکیت سے متنوع و منظم ہونے کا احساس دلانا ہوتا ہے اور فن پارے کے جمالیاتی اثر کے راز کو بھی اسی وسیلے سے آشکار کرنا ہوتا ہے ۔ ساختیات کا یہ داعیہ کہ ادبی تحریر بین المتونیت کے زیر اثر وضع ہوتی ہے۔ اسے اختر اعیت اور مطلقیت کا نمونہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہیٍ وہ بنیادی قضیہ ہے جس نے موجود اور ماقبل تنقید کے بیچ خطِ امتیاز کھینچ دیا ہے اب متن مصنف کی زمین نہیں ہوتا کہ وہ جس طرح کی فصل اگانا چاہے اُگالے۔ اب لکھنے والا متن کو پیدا نہیں کرتا متن کے ہمراہ پیدا ہوتاہے ۔متن از خود منکشف نہیں ہو سکتا ۔متن اور متن ساز دونوں ایک دوسرے کے امکانات کے اندر عمل آرا ہوتے ہیں ۔اسی طرح متن کے قاری بھی اس میں شامل ہو کر ایک دوسرے کی کیفیات کے اشتراک و تفاعل سے قرأت کے عمل کو انجام دیتے ہیں ۔
ساختیات و پس ساختیات سے قبل اردو تنقید اقداری و نفسیاتی لکیر پر گامزن رہنا پسند کرتی تھی ۔فن پارے کی ہئیتی ووجودی حیثیت کو اہمیت دیتی تھی لیکن جب تنقید کو سو سیور کے لسانی ماڈل کے تحت زبان کے افتراقی نظام کا شعور حاصل ہوا تو الفاظ کے ذریعے صداقت کی ترسیل پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔زبان کی غیر شفافیت اور ساخت کے گرہ در گرہ تعلق کے نظریے نے ثقافت کو فرد اور تاریخ پر تقدم دے دیا ۔فن پارے کی قرأت کا طریقہ ہی بدل گیا ۔ فن کار جو اپنی اکبری تحریر پر ناز کرتا تھا اور اسے سراسر اپنے باطن کی تشکیل گردانتا تھا، جب اسے یہ معلوم ہوا کہ لسانی او رثقافتی قوت کس کس انداز میں متن کو وضع کرتی ہے تو اس کی حیرت دیدنی تھی ۔
میری نظر میں موجودہ اردو تنقید کی پہچان تشکیل کے اسی قضیے میں ہے۔ یہی وہ قضیہ ہے جس سے CreationاورProduction کی بحث چلی ۔روایتی نقاد پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا فن کار ثقافتی تشکیل یا لسانی ساخت کے تابع ہوتا ہے یا اس کی قوت کے آگے بے بس ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ فن کار کا تفاعل لسانی ثقافتی منبع سے جڑا ہوتا ہے جس کے تحت تخلیق کا تقلیبی آہنگ وجود میں آتا ہے ۔فن کار دال اور مدلول کو زبردستی نہیں جوڑتا۔ اپنے ارادے یا ابلاغ کی خواہش کے تحت فن پارے کو اپنی مرضی کا ملبوس معنی فراہم نہیں کرتا یا اسے مصدقہ طور پر با معنی بنا کر پیش نہیں کرتابلکہ وجدان و القاء، تصور و تمثال اور جمال و اسرار کے سہارے صناعی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ذہنی انہماک اور حسی مشغولیت سے اسے ایک منفرد حیثیت دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔منفرد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ فن پارہ بین المتونیت سے کٹ کر کسی خلا میں وضع ہوا بلکہ یہ مطلب ہے کہ وہ بین المتونیت کے عمیق رموز کی آگہی کی منزل پر وجود میں آیا یعنی وہ متحرک و منقلب ہو کر خود کو انوکھی شکل دینے کے قابل ہو گیا ۔فن پارے کی انوکھی شکل مصنف کی شعریات فہمی پر دال ہوتی ہے یا شعریات کو وسعت دینے کی قابلیت کا ثبوت ہوتی ہے جسے پہلے Originality سے موسوم کر دیا جاتا تھا ۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ فن پارہ مکمل طور پر خود مکتفیت کا حامل ہو ہی نہیں سکتا البتہ سٹرکچرنگ کا عمل ایک خود مکتفی زبان یا اسلوب کا احساس ضرور دلاتا ہے جس کی جڑیں مصنف کی ذاتی متھ میں پیوست ہوتی ہیں۔ آج کا نقاد قرأت کرتے ہوئے تنقید کے انھی قضیوں سے نبرد آزما رہتا ہے۔ وہ معنی کی الہامی یا اختراعی حیثیت پر بضد نہیں ہوتا ۔وہ فن کار کے اندازو اسلوب، ادب کی بین المتونیت اور ثقافتی نشانات کے اندر مطالعے کی بساط بچھاتا ہے اور معنی کی سیمابیت کا نظارہ کرتا ہے ۔
تنقید میں پیرا ڈائم یعنی مطا لعۂ ادب کے طریقے بدلتے اور توسیع پاتے رہتے ہیں ۔ پیراڈائم دراصل ایک پیٹرن،مثال یا ماڈل ہوتا ہے جو بطور ایک ادبی منہاج کے اپنی مشابہتوں کی طرف اشارہ کناں رہتا ہے ۔اردو میں مارکسی تنقید اور ہئیتی تنقید کے پیرا ڈائم بالکل فنا نہیں ہوئے ۔طرزِ کہن کی سطح پر روایتی مارکسی تنقید اور آئینِ نو کی سطح پرہئیتی تنقید عمل پیرا نظر آتی ہے مگر فضا صاف بتا رہی ہے کہ نئی تھیوری کے مباحث نے موجودہ اردو تنقید کو ادب کی تفہیم اور تعبیر و تجزیہ کے لئے ایک نئے پیرا ڈائم کی طرف موڑ دیا ہے ۔ہئیتی تنقید نے ،جو نئی تنقید اور روسی ہئیت پسند تنقید پرمبنی ہے اور جدیدیت سے منسلک ہے توسیع و تغیّر کو قبول کیا ہے مگر افسوس کہ اردو کے مارکسی نقادوں اور ان کے حامیوں نے اپنے اندر کوئی خاص تبدیلی پیدانہیں کی۔ وہ ابھی تک ہیئت پر مواد کو ترجیح دیتے ہیں ،متن کو بالائی سطح کے سماجی اور تاریخی تناظر میں قید رکھتے ہیں ۔ اقتصاد اور سیاست کو ثقافتی نظام کے کُل سے کاٹ کر دیکھتے ہیں ،تاریخ کے سکون و ظاہر پر توان کی نظر جاتی ہے ، تاریخ کے تحرک و غیاب پر ان کی نظر نہیں جاتی ۔ وہ طے شدہ منطق کے اسیر ہیں ۔ان کے تخیل کا محدود نظام اس منطق کو عبور نہیں کر پاتا۔جارج لوکاس کی غلط تعبیر کی تقلید میں مارکس ان پرکھلنے کے بجائے بند ہو گیا ہے ۔سماجی حقیقت نگاری ان کے لئے ایک بت بن کر رہ گئی ہے ،حالانکہ کشادہ مارکسیت کی حدیں ساختیات و پس ساختیات سے آملی ہیں ۔ روس سے باہر کے مارکسی نقادوں نے مارکس کے مکان بصیرت میں متعدد کھڑکیاں کھول دی ہیں ۔ رولاں بارتھ اور دریدا نے کئی مارکسی اصطلاحوں کو نیا تناظر عطا کر دیا ہے۔اب مارکسی نقاد فن پارے کو نظریے اور منشور کی، یا محبوس و محصور قسم کے معاشرتی ماحول کی پیش کش کا ذریعہ نہیں سمجھتے ۔وہ جان گئے ہیں کہ ثقافتی نظام میں نظریے کے خلاف جنگ بھی ہوتی ہے اور یہ کہ نظریہ بذات خود تضادات و افتراقات میں گتھا ہوا ہوتا ہے اور اسی باعث اسے کسی سماجی طبقے کا راست مظہر نہیں کہا جا سکتا۔یہ ایک اسطورہ کی مثل ہوتا ہے جس میں سماجی عقائد کو حقیقت کے التباس کے طور پر برتا جاتا ہے۔ آئیڈیالوجی خود کو انسانی زندگی کے عکس کا درجہ دے کر فرضی تقسیم اور جعلی تحدیدات میں کس طرح اسیر کر دیتی ہے ؟ہمارے پرانے ترقی پسندوں نے اس پر غور ہی نہیں کیا۔ان کے ہاں نظریے اور آئیڈیالوجی کی بحث کو کبھی گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ ثقافت اور اد ب کے مشترکہ اور وسیع تر تفاعل کے اندر رکھ کر زیر بحث ہی نہیں لایا گیا اور ایسا نئی تھیوری اور ادب کے بدلتے ہوئے پیراڈائم سے دوری کے سبب ہوا ہے۔ تھیوڈ ورا ڈور نو اور لوسین گولڈ من نے مارکس کی تشریح نو کر کے ساختیات اور مارکسیت کے درمیان جو اشتراک پیدا کیا ہے۔ لوئی التھیو سے نے ژاک لاکان کے مرکز گریز نفسیاتی تحلیل اور مارکس کی جدلیات کو ملا کر جو مطالعہ پیش کیا ہے۔ گرامسکی نے Hegmony یعنی جال نما مغالطوں اور مفروضوں کی تھیوری اور مشیل فوکونے علم اور قوت کی مشترکہ عمل آرائی کی تھیوری سے جو ذہنی ہلچل پیدا کی ہے۔ پیئر ماشیرے اور ٹیری ایگلٹن نے ادب اور سماج کے منطقوں میں کار فرما آئیڈیالوجی کی متغیرہ شکلوں کو جس طرح پس ساختیات کی روشنی میں نشان زد کیا ہے۔ اردو کے ادعائیت پسند مارکسی نقادوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔مجھے تو یوں لگتا ہے ان کی رسائی اینگلو امریکی تنقید کے معارف تک بھی ڈھنگ سے نہیں ہو سکی جس کے بنیادی مفروضوں کو تھیوری کے تنوعات نے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ادبی تھیوری کی نا گزیریت مسلّم ہے اس لئے کہ وہ عصری تھیوریاں جوسماجیاتی و بشریاتی میدانوں میں اپنا اثر و رسوخ بنائے ہوئے ہیں، بے حد متنوع اور سوال انگیز ہیں، ان کا سامنا کئے بغیر ادب اور زندگی کے باہمی رشتوں کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا ۔نارتھ روپ فرائی نے تھیوری کو تنقید کا صحیفہ مانا ہے ۔ٹیری ایگلٹن نے تعبیر ادب کے حوالے سے اسے حیات بخش آگہی کا بدل قرار دیا ہے ۔ حتیٰ کہ ادبی تھیوری کے مخالفین بھی اس کی تشکیکی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اسے درسی ضرورت یا مغرب کا ایجنڈا کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا ۔
دنیائے انسانی میں مواصلات کے پھیلاؤ نے جوابلاغی ہلچل پیدا کی ہے ،ثقافتی تنوعات نے معاشروں میں جس کثرتیت کو فروغ دیاہے ،علوم جس بحران، تصادم اور کایا پلٹ کی زد پر ہیں اور مسلّمات کی دیواریں جس طرح کھوکھلی ہو کر گر رہی ہیں ، اس تناظر میں تھیوری سے خوف زدہ ہونے کے بجائے دائرۂ تفہیم میں داخل ہو کر اس پر سوالات قائم کرنے ضروری ہیں ۔موجودہ اردو تنقید کے پیراڈائم جس امتزاج کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہمارے عہد کے وسیع النظر ترقی پسند اور جدید ناقدروں کی بصیرت اس سے زیادہ دیر تک غافل نہیں رہ سکتی ۔اصلاًSign کے تصورکو سمجھنے کی ضرورت ہے جو استقرار کے بجائے اضطراب کا، موجود کے بجائے غیاب کا اور انضباط کے بجائے نراج کاحامل ہے اورلفط اور معنی کی وحدت پرکاری ضرب لگاتا ہے ۔جس طرح ایک اینٹ کے سرکنے سے ساری اینٹیں اکھڑنے لگتی ہیں اسی طرحSign کے تصورکے بدلنے سے پورا تناظر ہی بدل گیا ہے اور ادب کے ثقافتی کوڈز اور کنونشنز کے مطالعے میں ثقافت کی آئیڈیالوجیکل اور سٹریٹی جیکل جہت بھی ابھر آئی ہے ۔یہی وہ نکتہ ہے جو ترقی پسندی اور جدیدیت کے حامل نقادوں اور تخلیق کاروں کو ما بعد جدید منظر نامے سے جوڑ سکتا ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ مابعدِ جدیدیت کا منظرنامہ ہویدا ہونے سے حد بندیاں ٹوٹنے لگی ہیں اور موضوعات پر کسی کا اجارہ نہیں رہا۔
موضوعات پر سب کا حق ہے مگر یہ طے ہے کہ یہ حق فن کار کی شعریاتی قوّ ت اور باطنی توفیق سے وابستہ ہوتا ہے۔ فن کارتحریکوں کے نظریات اور تھیوریوں کے اُصول ذہن میں رکھ کر فن تخلیق نہیں کرتا۔اعلیٰ فن پارے میں ایسی کیفیت اور وسعت ہوتی ہے جو اپنے وجود پر کسی کو کوئی لیبل نہیں لگانے دیتی ۔اس میں ادبیت بھی ہوتی ہے اور زندگی بھی مگر یہ ادبیت اور زندگی’’ ادب برائے ادب ‘‘اور ’’ادب برائے زندگی ‘‘ جیسی پیش پا اُفتادہ اصطلاحوں کی مرہونِ منّت نہیں ہوتی۔واقعتہً یہ اصطلاحیں کلیشے میں محدود ہو کر بے معنی ہو چکی ہیں اورتنقید کی نئی صورتِ حال کی تفہیم سے قاصر ہیں۔نسلِ نو کو ادب کے وسیع تر امکانات کا ادراک ہونے لگا ہے۔ اِس میں کوئی کلام نہیں کہ ادب بذاتِ خودکوئی نظریہ نہیں ہوتا۔اِس کے اندر متعدد نظریات عمل آراہوتے ہیں جو انسانی سماج ،حیات وکائنات اور علوم و فنون کے دھاروں سے جُڑے ہوتے ہیں۔آج کا انسان مارکیٹ اکانومی،کارپوریٹ کلچر ،نیو ورلڈ آرڈر ،تہذیبی کشاکش ،جوہری اسلحے اور تابکاری کے خطرات ، آلودگی ،گلوبلائزیشن،دہشت گردی ،خود کُش حملے ،مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کا سیاسی خلااوراس سے پیدا ہونے والی بے چینی ،پولرائریشن، آئی ڈی پیز،توانائی کا بحران،غُربت، بے روزگاری،ریاستی جبر،مہاجرت ، امیگریشن،کرپشن ،عالمی کساد بازاری، سرحدی تنازعات، خفیہ انجنسیوں کی کارروائیوں،طاقت کے کھیل اور انسانی حقوق کی پامالی سے منسلک جن مسائل و معاملات میں گھرا ہوا ہے ، اِن سے کوئی ادیب یا شاعر انکار نہیں کر سکتااور نہ ہی اِن کے عکس اور اثر کو ادب میں در آنے سے روک سکتا ہے۔ ادب کا علاقہ ذات سے بھی ہوتاہے اورسماج سے بھی ، کائنات سے بھی ہوتاہے اور ماورا سے بھی ۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ سچا تخلیق کارخود اپنی ذات میں ایک اجتماعی نظریے کی صورت نمو پذیر ہوتا ہے۔کٹر یا متشدد ترقی پسند ادیب اور شاعرجب ادب میں نظریے کی وضاحت کرتے ہیں تو اِس نکتے کو سمجھ نہیں پاتے ۔نتیجتاً ایک ہی موضوع اور ایک ہی نظریے میں قید ہو کر اُن کا فن تکرار اور کلیشے کی نذر ہو جا تا ہے۔ ایک ہی نظریے میں بند رہنے والے اذہان اجتماع کی نمائندگی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں!فن کار کی’ ’ مَیں‘‘ سے بھی ایسے ہی اذہان کو اُلجھن ہوتی ہے۔فن کارکا واحد متکلم اُس کی ذات میں اسیرنہیں ہوتا۔بلا شُبہ تخلیق کار کی ’ ’ مَیں‘‘ بنی نوع انسان کی ’ ’ مَیں‘‘ ہوتی ہے۔اُس کے تکلم میں اجتماعی تکلم کا رنگ ہوتا ہے۔کیا ’’ ہم‘‘ کے صیغے سے زیادہ اجتماعیت پیدا ہو جاتی ہے یا اِس میں زیادہ روحِ عصر آ جاتی ہے اور ’’ مَیں‘‘ کے صیغے سے روحِ عصرکم ہو جاتی ہے؟ مسئلہ اظہار میں واحد یا جمع کے صیغے یا مخصوص نظریے کا نہیں ،ادبی نظریے کا ہے اور ادبی نظریے کو ادب کی نوعیت اوراِس میں جاری وساری شعریات کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جوحیاتِ انسانی،فلسفہ،حسیات، جمالیات،اخلاقیات،معاشیات، نفسیات اورتاریخی و عصری شعور کی جستجوسے ساخت پذیرہوتی ہے ۔ادبی تھیوری کا انطباق بھی اسی کے تحت ہوتاہے۔جس طرح درخت کو اُس کی جڑوں ،شاخوں اور شگوفوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا،اسی طرح ادب کو ادبی نظریے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔مابعد جدیدیت کے تناظر میں دیکھیں توامتزاجی تنقید کا بھی یہی مؤقف ہے ۔
ترقی پسنداور جدید تنقید میں اتنی قوت نہیں رہی کہ وہ خود کو ادبی منظر نامے پر حاوی رکھ سکے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کے مؤثر اور قابلِ دخیل اجزا تنقید کی ما بعد جدید آگہی میں تحلیل ہو گئے ہیں ،جو کچھ بچ رہا ہے اگر بعض حضرات اسے کسی مکتبۂ فکر کے طور پر منجمد رکھنے کے آرزو مند ہیں تو درحقیقت وہ اصول تغّیر سے انحراف کر رہے ہیں ۔ کسی تنقیدی ڈسپلن یا طریقۂ نقد کے بے دخل یا غیر مؤثر ہو جانے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کی آگہی کا زور ٹوٹ گیا ہے یا اطراف میں آگہی کا میدان وسیع ہو گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ جدیدیت کے اکمل یا مضحل ہو جانے کے بعد ہی ما بعد جدیدیت کی بات کی جائے ۔بات شروع ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس کا جواز پیدا ہو جاتا ہے ۔زمانی سطح پر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی رخصت و آمد کا تعیّن دو طرفہ شاہراہ کی صورت میں نہیں ہوسکتا ۔آگہی کے دائرے ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں ۔یہ کہنے کے بجائے کہ ابھی جدیدیت بھی پوری طرح نہیں آئی یہ کہنا زیادہ صائب ہو گا کہ ابھی ما بعد جدیدیت پوری طرح نہیںآئی ۔جدیدیت کے اثرات بھی موجود ہیں اور ما بعد جدیدیت پر مکالمہ بھی جاری ہے ۔خود اختلافی اور پردہ داری کے وہ عناصر جو جدیدیت کے تہہ میں پوشیدہ تھے، اب سطح پر آگئے ہیں اور ایک فطری جدلیات کے تحت ان کا تجزیہ بھی ہو رہا ہے ۔یہی تجزیہ ہماری ادبی حسیّت ،آدرشی تصور اور موضوع کی مرکزیت میں تبدیلی لا رہا ہے ۔اس تبدیلی سے نئے پیرا ڈائم کا اندازہ ہوتا ہے۔موجودہ تنقید کا رخ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے انقطاع و اتصال کی تفہیم کی طرف کھلا ہوا ہے ۔
تازہ تنقیدی مباحث میں نظری مسائل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔نظری مسائل سے مراد ادبی تھیوری ہے جس میں ساختیات بھی شامل ہے اور پس ساختیات بھی ،اس کا ایک جواز تو اس کے مزاج کا Congnitive یا وقوفی ہونا ہے ۔روایتی تھیوری میں ہر علم کی نظری تحدیدات کو ایک مخصوص منہاج کے طور پر الگ الگ برتا جاتا ہے جبکہ تنقیدی تھیوری ان تحدیدات کو مسمار کر کے وقوف کی کشادگی پراصرار کرتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ تھیوری یا تنقید کے پس ساختیاتی زاویوں کی نظری اور اطلاقی صورت کیا ہے ؟بلاشبہ گذشتہ دو دہائیوں سے تھیوری پر گفتگو جاری ہے اور اطلاقی سطح پر اس کی مجموعی آگہی سے فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے ۔لیکن میر اخیال ہے کہ ہماری علمیاتی صورت حال کے پیش نظر ابھی تھیوری کی بحث کو مزید عمق میں جا کر کھولنے کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر نو مارکسیت،نو تاریخیّت،تانثیت اور بعد نو آبادیت جیسے پس ساختیاتی نظریات کو زیادہ مس کیا جانا چاہیے تا کہ آئیڈیالوجی ،اقتصاد ،تاریخ ،سماج اور سماج کے اندر رچے بسے ہوئے اشرافی اور مرکز مائل تصورات کی تمام فریب کارانہ شکلیں نمایاں ہو جائیں اور جب ہم اطلاقی طور پر ادب کے تجزیے کی طرف رجوع کریں تو کسی فن پارے کے غیر ادبی اور ادبی ہونے کے ادراک سے غافل نہ رہ سکیں ۔دیکھئے غیر ادبی متن جدیدیوں کے ہاں بھی موجود ہے جو فیشن کے طور پر پروان چڑھا اور ترقی پسندوں کے ہاں بھی موجود ہے جو سیاست کی متابعت میں پھلا پھولا اور صحافت کی روداد نگاری ثابت ہوا ۔دونوں جدّت اور حقیقت پسند کی آڑ میں تخلیقی تجربے سے محروم رہے ۔کلچر مطالعات میں جب ہر قسم کے متون کو تہذیبی یا ثقافتی متون کے زمرے میں رکھا جا رہا ہو تو نظریاتی اور غیر نظریاتی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر کیاہر قسم کا متن بشمول نظریاتی و غیر نظریاتی ،ادب ہو سکتا ہے ،ہرگز نہیں !کیوں کہ اس میں عقل اور وجدان کی وہ کثیرا لصوتیت اور تہہ نشیں حرکیت نہیں ہوتی جو ادب کو ادب بناتی ہے اور اسے دیگر متون کی سطح سے بلند کرتی ہے ۔ہر چند کہ ادب کی تشکیل پذیری میں وسیع و عمیق ثقافتی ماحول ہی کار فرما ہوتا ہے مگر ساری بات اتصال و آمیزش کے اس درجے کی ہوتی ہے جہاں ادب تہذیبی اور ثقافتی متون میں شامل ہو کر بھی اور ان کے اجزا کو استعمال کر کے بھی ان سے رفیع تر ہو جاتا ہے ۔اہاب حسن نے اسے ادب کی’’ بد معاش قوت‘‘ کا نام دیا ہے ۔غور کریں تو غیر ادبی اور ادبی ہونے میں وہی فرق ہوتا ہے جودکھانے اورمظاہرہ کرنے میں ہوتا ہے، جو انفرا سٹرکچر اور سٹرکچر میں ہوتا ہے۔ فن پارہ جگہ گھیرنے والا منجمد مواد نہیں ہوتا، جہات میں گردش کرنے والا متن ہوتا ہے ۔متن کی اسی گردش کے باعث تھیوری اہم ہو جاتی ہے ۔ترقی پسند مارکسی نقاد ذرا آگے بڑھیں تو تھیوری ارتقائے فہم کا سامان پیدا کر کے ان کو ادب کے اصل منصب سے آشنا کر سکتی ہے۔سیاسی اور معاشی مسائل یا پانی ،بجلی ،سوئی گیس،روز گار ،انکم ٹیکس اور بجٹ کے معاملات پر برقی میڈیا اور صحافتی حلقہ بحث کرتا رہتا ہے ۔ادیب بھی اپنی دانش ورانہ حیثیت میں اس پر رائے زنی کر سکتا ہے ،مگر تخلیقی عمل کبھی اس کے تابع نہیں ہوتا ۔متن کی ادبی آئیڈیالوجی کی صداقت سماج کی سیاسی یا معاشی آئیڈیالوجی کی صداقت سے بلند تر ہوتی ہے اور چونکہ یہ کثیر الجہت ہوتی ہے لہٰذا تھیوری کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قاری ایک معنی پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا، فعالیت کے ساتھ متن کے پورے میدان کو حیطۂ نگاہ میں لانا چاہتا ہے ۔
مابعد جدیدیت موجودہ انسانی صورت حال اور ساخت کی لا مرکزیت پر ایک زبردست مباحثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے دائرۂ آگہی میں فلسفہ وتاریخ کے ساتھ ادب بھی شامل ہے ۔لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ادب کے تنقیدی نظریات پر مابعد جدیدیت نے اپنے اثرات مرتب نہ کئے ہوں البتہ یہ ضرور ہے کہ مغرب میں ما بعد جدیدیت لرزہ اندامی پیدا کر کے اپنی مقامیت اور فکری تناظر میں رچ بس گئی ہے۔ ہماری ادبی ،عصری اور ثقافتی صورت حال بھی اپنی ایک مقامیت ،اپنا ایک تناظر رکھتی ہے اور عالمی فضا سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اب اسے کیا کہیں کہ ایک طرف DNA ٹسٹ کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف بے گناہی کو ثابت کر نے کے لئے انگاروں پر چلنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔سیاسی اور قبائلی سروکار کسی طرح راہ میں حائل ہیں ؟ایسے میں عقلیت اور ما بعد الطبعیات کے ردو قبول کو کس نظر سے دیکھا جائے !یہ تو طے ہے کہ دنیا بھر کے نوع بہ نوع انسانوں پر کوئی مطلق یا مستقل نظریہ نہیں ٹھونساجا سکتا ۔بالآخر جہالت اور روشن خیالی دونوں ایجنڈوں کا پول کھلنا ہے ۔ مکالمے کو سوالات کی بوچھار میں پوری طاقت کے ساتھ ابھرناہے۔اصلاً ما بعد جدیدنظریات کا رشتہ پسِ ساختیات سے ہے جو کسی چیز پر قفل نہیں لگاتی۔ ہر چیز کو الٹاتی پلٹاتی رہتی ہے ۔حد بندیوں ،اصولوں ،مفروضوں اور فارمولوں کو قبول نہیں کرتی ۔یقین کے بجائے شک کو ترجیح دینا،تشکیل کے بجائے ردّ تشکیل کو اختیار کرنا،مربوط اور بند رہنے کے بجائے غیر مربوط اور کھلا رہنا، مدلول کے بجائے دال کو ابھارنا اور اسے ثقافتی ہالے میں لے جانا اورفطری حقیقت اور سماجی ساخت کے ما بین فرق کرنا اس کا شیوہ ہے ۔مابعد جدیدیت اپنی نہاد ہی میں High اور Low کی قائل نہیں اور اتھارٹی اور تھیوری کے خلاف ہے ۔ اس کا سرسری مطالعہ گمراہ کن ہو سکتا ہے ۔ عام قاری اس کے انحرافی اور اثباتی دونوں رخوں کو خلط ملط کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ اپنی نہاد ہی میں اینٹی تھیوری ہے تو تھیوری کی وکالت کیوں ؟تھیور ی سے مراد وہ تمام تھیوریاں ہیں جن کی نشوو نما سے اس بحرانی صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جو علوم انسانیہ کو در پیش ہے ۔مابعد جدیدیت اس لئے اینٹی تھیوری ہے کہ کسی ایک تھیوری ،متعدد تھیوریوں یا تمام تر تھیوریوں پر اکتفا نہیں کرتی کیوں کہ صداقت کو جاننے کے جو بھی طریقہ وضع کیا جاتا ہے وہ کلیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ما بعد جدیدیت تھیوری کو تسلیم بھی کرتی ہے اور تھیوری کی صداقت پر سوالیہ نشان بھی لگاتی ہے ۔
گذشتہ نکات کے تسلسل میں رہتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترمیم و تغّیر او رتنسیخ و تجدید کو اپنائے بغیر کسی ادبی ،ثقافتی یا انسانی صورت حال کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔کوئی ایک تنقیدی نظریہ متن کے حاضر و غائب حصو ں میں اور ان کے پیچ در پیچ پرتوں کو منور نہیں کر سکتا ۔اس وقت متعدد تنقیدی نظریات بر سر عمل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ تجزیے کی باقی جہات سے کنارہ کشی اختیار کر لی گئی ،جُز کو چُن لیا گیا اور متعدد اجزا کو فراموش کر دیا گیا ۔درست ہے کہ کُلیّت کے ساتھ تخلیقی تجربے کے تمام تر امکانات کو گرفت میں نہیں لایا جا سکتا مگر اس عدم رسائی کے کچھ اپنے وہبی وعقلی مضمرات بھی ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ فن پارے کے سالم ہونے کا احترام ہی نہ کیا جائے اور تنقیدی نظریات کے تنوع ہی سے بیگانگی اختیار کر لی جائے ۔میرے خیال میں امتزاجی تنقید اپنی لچک داری اور گونا گونی کی وجہ سے زیادہ قابل قبول دکھائی دیتی ہے ۔یہ فن پارے کو انھی شعاعوں میں لا کر دیکھتی ہے جو اس کے اندر پھوٹ رہی ہوتی ہیں ۔جس طرح ما بعد جدیدیت تھیوری کی ضرورت کو مانتی بھی ہے اور اس کی صداقت کو حرف آخر کا درجہ بھی نہیں دیتی ،اسی طرح امتزاجی تنقید بھی تھیوری اورمتھاڈلوجی کے متعیّنہ معنی کوقبول نہیں کرتی ۔خود کو Defineنہ کرنے اور حد بندی کو مسترد کرنے کی بدولت اس کا مزاج ہی ما بعد جدیدی ہے۔غور کریں تو امتزاجی تنقید میں ما بعد جدیدیت کے اثباتی و انحرافی نقوش کی تفہیم کا عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے ۔
سندیلوی صاحب بڑے مدلل اور فطانت کے ساتھ مضمون لکھا گیا ھئ۔