اردو ترجمہ کاری کی روایت اور شیخ محمد علی توحیدی کے تراجم: ایک تعارفی جائزہ

اردو ترجمہ کاری کی روایت اور شیخ محمد علی توحیدی

اردو ترجمہ کاری کی روایت اور  شیخ محمد علی توحیدی کے تراجم: ایک تعارفی جائزہ

از، ڈاکٹر جابر حسین

اردو اور فارسی کا تعلق زمانی اور لسانی اعتبار سے بہت قدیم اور گہرا ہے۔ فارسی کے معروف شاعر رُودکی [متوفی ۹۴۰ء] تیسری چوتھی صدی ہجری میں ایران کے صوبے خراسان میں اپنی شاعری کا جادو جگا رہے تھے۔ بعض تحاریر کے مطابق [اگر چِہ یہ بات تحقیق طلب ہے] اُس وقت موجودہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے خضدار میں ایک عرب دولت مند کی بیٹی رابعہ بنت کعب قزداری [موجودہ خضداری] بھی اپنے قلبی جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے  فارسی ہی کا سہارا لے رہی تھیں۔

جس زمانے میں “ہندو شاہیہ”   کے علم بردار جے پال کی سلطان سبکتگین  سے مقابلے میں شکست اور بعد میں سلطان سبکتگین کی  وفات [۹۹۷ء] کے بعد ان کے جانشین سلطان محمود غزنوی [متوفی ۱۰۳۰ء] نے بر صغیر کے شمال مغربی حصے کو  غزنی سے ملحق کر دیا اُس وقت بر صغیر کے شمال مغربی حصے اور افغانستان کے کابل سمیت کئی حصوں پر فارسی زبان کا غلبہ تھا۔

غزنوی خاندان کے دور اقتدار کے خاتمے [۱۱۸۶ء] تک بر صغیر کے شمال مغربی حصے اور پنجاب میں مسلم علم و دانش کا وقیع ذخیرہ وجود میں آیا۔ اس کے ایک بڑے حصے کی زبان فارسی تھی۔

غزنوی دور کے بعد  شہاب الدین محمد غوری اور ان کے جانشینوں نے اپنا پایۂِ تخت دہلی کو قرار دیا۔ یوں تیرھویں صدی کے آغاز سے انیسویں صدی تک بر صغیر کی ثقافتی، معاشرتی و تجارتی زبان فارسی رہی۔

انگریزوں کی بر صغیر آمد کے بعد کلکتے میں ایک تدریسی ادارہ محض اس لیے انگریزوں نے بنوایا جس میں تین سال تمام سرکاری ملازمین کو فارسی  سکھائی جاتی تھی تا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین ہندوستان میں فارسی سیکھ سکیں اور حکومتی، تجارتی اور عدالتی معاملات چلا سکیں۔ “۱۷۸۱ء میں “مدرسہ عالیہ کلکتہ” اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا جس میں عربی اور فارسی زبان پر زور دیا جاتا تھا”۔ [۱]

ڈاکٹر سفیر اختر نے لکھا ہے، “اٹھارھویں صدی کے آخر تک شمالی ہند میں جب فارسی زبان کو سرکاری سر پرستی  حاصل تھی اس سے بہت پہلے پندرھویں صدی میں جنوبی ہند میں اردو میں با قاعدہ تصنیف و تالیف شروع ہو چکی تھی”۔ [۲]


مزید دیکھیے:  بلتی اور اردو  زبان کا صوتی،املائی اور معنوی اشتراک  از، ڈاکٹر جابر حسین

تجدید عزم و وفا  تعارف و تبصرۂِ کتاب از، قمر سبزواری


۱۸۰۰ء میں انگریزوں نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج تعمیر کیا اور  کم از کم ۲۹ فارسی کتب کا اردو میں ترجمہ کروا دیا۔ فورٹ ولیم کالج کے تراجم سے قبل جتنے اردو تراجم ہوئے وہ سب انفرادی سطح پر ہوئے۔ پہلی دفعہ ترجمے کی اجتماعی کوشش فورٹ ولیم کالج کی ہے۔ اسی کالج کے توسط سے اردو زبان و ادب اور اس کے مزاج  و معنی سے گہری واقفیت و زوق رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک گروپ وجود میں آیا جس میں عبد اللہ مسکین، کاظم علی جوان،بہادر علی حسینی، مظہر علی خان ولا، شیر علی افسوس، حیدر بخش حیدری، خلیل علی خان اشک، حمید الدین بہاری، کندن لال، باسط خان، میر ابو القاسم، طوطا رام، محمد بخش، میر جعفر، مولوی عنایت اللہ، نہاں چند، غلام اکبر، حاجی مرزا مغل، غلام شاہ بیگ، محمد بخش، محمد عمر، شاکر علی وغیرہ شامل تھے۔ [۳]

اردو  کےابتدائی  ادبی سرمایے کا ایک قابلِ ذکر حصہ فارسی زبان میں لکھی گئی کتب سے بہ ذریعہ ترجمہ  ماخوذ ہے۔ موضوعات، اسالیب اور لغات و محاورات میں اردو نے بہ ذریعہ ترجمہ فارسی سے بہت اخذ و استفادہ کیا۔ ابن نشاطی کی مثنوی “پھول بن”، غواصی کی “طوطی نامہ”، ملک خوشنود کی “جنت سنگھار”، رستمی کی “خاور نامہ”، نذر علی کی تاریخ “سراج التواریخ” سبھی ترجمے کی مرہونِ منت ہیں۔

اردو ادب کے ابتدائی عہد میں بہت بڑی تعداد میں فارسی، عربی اور سنسکرت سے اردو نثر میں ترجمے کیے گئے۔” یہ ترجمے مذہب، تصوف، شاعری، داستانیں، ہیئت، فلسفے کی کتابوں کے تھے”۔ [۴]

فورٹ ولیم  کالج نے ہندوستانی ادبی تاریخ، ہندوستانی اخلاق اور مشاہیر کے تذکروں پر مشتمل کتب کے تراجم کو اہمیت دی۔

فرید الدین عطار کے “پند نامہ”، مصلح الدین سعدی شیرازی کی تخلیق “کریما”، مولانا جامی کی “یوسف و زلیخا”،جلال الدین دوانی کی معروف کتاب “اخلاق جلالی”، ملا حسین ابن علی واعظ کاشفی کی “اخلاق محسنی” اور امیر خسرو کی “لیلیٰ و مجنوں” جیسی تخلیقات و تصنیفات کے اردو تراجم کروائے۔

دینی کتب کے تراجم کا  سلسلہ بھی انیسویں صدی کے نصفِ اوّل ہی میں با قاعدہ طور پر شروع ہوا۔ اس سے قبل مذہبی تراجم کی روایت موجود تھی مثلا  ۱۷۷۶ء میں شاہ رفیع الدین نے قرآن مجید کا پہلا اردو ترجمہ کیا۔ [۵]

۱۷۹۵ء میں شاہ رفیع الدین ہی کے چھوٹےبھائی نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔ اولُ الذِّکر ترجمہ لفظی اور پیچیدہ  جب کہ ثانیُ الذِّکر نسبتاً با محاورہ اور سلیس ہے۔ [۶]

مثلاً شجاع الدین برہان پوری کی کتاب “کشف الخلاصہ” کا منظوم اردو ترجمہ عبد اللطیف لاہوری نے “خلاصۃ الفقہ”کے نام سے کیا۔

سید مہدی علی کی کتاب “رسالہ سیفیہ در مسائل فقہیہ” کا ترجمہ “حدائق اثنا عشری” کے نام سے سید سیف الدین حیدری نے کیا۔

علامہ محمد باقر مجلسی کے “رسالۃ النکاح” کا ترجمہ مولانا محمد حسین آزاد نے اسی نام سے کیا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی “تفسیر عزیزی” کے آخری دو پاروں کا ترجمہ مولوی محمد حسن رام پُوری نے کیا۔

محدث دہلوی کی دوسری کتاب”تحفہ اثنا عشریہ” کے  دسویں اور بارھویں باب کا ترجمہ سر سید احمد خان نے”تحفۂِ حسن” کے نام سے کیا۔ اسی طرح  محدث دہلوی کی “ترغیب اھل السعادات فی تکثیر الصلواۃ علی سید الکائنات” کا منظوم ترجمہ “خیابان فردوس” کے نام سے کفایت علی نے کیا۔

امام غزالی کی معروف کتاب”کیمائے سعادت” کا ایک ترجمہ عالم علی عظیم آبادی نے”ہدیۃ العارفین” کے نام سے اور دوسرا ترجمہ “منہاج العابدین” کے نام سے محمد مہدی واصف نے کیا۔

علامہ محمد باقر مجلسی کی”حیات القلوب”کا  منظوم ترجمہ سعادت خان ناصر نے “کشف حیات القلوب” کے نام سے کیا۔

 خلیق انجم نے لکھا ہے “ان ترجموں کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ترجمے با قاعدہ ترجمے نہیں بَل کہ کتابوں کی تلخیص یا آزاد ترجمہ ہوتے تھے۔ ان میں ترجمہ نگاری کے ان سائنٹفک اصولوں کی پابندی نہیں کی جاتی جو اچھے ترجموں کے لیے ضروری ہیں۔”[۷]

خلیق انجم صاحب  کا مدعا اپنے سیاق و سباق میں بالکل بَہ جا ہے مگر اس سے ذرا قطعِ نظر دیکھا جائے تو اردو  زبان کو ابتدائی اور عوامی سطح پر فروغ دینے میں ان مذہبی کتب کے اردو تراجم کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔

بیسویں صدی میں فارسی سے اردو ترجمے کی یہ  روایت پاکستان کے شمالی علاقوں [گلگت بلتستان] میں جن شخصیات نے برقرار رکھی ان میں ایک بڑا نام استاد محترم شیخ محمد علی توحیدی ہیں۔

واجب الاحترام  استاد محترم جناب قبلہ شیخ محمد علی توحیدی دام عزہ پاکستان کے شمالی علاقے  یعنی موجودہ گلگت بلتستان کے ضلع گنگچھے سے تعلق رکھنے والی ایک علمی و مذہبی اور فکری شخصیت ہیں۔ پاکستان میں عصری تعلیم ایل ایل بی کی سطح تک مکمل کرنے کے بعد مذہبی تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور  ایران کے معروف علمی و فقہی حوزات کے نصابوں اور علمی شخصیات کی تحاریر و تقاریر سے اپنے علمی و فکری سرمایے میں خوب اضافہ کیا۔

حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ ترجمہ کاری کی جانب بھی متوجہ رہے۔ علاوہ ازیں اپنے ذاتی تجربات و تجزیات سے بھی خوب استفادہ کرتے ہوئےنہ صرف اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں بَل کہ ہر خاص و عام کو بھی اپنے شریکِ استفادہ کرتے ہیں۔

وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایران میں تحصیل و ترجمہ کاری کا کام  [تھوڑے سے زمانی فاصلے سے قطع نظر] غالباً ساتھ ساتھ جاری رکھا اور اب تک ساٹھ [۶۰] سے زائد عربی و فارسی کتب کے اردو میں تراجم کیے ہیں ۔ دیگر مصنفین کی تقریباً ۵۰ سے زائد عربی و فارسی  سے اردو میں ترجمہ شدہ کتابوں اور مقالہ جات کی تدوین [ایڈیٹنگ] کی۔ مذہبی اعتبار سے تو ان تراجم کی اہمیت واضح ہے ہی، گلگت بلتستان میں اردو ترجمہ کاری کی روایت و تاریخ اوراس کے ارتقاء کے حوالے سے بھی ان تراجم کی اہمیت و افادیت قابل توجہ اور لائق تحسین ہے۔

شیخ محمد علی توحیدی کی ترجمہ کی ہوئی ساٹھ [۶۰] سے زائد  کتب کل چودہ ہزار دو سو بیالیس [۱۴۲۴۲] صفحات پر مشتمل ہیں۔ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عربی و فارسی  زبان میں موجود علم و دانش کے ہزاروں نکات اب قبلہ شیخ صاحب کے تراجم کی وساطت سے اب پاکستانی اردو دان طبقے کی دسترس میں ہیں۔  

ترجمہ کی ہوئی کتب کی تعداد ۶۳ سے زائد ہے جن کے مجموعی صفحات کی تعداد ۱۴۲۴۲بنتی ہے۔

اردو میں ترجمہ کیے ہوئے مقالات کی تعداد  ۰۶ [چھے] ہے جو کہ کل ۱۰۳صفحات پر مشتمل ہیں۔

ترجمہ شدہ کتب و مقالات کی کل تعداد جن کی تدوین/ایڈیٹنگ کی ہے وہ ۴۸ہیں جن کے کل صفحات کی تعداد ۴۱۲۱ [چار ہزار ایک سو اکیس] بنتی ہے۔

قبلہ شیخ محمد علی توحیدی  کے اردو تراجم مذہبی لحاظ سے تو کئی زاویوں سے اہمیت کے حامل ہیں۔ اولاً یہ کہ انھوں نے جن کتابوں کے تراجم کیے ہیں وہ  علمی و فکری لحاظ سے ان عام مذہبی تصانیف میں سے نہیں ہیں جو محض حصول ثواب یا محض بہ طور توشۂِ آخرت لکھی جاتی ہیں۔ ثانیاً بیش تر کتابوں کے مصنفین اپنے علمی و فکری مرتبے کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ثالثاً افادہ عام کی غرض سے ان کتابوں کا ترجمہ بہت سی دیگر کتب کے مقابلے میں سلیس اور  عام فہم الفاظ و انداز میں کیا گیا ہے۔

یہ کتب اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے مذہبی و جغرافیائی و لسانی تعصب سے بالا تر ہو کر بہ غور مطالعہ کی متقاضی اور بہ لحاظِ ترجمہ قابل توجہ و لائق ستائش ہیں۔ بہ طور مثال یہاں محض چند کتب کے نام اس ضمن میں درج کیے جاتے ہیں۔

۱: صحیفہ سجادیہ [حضرت امام زین العابدین، اردو ترجمہ: رسالۃ الحقوق]

۲: معالم المدرستین جلد ۳،۲،۱ [آیت اللہ مرتضی عسکری،اردو ترجمہ:دو مکاتب فکر کا تقابلی  جائزہ، ۳،۲،۱]

۳: امامت انسان کامل [مصنف: آیت اللہ سید روح اللہ خمینی، اردو ترجمہ: امامت انسان کامل]

۴: انسان ۲۵۰ سالہ [ آیت اللہ  سید علی خامنہ ای ،  اردو ترجمہ: ۲۵۰ سالہ انسان]

۵: نقش و نگار [آیت اللہ  سید علی خامنہ ای، اردو ترجمہ: علی کا راستہ]

۶: جامعہ و تاریخ [آیت اللہ مصباح یزدی، اردو ترجمہ :سماج اور تاریخ]

۷: آئین کشور داری [آیت اللہ فاضل لنکرانی،اردو ترجمہ: آئین جہانبانی]

۸: اتحاد و انسجام اسلامی [ شہاب الدین، اردو ترجمہ: اتحاد امت]

۹: توضیح المسائل سیاسی [آیت اللہ آصف محسنی،  اردو ترجمہ:توضیح المسائل سیاسی]

۱۰: آنچہ مربیان بدانند [فرہادیان، اردو ترجمہ:اساتذہ کے جاننے کی باتیں]

۱۱: آنچہ والدین بدانند [فرہادیان، اردو ترجمہ: والدین کے جاننے کی باتیں]

۱۲: اخلاق عملی [مہدوی کنی، اردو ترجمہ: اخلاق عملی]

۱۳: روشہا [جواد محدثی، اردو ترجمہ: روشیں]

۱۴: خود شناسی [آیت اللہ مصباح یزدی، اردو ترجمہ: خود شناسی]

۱۵: مفاتیح الحیاۃ [ آیت اللہ جوادی آملی،اردو ترجمہ: مفاتیح الحیات]

قبلہ شیخ محمد علی توحیدی نے جن علمی و فنی و اخلاقی کتب کو عربی اور فارسی سے اردو  میں منتقل کیا ہے وہ بہ لحاظِ موضوع تنوع رکھتی ہیں۔ اعتقادی و نظریاتی مباحث، قرآن اور تفسیر قرآن، دعا و مناجات، سیرت، اخلاقیات، اتحاد بین المسلمین، سماج اور سوسائٹی، تاریخ، اسلامی فقہ، فنون [تحقیق،تدریس، تالیف، مطالعہ وغیرہ]، انسانی فکری ارتقاء جیسے اہم موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں ترجمے کے ذریعے اردو کے پاکستانی علمی و ادبی ذخیرے کا حصہ بنی ہیں۔

ڈاکٹر میرزا حامد بیگ نے مترجم کی خصوصیات پر بات کرتے ہوئے اپنی کتاب “مغرب سے نثری تراجم “لکھا ہے:

“ترجمہ کرنا ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک تخصیصی نوعیت کا کام ہے۔ صرف زبان دانی کی سطح پر اچھے مترجم کی خصوصیات میں جہاں اور بہت سے امور شامل ہیں وہیں زبان کی گرامر، لفظ کی شناخت، روز مرہ، استعارات و کنایات، علامات، تشبیہات، ضرب الامثال اور ان بولیوں/زبانوں سے واقفیت بھی ضروری ہے جس سے اردو زبان کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ اس میں زبان کا مزاج، اسلوبی نظام اور پیرایہِ اظہار کو بھی یکساں اہمیت حاصل ہے۔”[۸]

فن ترجمہ کے سلسلے میں ڈاکٹر میرزا حامد بیگ کا مذکورہ بالا اقتباس نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ بر صغیر میں مذہبی کتب کے تراجم کے سلسلے میں مترجم بالعموم ترجمے کی فنی خوبیوں اور اس کے مقتضیات  سے بالکل بے نیاز و غافل نظر آتا ہے۔ مترجم کی تمام تر توجہ محض مفہوم کے ابلاغ اور لفظی ترجمے پر مرکوز رہتی ہے۔ قبلہ شیخ محمد علی توحیدی کے تراجم خصوصاً پچھلے چند برسوں میں کیے گئے تراجم کو  پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ ان کے تراجم میں جہاں ایک طرف مفہوم کا ابلاغ موردِ توجہ رہا ہے وہاں ترجمے کی روانی و سلاست، ادبیت اور لسانی لطافت بھی ملحوظِ خاطر رکھی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ تراجم اپنی مذہبی وقعت سےقطعِ نظر بھی، پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں اردو ترجمہ کاری کے حوالے سے اہمیت حامل ہیں۔

حوالہ جات

۱۔ سید عبد اللہ ،ڈاکٹر، فارسی زبان و ادب، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۷ء، ص۳۲۷

۲۔ سفیر اختر، ڈاکٹر، فارسی سے اردو میں ترجمے کی روایت: آغاز سے ۱۸۵۷ء تک، [مضمون]، مطبوعہ: اخبار اردو، ادارۂِ فروغ قومی زبان، اسلام آباد جلد ۲۵، شمارہ ۸، مارچ اپریل ۲۰۰۸ء، ص ۱۳

۳۔ خلیق انجم، اردو ترجمے کا ارتقا [مضمون]، مطبوعہ: اخبار اردو، ادارۂِ فروغ قومی زبان، اسلام آباد جلد ۳۵،شمارہ ۲-۳، مارچ اپریل ۲۰۱۷ء،ص ۳

۴۔ ایضاً، ص ۲

۵۔ ایضاً،ص ۲

۶۔ ایضاً،ص۳

۷۔ ایضاً،ص ۳

۸۔ مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، مقتدرہ قومی زبان، طبع اول ۱۹۸۸ء، ص ۴۹