عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کا فکشن
از،خالد فتح محمد
بہ قول عِصمت چغتائی وہ چند روایت پسند مسلمان خواتین کے ساتھ ملاقات کر رہی تھیں۔ کھانے کے بعد انھوں نے اپنے بیگ میں سے سگریٹ کی ڈبیا نکال کر سگریٹ سلگایا تو ان خواتین نے گُھونگھٹ نکال لیے۔
عِصمت چغتائی کا تعلق ایک روایتی مسلم گھرانے سے تو تھا، لیکن وہ روایت شکن تھیں اور اپنے خاندان کی خواہشوں کے خلاف انھوں نے یونی ورسٹی کی سطح کی تعلیم مکمل کی۔
جس دور میں عِصمت چغتائی نے لکھنا شروع کیا، خواتین فکشن نگار رومانی ادب تخلیق کر رہی تھیں اور عصمت نے اس روایت سے بغاوت کی۔ وہ اپنے دور میں عورتوں کی سماجی اور جنسی گھٹن کا شعور رکھتی تھیں اور یہی ان کے تخلیقی تخیل کا forte تھا۔
ان کے ہم عصر وہ تخلیق کار تھے جن کا ابھی تک اردو فکشن میں نعمّ البدل نہیں مل سکا۔ بہ طورِ تخلیق کار وہ کسی بھی طرح ان سے کم نہیں تھیں اور اگر جرأتِ اظہار کی بات کی جائے تو وہ شاید بہتیروں کو پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔
ان کے ادب کی خصوصیت ان کی زبان کی کاٹ ہے جو قاری کو بھی کاٹ کر رکھ دیتی تھی۔ زبان اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے، عصمت چغتائی نے اسے ہتھیار بنایا۔
انھیں جنس پر لکھتے ہوئے کوئی جھجک نہیں تھی جب کہ زیادہ تر مرد حضرات کے پر جلتے تھے۔ ان کا ناول ٹیڑھی لکیر اس کی مثال ہے۔
ہمارے ہاں عموماً مصنف کی زندگی سے ہلکی سی مشابہت رکھنے والے فکشن کو فوراً سوانحی کہہ کر اس کی تخلیقی اہمیت کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ویسے سوانحی فکشن کسی حد تک ایک مشکل تر تخلیقی عمل ہے۔ اچھا ادب وہ ہے جو وقت اور خلاء کی بندشوں سے آزاد ہو۔ یہاں مثالیں دینا مقصود نہیں، لیکن ہر دور میں ایسے ادب پارے لکھے گئے جو ہر وقت ہم عصریّت رکھتے ہیں۔
عصمت چغتائی کا لحاف اپنے وقت کے ایک نمائندہ افسانہ تو تھا، لیکن اگر آج جائزہ لیا جائے تو وہ ایک غیر اہم فکشن محسوس ہو گا کیوں کہ اس میں ایک طرح کی سطحیت کا سہارا لیا گیا ہے۔ ادب میں سطحی مشاہدات اور ایسے احساسات جو جذبات کو ابھارنے کے بہ جائے ایک سوالیہ نشان اٹھائیں کہ اس کے بیان کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا؟
عصمت چغتائی اپنے دور میں ایک توانا تر آواز تھیں جنھوں نے استحصال کے زد پر لٹکی ہوئی عورتوں کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی محرومیوں اور مسائل کو قلم کیا۔ آج کا قاری ایسے تمام لکھنے والوں کو نظر انداز کر رہا ہے جو ان کی سوچ کو دعوتِ مبارزت دے کیوں کہ یہ عدمِ برداشت کا دور ہے۔
بہت سے پیش رووں کی طرح عصمت چغتائی کو آج کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ادیب اپنے دور کا مؤرخ ہوتے ہیں۔
…
جب میرے بھی صنم خانے چھپا تو جیسے ایک دھماکا ہوا۔ یہ ناول روایتی ڈِکشن سے ایک طرح کا انحِراف تھا۔ اس میں روایتی اردو، علاقائی محاورے کے علاوہ کانوینٹ کا اردو_انگریزی تڑکا بھی تھا جس کے نتیجے میں کرشن چندر نے قرۃ العین حیدر کو پوم پوم ڈارلنگ کہا۔
اس آغاز کے بعد قرۃ العین حیدر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قرۃ العین حیدر کے فکشن کے پُر تاثیر ہونے میں ان کی زبان کے ساتھ مختلف علوم پر ان کی دست رس بھی شامل ہے۔ وہ ایک گرتی ہوئی تہذیب کا نمائندہ تھیں اور اور ان کے ہاں اس تہذیب کا المیہ جا بہ جا بکھرا ہوا ہے۔
قرۃ العین حیدر نے جس طرح فکشن کو ایک وسعت دی وہیں انھوں نے اسے ایک خاص طبقے تک محدود رکھا؛ بعض اوقات محسوس ہوتا کہ وہ اس کی نمائندگی کر رہی ہیں، جب کہ فکشن نگار طبقاتی اور جینڈر کے complexes سے کہیں بلند مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان کا تخلیقی سفر صرف انھی الجھنوں تک محدود تھا۔
انھوں نے اردو فکشن کو ایک نئی سَمت دی جس پر آج بھی لکھاری طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ جو انھوں نے لکھا وہ کسی بھی طرح غیر مِعیاری نہیں تھا، لیکن اس میں ہمیں ایک عام آدمی کے مسائل کم نظر آتے ہیں: بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان سے بالا تر تھیں، یا انھیں سمجھ نہیں پائیں۔ ادب ہمیشہ ہر طبقے اور جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کو تاریخ سے خصوصی دل چسپی تھی۔ فکشن اور تاریخ الگ نہیں کیے جا سکتے۔ مؤرخ ہمیشہ ریاست اور اشرافیہ کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ ‘اصل’ مؤرخ فکشن نگار ہوتا ہے جو مخصوص دور کے تاریخی، سماجی، سیاسی اور معاشی حالات صحیح تناظر میں اپنے قاری کے سامنے پیش کرتا ہے؛ ان میں کہیں بھی تعصب یا جانب داری نہیں ہوتی۔
قرۃ العین حیدر نے دیگر موضوعات کے علاوہ تاریخ کو اپنا موضوع بنایا۔ انھوں نے فکشن میں تاریخ لکھی نہ کہ چند معروف مقبولِ عام فکشن نگاروں کی طرح تاریخ میں فکشن لکھا۔ فکشن میں تاریخ لکھنے کے لیے تخلیقی ہنر وری کے ساتھ اس دور کی تاریخ پر عبور بھی چاہیے جو قرۃ العین حیدر کو حاصل تھا۔
وہ ایک روشن خیال شخصیت ہونے کے ساتھ کسی حد تک ماضی پرست بھی تھیں۔
ماضی پرست ہونے میں کوئی عیب ہر گز نہیں، لیکن کیا فکشن کی بنیاد ماضی پرستی پر ہی ہونی چاہیے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جس پر سوچا جانا چاہیے۔ قرۃ العین حیدر کے فکشن میں جہاں ماضی پرستی ہے وہ وہاں اپنے حال سے اتنی مطمئن محسوس نہیں ہوتیں؛ اور حال سے غیر مطمئن ہونا ہی مستقبل کی طرف پیش قدمی ہے: وہ مستقبل پر ضرور نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن ماضی کو اپنے ساتھ لیے ہوئے۔