استاد برکت علی خاں : غزل کی شدھ گائیکی کا باوا آدم
از، پروفیسر شہباز علی
برصغیر پاک و ہند میں ٹھمری انگ کی غزل کا سلسلہ اُستاد برکت علی خاں صاحب سے شروع ہوتا ہے اور وہی اس کے بانی ہیں۔ اُستاد برکت علی خاں صاحب کے بعد بیگم اختر، مختار بیگم،علی بخش قصوری اور علی بخش ظہور نے غزل کو مقبولِ عام صنفِ موسیقی بنایا۔ متاخرین میں اعجاز حسین حضروی، زاہدہ پروین، فریدہ خانم، اقبال بانو، مہدی حسن اور غلام علی نے غزل کی گائکی کو اپنے اپنے مخصوص انداز سے آگے بڑھایا اور اس میں نکھار پیدا کیا۔
اُستاد برکت علی خاں صاحب سنہ 1910 کو قصور میں پیدا ہوئے۔ آپ اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد اُستاد علی بخش خاں سے حاصل کی۔ اُستاد برکت علی خاں صاحب ابتداء میں کلاسیکل گاتے تھے لیکن بعد میں وہ کلاسیکل چھوڑ کر ٹھمری، دادرا، کافی اور غزل کی طرف مائل ہو گئے۔
اُستاد برکت علی خاں صاحب نے ٹھمری، دادرا اور غزل کو عوامی سطح پر روشناس کرانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ ان کی گائکی اتنے دُور رس اثرات کی حامل تھی کہ ان کے بعد آنے والا کوئی بھی غزل گائک ان کے انداز سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُستاد برکت علی خاں صاحب نے چھوٹے چھوٹے بہلاؤں، مُرکیوں، زمزموں، گٹکڑیوں اور ہلکی پھلکی تانوں سے اپنی گائکی کو مزیّن کررکھا تھا۔ ان سے پہلے برصغیر میں ان کے انداز میں ٹھمری، دادرا، کافی اور غزل گانے والا کوئی نہ تھا۔ وہ اپنے انداز کے مخترع خود ہی تھے۔
سنہ 1940 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں اُستاد برکت علی خاں صاحب کی شہرت چہار دانگ عالم پھیل گئی۔ کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سے دل چسپی رکھنے والے احباب میں ان کا گانا بے حد پسند کیا جانے لگا۔ ٹھمری ہو یا دادرا، کافی ہو یا غزل وہ ہر صنف میں منجھے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے بیشتر اساتذہ کا کلام گایا تھا۔ وہ الفاظ کی نشست و برخاست، زیر و بم اور تلفظ سے بخوبی آگاہی رکھتے تھے۔ ان کا گانا سننے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ گانے والا اُردو شاعری کے مزاج سے مکمل شناسائی رکھتا ہے۔
سراج نظامی اُستاد برکت علی خاں صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:
”آپ نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، آواز میں اتنا درد، لوچ، لچک اور رسیلہ پن ہے کہ سُننے والے وجد میں آ جاتے ہیں، ٹھمری، دادرا، غزل گیت گانے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اچھے اچھے شعراء کا کلام اور کافیاں آپ کو یاد ہیں۔ کئی نجی محفلوں اور کانفرنسوں میں شریک ہو چکے ہیں اور دادِ تحسیں حاصل کر چکے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان کے ا سٹیشنوں سے ہلکی پھلکی موسیقی نشر کرتے ہیں۔“ ۱؎
راول پنڈی ریڈیو کے طبلہ نواز خلیفہ ارشاد علی اُستاد برکت علی خاں صاحب کے متعلق بیان کرتے ہیں:
”اُستاد برکت علی خاں صاحب نے ہیرا منڈی لاہور میں زیارت نوگزا کے سامنے ایک بیٹھک کرائے پر لے رکھی تھی۔ وہ اسی بیٹھک میں ریاض کیا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ سن چالیس کے زمانے میں مجھے بھی ان کی بیٹھک میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ اُسی زمانے میں بھارت کا مشہور پلے بیک سنگر محمد رفیع بھی ان کے پاس سیکھنے آیا کرتا تھا“۔ ۲؎
اُستادِ محترم قاضی ظہور الحق صاحب اُستاد برکت علی خاں صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:
”برکت علی خاں صاحب بڑے غلام علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے نہ صرف کلاسیکل بلکہ غزل، گیت اور کافیاں گانے میں بھی ماہر تھے۔ ان کو غزل گائیکی کا بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مرحوم برکت علی خاں صاحب کے کافی شاگرد ہیں۔ ان میں غلام علی صحیح معنی میں اپنے اُستاد کے جانشیں ہیں اور جس وقت وہ ہلکے پھلکے انداز میں غزل گیت اور کافی پیش کرتے ہیں تو اپنے مرحوم اُستاد کی یاد تازہ کرا دیتے ہیں“۔ ۳؎
اُستاد برکت علی خاں صاحب کی بیٹھک میں ان کے چھوٹے بھائی اُستاد مبارک علی خاں صاحب بھی شاگردوں کو موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے نام ور غزل گائک غلام علی نے اسی بیٹھک میں اُستاد برکت علی خاں صاحب اور اُستاد مبارک علی خاں صاحب سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ غلام علی اپنے ہر انٹرویومیں اپنے دونوں استادوں کا نام بڑے احترام سے لیتے ہیں اور اپنی شہرت کو انھی کی دعاؤں کا اثر قرار دیتے ہیں۔ غلام علی کو ان کے دونوں اُستاد ”بڑا مانا“ کَہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ ہونہار برواکے چکنے چکنے پات کے مصداق اُستاد برکت علی خاں صاحب کی بیٹھک میں آنے والے کچھ بزرگ موسیقار کہا کرتے تھے کہ ”مانے تیرے لیے کراچی، بمبئی،کلکتہ اور ساری دُنیا میں کھانے پک رہے ہیں“ یعنی ایک وقت آئے گا کہ ساری دُنیا میں تمھارا نام ہوگا۔ غلام علی کے بارے میں ان بزرگوں کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔
موسیقی کے معروف محقق سعید ملک اپنی کتاب”Lahore Its Melodic Culture” کے صفحہ ۶۵ پر اُستاد برکت علی خاں صاحب کی گائکی کے فنی خصائص پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“The adroitness and confidence with whichBarkat Ali Khan used to render thumris, dadras and ghazals, created hypnotic spell on his audience. Although in his presentations the verses were set to music in true ghazal singing style, yet they were relatively untrammeled by set procedures: The music matching the mood of the verse, every word and every syllable of which was correctly enunciated and sung by him. One of the most versatile exponents of this genre, his renditions were always inters۔ persed with ornamentations. The flourish and ease with which he packed his composition with short melodic phrases, intervals, pauses, swings and suspended cadences served as a clear pointer to the command which the late vocalist had over the entire ambit of music .’
اُستاد برکت علی خاں صاحب نے یوں تو ریڈیو کے لیے بہت گایا لیکن چراغ حسن حسرت کا لکھا ہوا یہ اُردو ماہیا ان کا ایک لافانی شاہ کار ہے:
(۱) باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تُم کو نہیں بھولے
(۲)یہ رقص ستاروں کا
سُن لو کبھی افسانہ
دُکھ درد کے ماروں کا
اُستاد برکت علی خاں صاحب نے اساتدہ کے کلام کو اپنے مخصوص ٹھمری انگ میں گا کر امر کر دیا۔ ان کی گائی ہوئی یہ غزلیں بہت مقبول ہوئیں:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
میر تقی میرؔ
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
مرزا غالبؔ
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
حفیظؔ جالندھری
جدید شعراء میں فیض احمد فیض کی یہ غزل بھی ان کی ایک لاجواب غزل ہے:
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
اُستاد برکت علی خاں صاحب کا گایا ہوا ”بھیرویں“ کا یہ دادرا بھی بہت مشہور ہوا:
رتیاں کدھر گنوائی رے
بالم مورا ہر جائی رے
میں تو دوں گی رام دہائی رے
میں تو پیت کیے پچھتائی رے
”
بھیرویں“ ہی میں گایا ہوا ان کا ایک اور دادرا بھی بہت مقبول ہے:
پیا کب تک ہمیں تم ستائے جاؤ گے
آگ برہا کی تن میں لگائے جاؤ گے
”سندھی بھیرویں“ میں گائے ہوئے ایک پنجابی گیت کے بول ملاحظہ ہوں:
باتاں پیار دیاں
وے میں مر مٹیاں
لکھ بھیجیں چٹھیاں
محمد اسلام شاہ نے اُستاد برکت علی خاں صاحب کو غزل کی شدھ گائکی کا باوا آدم قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”نیم کلاسیکی موسیقی وچ اُستاد برکت علی خاں صاحب دا رنگ غالب اے۔ غزل دی مروّج شدھ گائکی دے اوہ باوا آدم نیں“۔ ۴؎
برصغیر کے معروف طبلہ نواز اُستاد اللہ رکھا کے داماد اےّوب اولیا صاحب(مقیم لندن)، اُستاد برکت علی خاں صاحب کی سُریلی، پُر پیچ اور بل دار گائکی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”برکت علی خاں ٹھمریوں کو اپنے مخصوص نرم و نازک لہجے میں ادا کرتے ہیں تو ان میں گویا روح ڈال دیتے ہیں۔ ہولے ہولے سُروں میں وہ صوت و آہنگ سے ایسے ایسے گل بوٹے بناتے ہیں کہ سننے والا ششدر رہ جاتا ہے۔ خاں صاحب دھیرے دھیرے ہارمونیم میں ہوا بھرتے جاتے ہیں۔ اُن کی بھاری اُنگلیاں سُروں پر مچلتی ہیں۔ ساتھ ہی گلے کا نور لپکتا ہے اور ساز و آواز کا یہ امتزاج ایک حسین و دل کش مرقعئہ وسائل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس میں برکت علی خاں کی روح، شخصیت اور فن مدغم ہو جا تا ہے اور پٹیالہ گائکی کی چھاپ اس پر نمایاں ہوتی ہے۔ بہادر شاہی موسیقار خاں صاحب تان رس خاں کے علم کی پرچھائیں بھی صاف نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھمری کی طرح غزل میں بھی ان کا اندا ز منفرد ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ برکت علی خاں نے ہی لوگوں کو غزل گانا سکھایا چنانچہ مرحوم خاں صاحب عاشق علی خاں اپنی ہونہار شاگرد فریدہ خانم سے کہا کرتے تھے کہ برکت علی خاں کا گانا غور سے سُنا کرو،غزل اور ٹھمری گانے میں تمھیں مدد دے گا“ ۵؎
معروف صدا کار اور ریڈیو پروڈیوسر آغا اشرف نے اپنی آپ بیتی ”ایک دل ہزار داستان“ میں اُستاد برکت علی خاں صاحب کو سُر کا دیوتا قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
”ویدوں میں لکھا ہے کہ سُر ایشور ہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ برکت علی خاں کی آواز میں ایشور تھا۔ وہ گیتا سنگیتا تھے، سُر ساگر تھے۔ وہ سُریلی آوازوں کی جن کہکشاؤں سے گزر گئے، آج تک کوئی دوسرا نہیں گزرا۔ستاروں کی ان شاہراؤں پر آج بھی فقط برکت علی خاں کے قدموں کے نشان ہیں اور شاید کل بھی انھی کے قدموں کے نشان ہوں گے۔۔۔۔مہدی حسن اور غلام علی اس دور میں سُریلے پن کے اعتبارسے سُریلی آواز کے نہایت ہی ارفع و اعلی نمونے ہیں مگر برکت علی خاں کی آواز رنگ رس کا شاہ کارتھی۔ ان کی گلوکاری کسی سماوی مخلوق کی گلوگاری تھی جو دُنیا کو اپنی نکہت و نور سے چند روز مسحور و مبہوت کر کے زمین سے آسمان کو چلی گئی۔ غلام علی ان کے شاگرد ہیں۔ غزل، گیت، ٹھمری گاتے ہیں تو کبھی کبھی اُن سے برکت علی خاں کی مہک آنے لگتی ہے۔ برکت علی خاں موسیقی کی اِندر سبھاؤں کے راجا اِندر تھے۔کئی سبز پریاں اس کی تمنائی تھیں کہ انھیں اپنا گلفام بنائیں لیکن وہ فقط ایک پری پر عاشق تھے اور وہ تھا ان کا فن۔زندگی فن کے لیے وقف کردی تھی۔ ساری عمر شادی نہ کی، کوئی معاشقہ نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔برکت علی خاں بڑا نفیس کھانا کھانے کے شوقین تھے۔ اکثر گوشت کھاتے اور کئی مصالحے ڈال کر ا پنے ہاتھ سے پکاتے۔ میری طرح انھیں پسندے بڑے پسند تھے۔ کھانے کے وقت اگر میں موجود نہ ہوتا تو میرے لیے کٹورے میں الگ نکال کر رکھ لیتے۔ بھنا ہوا گوشت اور چرس ان کی کمزوری تھی۔ چرس کے تو وہ ایسے خوگر ہو چکے تھے کہ ان کے خون میں رچ چکی تھی۔ چرس ہی ان کی موت کا باعث بنی۔ پیٹ میں کینسر ہو گیا۔ لوگ انھیں پیار سے ”بکو خاں“ بھی کہتے تھے۔“ ۶؎
ایوب اولیا صاحب نے مجھے لندن سے اُستاد برکت علی خاں صاحب پر فیروز نظامی صاحب اور شاہد احمد دہلوی صاحب کے لکھے ہوئے بہت وقیع اور نایاب مضمون بھیجے ہیں۔انھوں نے اُستاد برکت علی خاں صاحب کی ولدیت کے حوالے سے مجھ سے ”سُر سنسار“ کی پہلی اشاعت میں جو غلطی ہوئی ہے، اُس کی بھی اصلاح کی ہے جس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں۔ میں ان مضمونوں سے کچھ اقتباسات قارئین کی نذر کر رہا ہوں لیکن میرے پاس ان کا مکمل حوالہ موجود نہیں۔ اصول ِ تحقیق کے مطابق جب کسی کتاب یا مضمون سے کوئی اقتباس پیش کیا جانا مقصود ہو تو اس کا مکمل حوالہ دیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ میں نے ایوب اولیاء صاحب سے بذریعہ خط درخواست کی تھی کہ مجھے ان مضامین کی دوبارہ فوٹو کاپی کروا کے مکمل حوالے کے ساتھ ارسال کریں مگر انھوں نے میری اس درخواست کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا اور اس حوالے سے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ بہرحال ان مضامین میں فیروز نظامی صاحب اور شاہد احمد دہلوی صاحب نے اُستاد برکت علی خاں صاحب کی گائکی کا اس قدر عمدہ اور معیاری تجزیہ کیا ہے جو میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میوزک ڈائریکٹرفیروز نظامی صاحب کے بقول برصغیر کی موسیقی پر اُستاد برکت علی خاں صاحب کے بے پناہ احسانات ہیں اور بر صغیر کا شاید ہی کوئی گوےّا ایسا ہو جو اپنی گائکی کو خوب صورت بنانے کے لیے اُن کی تقلید نہ کرتا ہو۔ ان کے مضمون ”برکت علی خاں“ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”پچھلے چالیس سال کی موسیقی، فن کاروں اور موسیقی کے ارتقاء کی پوری تاریخ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ متحدہ ہندوستان کے سب گوےّوں کو میں نے سُنا ہے۔ ہلکی پھُلکی اور فلمی موسیقی کی حسین اور مؤثر بندشوں میں توسو فیصدی برکت علی خاں کا رنگ نظر آتا ہے اور یہ رنگ ان کے عہدِ جوانی کے ریڈیو پروگراموں اور چند ریکارڈوں کے ذریعے پھیلا ہے۔ ان کی گائکی اتنی خوب صورت تھی کہ ہر فن کار چاہتا تھا کہ اس کی آواز بھی برکت علی خاں کی گائکی کے خوب صورت سانچے میں ڈھل جائے۔
کلاسیکی موسیقی گانے والوں میں قدیم قسم کے گویے تو اپنے اپنے گھرانوں کی اصل روش ہی گاتے رہے لیکن ہمارے دورکے اسّی فیصد گوےّے کلاسیکی موسیقی گاتے وقت اِسی گائکی کی نقل کر کے کئی دفعہ داد لیتے ہیں۔“
فیروز نظامی صاحب اُستاد برکت علی خاں صاحب کی گائکی کی انفرادیت کا سبب پٹیالے والے اُستاد فتح علی خاں کی تعلیم کو قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
”ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ برکت علی خاں کی حسین گائکی کا بھی ایک سبب تھا او روہ یہ کہ ان کے گھر میں پٹیالے والے خاں صاحب فتح علی خاں مرحوم کی صحیح گائکی اپنے والد خاں صاحب علی بخش خاں کے ذریعے پہنچی۔ جن لوگوں نے فتح علی خاں مرحوم کو سُنا ہے وہ آج بھی انھیں یاد کر کے روتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پچھلی صدی میں اتنا سُریلا گویےّا پیدا ہی نہیں ہوا اور ان کو یہ بھی کہتے سُنا ہے کہ جب برکت علی خاں کے والد اور بھائی بڑے غلام علی خاں گاتے ہیں تو صرف ان کی گائیکی میں فتح علی خاں مر حوم کا پورا رنگ اور انگ نظر آتا ہے۔ برکت علی خاں کو اپنے والد اور بڑے بھائی دونوں کی تعلیم تھی لیکن انھوں نے اپنی کاوش اور ذہانت سے ان میں کئی باریکیاں اور رنگینیاں بھی پیدا کیں۔“
شاہد احمد دہلوی صاحب کے بقول اُستاد برکت علی خاں صاحب ابتداء میں اپنے بڑے بھائی اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب کے ساتھ مل کر خیال گایا کرتے تھے مگر بعد میں انھوں نے ٹھمری، دادرا اور غزل کو اپنی گائکی کا مرکز و محور بنا لیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اُستاد برکت علی خاں صاحب کی آواز نرم و نازک اور چھوٹی تھی لہذا انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر ہلکی پھلکی موسیقی کی راہ اختیار کر لی۔ وہ اپنے مضمون ”اُستاد برکت علی خاں“ میں، جو انھوں نے ان کی وفات پر لکھا تھا، کچھ اس طرح اظہارِ خیال کرتے ہیں:
”جس زمانے کا یہ ذکر ہے اُس زمانے میں پورا پورب ٹھمری، دادرے اور غزل گانے والوں اور گانے والیوں سے پٹا پڑا تھا۔ پنجاب میں دھرپد اور خیال کے گھرانے تھے یا پھر ٹپّے کا چلن تھا، برکت علی خاں پہلے آدمی تھے جنھوں نے ٹھمری، دادرا گانے میں پورب انگ کے مقابلے میں پنجاب انگ وضع کیا اور یہ انگ اس قدر مقبول تھا کہ خود پورب والے اور دلی والے اس سے متاثر ہوئے۔ برکت علی خاں کی سوجھ بوجھ اور محنت کا اندازہ اسی مقبولیت سے لگایئے کہ ان کا اختراع کیا ہوا انگ کھرے سکّے کی طرح اقلیمِ موسیقی میں چل گیا۔ فن کار زمانے کے سہارے آگے بڑھتا ہے مگر جو بڑا فن کار ہوتا ہے، وہ زمانے کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ برکت علی خاں کا انگ کیا تھا۔ موسیقی تمام تر ایک عملی فن ہے اور عمل کو تحریر میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کا تجزیہ کسی حد تک یوں کیا جاسکتا ہے کہ برکت علی خاں نے ٹپّے کے اسلوب کو ٹھمری اور دادرے کے اسالیب میں شامل کر کے ایک نیا انگ وضع کیا۔ مشق و مزاولت سے ایسی چھوٹی چھوٹی اور تیز تانیں تیار کیں جو ٹپّے کی مخصوص تانوں سے یکسر الگ ہو گئیں۔“
عظیم المرتبت فن کاروں میں عموماً ایک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی فن کار کی برائی نہیں کرتے بلکہ سب کو اچھا کہتے ہیں اور سب کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے مزاج میں تصنّع نہیں ہوتی اور وہ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے۔اُستاد برکت علی خاں صاحب کی کچھ ایسی ہی خوبیاں بیان کرتے ہوئے شاہد احمد دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”میں نے برسوں ان کا گانا سُنا۔ مُجھے ان کی دوستی کا شرف بھی حاصل تھا۔ خاں صاحب علی بخش خاں سے لے کر خاں صاحب بڑے غلام علی خاں، برکت علی خان، مبارک علی خاں بلکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد سے دوستانہ اور برادرانہ مراسم رہے ہیں۔ میں نے ان سب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے جب بھی خاں صاحب برکت علی خاں کوسُنا پہلے سے زیادہ خوب صورت اور بہتر سُنا۔ ان کے گانے میں کسی قسم کے ڈھونگ، سوانگ یا بناوٹ کو قطعی دخل نہیں تھا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے گانے میں حُسنِ لطافت اور تاثر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایک عظیم فن کار ہوتے ہوئے وہ بہت بڑی شرافت اور انسانیت کے مالک تھے۔ نہایت ہی بھولے، سیدھے سادھے، پیارے اور مخلص انسان تھے۔میں نے زندگی میں کبھی بھی انھیں کسی کے گانے پر تخریبی رائے کا اظہار کرتے ہوئے نہیں سُنا۔ سب کو اچھا کہتے اور ان کی تعریف کرتے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا ”خاں صاحب آپ کی آواز میں بلا کا درد ہے جو روح کو بے چین کر دیتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔کیا آپ بہت دُکھی ہیں؟۔۔۔۔۔”نہیں میرے بھائی“ انھوں نے ایک خوب صورت ہنسی کے ساتھ جواب دیا”میرے اندر ایک آگ سلگتی رہتی ہے مجھے ایک نامعلوم درد کھاتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ اگر میں نہ گاؤں تو یہ آگ میرے تمام جسم کو بھسم کر کے رکھ دے گی۔ یہ درد مجھے کھا جائے گا۔میں جب بھی گاتا ہوں تو مُجھے عافیت محسوس ہوتی ہے اور میرے قلب و روح کو آرام پہنچتا ہے۔“
اُستاد برکت علی خاں صاحب کے شاگردوں میں غلام علی کے علاوہ بشیر علی ماہی،صفدر حسین اور علی بخش قصوری نے بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ اُستاد برکت علی خاں صاحب نے ۳۶۹۱ء میں وفات پائی اور لاہور میں دفن ہوئے۔
حوالہ جات:۔
۱؎ نقوش لاہور نمبر، حوالہ مذکور، ص ۳۲۷
۲؎ خلیفہ ارشاد علی سے راقم کی گفتگو، حوالہ مذکور
۳؎ قاضی ظہور الحق، معلم النغمات، حوالہ مذکور، ص ۸۷
۴؎ محمد اسلام شاہ، موسیقی تے پنجاب، مکتبہ اعظم ۴۵ شاہراہ قائد اعظم لاہور، سنہ 1988، ص ۹۵
۵؎ محمد ایوب اولیاء ”لیل و نہار“، ہفت روزہ، لاہور، جون 1961 سنہ، ص ۵۲
۶؎ آغا اشرف، ایک دل ہزار داستان، آتش فشاں پبلی کیشنز، لاہور، 1998 سنہ، ص ۹۵۴،۸۵۴