اورنگ زیب عالم گیر اپنے والد شاہ جہاں کو پابندِ سلاسل کرکے اور اپنے بھائیوں کو مفتوح بنا کے جب تخت پر کنٹرول مکمل کر چکے تو آپ کے استاد مُلا صالح خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاگرد شہنشاہ بن چکا تھا، کیوں نا استاد کو بھی کچھ انعام ملے! تقاضا بھری نظروں سے دیکھا۔
اورنگزیب البتہ موقع پا کر اپنے استاد سے پرانا حساب چکانے کی خاطر کچھ اس طرح بولے:
“مُلا جی، مجھے آپ یہ بتائیے کہ آپ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟ کیا آپ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ میں آپ کو دربار کے اعلٰی درجہ کے امراء میں داخل کروں، تو اوّل مجھے یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ آپ کس درجہ عزت کے مستحق ہیں۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ اگر آپ میری نو عمری میں میرت دل کو شائستہ تعلیم سے معمور کرتے تو ضرور آپ اس عزت کے مستحق ہوتے۔ آپ کسی عمدہ تعلیم یافتہ نوجوان کو دکھلائیے تو میں کہوں گا کہ یہ امر مشتبہ ہے کہ اس کا باپ یا استاد، کون زیادہ شکر گزاری کا مستحق ہے۔ مجھے آپ بتائیے کہ آپ کی تعلیم سے مجھے کون سا علم حاصل ہوا؟
میرے استاد کو یہ لازم تھا کہ وہ مجھے دنیا کی ہر قوم کی حالت سے مطلع کرتا کہ اس کے وسائلِ آمدنی کیا ہیں۔ اس کی قوت کیسی ہے۔ طرز حکومت، آئین جنگ، رسم و رواج اور مذاہب کیا ہیں۔ کن باتوں کو وہ اپنے حق میں مفید سمجھتے ہیں۔ تا کہ میں ہر سلطنت کے اصول اور اس کی ترقی و تنزلی، حادثات و واقعات سے واقف ہوتا اور ان غلطیوں کو جانتا جن کی وجہ سے ایسے انقلابات و حادثاتِ عظیم واقع ہوئے۔ بادشاہ (کے لیے) ضروری ہے کہ وہ اپنی ہمسایہ قوتوں کی زبانوں کا ماہر ہو۔ آپ اس بات کو بھول گئے کہ بادشاہ کی تعلیم میں کن کن علوم کو سکھانے کی ضرورت ہے۔
کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ نو عُمری کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ حافظہ قوی ہوتا ہے اور آسانی سے ہزاروں عقلی احکام ذہن نشین ہو سکتے ہیں، اور ایسی مفید تعلیم دی جا سکتی ہے کہ دل و دماغ میں اعلٰی درجہ کے خیالات اور بڑے بڑے کاموں کے کرنے کی قابلیت پیدا ہو۔
کیا ہم فقہ اور مختلف علوم صرف عربی زبان ہی کے ذریعہ سیکھ سکتے ہیں۔ کیا ہم انہیں مادری زبان میں نہیں حاصل کرسکتے۔ اگر آپ مجھ کو ایسا فلسفہ سکھاتے جس سے ذہن اس قابل ہو جاتا ہے کہ بغیر بُرہان اور دلیل کے کسی بات کو تسلیم نہ کرتا؛ یا آپ مجھ کو ایسا سبق پڑھاتے جس سے انسان کے نفس کو ایسا شرف و علو حاصل ہو جاتا کہ دنیا کے انقلاب سے متاثر نہ ہوتا اور ترقی و تنزلی کی حالت میں ایک ہی سا رہتا، یا آپ مجھے انسان کے لوازمِ فطرت اور مقتضیاتِ قدرت سے واقف کرتے۔ مجھے اس طریقِ استدلال کا عادی بنا دیتے کہ تصورات و تخیلات کو چھوڑ کر ہمیشہ اصولِ صادقین کی طرف رجوع کیا کرتا، تو میں اس سے بھی زیادہ آپ کا احسان مانتا کہ جتنا سکندر نے ارسطو کا مانا تھا، اور ارسطو سے بھی زیادہ آپ کو انعام عطا کرتا۔
ملّا جی، نا قدردانی کا الزام خواہ مخواہ مجھ پر نہ لگائیے۔ کیا آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ شہزادوں کو اتنی بات ضرور سکھانی چاہیے کہ ان کو رعایا کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرنا چاہیے؛ اور کیا آپ کو شروع ہی سے یہ خیال کر لینا واجب نا تھا کہ میں کسی وقت تاج بل کہ اپنی جان کی خاطر اپنے بھائیوں سے لڑنے پر مجبور ہوں گا، کیوں کہ آپ خوب جانتے ہیں کہ سلاطینِ ہند کی اولاد کو ہمیشہ یہی معاملات پیش آتے رہے ہیں۔
پس کیا آپ نے مجھے کبھی فنِ حرب یا طریقۂِ صف آرائی سکھایا تھا؟ مگر میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے ان معاملات میں ایسے لوگوں سے کچھ سیکھ لیا تھا، جو آپ سے زیادہ عقل مند تھے۔ آپ اپنے گاؤں تشریف لے جائیے!”
یہ اندراج ڈاکٹر برنیئر کے سفرنامہ ہند میں شامل ہے۔ اس واقعہ کو ایک اور سیاح منوچی نے بھی بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر برنیئر ایک لمبے عرصے تک ہندوستان میں مقیم رہے اور اس اقامت کے دوران ان کی دربار کے بعض امراء سے ان کی وابستگی بھی رہی۔ اپنے سفر نامہ میں مندرجہ بالا واقعہ بھی وہ دانش مند خان کے حوالے سے درج کرتے ہیں۔ آپ کا قیام ان ایام میں تھا جب شاہ جہان کے بیٹوں کے بیچ تخت نشینی کی جنگ چلی۔
اورنگ زیب عالم گیر سے منسوب اس متن کے متعلق کچھ عالموں کو شکوک و شبہات ہیں۔ اس شک کی ایک بنیاد تو پس نو آبادیاتی تنقیدی شعور کی نظر ہے۔ اورنگ زیب کی اپنے استاد سے مخاطبہ اس تقریر کو وہ ڈاکٹر برنیئر کی اپنی ذہنی اختراع جاننے کا ذہنی رجحان رکھتے ہیں۔ ان احباب کو اس تقریر میں لارڈ میکالے کی دو ڈھائی صدیوں بعد کے عرب و برصغیر کے ادب و علم کے متعلق معروف زمانہ خود پرستانہ تبصرے کا نقش اول نظر آتا ہے۔ یہ وہی تبصرہ ہے جس میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ عرب و ہند کے ادب و علم کا کل سرمایہ، یورپ کی کسی مناسب لائبریری کے ایک شیلف کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ اہلِ علم اس پر اور تحقیق کرتے رہیں۔
لیکن یہ بات بھی تو اپنی جگہ قائم ہے کہ ہماری نظریاتی عینکیں ہمارے لئے ہماری دلی خواہش ہی کی حقیقت تعمیر کرکے پیش کرتی ہیں۔ ان باتوں کو ابھی ایک طرف رکھتے ہیں۔ تجزیہ کرنے کی خاطر ہی ہم اس مندرجہ بالا متن کو قائم بالذات سمجھ لیتے ہیں۔
جی، تو ذرا دیکھتے ہیں کہ اس تقریر میں تعلیم و تعلم، نصاب اور نصاب سازی کے متعلق کتنے غور طلب نکات سامنے آتے ہیں۔ گو کہ یہ نکات اپنے لہجے میں تو تنقیدی نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر بر صغیر کی روایتی تعلیم اور نصاب کے سلسلے میں کسی بھی آنے والے وقت میں ایک تعمیری جہت بھی ڈھکی دکھائی دیتی ہے۔ یہ متن اس بات پر زور دے رہا ہے کہ تعلیمی نصاب کو روز مرہ زندگی کی ضرورتوں اور وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس نصاب کو ہر وقت اگلی دنیا کی زندگی کی ہی تیاری کروانے کی جوت نہیں جگاتے رہنا چاہیے بل کہ اس دنیا کے در پیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔
(نوٹ: اس جیسی باتوں اور خیالات پر اور اس سلسلے میں اگلے آنے والے مضامین میں مختلف زاویوں سے مزید بحث کی جائے گی۔ اور اس بحث کو بتدریج پاکستان کی موجودہ نصاب سازی تک لایا جائے گا۔)
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔
ایک روزن کا خیر مقدم (محمد حمید شاہد) ایک روزن، کو ایک سال ہوا، میں اسے کئی حوالوں سے کامیاب سفر سمجھتا ہوں لہذا اس کی انتظامیہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا […]
(آفاق سید) ’’کافر‘‘ میں جب یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتاہوں تو سب سے پہلے میری نظر سٹوڈنٹ نوٹس بورڈ پر پڑتی ہے۔ وہاں عام طور پر کسی نہ کسی کو سالگرہ مبارک کہنے […]
(حسن جعفر زیدی) اس مضمون کا پہلا حصہ یہاں پر کلک کرکے پڑھا جا سکتا ہے۔ 20ویں صدی اور بالخصوص جنگ عظیم دوم کے بعد سرد جنگ کے دور سے دنیا میں تاریخ نویسی […]
1 Comment
آپ نے مضمون کا حق ادا کر دیا …. خدا لگتی یه ہے اب وقت آ چکا ہے کہ نصاب کی بات کی جائے ۔۔۔۔
آپ نے مضمون کا حق ادا کر دیا …. خدا لگتی یه ہے اب وقت آ چکا ہے کہ نصاب کی بات کی جائے ۔۔۔۔