اُسترا گُل : افسانہ از، اقبال حسن خان
رنگے ہوئے سُرخ بالوں اور چمپئی رنگت والی ڈیزی ہمارے دفتر میں کمپیوٹر چلاتی تھی۔ ڈیزی کا باپ خدا داد، کوئی چالیس برس پہلے ٹیکسی چلانے لندن چلا گیا تھا، اُس نے وہیں شادی کی تھی اور ڈیزی وہیں پیدا ہوئی تھی۔
ڈیزی سات ماہ کی تھی جب اُس کی ماں ایک حادثے میں مر گئی تھی۔ خداداد اپنی انگریز بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اس لیے جب اُس نے ڈیزی کا نام ڈیزی رکھا تو وہ خاموش رہا مگر جب وہ مر گئی تو خداد داد نے فیصلہ کیا کہ اس کی بیٹی ایک بے حیا معاشرے میں پرورش نہیں پائے گی چنانچہ وہ سات ماہ کی ڈیزی کو گوجر خان کے قریب اپنے گاؤں میں اپنی ماں کے سپرد کرکے خود لندن لوٹ گیا۔
ڈیزی کو اس کی دادی نے پالا تھا۔ ممکن تھا اس وقت ڈیزی سات آٹھ ادھ ننگے بچوں کی ماں ہوتی اور گاؤں کی پختہ دیواروں پر اُپلے
تھوپ رہی ہوتی اگر اُس کا رشتے کا ایک چچا اسلام آباد میں سیکشن آفیسر نہ ہوتا۔ رشتے کے اس چچا نے ڈیزی کے باپ خدا داد کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ ڈیزی کو اچھی تعلیم دلوائے چنانچہ ڈیزی چھے برس کی عمر میں اسلام آباد بھجوا دی گئی۔
ڈیزی کا رشتے کا یہ چچا بیوقوف نہیں تھا جو اُس نے ڈیزی کا بوجھ ہنسی خوشی اُٹھا لیا تھا۔اُس کے مد نظر ایک طویل المدتی منصوبہ تھا۔
اگلے سولہ برسوں میں ڈیزی کی دادی اور باپ دونوں مر گئے۔ خدا داد کی جائیداد کی مالکہ اب ڈیزی تھی۔ چچا نے اپنے ایک بیٹے کی شادی ڈیزی سے کر دی۔ شوہر نے ، جو ایک اور عورت کے چکر میں تھا، مختلف حیلوں سے ڈیزی کی جائیداد اپنے نام کروالی اور ڈیزی کو طلاق دے دی۔
اُس زمانے میں کمپیوٹر نئے نئے دفتروں میں متعارف ہوئے تھے اور ڈیزی نے اس حوالے سے کوئی کورس کر رکھا تھا لہٰذا وہ ایک معقول تنخواہ پر ہمارے دفتر میں ملازم ہو گئی۔پتہ نہیں کیسے ڈیزی تین کمروں والا ایک گھر اپنے شوہر سے بچانے میں کامیاب ہو گئی تھی اور اب اُسی میں رہتی تھی۔جیسا کہ ہمارے معاشرے کا دستور ہے، مطلقہ اور بیوہ عورت کو خود بخود وہ پیڑ سمجھ لیا جاتا ہے جو فٹ پاتھ پرلگا ہوتا ہے اور جس سے جو چاہے پھل توڑ کر کھا سکتا ہے۔ڈیزی کو بھی شروع میں یہی سمجھا گیا مگر ڈیزی وہ پیڑ ثابت ہوئی جس کی ہر ٹہنی پر شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ طلاق کے نو برس بعد بھی کوئی اس پیڑ کے قریب نہ پھٹک سکا مگر یار لوگ مایوس نہیں تھے۔
جعفری ہمارا اکاؤئنٹینٹ تھا۔سر پر ایک بال نہیں تھا۔پینتالیس کے پیٹے میں رہا ہوگا اُس وقت۔وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی
بھی عورت کے نقوش، جسم یا چال کے حوالے سے کوئی ایسا نکتہ دریافت کر لیتے ہیں، جس سے مذکورہ کا بد راہ ہونا مسلّم ہو جائے۔ ڈیزی کے پاؤں چلتے وقت اندر کی طرف پڑتے تھے۔جعفری نے مجھے بتایا کہ ایسی عورت پیاز کی طرح پرت در پرت ہوتی ہے۔ جس کی جتنی پرتیں چاہے کھول لو، اندر سے پیاز ہی نکلتا ہے۔
’’اور جس عورت کے پاؤں باہر کی طرف پڑیں؟’’ میں نے پوچھا۔
جعفری نے نیا سگریٹ سلگایا اور ایک آنکھ میچ کر بولا ۔
’’جو بات بچہ بھی بتا سکتا ہے وہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟‘‘
اسی طرح عام سی، سیدھی سادہ انداز میں چلنے والی عورت جعفری کے خیال میں بہت بڑی شاطرہ تھی کہ اندر سے ’پوری‘ تھی۔بالوں، آنکھوں،ہونٹوں حتیٰ کہ دانتوں کے درمیانی خلا تک کے حوالے سے اگر جعفری کا نکتہ نظر سامنے رکھا جاتا تو اس زمین پررہنے والی ہر عورت کا کردار مشکوک تھا۔یوں نہیں تھا کہ ڈیزی کوئی بد اخلاق یا لیے دیئے رہنے والی عورت تھی یا وہ مسکراتی نہیں تھی یا دفتر کے ساتھیوں میں گھلتی ملتی نہیں تھی۔وہ نہایت شائستہ،مہذب اور با اخلاق عورت تھی لیکن اُ س نے اپنی ذات کے چپے چپے پر تختیاں نصب کر رکھی تھیں جن پر جلی حروف میں لکھا تھاکہ کہاں سے آگے جانا منع ہے۔
ہمارے ایم ڈی صاحب سے لے کر نبی بخش چپراسی تک سبھی ڈیزی کی نظرِ کرم کے متمنی رہتے تھے۔ ایم ڈی صاحب کے بلانے پر
ڈیزی لہراتی مسکراتی جعفری کے کیبن کے قریب سے گذر کر ایم ڈی صاحب کے دفتر میں جاتی تو جعفری سارا حساب کتاب بھول جاتا۔
جعفری کو اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ تمام مواقع یعنی عمر، شکل و صورت، معقول تنخواہ اور ’جگہ‘ ہونے کے با وجود ڈیزی ایک پاکیزہ زندگی کیوں گذار رہی تھی۔ وہ تلخی سے کہتا۔
’’کیڑے کھائیں گے سالی کا سب کچھ مگر کسی کا بھلا نہیں کرے گی’’ ۔
کبھی وہ ڈیزی کی ماں کے حوالے سے طعنہ زنی کرتا۔
’’غیر مسلم خون کی ملاوٹ ہے سالی میں۔ ہم ٹھہرے سیدھے سادہ مسلمان۔ آپ دیکھ لیں گے خان صاب۔یہ سالی کسی غیر مسلم سے
پھنسے گی‘‘۔
جعفری نے سیاسی ملاؤں کی طرح اسلام کو تو خواہ مخواہ بیچ میں گھسیٹ رکھا تھا، مجھے پورا یقین تھا کہ جعفری اگر اس روئے زمین پر رائج سارے مذاہب بھی باری باری اختیار کر لیتا ، تب بھی ڈیزی اُسے منہ نہ لگاتی۔
پھر ہمارے دفتر میں سلمان آیا۔پچیس چھبیس سال کا شرمیلا سا سلمان ٹائی کی گرہ ہمیشہ ڈھیلی رکھتا اور بال سدا بکھرے رہتے۔
جعفری سمیت ہمارے دفتر میں کوئی ایم کام نہیں تھا۔سلمان تھا۔وہ عہدے کے لحاظ سے جونیئر تھا اور ابھی سیکھنے کے مراحل میں تھا۔
جعفری اُس سے ٹھٹھا کرتا ۔
’’بائیس سال رگڑا کھایا ہے میاں صاحب زادے۔یہ جوایک سے صفر تک کی گنتی ہے نا، اس کے ہر ہندسے میں ایک چنڈالنی بیٹھی ہے۔سوتے وقت بھی چُٹیا پر ہاتھ رکھنا پڑتا کہ کسی کمینے کے ساتھ نکل نہ لے’’۔
جعفری کی مثالیں اسی قسم کی ہوا کرتی تھیں۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کتوں کو بھی رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتے ہیں کہ اُنہیں بعض معاملات میں کس قدر آزادی میّسر ہے ۔کبھی ترنگ میں ہوتا تو ایک آنکھ بد معاشی سے مِیچ کے کہتا۔
’’ابے ہم سے اچھے تو سالے کتے ہیں۔نہ بد نامی کا خوف، نہ جگہ کی فکرنہ ہی اُس سالے حدود آرڈیننس کی پروا۔سُونگھا اور چالُو’’۔
ڈیزی میں مختلف قسم کی تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں۔ اُس نے بالوں کا اندازتبدیل کروالیا جو اچھا لگتا تھا۔ لپ سٹک کا شیڈ ہر روز
بدلنے لگا اور قمیصیں وہ قدرے فراخ گلوں کی پہننے لگی۔ جعفری نے سب سے زیادہ نوٹس اُس کی قمیصوں کے گلوں کا لیا اور مجھے بتایا۔
’’اُلٹا دودھ جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں کتھئی رنگ کا ایک داغ ہے۔ ایسا ہی ایک داغ ہٹلر کی معشوقہ ایوا براؤن کے بھی تھا اور اسی جگہ۔’’
پھر اُس نے مجھے بالتفصیل اُن عورتوں کے بارے میں بتایا کہ جن کے اسی مقام پر داغ تھے اورجنہوں نے محض ان داغوں کی بنا پر اپنے وقت کے بادشاہوں کو قابو کر کے تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا۔
’’ایسی عورتوں کو صرف اُسترا گُل مرد ہی قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ توبہ کروا دیتے ہیں سالیوں سے‘‘۔
میں نے جعفری سے اختلاف کرنے کی کوشش کی تو وہ عادتاً ایک آنکھ دبا کے مسکرایا۔
’’آپ بحث کرتے اچھے نہیں لگتے۔ کسی کی مان بھی لیتے ہیں۔یہ جو بڑے بڑے ماں کے خصم ہزاروں کتابیں لکھ گئے ہیں عورتوں کے بارے میں ، وہ سالے چُوتیے تھے؟اور آپ کہاں سے خود کو عورتوں پہ اتھارٹی سمجھنے لگے؟ اُس دن وہ سالی جو آڈٹ کرنے والوں کے ساتھ آئی تھی، آپ اُس کا منہ ہی دیکھے جا رہے تھے‘‘۔
اب مجھے غصہ آگیا۔’’تو اور کہاں دیکھتا؟‘‘
جعفری ہنسا اور ایک نیا سگریٹ سلگا کے بولا’۔
’اُسترا گُل مرد سالی عورت کو گردن کے نیچے سے دیکھنا شروع کرتا ہے اور پیٹ کے نیچے ختم کر دیتا ہے۔’’
مولوی ثنا اللہ جو ڈسپیچ انچارج تھے، کانوں کو ہاتھ لگا کے بولے۔
’’جعفری صاب ایک ایک لفظ لکھا جا رہا ہے۔کچھ تو خوف کریں۔‘‘
جعفری، مولوی صاحب سے بہت چڑتا تھا۔اب اُس کا روئے سخن مولوی ثنا اللہ کی طرف ہو گیا۔
’’تعلیم دے رہا ہوں انہیں۔کل کلاں کام آئے گی۔اور مولوی تم ان معاملات میں مت بولا کرو۔سالے ۔تمہیں عورت کا کیا پتہ۔تم اُسے بچے پیدا کرنے کی مشین ہی سمجھتے رہے ہمیشہ۔ابے کسی نے تمہیں اتنا بھی نہیں بتایا کہ ہر روز چلنے والی مشین کو تیل کیسے دیتے ہیں؟اس مہینے پھر تمہارا سات سو اُنتیس کا میڈیکل کا بل آیا ہے پاس ہونے؟آبجیکشن لگا دوں؟‘‘۔
مولوی ثنا اللہ میں اب جعفری سے بحث کرنے کا یارا نہیں رہا تھا۔ جعفری پھر میری طرف متوجہ ہوا۔
’’تو میں آپ کو سالی کے کتھئی داغ کے بارے میں بتا رہا تھا۔’’
کتھئی رنگ کے داغ کا محلِ وقوع بتاتے ہوئے جعفری نے رومال سے آنکھیں صاف کی تھیں۔اُن دنوں اُسے شدید قسم کا نزلہ زکام تھا مگر مجھے آج بھی پورا یقین ہے کہ اُس نے بیماری کا پانی نہیں، بلکہ ہوس کا زہر پونچھا تھا۔
ڈیزی میں ان تبدیلیوں کی وجہ سلمان تھا۔ شروع شروع میں سبھی اسے دفتری تعلق سمجھے مگر جب تواتر سے وہ دونوں لنچ کے مقررہ وقت سے پندرہ بیس منٹ اور کبھی آدھ گھنٹے تاخیر سے لوٹنے لگے تو سب سے پہلے جعفری کا ماتھا ٹھنکا۔سلمان، جعفری کا ماتحت تھا اس لیے جعفری نے جوش رقابت میں ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ سلمان بیچارہ رات کو نو دس بجے تک بیٹھا فائلوں سے سر مارتا رہتا۔ وہ افسروں میں شامل تھا اس لیے اوور ٹائم سے بھی محروم تھا۔ جعفری نے اب سلمان اور ڈیزی کے حوالے سے براہ راست جملہ بازی بھی شروع کر دی تھی۔
’’تم ہو کس ہوا میں میاں صاحبزادے؟ ایسی عورت گنا پیلنے کی مشین کی طرح ہوتی ہے۔ دیکھی ہے کبھی وہ مشین؟ دوسری طرف سے نرا پھوک ہی نکلتا ہے؟ پھوک سمجھتے ہو نا؟’’
سلمان کاچہرہ سرخ ہو جاتا۔
’’جعفری صاب آپ تو بس خواہ مخواہ….‘‘
جعفری بات کاٹتا۔
’’کیا خواہ مخواہ…تمہاری چٹی چمڑی پہ ریجھ گئی ہے سسری ورنہ ۱یسی عورتیں صرف اُسترا گُل مردوں کے لیے بنی ہیں… سمجھتے ہو اُسترا گُل مرد کسے کہتے ہیں؟’’
’’مجھے نہیں پتہ’’۔
سلمان کسی فائل کے پیچھے پناہ لیتا۔
’’تو ہم سے پوچھو نا۔خاندانی استرا گل ہیں ہم۔ ابا، سن چھیاسٹھ تک، جب وہ مرے تھے، کسی نہ کسی صورت آگرے کی ایک طوائف،نواب جان کو پابندی سے روپے بھجوایا کرتے تھے۔ کہتے تھے بڑی میٹھی یادیں وابستہ ہیں سالی سے۔وہ بھی پُھونس ہو گئی تھی اور ابا بھی خوب پک گئے تھے مگر طبیعت کی للک تھی سالی کہ جاتی ہی نہیں تھی۔سارا وقت جھلنگا سی چارپائی ڈالے ڈیوڑھی میں پڑے رہتے تھے۔آنکھیں نقاہت کے مارے بند رہتی تھیں مگر جوان عورت کی خوشبو ایک میل سے لے لیتے تھے۔ جب تک ابا زندہ رہے ہماری گلی میں کوئی نوجوان مہترانی جھاڑو لگانے نہیں آتی تھی۔ایسے مرد کو کہتے ہیں اُسترا گُل۔ سمجھے؟۔’’
’’کہتے ہوں گے’’ ۔
کبھی کبھی سلمان کا لہجہ بھی تلخ ہو جاتا۔ جعفری مسکراتا اور سگریٹ کی راکھ ہتھیلی پر جھاڑ کرکوڑے کی ٹوکری میں پھینکتا۔
’’یہ ساری اکڑ نکل جائے گی تمہاری۔ اٹھائیس سیڑھیاں ہیں اس دفتر کی اور لفٹ سالی ہمیشہ خراب رہتی ہے۔ہر سیڑھی پہ گھٹنے ٹٹولو گے’’۔
’’یہ کیا بات کر دی آپ نے؟ گھٹنوں کا بھلا اس سے کیا تعلق ؟’’سلمان تلخی سے بولتا۔
’’شاستروں میں لکھا ہے ہستنی عورت گھٹنوں کا رس چُوس لیتی ہے اور یہ سالی ڈیزی پکی ہستنی ہے۔ اب یہ نہ پوچھنا کہ ہستنی
عورت کیا ہوتی ہے؟ سنو۔کبھی چُما وُما لیا سالی کا؟’’۔جعفری ایک آنکھ میچ کے مسکراتا۔
’’پلیز جعفری صاحب!’’
’’خیر کبھی لوگے تو خود ہی پتہ لگ جائے گا۔ مست ہتھنی جیسی بُو آتی ہے ایسی عورتوں کے پاس سے۔کبھی دیکھی ہے مست ہتھنی؟ سالے ہاتھی کو چوہا کر دیتی ہے۔تم کس کھیت کی مولی ہو؟‘‘
یوں نہیں تھا کہ ڈیزی اپنے بارے میں جعفری کے خیالات سے واقف نہیں تھی۔اُسے سب پتہ تھا بلکہ اُس کا قرب حاصل کرنے کے
متمنی دفتر کے کئی مرد نہ صرف ڈیزی تک جعفری کے خیالات پہنچاتے تھے بلکہ دو چار اپنے پاس سے بھی جڑ دیتے تھے۔ مگر ڈیزی اس سمندر کی طرح تھی جو جہان بھر کی غلاظتیں خود میں سمیٹ کر بھی اُجلا، شفاف اور گہرا رہتا ہے۔ جعفری آخری بچے کا باپ بنا تو وہ نومولود کے لیے تحائف اور زچہ کے لیے پھولوں کا بڑا سا گلدستہ لے کر ہسپتال گئی۔
ڈیزی سے پوچھنے کی تو خیر کسی میں ہمت نہیں تھی۔سلمان کبھی پھوٹ کر نہیں دیا مگر ایم ڈی صاحب سمیت سب کو پتہ تھا کہ اُن کا باقاعدہ معاشقہ چل رہا تھا۔ڈیزی بات بے بات قہقہے لگاتی۔ سلمان کے کالر سے فرضی گرد جھاڑتی اور نبی بخش چپراسی تو قران کی قسم تک کھانے کو تیار تھا کہ اُس نے سلمان اور ڈیزی کو ایک بار نہیں ، کئی بار سکوٹر پر قریب قریب بیٹھے دیکھا تھا۔جعفری اس سلسلے میں نبی بخش چپراسی کے کئی طویل انٹرویو بھی کر چکا تھا۔
’’ابے سالے تو نے خود دیکھا یا سنی سنائی ہانک رہا ہے؟’’
نبی بخش چپراسی زبان دانتوں میں دبا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے کان چُھوتا۔
’’پاک دامن عورتوں پر الزام لگانے والے دوزخ میں جائیں گے جعفری صاب۔’’
اس بیان پر جعفری کا ناریل چٹخ جاتا۔
’’پاک دامن؟ ابے وہ کہاں کی پاک دامن ہے؟ کل کے چھوکرے سے پھنس گئی۔اندھی ہے سالی؟اُسے دفتر میں سالا کوئی مرد نہیں دِکھا؟’’۔
نبی بخش چپراسی ایم ڈی صاحب کے دفتر کی ڈاک علیحدہ کرتے ہوئے دبی زبان سے کہتا۔
’’اب یہ تو جعفری صاب عورت کی مرضی ہوتی ہے’’ ۔جعفری تاؤ میں آ جاتا۔
’’ابے سالے تُو ہم سے زیادہ جانتا ہے عورتوں کے بارے میں؟ ذرا منہ کیا لگا لیا، سر پہ چڑھ گیا۔ اور یہ چینی کیا مفت مل رہی ہے آج کل جو چائے میٹھی قند کر دیتا ہے؟ بیٹے۔آڈ ٹ ہوتا ہے ہر چیز کا۔ چل دفع ہو جا’’۔
جعفری چونکہ سلمان کا براہ راست انچارج تھا اور دونوں ایک ہی کیبن میں بیٹھتے تھے اس لیے سلمان ہمہ وقت جعفری کی زہر آلود
زبان کا نشانہ بنتا۔
’’میاں کن چکروں میں پڑ گئے ہو؟ اپنی عمر کی کوئی گھیرو۔یاد رکھو بڑا ٹرک چھوٹی بیٹری سے سٹارٹ نہیں ہوتا۔بعض اوقات تو ڈبل بیٹری لگانا پڑتی ہے۔ ابے ہے تمہارے پاس ڈبل بیٹری؟’’
وہ مارچ کی ایک چمکیلی دوپہر تھی جب مہ رُخ نے ہمارے دفتر میں قدم رکھا۔ اُس نے نبی بخش چپراسی سے ہی پوچھا ہوگا، تبھی تو وہ
سیدھی سلمان کے دفتر میں چلی گئی تھی۔ جعفری اس وقت ایم ڈی صاحب کے دفتر میں تھا۔ سلمان سر جھکائے انہماک سے کام کر رہا تھا۔مہ رخ کی اُونچی آواز دفتر کے ہال میں گونجی ۔
’’ہے کون وہ کمینی؟ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ’’۔
دفتر میں کام رک گیا اور لوگوں نے شکاری کتوں کی طرح اپنے کانوں کا رخ سلمان کے کیبن کی طرف کر لیا۔
’’مہ رخ پلیز آہستہ بولو۔ تم میرے دفتر میں کھڑی ہو۔بیٹھ کر آرام سے بات کرو یا پھر ہم کہیں باہر چلتے ہیں’’۔
آواز نیچی رکھنے کی کوشش کے باوجود دفتر کے سناٹے میں سلمان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
’’نئیں میں آج فیصلہ کرنے آئی ہوں…بلاؤ اُسے‘‘۔
پھر ڈیزی کی کرسی پیچھے کھسکنے کی آواز گونجی۔ ڈیزی اُٹھی اور سلمان کے کیبن کی طرف چلی۔اُس کی اُونچی ہیل والے جوتوں کی آواز دفتر کے پختہ فرش پر یوں گونج رہی تھی جیسے ایٹمی دھماکے سے پہلے اُلٹی گنتی گنی جا رہی ہو۔ ٹھک۔ٹھک۔ٹھک۔ہر کوئی دم بخود تھا۔ چند ایک اپنے اپنے کیبنوں سے باہر بھی نکل آئے تھے۔ یقیناً مہ رخ کی آواز ایم ڈی صاحب کے دفتر کے اندر بھی پہنچی تھی تبھی تو وہ اور جعفری بھی باہر نکل آئے تھے۔
ڈیزی، مہ رخ کے قریب پہنچی اور اس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’میں ہوں ڈیزی خدا داد۔ تم شاید کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر…‘‘
مہ رخ گھومی اور تلخی سے بولی۔
’’تو تم نے پھانس رکھا ہے اس احمق کو؟’’ پھر وہ سلمان کی طرف گھومی ’’ٹھیک ہے کر لو اس آنٹی سے شادی لیکن میرا بھائی
کل تمہاری بھین کو طلاق دے کر گھر بھجوا دے تو کسی سے نئیں، خود سے گلہ کرنا’’۔
سلمان کے چہرے پر غصے، بے بسی اور شرمندگی کا تاثر بہت گہراتھا۔ ہر کسی کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا تھا تو پھر ڈیزی کی سمجھ میں کیوں نہ آتا۔ وہ تیزی سے سلمان کی طرف بڑھی اور اور اس نے سلمان کے منہ پراتنی زور سے طمانچہ مارا کہ اس کی گونج ایکو کی طرح سارے دفتر نے سنی۔ ڈیزی کو اس لہجے میں بولتے ہم میں سے کسی نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
’’کمینے۔ یہ تم میرے بارے میں کس قسم کی بکواس کرنے پھر رہے ہو؟ ہنستے بولنے اور ساتھ کھانے پینے کا تم نے یہ مطلب کیسے نکال لیا کہ میں تم سے عشق کرنے لگی ہوں؟’’
دفتر والوں کے منہ حیرت کھل گئے۔ سلمان کا منہ سب سے زیادہ کھلا ہوا تھا مگر ابھی سب کو مزید حیرت سے واسطہ پڑنے والا تھا۔ ڈیزی ٹھک ٹھک کرتی جعفری کے قریب گئی۔ اس نے جعفری کی بانہہ اپنی کمر کے گرد حمائل کی اور سنجیدگی سے بولی۔
’’جعفری ڈارلنگ. آج بتا دو سب کو کہ ہم کب سے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں’’۔ سلمان نے بریف کیس بند کیا، کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اُٹھایا اور مہ رخ کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے دفتر سے نکل گیا۔ ڈیزی کے قریب سے گذرتے ہوئے اس نے زیر لب انگریزی میں جو کچھ کہا وہ ڈیزی نے سنا ہو یا نہ سنا ہو۔ میں نے سنا۔
’’کُتیا۔حرامزادی‘‘۔
ڈیزی پھر دفتر نہیں آئی۔ گیارہویں دن اس نے استعفیٰ بھجوا دیا۔ سلمان نے پانچ روز پہلے ہی استعفیٰ بھجوا دیا تھا۔اس واقعے کے اگلے دن جعفری پندرہ بیس دن کی چھٹی لے کر کراچی چلا گیا۔اُس کے سسرالی رشتہ داروں میں اکٹھی دو شادیاں آ گئی تھیں۔نبی بخش چپراسی نے مجھے بتایا کہ ڈیزی کا کوئی ’’انگریز‘‘ماموں بہت سی جائیداد ڈیزی کے نام چھوڑ کر مر گیا تھا اور ڈیزی ’’لندھن‘‘ جا رہی تھی۔اُس نے اپنے استعمال کی بہت سی چیزیں نبی بخش چپراسی کو دے دی تھیں جنہیں ’’پاک’’ کرکے اُس کی بیوی اپنے استعمال میں لے آئی تھی۔
گنجا آدمی سنجیدہ ہو تو ویسے بھی خوفناک لگتا ہے۔ جعفری کچھ زیادہ ہی سنجیدہ رہنے لگا تھا۔ دو تین ماہ گذر گئے۔ لوگوں نے ڈیزی اور سلمان کا قصہ تقریباّبھلا دیا۔ ایک دن جعفری نے میرے کیبن کی دیوار سے جھانکا اور مسکر اکر بولا۔
’’یار خان صاب۔شراب پینے کو جی چاہ رہا ہے’’۔
وہ بڑے دنوں بعد مسکرایاتھا۔ مجھے اُس دن جعفری کا مسکرانا اچھا لگا۔
’’حکم کریں’’۔
میں نے کہا، ’’سات بجے آ جاؤں؟’’ وہ پھر مسکرایا۔
’’ضرور۔ مجھے خوشی ہوگی’’ میں نے یہ کہتے ہوئے واقعی خوشی محسوس کی۔
شراب مجھے ہضم نہیں ہوتی اور میں ہمیشہ اُن لوگوں کو حسرت سے دیکھتا ہوں جو چلو میں الو ہو جاتے ہیں ۔اس لیے میں ابھی پہلا ہی پیگ پی رہاتھا کہ جعفری نے تیسرا ختم کر لیا۔
’’خان صاحب…جانتے ہیں میں کیوں آپ کی عزت کرتا ہوں؟’’وہ مسکرایا‘‘آپ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔دفتر میں سبھی مجھ سے میرا اور ڈیزی کا تعلق پوچھتے ہیں مگر میں کسی سالے کو نہیں بتاؤں گا’’۔
سچ تو یہ ہے کہ میں خود یہ راز معلوم کرنے کومرا جا رہا تھا کہ ڈیزی نے اچانک سارے دفتر کے سامنے جعفری کی معشوقہ ہونے کا اقرار کیوں کیا تھا۔جعفری نے تیسرا پیگ ختم کیا، میرا خیال تھا کہ وہ اب مزید نہیں پیے گا پھر بھی میں نے تکلفاّ کہا، ’’اور بناؤں؟’’
جعفری پھیل کر بیٹھا ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ شراب سے منع کرنے والا بھی سالا کوئی مرد ہوتا ہے؟’’ چوتھا پیک آدھا ختم کرکے اس نے سگریٹ سلگایا اور ایک طویل کش لے کر بولا ’’وہ سالا سب ڈرامہ تھا’’۔
’’ڈرامہ؟‘‘ میرا گلاس اُٹھاتا ہاتھ جہاں تہاں رہ گیا۔
’’ہاں‘‘ جعفری مسکرایا ’’وہ سالا سلمان ڈیزی سے بہت کچھ چھپا رہا تھا۔ اس کی منگنی کئی سال پہلے مہ رخ سے ہوگئی تھی اور اس کی بھین مہ رخ کے بھائی کے گھر میں تھی۔ اس واقعے سے دو دن پہلے دونوں عورتیں ڈیزی سے ملی تھیں اور اس کی مدد مانگی تھی۔اُسے بتایا تھا کہ اگر سلمان نے ڈیزی کی خاطر مہ رخ سے شادی نہ کی تو سلمان کی بھین کو طلاق ہو جائے گی۔ ڈیزی نے اپنی محبت قربان کر دی۔ میری مدد سے خود کو بیوفا ثابت کر دیا۔یہ تھا سارا ڈرامہ’’۔
’’مگر آپ ہی کی مدد کیوں؟’’
’’ڈیزی کو پتہ تھا اور کوئی سالا مفت کی بدنامی کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ اس لیے’’میں نے لمحہ بھر سوچا اور مسکرا کر کہا، ’’جعفری صاحب، آپ نے ویسے ہی تو مدد نئیں کردی ہوگی۔ میرا مطلب ہے کہ….’’ اس بار جعفری نے بہت سی نِیٹ اُنڈیلی اور ایک ہی گھونٹ میں ختم کرکے بولا۔
’’بالکل۔ وہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھی۔میں اپنا بہترین سوٹ پہن کر اگلی شام اس کے گھر چلا گیا۔مگر جب وہ لباس تبدیل کرنے دوسرے کمرے میں گئی اور میں ٹائی کی گرہ کھول رہا تھا تو کہیں سے ابا کی آواز آئی ’’سالے ہم خاندانی اُسترا گُل لوگ ہیں۔ طبیعت کی للک اور ٹھرک آخری سانسوں تک نئیں جاتی، وہ اور بات ہے مگر مجبور عورتوں کو ہم نے ہمیشہ ماں بھین سمجھا ہے۔ سالے یہ تُو کیا حرامی پن کر رہا ہے؟‘‘ بس خان صاب، میں اُٹھا اور سیدھا ابا کی قبر پہ چلا گیا۔ پائینتی کی مٹی سر پہ ڈالی اور رات بھرروتا رہا۔’’ جعفری نے بڑا سا گھونٹ لیا۔
تین ماہ بعد ڈیزی کی جگہ شمائلہ کو کمپیوٹر چلانے پر رکھ لیا گیا۔ اُسے دفتر آتے شاید چوتھا روز تھا۔ لنچ کے لیے میں اور جعفری ایک ہی وقت میں اپنے اپنے کیبنوں سے نکلے۔ شمائلہ اپنے کیبن سے نکل کر، ہماری طرح کینٹین جانے کو نکلی۔ اُس نے ہمیں گھوم کر دیکھا، مسکرائی اور پھر ہمارے آگے آگے چلنے لگی۔ جعفری نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکا اور آگے جاتی شمائلہ کو دیکھ کر رازدارانہ لہجے میں بولا’’ یاد رکھنا خان صاب، جس عورت سالی کے قدم چلتے ہوئے اندر کی طرف پڑیں…..‘‘
*****
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.