حکومتی سبسڈی کار بقراط، جہمنی قسم کے حاجی نما تاجر اور مہنگائی کا جن
از، محمد عاطف علیم
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو یوٹیلٹی سٹور سے سودا سلف خریدتے ہیں؟ نام نہاد حکومتی پیکج میں جن اشیاء پر سبسڈی دی جائے گی ان میں آٹا، چاول، دالیں اور چینی شامل ہے۔ باقی اشیاء وہی مارکیٹ ریٹ پر دست یاب ہیں۔
میرا تجربہ بھی ہے اور بیوی کی بار بار کی روک ٹوک کے نتیجے میں پیدا ہونے والا پکا خیال بھی کہ اشیائے خور و نوش میں بد ترین ملاوٹ اگر کہیں ہوتی ہے تو انہی یوٹیلٹی سٹورز پر۔
یوٹیلٹی سٹورز حکومت کے ہر ادارے کی طرح کرپشن کا گڑھ ہیں۔ یہاں افسروں اور سپلائرز کا گَٹھ جوڑ ہمیشہ سے اس ادارے کی نا کامی کا ذمے دار رہا ہے۔
جو لوگ پہلے یوٹیلٹی سٹورز سے خریداری کرتے تھے اور پھر میری طرح تائب ہو جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں ملنے والی نام نہاد سستی دالوں، چاول اور آٹا وغیرہ اس قدر غیر معیاری ہوتا ہے کہ پکانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہر خاندان یوٹیلٹی سٹور سے سستی چیز خریدنے کی بَہ جائے مارکیٹ سے مہنگی چیز خریدے گا تا کہ بیمار ہونے سے بچا رہے۔
یوٹیلٹی سٹورز کو جہاں افسروں اور سپلائرز نے تباہ کیا ہے وہاں نام نہاد کیش اینڈ کیری مافیا نے بھی انہیں نا کام بنانے میں اپنا زور لگایا ہے بل کہ در حقیقت یوٹیلٹی سٹورز کی نا کامی کے بینی فشریز یہ کیش اینڈ کیری بھی ہیں جنہوں نے اسی قیمت میں قدرے معیاری اشیا کی فراہمی کے ذریعے یوٹیلٹی سٹورز کے تمام گاہکوں کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ اسی طرح جیسے ٹرانسپورٹ مافیا اور فوجی ادارے این ایل سی نے افسروں کے ملی بھگت کر کے ریلوے کو تباہ کیا تھا۔
ایک بات اور کہ جب بھی ان سٹورز پر حکومت نے کوئی پیکیج فراہم کیا، راتوں رات وہ اشیاء چوری ہوکر دکانوں کے گوداموں میں منتقل ہو جاتی ہیں اور عام صارف بیچارہ مُنھ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اب بھی یہ ہو رہا ہے اور ۤآئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
یوں حکومت کے کھاتوں میں تو عوام کو سستی اشیا کی فراہمی ہو رہی ہو گی۔ انصافی بھائی بھی بہت بغلیں بجائیں گے لیکن عملی طور پر اس پیکج کی عوام تک بہت کم رسائی ہو پائے گی۔
سو یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کی منصوبہ بندی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہے۔ اور پھر ان حکومتی بقراطوں سے کوئی پوچھے کہ کیا چار پانچ اشیاء پر سبسڈی دینے سے مہنگائی کنٹرول ہو جائے گی؟
اور پھر یہ دس پندرہ ارب کہاں سے آئیں گے؟ صاف بات ہے کہ یہ بیت المال اور احساس پروگرام سے نکالے جائیں گے۔ یعنی ناک کو سامنے سے نہ پکڑو پیچھے سے پکڑ لو۔ یہ وہ پیسے ہیں جو ہر صورت میں عوام پر ہی مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے خرچ کیے جانے تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اے اور بی کلاس یوٹیلٹی سٹورز جہاں پر اشیاء کی دست یابی کا امکان ہو سکتا ہے وہ پوش یا خوش حال علاقوں میں واقع ہیں۔ غربت زَدہ علاقوں میں یوٹیلٹی سٹورز کے نام پر چھوٹی چھوٹی ہَٹیاں سی ہیں جہاں بہت کم اشیاء دست یاب ہوتی ہیں۔
اس طرح سبسڈی شدہ اشیاء بَہ دستور ان لوگوں کی پہنچ سے دور رہتی ہیں جن اس سبسڈی کی حقیقی معنوں میں ضرورت ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام جو خود بھی اپنے دشمن ہیں وہ عسکری و غیر عسکری مافیاؤں، لالچ میں اندھی بیوروکریسی، زندگی کے ہر شعبے میں موجود کارٹلوں اور جہنمی قسم کے حاجی نما تاجروں کے نرغے میں اس بری طرح پھنس چکے ہیں کہ کوئی بھی کاسمیٹک ایکشن ان کی کَس مَپُرسی کا مذاق اڑانے اور مرے کو مزید مارنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔