پاکستان سماج کا منظر نامہ اور وقت کا تقاضا
از، وقاص احمد
موجودہ دور میں پاکستانی سماجی منظر نامے پر جتنے سنجیدہ مباحث اور مکالمے سوشل ویب سائٹس، بلاگز اور الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، ان کے شریک کاران کو دو اساسی گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گروہ جو موجودہ نظام کی بنیادوں کو کافی حد تک درست سمجھتا ہے اور انہی بنیادوں پر قائم عمارت میں اصلاحی تبدیلیوں کا قائل ہے۔ یہ اکٹھ زور و شور سے ان اصلاحی تبدیلیوں کے حق میں اپنے نکتئہ نظر کے حوالے سے تبلیغ و تحریر کو کام میں لاتا رہتا ہے۔ اس طبقے میں پاکستانی لبرلز، مذہبی اسکالرز کی ایک بڑی تعداد اور موجودہ جمہوری نظام پر اعتماد کرتے معتدل اذہان جو اس معاشرے کی پڑھی لکھی سوسائٹی کی بنت کا حصّہ ہیں،شامل ہیں۔
یہ طبقہ تعداد اور اثر پذیری کے حوالے سے سماجی حلقوں کا موجودہ دور تک سب سے بڑا حصّہ ہے۔ یہ طبقہ معاشرے کے اجتماعی شعور کو اصلاحی انداز فکر کی جانب کھینچنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے اور اس نظام کے خدوخال میں کسی بنیادی نقص کے احتمال کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس طبقہ کی خوش فہمی اس شدت کی ہے کہ اگر نظام کی جڑوں میں کسی تضاد کی نشاندہی کر دی جائے تو پھر اس بنیادی خرابی کا سدباب بھی اپنے لگے بندھے اصولوں کی روشنی میں کرنے کا متمنی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ اصلاحی ذرائع عمل بھی دراصل بنیادی نظام کے سوتوں سے ہی پھوٹتے ہیں اور اگر بنیادی نظام کے کلیات اور جزیات تخریبی ہیں تو اصلاح سے تعمیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
اس طبقے کے موقف کی مقبولیت میں نظام ازخود بھی مددگار ہے۔ نظام یہ سمجھتا ہے کہ یہ ساری کوششیں دراصل حالات کو جوں کا توں یعنی سٹیٹس کو رکھنے میں ممدومعاون ہیں۔ اس لئے نظام ان طبقات کے مختلف افراد کو نوازنے کا کام بھی سرانجام دیتا رہتا ہے۔ سسٹم کی ان نوازشات سے اس طبقے کے تمام افراد مستفیض نہیں ہو پاتے۔اکثریت فکری مغالطے میں اس کوشش کا حصّہ بن جاتی ہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو کہ اس نظام استحصال کو ہی مسئلے کی جڑ سمجھتا ہے۔ اس کے بنیادی اجزاء کی یکسر تبدیلی کا خواہاں ہے۔ پرانے ڈھانچے کو گرا کر نئی بنیادوں کی تعمیر اس طبقے کا مقصد اول ہے۔ یہ طبقہ بنیادی نظریات کی باریک بینی سے پرکھ کا قائل ہے۔ یہ طبقہ تعداد اور اثر پذیری میں پہلے طبقے سے کافی کم ہے مگر آہستہ آہستہ اپنا نفوذ بڑھا رہا ہے۔ اس طبقے میں کمیونسٹ سوچ کے حاملین اور کچھ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے افراد شامل ہیں۔ نیز عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی اس طبقہ کا حصّہ ہے جو اس سسٹم کے الٹ پھیر سے عاجز آ کر مایوس ہو چکے ہیں۔
مگر کوئی سیاسی و فکری وابستگی نہیں رکھتے۔ اس دوسرے طبقے میں سسٹم کے خلاف شدید مزاحمت پائی جاتی ہے۔ عملیت پسندی کا رجحان بھی زیادہ واضح ہے۔ یہ گروہ پہلے گروہ کی نسبت اچھی خاصی منظم ٹکڑیوں کی شکل میں موجود ہے، اور یہی اس گروہ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ مستقبل کی تعمیر کے حوالے سے اس گروہ کا امید افزا نظروں سے تعاقب کیا جانا چاہئے۔ اس گروہ کو کچھ داخلی مسائل کا سامنا ہے۔ اس گروہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ایک متبادل سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کا خاکہ پیدا کرنا ہے جو موجودہ ملکی تناظر میں بہترین نعم البدل ثابت ہو اور استعماری نظام کی جگہ لے سکے۔ اس گروہ کا زیادہ بڑا حصّہ غالبا اشتراکی خیالات کا حامل ہے۔
اس دوسرے طبقے کا سب سے بنیادی مقصد اندرون خانہ فکری ہم آہنگی کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہئے۔ اس طبقے کے مختلف الخیال لوگوں کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ متبادل نظام کے پیکر و تجسیم کے لئے کوئی ایسی مشترکہ حقیقی ٹھوس بنیادیں تعمیر کی جائیں جو ہمارے معاشرے کی زمینی صورتحال سے حقیقتا میل کھاتی ہوں اور یہاں کی عوام کو اس متبادل نظام کی طرف قدرتی رغبت پیدا ہو سکے۔ دوسرا یہ کہ متبادل نظام آج کے دور کے تقاضوں کے حوالے سے ایک قابل عمل منصوبے کی شکل میں ڈھالا جائے۔ تصوراتی اور کتابی نسخوں کو من و عن پاکستانی منظر نامے پر انڈیلنے کی سوچ کو اعتدال کے دائرے میں سانچہ جائے۔
تیسرا یہ کہ متبادل نظام کے آفاقی اصول یقیناً مساوات، عدل، معاشرتی اور معاشی نا انصافی کا خاتمہ ہی ہونے چاہئے، مگر ان اصولوں کو واضح کرنے کے لئے حقیقی کرداروں اور ہیروز کی مثالیں مقامی خطے اور ثقافت کی تاریخ سے ہی اخذ کرنی چاہئے، تاکہ عوام کو ان ہیروز اور تاریخی کرداروں سے کسی ایسی اجنبیت کی دیوار کے ذریعے دور نہ رکھا جا سکے جو ایک خاص ثقافتی اور سماجی ماحول کے زیر اثر پیدا ہو جاتی ہے۔ فیدل کاسترو لاطینی امریکا میں امپیریل ازم کے خلاف ایک ہیرو کا مقام حاصل کر سکتا ہے مگر ثقافتی وجوہات پاکستان میں کاسترو کے لئے ویسا بلند آہنگ حاصل کرنے میں شدید رکاوٹ کا سبب ہیں۔ سیکولرازم، سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے استعارے اسی ارض خاکی سے تلاش نہ کئے گئے تو عوامی قبولیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ غیروں کی اتاری قبا کتنی ہی خوش نما کیوں نہ ہو، دھرتی سے جڑے لوگوں کے لئے اسے اپنانا ہمیشہ ایک مسئلہ رہتا ہے۔
مزید یہ کہ حکمت عملی کا دائرہ کار قومی اور طبقاتی مسائل کے حوالے سے ایک واضح موقف اور سمت کی شکل میں ظاہر ہونا چاہئے۔ قومی اور طبقاتی سوال کو کسی بھی تحریک کے ابتدائی فکری مرحلے پر ہی طے کر لینا بہت ضروری ہے۔ اس مسئلے کے تمام پیچ و خم کو دستیاب حالات اور وسائل کی نظر سے پرکھنا چاہیے اور اس پر ایک روڈ میپ مکمل کر لینا چاہئے۔
پانچویں بات یہ کہ دشمن کی پہچان معروضی نکتئہ نظر سے واضح ہونی چاہئے اور راہ عمل بھی اسی تناظر میں ترتیب دی جانی چاہئے۔ کسی بھی ایک ادارے، طبقے یا گروہ انسانی کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا کر طعن و تشنیع میں مبتلا ہو جانا کسی قابل قدر قوت عمل کی تشکیل میں سد راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پورے ہوش و حواس اور تکنیکی تجزیہ کے بعد مخالف قوت کا فکری محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ سسٹم کے مخالف طبقے میں شامل مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو ان اساسی اصولوں کے حوالے سے یکساں موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ سماج میں تبدیلی محض ایک جماعت یا فکر کے الگ تھلگ رہ کر کسی مخصوص نظریہ کے فروغ سے ممکن نہیں بلکہ اسے تمام ایسے گروہوں کے ساتھ اشتراک عمل میں شامل ہونا پڑے گا۔ جو سامراج مخالف پالیسی میں کسی نہ کسی طور شریک ہیں۔ اگر کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سارے تحریکی عمل کو مارکس کے نظریات پر کلی طور پر یکساں کر لیں گے یا کوئی یہ سمجھے کہ حضرت عمر (رض) کے طرز حکومت سے تمام اشتراکی اتفاق کر پائیں گے تو ممکن نہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں مصروف مختلف سامراج مخالف عناصر لبرلز اور دیگر مخالف نظریاتی لوگوں سے سر پھٹول میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے اندرونی مسائل کو حل کر کے ایک متبادل سیاسی، سماجی اور معاشی طرز زندگی کے اساسی نکات پہ متفق ہو جائیں۔ اپنا اندرونی مقدمہ مضبوط کر لیں تو عوام کو آپ کے نظریات کو پہچاننے میں آسانی ہو جائے گی۔
یقیناً مزید ایسے حل طلب اساسی نوعیت کے امور موجود ہیں جو متبادل سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی بحث میں شامل کیے جانے چاہئے۔ اور اس ضمن میں مزید کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایک متبادل نظام کے خاکے کا متفقہ طور پہ ظہور سامراج مخالف قوتوں کی سب سے بڑی فتح کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔