مشرق و مغرب میں ناول کی ابتدا کی سیاست و ثقافت
از، فرخ ندیم
مشرق و مغرب میں ناول کی ابتدا ایک ایسے فکشن کے مکان سے ہوئی جسے داستان کہتے ہیں، ان داستانوں میں ثقافتی مکانیت کے مسائل موجود تھے۔ ہیروشپ اور اسطورہ کا تعلق نا گزیر سمجھا جاتا تھا۔ علاقائی، قبائلی اور گروہی اعتقادات، روایات اور تعصبات کو زیادہ سپیس دیا جاتا اور انہی اعتقادات کو مرکزِ داستان بنا کر ثنوی نظام تشکیل دیا جاتا۔ اردو ادب کا داستانوی ادب بھی ثنوی سیاست کا حصہ رہا ہے جس میں ہیرو کا خاص رنگ، عقیدہ، نظریہ، مقصد اور منزل ایک طرف اور مخالف قوتوں کی شناختی ثقافت دوسری طرف ہوتی تھی۔ یوں دوسرے کی ضد پر پہلے کی شناخت متشکل ہوتی اور دوسرے کی شکست پر پہلے کی فتح۔
یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ داستان، کہانی یا قصہ گو کا فن اسلوبیاتی معاملہ ہے۔ یہاں کسی بھی فکشن کے فَنّی محاسن سے تعلق یا غرض و غایت نہیں۔ اس لیے یہ سمجھ لینا کہ آج کی تنقید فن پارے کے جمالیاتی پہلوؤں کی طرف معاندانہ رویہ رکھتی ہے، غلط تعبیر کے مترادف ہے۔ جمالیات کا عمل بھی زیادہ تر ان سماجی و ثقافتی رویوں اور نظریات سے مربوط ہوتا ہے جو کسی سماج میں خاص کلامیوں سے انسانی نفسیات کا حصہ بنتے ہیں۔ چُوں کہ کسی سپیس کے مکینوں کے کلامیوں بیانیوں اور ان کے شناختی اور نظریاتی مسائل سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس سے کسی داستان یا ناول کی بابت مجموعی تاثر کا تقاضا غیر ضروری ہے۔
فکشن کے ناقدین اور مفکرین کی آراء کے مطابق مغرب میں ناول کی ابتدا جمہوری مباحث سے ہوئی جب کہ بر صغیر میں اردو ناول کی ابتدا کولونیل عہد کی ایک ثقافتی سر گرمی ہے۔ متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا یہ دور پیراڈائم شفٹ ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کا آغاز ہوا، قوم اور قومیت، جمہوری قدروں، مسلمات اور نظریات پر مباحث شروع ہوئے، زرعی معاشرت کے متبادل بیانیہ کی تلاش شروع ہوئی، صنعت و حرفت کی افادیت واضح ہوئی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ تخلیقی متون کے لیے عام آدمی کا وجود نا گریز ہو گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی ثقافت اپنی بقاء کی اور انگریز ثقافت اپنے تسلط کی جنگ لڑتی ہے۔ لیکن، کیا متحدہ ہندوستان میں صرف دو ثقافتیں تھیں؟ تیسری، چوتھی، پانچویں سے لے کر بیسیوں ثقافتیں مل کر ہندوستانی تہذیب تعمیر ہوتی تھی۔ اٹھارہ سو ستاون کے بعد لسانی اور ثقافتی سطحوں پر سماج کے اس تنوع نے مل کر کولیٹرل ڈیمیج بر داشت کیا۔ فِکشنل متون میں دھڑا دھڑ دھڑے بنتے بکھرتے نظر آتے ہیں جن سے کسی ایک مکان سے قدر اور دوسرے سے کدورت کے رشتوں کی ثنویت تشکیل پاتی ہے۔
مکانات الگ الگ تعمیر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک مشرق میں رہنے والے انسان بھی مشرقین کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب،یوں تو سرحد کے دونوں طرف بسنے والے بورژوا افراد با لواسطہ یا بلا واسطہ (ما بعد) نو آبادیاتی نفسیات کی تجسیم ہیں۔ دونوں طرف وسائل پر اجارہ داری اور پیدا واری رشتوں نے طبقاتی نقوش وضع کیے ہیں لیکن ایک خط، جس سے اشرافیہ کی دو گونی ambivalent نفسیات کو سمجھنے میں کافی حد تک مدد ملتی ہے، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس طبقاتی نقشے سے بر آمد ہونے والا ایک اہم پیراڈاکس، سرحد کی دونوں جانب سپر سٹرکچر کا مہا یا کبیر بیانیہ (انگریزیت)، جو بہ یک وقت مقامی سماجیت سے جڑت اور گریز کے تجربات سے گزرتا ہے اور کرداروں کی شناختوں کے بحرانوں پر ختم ہوتا ہے، معروض وجود آتا ہے جو ساؤتھ ایشین اور پوسٹ کولونیل سٹڈیز میں خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
متعلقہ تحریر ملاحظہ کیجیے: متن اور بیانیہ معصوم نہیں ہوتے؟ از، فرخ ندیم
انگریزی میں لکھے گئے فکشن میں بھی انگریزی اور مقامی ثقافتوں کے ٹکراؤ کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ انگریزی میں لکھے گئے فکشن سے یہاں مراد صرف وہ فکشن نہیں جنہیں مسلمان شناختوں نے تخلیق کیا۔ پاکستان اور انڈیا کے دونوں لکھاری جب انگریزی میں لکھتے ہیں تو لسانی جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے۔ تیسرے سپیس کے مسائل کی گھمبیرتا ان کے متون سے منعکس ہوتی ہے۔ ان ناولوں اور افسانوں میں طبقاتی کشا کش، طاقت کے گٹھ جوڑ، نسلی عصبیت، ماضی کی باز گشت، اقداری اور اقتداری ماضی پرستی، رومانویت، سدھارتھیت، جِلد کی مشکلات، موضوعی تذبذب و تضادات اور دو گونیت، ردِ تشکیل، آدرش وادیت یا مثالیت پسندی کی شکست و ریخت، ترقی پسندی، شناختی بحران، فلاح اور رفاہِ عامہ سے لے کر مفاہمت اور مزاحمت تک کئی طرح کے خیالات ملتے ہیں جو ان لکھاریوں کی مکاناتی اشکال ہیں۔
مختلف طبقات کی مکانی زندگی میں قبل اَز تقسیم اور بعد اَز تقسیم نظریہ ساز اور نقشہ ساز اضطراب بھی ایک اہم موضوع کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ما بعد نو آبادیاتی تنقید کا زیادہ فوکس اس اشرافیائی متنی ماحول پر ہے جس میں تیسرے مکان (تھرڈ سپیس) کی الجھنوں اور آدرشوں کا نہ صرف ثقافتی مطالعہ کیا جاتا ہے بَل کہ اس کے کرداروں کی تحلیلِ نفسی بھی کی جاتی ہے۔ اب انگریزی زبان، سرحد کے دونوں جانب، ایک ’بورژوا کمفرٹ زون ہے۔ ان کے متون میں بہ یک وقت مقامی اور نو آباد کار مکانات میں رہنے کی دو گونی خواہش تنقیدی اور تخلیقی متون میں ارتعاش کا باعث بن رہے ہیں۔
ما بعد نو آبادیاتی فکر میں ایڈورڈ سعید، فیناں، بھابھا اور گائتری سپیوک نے فکر کے جو در وا کیے ان کی باز گشت اب ہر اس متن میں سنائی دیتی ہے جو کسی بھی نو آبادیاتی تجربے کا حصہ رہے اور شناخت کے مسئلے (بحران کے نفسیاتی مسائل) سے بر سرِ پیکار ہے۔ اب دنیا کا ہر وہ شخص یا طبقہ، مسلک، مذہب گروہ یا جماعت جو کہیں بھی دیوار سے لگایا گیا ہے، اس کی مکانی شناخت ’’دوسرا‘‘ یا ’’دوسرے‘‘ کی اصطلاح سے کی جاتی ہے۔ لفظ ’’دوسرے‘‘ یعنی سائن کا سگنی فائڈ ہونا ہی لسانی اسیری ہے۔ یہاں مارکسی اور ثقافتی مکاتبِ فکر کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ پیداواری ذرائع اور پیدا واری قوتوں کے تبدیل ہونے سے ہی جغرافیائی اور شناختی مسائل پیدا ہوئے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.