جنگ نامہ battle of the vegetables سبزی اور گوگل میپ
از، یاسر چٹھہ
کچھ دیر پہلے سبزی لینے گیا تھا۔ سبزی تھی، سبزی خرید لی گئی۔ اضافی پالک بھی لے لی کہ رات سے جاری بارش کے ساتھ جنیوا کنونشن کے تحت مذاکرات کیے جا سکیں۔
اوہ، سبزی کی دکان کا احوال تو بتایا ہی نہیں۔ تو سُنیے۔
جس دکان پر سبزی لینے گیا، وہاں گنڈیریاں بھی سرِ عام ملتی ہیں۔ ہوتی مگر پُر کشش پیکٹوں میں ہیں۔ ہم سب انہیں مفت میں ہی اور ہمہ دم چوستے رہتے ہیں، اس لیے دام دے کر خریدنے کے دام میں نہیں آیا۔
دیگر احوال بتائیں تو عالمِ سبزی و پھل میں عجب مناظر تھے۔
ٹماٹر مُنھ چھپاتے پھر رہے تھے۔ ان کے ساتھ گزرے دنوں سے ہی اچھا نہیں ہوتا آ رہا۔ معصوموں پر سیاست ہوئی، اور کہیں انہیں سڑکوں پر روندا گیا۔ وہ سائنس دان جو وطنِ عزیز میں دس ہزار روپے کا پی ایچ ڈی الاؤنس لے کر آرام کرنے میں میں مصروف تھے۔ وہ بھی ٹماٹروں کے مُدعے پر نعرۂِ مستانہ کی قوالی میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ اب وہ بہتر ٹماٹر اگائیں گے۔ پہلے جانے کیوں نہیں اگا سکے۔ خیر وہ پی ایچ ڈی ہیں، ان کے اپنے خواب اور خرگوشوں کے اپنے خواب۔ بات گول ہو گئی تھی تو آلو یاد آئے۔ اور وہ آلو… ہاں وہ آلو خود کو آج کل منڈی میں ڈَلے مول پر رُسوا رُسوا، شرمندہ شرمندہ سَر نیہوڑائے بوری بند لاش کی طرح پڑے تھے۔
وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مِینھ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
مولیاں اور گاجریں بہت اچھل کود رہی تھیں۔ مولیوں اور گاجروں کو اچھلنے اور کودنے کے علاوہ آتا بھی کیا ہے۔ چوٹ وغیرہ لگ گئی تو لَگ پتا جائے گا کہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی کی دو کیٹگریاں بنا دی گئی ہیں: جنرل کیٹگری میں مرہم پٹی مانگی تو تڑپ تڑپ کر اور تبدیلی تبدیلی جَپتے مریں گی، پرائیویٹ کیٹگری میں دوا دارُو کیا کرایا تو پیٹرول اور گیس کا بھاؤ لگ پتا جائے گا۔
مونگرے ایک دوسرے میں ٹانگیں پھنسائے محرماتِ جنس taboo sex وغیرہ کے کسی شعور و لا شعور سے ما وَراء اونچی دیواروں والے شاپر میں چھپے ہوئے تھے۔ ہوں نا کہیں کہ غیر ریاستی اثاثے۔
پھلوں کے منظر بھی دیکھنے لائق تھے۔ امرود ٹھنڈی ہوا میں ٹھٹھر رہے تھے۔ سفید سیب، یعنی کہ جُوس والوں پر، سردی کی وجہ سے کپکپی طاری تھی۔ سرگودھا کے کِینو اور خان پور کے مالٹے بارش میں بھیگ کر اپنی جوانیوں کے لطف میں رقصاں تھے۔ انہیں کب پتا تھا کہ وقت گزر جانے پر سینے پہ مونگ دَلے جانے کا درد کیسا ہوتا ہے۔ بعد میں کبھی یاد کریں گے کہ
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
اور کیلے؟ وہ لمبے لمبے اور لمبے بَل کہ تڑنگے بھارتی کیلے؟
کیا دیکھا کہ انڈین کیلے ایک دیوار پر دو طرف سے کِیل لگا کر تَنی رسی پر سے اوندھے مُنھ لٹکے رہے تھے۔
سبزی فروش سے پوچھا، یہ کیا بات ہے، گُل خاناں؟ کیلے بھارتی اور غیرت پاکستانی؟
وہ بھی کمال کا آدم زاد ہے۔ اس نے کہا، بس جی غیرت، غیرت ہوتی ہے، اور کار و بار، کار و بار ہوتا ہے۔
ہم نہ کہتے تھے کہ حالیؔ چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
سند: میری گوگل میپ کی جاسوسی بتاتی ہے کہ 6:57PM پر گوگل مجھ سے پوچھ رہا تھا مسجد غفوریہ کے متعلق کیا جانتے ہو۔
میں نے گوگل کو کو کہا، اپنا مُنھ بند رکھو، پتا نہیں یہاں وہ سبزی جو دیکھ آیا ہوں اور جس کا قصہ اوپر لکھا ہے، وہاں ہے۔ دودھ دہی اور ان کی بن جانے والی لسّی کی، کریانے کی دکانیں، اور ہاں نان بائی کے علاوہ موچی بھی ہے۔
گوگل میپ نے کہا، تم بھی مُنھ بند رکھو اپنا، کیا موچی یہاں ایک ہے کوئی؟ اتنے آئے تم صادق اور امین۔۔۔ ساتھ ہی مُنھ چڑاتے شعر سنایا:
آ رہی ہے چاہِ پاکستان سے صدا
شہری یاں کم ہیں اور موچی بہت