ماضی کی آنہ لائبریریاں اور قادر پور راں کی مفت لائبریری
خالد مسعود خان
کیا زمانہ تھا۔ شرفا عموماً ویسپا سکوٹر استعمال کرتے تھے۔ کسی کسی کے پاس ”لمبریٹا‘‘ سکوٹر بھی ہوتا تھا۔ ایمرسن کالج میں پروفیسر عرش صدیقی کے پاس یہی لمبرٹیا سکوٹر تھا۔ اب یہ سکوٹر تو خیر بالکل ہی ناپید ہے ویسپا بھی کسی کسی کے پاس شاذونادر نظر آتا ہے۔ تب سڑک پر واکس ہال کاریں چلتی تھیں اور سکوڈا گاڑی بھی ملتان کی سڑکوں پر نظر آتی تھی۔ لمبریٹا سکوٹر، واکس ہال اور سکوڈا کار کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی عنقا ہو گئی اور وہ تھی ”آنہ لائبریری‘‘۔
یہ سب چیزیں ایسے غائب ہوئیں جیسے گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ چوک شہیداں میں ہمارے محلہ غریب آباد میں بھی ایک آنہ لائبریری تھی جسے چاچا غفور چلاتا تھا۔ باغ والی گلی کی نکڑ پر ایک لمبی سی دکان میں یہ لائبریری قائم تھی۔ جاسوسی ناول، بچوں کی کہانیاں، تاریخی ناول، مذہبی کتابیں اور رضیہ بٹ، زبیدہ خاتون وغیرہ کے لکھے ہوئے خواتین کے ناول۔ غرض ہر عمر اور جنس کے لیے اس کی پسند کی پڑھنے کی کتاب موجود تھی۔ اس لائبریری میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ کتابیں تھیں اور اس میں چار پانچ سو تو ہماری پسند ناپسند کے قریب تر قسم کی کتابیں تھیں۔
چاچا غفور اس لائبریری کو چلانے سے پہلے ایک نکمی سی پرچون کی دکان چلاتا تھا جو اللہ جانے کیسے چلتی تھی کہ ہم جب بھی کوئی چیز لینے وہاں گئے تو جواب ملا کہ ختم ہو گئی ہے۔ چار چھ بار کے تجربے کے بعد ہم نے چاچا غفور کی دکان پر جانا ہی بند کر دیا۔ پھر چاچا غفور نے اچانک آنہ لائبریری کھول لی۔ پرچون کی دکان میں جو دو چار چیزیں ہوں گی بھی تو اسے چاچا غفور اپنے کام میں لے آیا ہو گا۔ بہرحال محلے میں لائبریری کھل گئی اور ہمارا محلہ بھی ”دائرہ بستی‘‘ کے برابر سٹیٹس کا حامل ہو گیا۔
اس سے پہلے ہم کتابیں لینے دائرہ بستی جاتے تھے اپنی آنہ لائبریری کھلنے کے بعد ہم خود کفیل ہو گئے اور چاچا غفور سے کتابیں کرائے پر لینے لگ گئے۔ اللہ جانے چاچا غفور نے یہ لائبریری کہاں سے اور کتنے میں ماری تھی کہ کتابیں کافی پرانی تھیں اور اس پر پہلے سے کسی لائبریری کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ جس پر چاچا غفور نے کالی سیاہی مل کر مٹانے کی کوشش کی تھی۔ فی کتاب فی یوم ایک آنہ کرایہ تھا۔ اسی لیے یہ لائبریریاں آنہ لائبریریاں کہلاتی تھیں۔
تقریباً ہر محلے میں یہ لائبریریاں ہوتی تھیں۔ سال ڈیڑھ میں چاچا غفور کی لائبریری میں اپنی پسند کی ساری کتابیں پڑھ لی گئیں۔ ابن صفی، نسیم حجازی اور مظہر کلیم کی کتابیں ختم ہوئیں۔ پھر راولپنڈی سے چھپنے والی کامران سیریز کی کتابیں۔ یہ عموماً انگریزی کے جاسوسی ناولوں کا ترجمہ کی گئی کتابیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ منشی تیرتھ رام فیروزپوری کی ”سنہری بچھو‘‘ اور ”مقدس جُوتا‘‘ ٹائپ کی ترجمہ شدہ جاسوسی کتابیں، ڈیڑھ سال کے اندر اندر ساری کتابیں ختم ہو گئیں۔ فیروزسنز کی چھپی تقریباً ساری کتابیں میری ذاتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے تب عمروعیار کی ”داستانِ امیر حمزہ‘‘ اور فیروز سنز کی دیگر کتابوں کی قیمت فی جلد اڑھائی روپے ہوتی تھی اور چچا عمر خان خاص رعایت کرتے ہوئے یہ کتابیں دو روپے فی جلد دیتے تھے۔ ہر ماہ ایک یا دو کتابیں ضرور خریدی جاتی تھیں۔ داستانِ امیر حمزہ کی نئی جلد عموماً ایک ماہ بعد آتی تھی۔ کل دس جلدیں خریدنے میں قریب ایک سال لگ گیا۔
کیا دن تھے۔ مقبول جہانگیر کی شکار کی کتابیں۔ جیمز کاریٹ اور کینتھ اینڈرسن کی شکار کی کتابوں کے ترجمے۔ یہ سب کتابیں بعد میں ایمرسن کالج کی لائبریری سے لے کر پڑھیں جہاں ابا جی مرحوم لائبریرین تھے۔ ایمرسن کالج کی لائبریری سے سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی بلونت سنگھ، کرتار سنگھ دُگل اور اشفاق احمد سے واقفیت ہوئی۔ کتابوں کی ایک ایسی دنیا دریافت ہوئی کہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی، بے شمار ناول۔ چاچا ظفر مرحوم نے مجھے الماریوں سے کتابیں نکال کر دیتے۔ ڈی کے خالد چچا بھی رہنمائی کرتے۔ اباجی سے پوچھا کہ چچا خالد کا پورا نام کیا ہے؟ وہ ڈی کے کیوں لکھتے ہیں؟ پتہ چلا کہ چچا کا اصل نام دھمن خان ہے اور وہ تلہ گنگ سائیڈ کے تھے۔ انہوں نے شہر آ کر اسے ماڈرن کر لیا اور اپنے اصل نام کا مخفف بنا کر ساتھ خالد کا لاحقہ لگا لیا اور کام چلا لیا۔
اسی طرح ایمرسن کالج میں اردو کے پروفیسر تھے اے بی اشرف، اصل نام اللہ بخش تھا۔ بڑے سیلف میڈ آدمی تھے۔ پروفیسر لگے تو اللہ بخش کو اے بی کر لیا اور ساتھ اشرف لگا لیا۔ پھر ڈاکٹریٹ کر لی۔ یونیورسٹی میں چلے گئے اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہو گئے۔ تب نام تبدیل کر کے ”احمد بختیار‘‘ کر لیا۔ یعنی اے بی کو اللہ بخش سے احمد مختیار کر کے ماڈرن کر لیا۔ پھر ترکی میں ڈیپوٹیشن پر چلے گئے اور ترکی کو پیارے ہو گئے۔ آج کل انقرہ میں ہیں اور ترک انہیں ڈاکٹر احمت بختیار پکارتے ہیں۔ عرصہ ہوا ملاقات نہیں ہوئی۔ جب گئے تھے تو بڑے فیشن ایبل تھے۔ لمبی لمبی قلمیں اور رنگین شرٹیں ان کی خاص پہچان تھی۔
ہم آنہ لائبریری سے نکل کر ایمرسن کالج کی لائبریری پہنچ گئے جو ان لائبریریوں سے ہزار گنا بڑی، بہتر اور شاندار تھی۔ ہمارا رشتہ آنہ لائبریری سے ٹوٹ گیا۔ کیا محلہ غریب آباد کی اور کیا دائرہ بستی کی آنہ لائبریری۔ ہمیں تو پتہ ہی نہ چلا کہ یہ لائبریریاں کب غائب ہو گئیں سالوں پہلے ایک دم ان لائبریریوں کی یاد آئی تو پتہ چلا کہ انہیں عنقا ہوئے بھی اب عشرے گزر گئے ہیں۔ کیسی کیسی شاندار روائتیں تھیں جو ایسے غائب ہو ئیں کہ گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ ملتان میں کوٹلہ تولے خان یعنی تغلق روڈ پر ایک لائبریری بچی ہوئی ہے۔ اس کا بھی گزشتہ سال پتا چلا۔ وہ بھی ایسے کہ شاکر حسین شاکر نے نشاندہی کی کہ کوٹلہ تولے خان (تغلق روڈ) پر ایک لائبریری بچی ہوئی ہے۔ لائبریری والا دراصل شاکر حسین شاکر سے کتابیں خریدتا ہے اس لیے پتا چل گیا وگرنہ یہ بھی پتا نہ چلتا۔
یہ سب کچھ ایک بار برسوں بعد پھر کیسے یاد آ گیا؟ ہوا یوں کہ ایک دو مہینے سے ایک فون آیا کہ میں ڈاکٹر ارشاد بول رہا ہوں۔ آپ کو شاید یاد نہ ہو۔ میری اور آپ کی ملاقات مانچسٹر میں ہوئی تھی۔ میں نے قادرپورراں میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی ہے اور اس کا افتتاح آپ سے کروانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جس روز افتتاح ہو گا اس روز میں حاضری تو ضرور دوں گا کہ اگر لائبریری کے افتتاح کے موقع پر غیر حاضری ہو گئی تو عالم بالا میں ابا جی کی روح بے قرار ہو گی کہ انہوں نے ساری عمر اسی پیشے کو دی اور دل و جان سے اپنے پیشے اور ہم پیشہ افراد پر قربان رہے۔
لائبریری اور لائبریرین ان کی ہر حال میں پہلی ترجیح ہوتے تھے اس لیے میری حاضری پکی سمجھیں۔ ڈاکٹر ارشد نہ مانا۔ پھر شاکر حسین شاکر نے اصرار کیا تو میں نے ہاں کر دی گزشتہ جمعہ اس لائبریری کا افتتاح تھا۔ ڈاکٹر ارشد نے اپنے گھر میں ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی اور قمر رضا شہزاد جب قادرپورراں پہنچے تو حاضرین کھانے سے فارغ ہو چکے تھے اب صرف تقریروں کا مرحلہ تھا۔ ڈاکٹر ارشد کے بھاری بھرکم خطاب کے بعد میں نے صرف دو منٹ لگائے شاکر، رضی اور قمر رضا نے بھی کل پانچ چھ منٹ میں سارا مرحلہ طے کر لیا۔ باہر سڑک پر ایک دکان میں قائم لائبریری کا ربن کاٹ کرٹ کر اس عاجز نے افتتاح کر دیا۔ اقراء لائبریری میں تین چار لاکھ مالیت کی کتابیں ہیں اور ہمہ قسم کی ہیں۔
ابن صفی، مظہر کلیم، منٹو، کرشن چندر، اشفاق احمد، بانو آپا سمیت اردو ادب کا تقریباً ہر نامور ادیب اس لائبریری میں موجود تھا۔ تفاسیر سے لے کر احادیث کی کتابوں تک اور نثر سے شاعری تک۔ بہت بڑی نہ سہی مگر اپنے انتخاب کے حوالے سے یہ ایک شاندار لائبریری تھی۔ تقریباً ہر قاری کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے، خدا کرے کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہو اور دوسرے شہروں میں، گلی محلوں میں اس تہذیبی روایت کا دوبارہ احیاء ہو۔ ڈاکٹر ارشد جیسے بہت سے لوگ یہ کرنا چاہتے ہیں مگر بوجوہ کر نہیں پاتے۔ بقول سجاد جہانیہ میں لائبریرین کا بیٹا ہونے کے ناطے اور گھر میں ایک اچھی خاصی لائبریری کا مالک ہونے کی وجہ سے ابھی تک کتاب کی نرگسیت میں مبتلا ہوں حالانکہ دنیا ای بکس میں تبدیل ہو چکی ہے۔
ممکن ہے سجاد جہانیہ سچ کہتا ہو۔ مگر جب تک میری جنریشن کے لوگ باقی ہیں اس شوق اور خواہش پر نہ تو پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی لائبریریاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ کم از کم میری جینریشن کی زندگی میں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا