گاؤں، بچپن اور بارش : ایسے ہیں جیسے خواب کی باتیں
ڈاکٹرشا ہدصدیقی
آج چھٹی کا دن ہے۔ میں اپنے گھر کے ٹیرس پر ہیمنگوے کا ناول Old man and The Sea پڑھ رہا ہوں۔ یہ ناول میں بیسیوں بار پڑھ چکا ہوں لیکن ہربار اس کے پڑھنے کا مزہ جداہے۔ ناول کامرکزی کردار ایک مچھیرا ہے جس کانام سین تیاگو ہے۔ جوکسی زمانے میں مچھلیاں پکڑنے میں مہارت رکھتاتھا لیکن اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ مچھلیاں اُس کے جال میں نہیں آتیں۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والے مددگارلڑکے کواُس کے والدین نے مایوس ہوکر کسی اور کشتی پر کام دلوادیا ہے۔سین تیاگو ہمت نہیں ہارتا ایک دن وہ مچھلی کی تلاش میں گہرے سمندوں میں بہت دور نکل جاتاہے۔ جہاں ایک بہت بڑی مچھلی اس کی ڈوری کے ساتھ لگاکانٹا نگل لیتی ہے لیکن بوڑھے کے بازئوں میں وہ طاقت نہیں رہی کہ وہ مچھلی کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ مچھلی اور سین تیاگو کی جہدوجہد تین دنوں اور راتوں پرپھیل جاتی ہے۔ ایسے میں اسے اپنے ساتھ کام کرنے والے مددگارلڑکے کی یاد شدت سے آتی ہے وہ اپنے بیس بال کے دنوں کو یادکرتاہے اوراسے افریقہ کے سنہری ساحلوں پرکھیلتے ہوئے شیروں کی یادآتی ہے۔وہ بیتے ہوئے دنوں کوپھرسے دہراناچاہتاہے۔
میں ناول کی کہانی سے لطف اندوز ہورہاہوں اچانک آسمان پربادلوں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے اورساتھ ہی ہواکے جھکڑچلنا شروع ہوجاتے ہیں۔درختوں کی ٹہنیاں آندھی سے دہری ہونے لگتی ہیں اورپتے ہوامیں اڑنے لگے ہیں اور پھر تیز بارش شروع ہو جاتی ہے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے میںنے یہ منظرپہلے بھی دیکھا ہے۔ کب اور کہاں؟ شاید بہت پہلے اپنے گاؤں میں۔ کیسے دن تھے وہ بھی۔اب میںآنکھیں بندکرکے ان دنوں کا تصور کروں تولگتا ہے کسی اور جنم کاقصہ ہے اپنے گاؤں کی تصویر ذہن میںلاتا ہوں تو منیرنیازی کی نظم کی ابتدائی سطریں یادآجاتی ہیں ؎
چھوٹا سا اک گاؤں تھا جس میں
دیے تھے کم اور بہت اندھیرا
بہت شجر تھے تھوڑے گھر تھے
جن کو تھا دُوری نے گھیرا
بالکل ایسا ہی گاؤں تھا میراجہاں گھرکم تھے اور دیے ان سے بھی کم لیکن آسمان کے افق بہت بڑے تھے۔یاشاید مجھے ایسالگتا تھا کیونکہ اس وقت میری عمر پانچ برس کی ہوگی۔ گاؤں کے مکان زیادہ تر کچے تھے۔ گاؤں میں اس وقت بجلی نہیں پہنچی تھی۔ سرِ شام ہم لالٹینوں کے شیشے صاف کرتے۔لالٹینوں کا تیل چیک کرتے۔کبھی کبھار لالٹین کا شیشہ لو تیز ہونے کی وجہ سے تڑخ جاتا۔
گاؤں کے تصورسے میری بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں انہیںیادوں کے پردوں سے مجھے گاؤں کی بارشیںکی چھماچھم سنائی دیتی ہے۔ بارش کی آمد کاسندیسہ کالی گھٹائیں لاتیں‘ گاؤں کے افق تاافق پھیلے ہوئے وسیع آسماں پر سیاہ بادلوں کی چھاؤنی تن جاتی۔بارش سے پہلے اکثرتیز ہوا کے جھکڑ چلناشروع ہوجاتے۔ بیری اوردھریک کے درختوں کی ٹہنیاں ہواکے زورسے سرپٹخنے لگتیں۔ بیری کے درختوں سے پتے اور بیرٹپ ٹپ گرناشروع ہوتے۔ ہم بچے مختلف بیریوں کے درختوں کی طرف دوڑلگاتے اور بیروں سے اپنی جیبیں بھرلیتے۔گاؤں میںبارشوں کی اپنی اہمیت تھی ۔کسانوں کی فصلوں کادارومدار بارشوں پر تھا‘ان کی آنکھیں آسمان پربادلوں کوتلاش کرتیں اورہاتھ دعاؤں کے لیے بلندہوتے لیکن جب فصلیںتیارہونے کے قریب ہوتیں توبارش کی آمد ان کی آنکھوں میںتشویش کے ڈیرے جمالیتی۔ مجھے یوںلگتا جس طرح کہانیوں میں جادوگر کی جان ایک طوطے میںہوتی تھی اسی طرح میرے گاؤں کے کسانوں کی جان بارشوں میں تھی۔ کالی گھٹاؤں کودیکھتے ہی لوگ گھروں کی چھتوں پرچڑھ جاتے اور کچی چھتوں میں سوراخ بندکرناشروع کرتے۔ گھر کی چھتوں سے ہم اردگرد آندھیوں کی زدمیں آئے درختوں کو دیکھتے جن کی ٹہنیوں کے ساتھ کپڑوں کی لیریں لٹک رہی ہوتیں‘ تیزہواسے یہ لیریں بھی جھولتی جاتیں‘ گاؤں کے درختوں میںکانٹوں کے ساتھ لٹکی ہوئی یہ لیریں ایک عام سا منظر تھا۔
پھردیکھتے ہی دیکھتے آسمان تاریک ہوجاتا اور زور کامینہ برسناشروع ہوجاتا۔ ایسے میں صحن میں بنے ہوئے لکڑیوں کے چولہے کو ڈھانپ دیا جاتا۔ اسی طرح صحن میں بنی تندوری کو بھی کسی چیز سے ڈھک دیتے۔ مرغیوں، بکریوں اور دوسرے جانوروں کو بارش سے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جاتا البتہ اکثر ایندھن میں استعمال ہونے والی لکڑیاں برش میں گیلی ہو جاتیں‘ ایسے میںبارش میں نہانا ہم بچوں کادل پسند مشغلہ ہوتا‘ گھروں کی چھتوں کے پرنالوں سے پانی زوروشور سے بہہ رہاہوتا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھرکے پرنالے کے نیچے زمین پرایک چوڑا پتھررکھا ہوتا تاکہ پانی پتھرپرگرے اور زمین پر گڑھا نہ پڑے۔ یہ پتھر تیز اورمسلسل پانی پڑنے سے درمیان سے ٹوٹ گیا تھا۔ برسوں بعد جب میںنے شکیب جلالی کایہ شعر پڑھا تومجھے سمجھنے میںذرا مشکل نہ ہوئی۔
کیا کہوں دیدئہ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں پانی کی جہاں دھار گرے
ہمارے گھر کی قریبی مسجد کے صحن میں ایک گڑھا تھا جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا اور پھر وہیں سے لوگ برتنوں میں پانی بھر کر لے جاتے۔ دن کی بارشوں کا تجربہ ان بارشوں سے مختلف ہوتا جو رات کو ہوتیں۔ ہم رات کو صحن میں سو رہے ہوتے تو بارش ہمیں گہری نیند سے جگا دیتی۔ ہم بچوں کو والد صاحب اٹھا کر کمر ے میں لے جاتے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا جہاں چار چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ صحن کی چارپائیوں کو دیواروں کے ساتھ کھڑاکر دیا جاتا۔کچھ ہی دیر میں چھت دو تین جگہوں سے ٹپکنا شروع کر دیتی۔ ٹپکنے والی جگہوںکے عین نیچے فرش پر برتن رکھ دیے جاتے۔ برتن بھر جانے کے بعد انہیں خالی کر کے وہیں رکھ دیا جاتا۔
بعض اوقات تیز بارش کے ہمراہ اولے پڑنا شروع ہو جاتے اور ہمارے صحن میں جیسے سفید چادر بچھ جاتی۔ ہم ننگے پاؤں ان اولوں پرچلتے اپنی مٹھیوں میں اولے اکٹھے کرتے۔ ٹھنڈے یخ اولوں سے ہماری ہتھیلیاں سرخ ہو جاتیں لیکن اُدھڑے بٹنوں والے گریبانوں، ننگے پاؤں اور سرخ ہتھیلیوں کے باوجود ہمیں سردی محسوس نہ ہوتی۔ کوئی غیر مرئی طاقت تھی‘ کوئی ناقابلِ بیان جذبہ تھا جس نے ہمیں اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
کبھی کبھی بارش شروع ہوتی توکئی دن جاری رہتی۔ کئی دن جاری رہنے والی بارش کو ہم ”جھڑی‘‘ کہتے۔ ہمارے گاؤں کے بزرگوں کاکہنا تھا کہ جمعرات کی جھڑی کم ازکم سات دن تک چلتی ہے۔ بارشوں میں مختلف گھروں میں برسات کی مناسبت سے حلوہ بنایاجاتا۔ پکوڑے بنتے اور ”مسی‘‘ روٹی پکائی جاتی جو اس زمانے میں گاؤں کاپیزا ہوتا۔بارش دن کی ہو یا رات کی۔ بارش رُکنے کے بعد کے منظر مختلف ہوتے۔ تیزبارش کے بعد گاؤں کی گلیوں میں پانی کھڑا ہوجاتا۔ چلنے کے لیے مناسب فاصلوں پرپتھررکھ دیے جاتے جن پرقدم رکھ کر چلنا ہوتا۔ ہم بچوں کو پتھروں کے درمیان فاصلہ زیادہ لگتا۔ ہماری کوشش ہوتی کہ دیواروں کے ساتھ ساتھ چلیں کیونکہ وہاں پانی کم ہوتا۔
بارشوں کے بعد کھلے آسمان پرسات رنگوں کی قوسِ قزح پھیل جاتی۔ گاؤں میں ہم قوسِ قزح کوبڑھیاکی پینگ(جھولا)کہتے تھے۔ ہم قوسِ قزح کے ان رنگوں کوپکڑنے کے لیے کھیتوں سے ہوتے دور جنگل کی طرف ننگے پاؤں بھاگتے۔ دورسے جو قوسِ قزح جھکی ہوئی نظرآتی جوں جوں اس کی طرف بھاگتے وہ اوپر اٹھتی چلی جاتی۔ ہمارے قدموں کی رفتار اور تیز ہو جاتی۔ ہمارے سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتے لیکن ہماری آنکھوں کے آئینوں میں قوسِ قزح کے رنگ ماند نہ پڑتے۔ بالکل Old Man and the Seaکے بوڑھے مچھیرے سین تیاگو کی طرح جس کا جذبہ کسی افتاد سے ہار نہیں مانتا اور جس کے خواب اس کی کشتی کے پتوار بن جاتے ہیں۔
کی