تشدد اور پاکستانی بیانیے کا رشتہ
(نقیب زیب کاکڑ)
جب بھی کوئی ایسا پر تشدد واقعہ رونما ہوتا ہے جس کا تعلق مذہبی عقائد سے جوڑا جاتا ہے، تو پاکستان میں رہنے والوں کو دو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے آپ کو اعلیٰ درجے کےمسلمان ثابت کرنے پر مجبورجاتےہیں۔ دوسرا ان کو ایسے مسائل پر بات کرنے کے لیے محتاط رویے کا انتخاب بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان دو محرکات میں سے بعض اوقات ایک کی قربانی دینا پڑ جاتی ہے۔ یہاں چونکہ پاکستانی قومیت اور مذہب خصوصاً اسلام کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اگر آپ کسی ایک پر ناقدانہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو دوسرا پہلو بھی تنقید کی زد میں آجاتا ہے۔ مثلاﹰ ریاست نے مذہب کے بارے بعض جگہوں پر سخت رویے کا اظہار کیا ہے ، کیونکہ ریاست اپنی نظریاتی سرحدوں کو مذہب سے تحفظ دلاتی ہے۔ اس لیے مذہب سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے ریاست بعض ایسے قوانین بھی رائج کر لیتی ہے جن کا اکثر اوقات مذہب سے تعلق ہوتا بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں چھوٹی اقوام کی بغاوت پر پاکستان ریاستی سرحدوں کے محافظین نے ہر مرتبہ مذہب کے پلیٹ فارم سے وار کیا ہے، اگر بلوچ بغاوت کی بات جائے تو بھی لوگوں کو اقبال کا قومی نظریہ پڑھایا یا اس کا پرچار کیا کہ جناب آپ سب تو مسلمان قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقسیم مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال بھی اسلامی قومیت کی سرحدیں وسیع بتاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقبال ٹھیک کہتے ہیں۔ اگر ہم پشتون نیشنلزم کی بات کریں جو کبھی مزاحمتی سیاست پر عمل پیرا تھی کو بھی اسلامینیشنلزم اور ریاستی نیشنلزم کے پلیٹ فارم سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔
یہاں یہ سوال بھی ہوسکتا ہے کہ پشتون نیشنلزم کا جھکاؤ افغانستان کی طرف تھا اور افغانستان ایک مسلمان ملک تھا۔ واضح رہے اس وقت پشتون قوم پرستوں کو کافر روس کے ایجنٹس کہا گیا اور افغانستان کو روسیوں کا گھڑ بتایا جاتاتھا۔ اس بیانیے سے پاکستان کی افغانستان میں مداخلت بھی آسان ہوگئی۔ چونکہ بیانیہ مذہبی تھا اس لیے دونوں شکار بہ یک وقت حاصل کرنا آسان ہوگئے۔
یہان یہ وضاحت ضروری ہےکہ اسلامی تعلیمات کا اپنے مقصد کے استعمال صرف پاکستاں تک محدود نہ رہا۔ بلکہ وہ سیاسی پارٹیاں جو اس مشن میں ریاست کا ہم پلہ تھیں وہ باقاعدہ کیڈر بھرتی کرنے لگے۔ پشتون علاقوں میں اب ان کے ٹریننگ سینٹرز کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ سینٹر زیادہ تر جماعت اسلامی کے تھے۔ جماعت اسلامی کے پاس تعلیم یافتہ تشدد پسندوں کی اکثریت تھی وہ نوجوان کو بہ آسانی اس بات پر مائل کرسکتے تھے کہ افغانستان میں پشتونوں کا قتل فرض ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کو افغانستان بھیجنے والوں میں اکثریت ان پشتون مذہبی افراد کی تھی جو مختلف صورتوں میں پاکستان کے تنخواہ دار تھے۔
جماعتی اسلامی کے حامی اب بھی پشتون دشمنی کے نطریے پر عمل پیرا ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بلوچوں میں ایسی انٹی بلوچی رویہ، رمضان مینگل جیسوں سے (اس کو پیسے اور اسلحے کے معیارپر پر آئیڈیل پیش کرکے) دبانے کی کوشش کی گئی جو بعد میں ان کے اپنے گلے پڑ گئی۔ یا پھر شاید وہ ماحول بھی مصنوعی طور پر تیار کیا گیا تاکہ شیعہ قتال پر تنقید کرنے والوں کے منہ بند کراسکے۔
موجودہ دور میں مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو یہ پیچیدگی (کنفیوژن ) سمجھ آنے لگی ہے۔ قومیت یا قوم پرستی کے بیانیے خودساختہ نہیں ہیں۔ یہ منطقی بنیادوں پر وجود رکھتے ہیں۔ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی قوم پرست جماعتیں اس سیاست سے کنارہ کش ہو سکتی ہیں۔ کسی کیپٹلسٹ ریاست میں حقوق سے دستبرداری ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسی ریاستوں میں عوام محرومی کی تمام حدوں کو پار کرچکے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے پاس سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی کوئی آپشن وجود نہیں رکھتا۔
یہاں کیپٹلزم عوامی استحصال کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ایسے میں پاکستان ایسے کنفیوز بیانیے سے عوام کو بہلا نہیں سکتا۔ قومی بیانیے پر زور دینے کے بجائے اگر فلاح پر زور دیا جائے تو اور نہیں ایک کل تو سیدھی ہوجائے گی۔ کم از کم نظریاتی بنیادوں پر کوئی کسی کو نشانہ نہیں بنا سکے گا اور نہ ہی ریاست ایسی سوچ کے ترویج میں محرک ثابت ہوسکے گی۔