انتہا پسندی سے ملائیت تک
از، ملک تنویر احمد
چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے، بلکہ اس فکری دشمن کی شناخت کرنا چاہیے جس سے اصل میں ہمارا سابقہ ہے اور وہ دشمن وہی ہے جو روشن خیالی کی جگہ فکری تنگ نظری اور رواداری کی بجائے مختلف عصبیتوں کی پرورش کرتا ہے اور استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے(سید سبط حسن)۔
پاکستان کے بائیں بازو کے نامور و معروف دانش ور و مفکر سید سبط حسن کے ان کلمات سے جب ضمیر شیخ پاکستان میں روشن خیال فکر کی زوال پذیری اور متشدد افکار و رجحانات کی فروغ پذیری کا مقدمہ اٹھاتے ہیں تو ملک کے ماضی کی ایک ایک پرت اتار کر ہمیں وہ آئینہ دکھاتے ہیں جس میں ایک روشن خیال معاشرہ کس طرح بتدریج گھٹن زدہ سوچ اور تشدد آمیز رویوں کا کھائی میں اوندھا جا پڑا۔
ضمیر شیخ کراچی میں مقیم ایک کہنہ مشق صحافی ہیں جنہیں دشت صحافت کی خا ک چھانتے چھانتے تو عرصہ دراز ہو چلا لیکن جب ان کی تازہ ترین تصنیف منصہ شہود پر آئی تو اس نے ان کی انسان دوستی، سماجی و معاشی مساوات اور آزادی فکر و رائے کے زریں اصولوں پر یقین و ایقان کے دریچے بھی وا کر دیے۔
ضمیر شیخ کی تصنیف ’’روشن خیالی سے ملائیت تک‘‘ انسانی فکر کی ٹکسال میں ڈھل کر منظر عام پر آنے والی کتاب ہے جس کے مندرجات سے اختلاف کا حق ہر صاحب الرائے کو حاصل ہے۔ صاحبِ کتاب نے کتاب میں اپنائے گئے موقف کو حرف آخر قرار دے کر اس پر الہامی غلاف چڑھانے کی کوشش نہیں اور نہ ہی مورخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
ضمیر شیخ کے مطابق ایک سوچ و فکر ذہن رکھنے والے قلم کار کی حیثیت سے یہ کتاب پاکستان کے طرز سیاست کے دو متوازی نظریوں کی روداد قلم بند کرنے کی ایک کاوش ہے۔ ضمیر شیخ جب پاکستان میں روشن خیال فکر کی موت اور تشدد آمیز رویوں کے فروغ کے بارے میں لکھتے ہیں تو بلا کم و کاست ان قوتوں کو عیاں کرتے ہیں جو روز اول سے اس ملک میں ایک روشن خیال، لبرل اور جمہوری معاشرے کے درپے ہیں۔
ضمیر شیخ کی تصنیف ایک ایسے معاشرے کے ماضی سے پردہ سِرکاتی ہے جہاں کبھی رواداری، برداشت، روشن خیالی اور جمہوریت پسندی نے جڑیں پکڑنا ہی شروع کی تھیں اور ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی روشن فکر اور جمہوری پسندی کے اعلیٰ و ارفع آدرشوں سے مستفیض ہونے کے لیے اڑان بھرنے کو ہی تھا کہ گھٹن، عدم برداشت اور آمرانہ سوچ کی قوتوں نے کچھ یوں شب خون مارا ہے کہ ستر برس گزرنے کے بعد کبھی کبھار روشنی کی کچھ کرنیں پھوٹ کر اس وقت دم توڑ دیتی ہیں جب تاریکی کے منھ زور طوفان انہیں اپنے حصار میں لے کر گھٹا ٹوپ اندھیروں کے ریلوں کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔
پچاس کی دھائی میں جمہوریت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ اور پس پردہ قوتوں نے مذہب کے مقدس نام کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر کے کس طرح حکومتوں کو رخصت کیا یہ تصنیف اس پر شہادت دیتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی زیر کمان جمہوری قوتوں کی واپسی اور ایک روشن خیال و جمہوری معاشرے کا قیام شاید بھٹو صاحب کے اپنے ہاتھوں ہی انجام کو پہنچا جب وہ مذہبی قوتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے اقدامات کر بیٹھے جس نے بھٹو صاحب کے تشخص کو ہی مجروح نہ کیا بلکہ آخر کار ان کے اقتدار کو بھی لے ڈوبیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت کو یہ تصنیف ہر لبرل و روشن خیال سوچ کی طرح ’’ام الامراض‘‘ قرار دیتی ہے جب تشدد، جنونیت، فکری گھٹن، مذہبی انتہا پسندی، مسلکی فرقہ واریت نے خون آشام بلاؤں کا روپ دھار کر اس ملک کو ایسے آتش کدے میں بدل کر رکھ دیا کہ جس کی آگ بجھ کے ہی نہیں دے پا رہی۔
ضمیر شیخ مشرف آمریت کے بھی سخت ناقد ہیں جس نے بظاہر تو روشن خیالی و اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا لیکن درپردہ انہی قوتوں کے سرپرست اور پروردہ تھے جو اس ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کی آلہ کار بنی رہی ہیں۔
پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نوا ز شریف کے جمہوری ادوار پر بھی شیخ صاحب ناقدانہ چوٹ کیے بغیر نہ رہ سکے جب وہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جنر ل نصیر اللہ بابر کی افغانستان کے طالبان کی پشت پناہی کے بارے میں رقم طراز ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے ادوار میں انتہا پسندوں قوتوں سے چھیڑ خانی کیے بغیر انہیں رام کرنے کے حربوں کے بارے میں بھی مصنف لکھتے ہیں اور خاص کر 2013 کے انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ پنجاب میں نواز لیگی وزراء کی ملاقاتیں بھی زیر بحث لائی گئی ہیں۔
پاکستان میں جمہوری و روشن خیال افکار کی ترویج و اشاعت ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہا ہے کیونکہ ان افکار کی مخالف قوتیں فتووؤں اور بندوقوں سے مکمل طور پر لیس ہیں جب کہ روشن خیال و جمہوری سوچ کا حامل فرد فقط قلم کی طاقت سے اپنے نظریات کو پھیلانے کا کام انجام دیتا ہے۔
ضمیر شخص بھی قلم کے قبیلے کا فرد ہے جس نے ماضی کے واقعات کو قلمبند کر کے اس ملک کے اہل علم و دانش کے تدبر و علمیت پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے۔ آج کے پاکستان میں یہ کتاب اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس ملک میں جمہوریت، رروشن فکر اور رواداری و برداشت کا کلچر مخالف قوتوں کے حملوں سے جانکنی کی کیفیت میں ہے۔ جمہوریت کا مقدمہ بلا شبہ اس لیے کمزور ہے کہ یہاں جمہوریت کا راگ الاپنے والی جماعتوں نے اپنے انداز سیاست نے اسے کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تو اس کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے تابڑ توڑ حملے بھی ہوں تو پھر جمہوریت کے نحیف و نزار ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
روشن خیال فکر بھی چار سو سے حملوں کی زد میں ہے، تاریکی کی قوتیں عقیدوں میں تنوع اور رائے میں اختلاف پر فریق مخالف کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کمربستہ ہیں۔ ریاست نے جہاں اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتی تو دوسری جانب اہل مذہب نے اپنے گروہی و مسلکی مفادات کی آبیاری کے لیے اس ملک میں انتشار کی ایسی بلاؤں کو دعوت دے رکھی ہے جن کے جبڑوں میں معاشرہ کا نرخا ہے۔ رواداری و برداشت کی ثقافت ایک نایاب جنس بنتی جا رہی ہے جس سے اہل سیاست، اہل مذہب، اہل علم و دانش سب ہی عاری ہیں۔
ایک تعصبات بھرے معاشرے میں سچائی جھوٹ لگتی ہے اور جھوٹ سچائی کا لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ ایک جمہوری، روشن خیال اور روادار معاشرے کا قیام ضمیر شیخ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کا خواب ہے۔ اس دھرتی پر لاکھوں کروڑوں آنکھیں اس خواب کی روشن تعبیر کے انتظار میں بند ہو گئیں ۔خد ا کرے ضمیر شیخ اور ہم اپنی زندگیوں میں ہی اس خواب کو حقیقت بنتا دیکھ لیں۔