تہذیب کی آواز کا تعاقب
از، ایچ بی بلوچ
طویل اور دراز سفر کے راستے ہوائیں، پانی اور سنگیت کی صدا ہی طے کر سکتی ہے۔ پہاڑوں کے سنگین سینوں اور دلوں کی خشک دھرتی کو معنی عطا کرنا ایک لطیف احساس کا شگون ہے۔ ہمیں زندہ رکھنے کے سرگرمی میں ان بے بہا نعمتوں سے ہمارا دامن کبھی خالی نہیں رہا۔ دریا کی صورت فطرت کی ساری شفقت اور زرخیزی ہماری روحوں میں اتر گئی۔ اگر کبھی شفق کے وسیع دامن سے کوئی پر نورِ صدا ٹکرائی تو ستاروں کی روشنی نے ہمارے مقدر کے تاریک حصے میں لا تعداد جگنووں بھر دیے۔ سندھو کی صورت ہمیں تہذیب اور کنور رام کی صورت میں ہمیں آواز ملی۔
ان دونوں صورتوں کو مٹانے کی ضرورت اس لیے پیش آتی رہی ہے کہ شدت پسند کسی بھی نظریے کے ہوں انسانیت کو نہ صرف تہذیبی مفلسی کا شکار سمجھنا اور بنانا چاہتے ہیں، بل کہ وہ ازل سے بیری ہیں خوشی، امن اور سکون کے۔ دہشت ان کے حیات کا مِحور، بغض اور تعصب ان کی زندگی کا خون ہے۔
رک اسٹیشن پر گولی کی بازگشت کوئی پہلی یا پھر آخری نا خوش گوار آواز نہیں تھی، لیکن یہ جبر کا وہ سکہ ہے جو ہمارے خاموش ادوار میں چلتا رہتا ہے۔
کنور رام کی مسرور کن اور پُر سِحر آواز تو ایک سبب تھی، وہ تو اس سلسلے کو مٹانا چاہتے تھے جو غریب لاچار اور مفلس لوگوں کو اپنی ترنم کی ساری داد اور اپنے سایے کی رحمت نقدی کی صورت بانٹ دیتا ہے۔
بھگت کنور رام کا جنم 13 اپریل 1885ع کو گھوٹکی میں ہوئے وہ سماج کا منفرد اور متحرک کردار تھے۔ ان کا ٹھکانہ انسانیت تھی اور اسی درد اور محبت نے ان کے راگ اور تال میں مٹھاس اور گداز بھر دیا۔ ان کی کلا اپنی شناخت کی وجہ سے ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ایک امن پسند صوفی، روا داری کے علم بردار سماج سیوک تھے۔
جسے 01 نومبر 1939ع کو بھرچونڈی شریف کے گدی نشین عبدالحق عرف میاں مٹھو کے آبا و اجداد کی ایماء پر مذہبی انتہاء پسندوں کے ہاتھوں قتل کروا دیا گیا۔
ہر زمانے میں ایک ایسا واقعہ یا ایسا دور ضرور آتا ہے، جب صدیوں تک اپنی مسخ شدہ ذات کے ساتھ اس کی حدود میں نئی تاریخ لکھنے اور خوابوں کے نئے راستے بنانے کے لیے تاریکیوں میں چاند ہمارا رہ نما بن جاتا ہے۔ ہماری نیند ہمیشہ ایک آتش فشاں توڑتا ہے۔ ہمیں جون آف آرک کی طرح فرشتوں کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں:
تمھیں اپنی زندگی بدلنی ہو گی!
تمھیں اپنی زندگی بدلنی ہو گی!
لیکن طاقت کے پاس انتہائی جواز دہشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ڈر طاقت کا مِحور ہوتا ہے۔ یہ زندگی کا سر بستہ راز ہے کہ ہر ہتھیار عدم تحفظ کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن طاقت تو عوام کے پاس بھی ہوتی ہے صرف طاقت کا احساس نہیں ہوتا۔ نپولین اس لیے کہتا تھے:
‘اگر نظام میں آپکو کچھ قوانین پسند نہیں تو اسی نظام میں رہ کر وہاں تک پہنچو جہاں سے قوانین بدلے جاتے ہیں۔’
قوانین کو بدلنے کے لیے دوسرا وہ سیاہ دور جو ہم نے اس تہذیب پر آمریت کی صورت میں دیکھا اور محسوس کیا۔ جو در اصل سکون بخش پناہ گاہوں، ہمارے انسانی اقدار اور موہن جو دڑو کی لا محدود، سماجی اور ثقافتی روایات پر ایک ممنوع واردات تھی۔ جیسے ہمارے پورے خطے نے ایک مکروہ درد کی طرح جھیلا اور جھیلتا رہتا ہے، وہ غیر انسانی بربریت اور شدید سیاسی گُھٹن جس نے زندگی کی ہر سطح پر اپنی خراشیں چھوڑیں، اور جسے بھرپور عوامی ردّ عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ضیاء دور کی مذہبی اجارہ داری میں سندھ ادبی بورڈ کی طرف سے اشاعتی سلسلے میں استعمال ہونے والی موہن جو دڑو کی بیل کی شبیہ والی ایک مہر والے لوگو کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ جسے علمی ادبی شخصیات اور دانش وروں نے متفقہ طور پر ایک ادبی ورثے کی شناخت بنایا تھا۔ اسے ایک آمرانہ گدی نشین کے حکم پر اس عجیب جواز پر ہٹانے کی کوشش کی گئی چوں کہ بیل مذہبی تقدس کی علامت ہے اس لیے اس مُہر کا ادبی اشاعتی سلسلے میں استعمال نا مناسب ہے۔ پہلے سے موجود عوامی اضطرابی کیفیت اور اس کے احتجاجی ردّ عمل کے طور سرکاری املاک عمارتوں اور پلوں کی توڑ پھوڑ میں ایک علمی ادبی احتجاج بھی شامل ہو چکا تھا۔ جس کے بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی۔
سندھ ادبی بورڈ کے نام سے یہ تحقیقی اور تخلیقی ادارہ 1940ع میں ‘سندھ ادبی صلاح کار بورڈ’ کی شناخت کے ساتھ قائم ہوا۔ علمی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ بہ تدریج انتظامی تبدیلیوں کے سلسلے سے گزرتے ہوئے 1951ع میں سندھ گورنمنٹ نے ایک منظم ادارے کی صورت میں لانے کے لیے “سندھ ادبی بورڈ” کے تحت رجسٹرڈ کیا۔ یہ ادارہ بیتی کئی دھائیوں سے اپنے رجسٹرڈ لوگو کے ساتھ تین ادبی رسائل “مہران”، “سرتیوں” اور “گل پھل” کے ساتھ تقریباً 500 کتب شائع کر چکا ہے۔ جو اس کے تاریخ اور تہذیبی پس منظر میں علمی زرخیزی کے آمین ہیں۔
سندھ ادبی بورڈ وہ ادارہ ہے جسے اس کی (سبز) دیواروں کے اندر کئی دھائیوں سے سندھ کے با شعور عالم اپنے خیالوں کی جلا بخشتے رہے ہیں۔
یہ ضیاء کی آمریت کا کالا دور نہیں، بل کہ ہم اس عوامی حکومت کے دور میں جی رہے ہیں جس نے اس آمرانہ دور کے خلاف شدید مزاحمت کی۔ لیکن مجموعی طور دانش مندانہ رائے کے بغیر ایک ایسی علامت میں مداخلت کی گئی ہے جو تاریخی طور پر اس تہذیب کی پیداوار ذرائع معاش اور خوش حالی کا تعارف تھا۔ جسے قطعی طور پر مذہبی حوالے سے محسوس کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
ادباء کی نئی نسل کو ہمیشہ اپنے ماضی کے معماروں پر تسلی اعتبار اور بھروسا رہا ہے۔ وہ اس سطحی اور غیر متوقُّع حکم سے نالاں ہیں کہ حال ہی میں دوبارہ سندھ ادبی بورڈ سے اشاعت شدہ کتب سے وہ تاریخی لوگو مذہبی کتب کی اشاعت کے جواز پر ہٹا کر سندھ کے نقشے کا لوگو رکھ دیا گیا ہے۔ تو مجھے اچانک سوچ آ رہی ہے یہ گدی نشین ہر جگہ کیسے پیدا ہو جاتے ہیں اور کنور رام کی آواز ہر وقت نشانے پر کیوں رہتی ہے!