ووٹ کو عزت دو، فرد کو عزت دو ہی تو ہے
از، نصیر احمد
دوبارہ ووٹ کو عزت دو۔ ٹھیک بات ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے۔
لیکن اصل مسئلہ تو فرد کی عزت کا ہے۔ فرد کی عزت ہو گی تو ووٹ کی بھی ہو گی۔
اس بات سے نواز شریف سمیت سارے سیاست دان آنکھیں چرانے لگتے ہیں۔ ابلۂِ عظیم کی عظیم حماقتوں کے با وُجود سیاست دانوں کی بات نہیں بن پا رہی کہ لوگوں کو پتا ہے کہ سیاست دان ووٹ کے نام پر طاقت اپنے ہی جتھے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔
پھر سیاست دان بھروسا بھی بار بار شکست کر چکے ہیں۔ انحطاط اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں، وکلاء، علَماء، صوفیاء، صحافیوں اور دیگر پیشوں کے اکثر لیڈروں کی طاقت کی اساس فرد کی بربادی پر استوار ہے۔
اور یہ بربادی دو دھاری ہے۔ بَہ طور فرد اپنی بربادی کہ دولت، شہرت اور طاقت کے حصول کے لیے اپنی تفہیم اور اپنے اصولوں (اگر بن جائیں کہ اپنی تفہیم اور اپنے اصول نہیں بن پاتے، فرد بَہ طور ایک با شعور وجود تو اسی مرحلے پر ختم ہو جاتا ہے) کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ دولت شہرت اور طاقت کے حصول کے لیے دوسرے افرد کی آزادیاں ختم کرنی پڑتی ہیں اور آزادیوں کے بغیر اپنی تفہیم بن نہیں پاتی اور اگر بن بھی جائے کھٹل ہی رہتی ہے۔
فرد کی یہ دو دھاری بربادی معاشرے میں بہت عام ہے۔ جس کی وجہ سے ایک سانچا سا بن گیا ہے؛ اور اس سانچے میں جو بھی فٹ ہو جاتا ہے، اگر پتھر کا بن جائے تو خوش قسمتی سمجھیں ورنہ زیادہ تر آگے بڑھنے کی بَہ جائے پیچھے لوٹنے کا رواج ہے۔
ہوائی جہاز میں بیٹھا ہوا آدمی سلطان صلاح االدین کے معرکوں میں شامل ہو رہا ہوتا ہے؛ وہ معر کے جو وہ دیکھ نہیں سکتا اور جن میں شامل بھی نہیں ہو سکتا (فلمیں ہیں اور ایسی عینکیں بھی ہیں جو پہن کر لگتا ہے کہ آپ کارزار میں محو و غائب ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں۔ بس لگتا ہے اور بس لگتا ہے سے حقائق میں ایسی تبدیلی تو ہوتی نہیں جس سے کچھ تفہیم جھلکتی ہو)۔
ایک بات جو ہو نہیں سکتی، اس پر کامل یقین رکھنے سے تو نہیں ہو جاتی۔ اپنی دولت اور طاقت کی اساس کو چیلنج کرنے کی بہت سارے جتھوں میں نہ ہمت ہے اور نہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔
سیاست دان ووٹ کے نام پر ایک جگہ پر پہنچ جاتے ہیں لیکن جب وہاں پہنچتے ہیں تو ووٹ دینے والے کی عزت فراموش کر دیتے ہیں۔ ساری کام یابی چند خوشامدیوں کے جھرمٹ میں اپنی طلِسماتی شخصیت کا سِحَر بن جاتی ہے اور ووٹ اور ووٹر دونوں اتنے اہم نہیں رہ جاتے۔ کسی قانون سازی، کسی پالیسی بنانے میں شرکت نہیں کر پاتے۔
ہم آمریت یا آمروں کی حمایت نہیں کر رہے کہ ووٹ کے متمنی سیاست دان ہر قسم کے آمروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ (یہ بھی ایک تفہیم ہے جس کو عمران خان شاید غلط ثابت کر چکے ہیں)۔ لیکن بات صرف ووٹ کی تمنا کی نہیں ہے، سیاست دانوں کے ذہنوں میں بیرون کے ماؤ، ہٹلر، خمینی جیسے آمر ہی ہوتے ہیں۔
ابھی تک تو قائد اعظم اور بے نظیر کے علاوہ کوئی ایسا تھوڑا کام یاب سیاست دان نہیں سامنے آیا جس کے آدرشوں کا جمہوریت سے تھوڑا بہت خلوص کا رشتہ ہو۔
آمریت کے سلسلے میں موجود آمریت نئی آمریت قائم کرنے کے امید واروں سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ پرانی آمریت تبھی جاتی ہے جب وہ بالکل بے کار ہو جاتی ہے، یا پھر نئی آمریت فریبِ عظیم دینے میں کام یاب ہو جائے؛ اور آمریت کی اساس فرد کی بربادی ہی ہوتی ہے۔
جمہوری بناوٹیں کرنے والے ایسی گفتگو بھی نہیں کرتے جس سے بنیادی سٹرکچرز میں تبدیلی آئے۔ جمہوری دنیا کے تجربے کے با وُجود ایسے ڈسکورس سے گریز کرتے ہیں جس سے فرد کی عزت اور اہمیت میں اضافہ ہے۔ ہر کسی کو بس جیالا، مجاہد، دیوانہ، پٹواری اور یوتھیا ہی چاہیے ہوتا ہے۔ اور حکومت ملتی ہے تو بھی اپنی تعلیمی پالیسیوں میں جمہوری خیالات اور شہری تربیت، ضمیر و خرد، آزادی اور انفرادیت کا ذکر کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں۔
اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بھی گفتگو کو وہیں تک محدود رکھتے ہیں جہاں تک وہ ان کی اقتدار میں واپسی کے لیے مدد گار ہو۔
ٹھوس قسم کی تبدیلی کے لیے جمہوری تصورات، جمہوری اصولوں، جمہوری آزادیوں، جمہوری قوانین، جمہوری اخلاقیات اور جمہوری اداروں سے ایک مخلصانہ وابستگی کی ضرورت ہے۔
اور اس کے لیے معاشرے میں رائج ان تمام تصورات اور اعمال کو ایک فعال چیلنج کرنے کی ضرورت ہے جو فرد کو برباد کرتے ہیں۔
اگر صنفی مساوات کے خواہاں ہیں اور والہانہ عقیدت سے یہ گا رہے ہیں کہ
جے تُو نظر مہر دی بھالیں، چڑھ چوبارے سُتّی آں
کہے حسین فقیر سائیں دا، در تیرے دی کتی آں
ایسے میں صنفی مساوات تو بس ایک بات سی بن جاتی ہے جس کے بارے میں آپ کچھ سنجیدہ نہیں ہیں۔ اور کسی کے در کی اگر کتی ہو گئی، فردیت تو برباد ہو گئی ناں۔
اور فرد کو برباد کرتے خیالات سے والہانہ عقیدت افراد کو برباد ہی تو کرتی ہے۔
بَہ ہر حال، امید تو سیاست دانوں سے ہی کی جا سکتی ہے۔ شاید کبھی جمہوری آزادی کا کچھ فروغ ہو تو سیاست دان جن تصورات اور اعمال پر حقیقی معاشرہ استوار ہے اس کی بنیادوں میں بدی دیکھ پائیں اور تھوڑی سی عوامی حمایت کے سنگ اس کو چیلنج کرنے کی کبھی ہمت کر ہی لیں۔
بہ ہر حال، فرد کو ایک فرد دشمن جنوبی ایشیائی فریبِ عظیم سے مُکتی دلانا بہت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے فرد کی عزت ضروری ہے۔ اس بات کے ساتھ ووٹ کی عزت اور افراد کے دیگر شہری، انفرادی، تخلیقی، ذکاوت، ذہانت، فطانت کے امکانات وابستہ ہیں۔
2
بنیادی طور پر پاکستان میں کاملیت پرستی جیت گئی ہے۔ اور کاملیت پرستی کی ہر جیت میں عوام کی ہار ہی ہوتی ہے۔ اور عوام ہار رہے ہیں لیکن کاملیت پرستی کی کسی نہ کسی شکل کے علاوہ کچھ اور ہے بھی نہیں جس سے عوام کچھ امید باندھ سکیں۔
جمہوریت سے اخلاص ایک حل ہے لیکن پڑھے لکھے لوگوں میں جمہوریت سے اخلاص ابھی شاید ممکن نہیں ہے۔ جمہوریت کی بات تو ہوتی رہتی ہے لیکن درون میں کاملیت پرستی کے جنات اتنے طاقت ور ہیں کہ تفہیم کی روشنی ایک دو پھونکوں میں ہی بجھا دیتے ہیں۔ اور جمہوریت بھی ایک اوزار بن جاتی ہے جس کے ذریعے زندگی کے ہر اک زاویے اور ہر ایک گوشے پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جمہوری پارٹیوں میں یہ کوشش کام یاب ہو جاتی ہے۔ اب شریف گھرانے کی مفاد پرستی اور اصول فراموشی کا کسے نہیں پتا لیکن ن لیگ کے لیڈر شریف ہی ہیں۔
دوسری پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔
میڈیا میں بھی یہی کچھ ہے۔ ٹی وی چینلز نے سیاست میں کیا بہتری لانی تھی بل کہ زندگی میں حقائق، اخلاقیات اور شہریت کا معیار ہی پست کیا ہے۔ اور جمہوریت کو ناکام بنانے میں غیر جمہوری قوتوں کی پوری مدد کی ہے۔ لیکن وہی نام، وہی چہرے جنھوں نے یہ سب کیا ہے موجود ہیں اور روزانہ اپنے ہی قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔
این جی اوز نے بھی جو مسئلہ اٹھایا ہے، اس سے وابستہ جرائم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اور سالوں کی سرمایہ کاری کے با وُجود با شعور شہریوں کی تعداد میں اضافہ بھی واضح نہیں ہے۔
اور دانش ور طبقہ تو ہے ہی نہیں۔ بس دوستوں کے حلقے ہیں۔ ایک دوسرے کی تعریفیں ہوتی رہتی ہیں۔ اور سنسنی خیزی اور سطحی جذباتیت کا اشفاقی فارمولا چلتا رہتا ہے یا منٹو کا نسخہ مسلسل دہراتے رہتے ہیں۔
کارپوریٹ تو بس پیسوں کی ہیں۔ ایک انتہائی خود غرض قسم کی انفرادیت کی تھوڑی بہت ترویج ہو گئی ہے، لیکن یہ انفرادیت بھی گروہ کی کسی نہ کسی شکل میں گم ہونے کے لیے بے تاب ہی رہتی ہے۔ بل کہ اس انفرادیت کے نتیجے میں گروہی وابستگی بھی ایک اوزار بن گئی ہے جس کی مدد سے خود غرضی کی افزائش ہی ہوتی ہے۔
وہ مذہبی لوگ بھی بہت کم ہو گئے ہیں جو مذہبی یا جمہوری یا مذہبی اور جمہوری قوانین اور اخلاقیات پر اصرار کرتے ہیں۔
اس صورت میں جمہوری تعلیم، جمہوری اخلاقیات، جمہوری قوانین کی ترویج ابھی اتنی آسان نہیں ہو گی۔
معاشرے میں اپنے بچوں کو واقعی بَہ طور افراد اہم سمجھنے کا ایک رجحان فروغ تو پا رہا ہے لیکن اس انفرادیت کا جمہوریت، شہریت، قانون کی عمل داری اور جمہوری اخلاقیات سے کچھ تال میل ہو سکے گا؟
ہو گیا تو شاید دو تین جنریشنز میں یہاں تو کیا، بَل کہ پورے جنوبی ایشیاء میں زوال شروع ہو سکتا ہے؛ نہیں ہو سکا تو جو ہے وہی رہے گا بل کہ اس کی شکلیں اور گھناؤنی ہوتی جائیں گی۔