ووٹ کی طاقت
از، شیرافضل گوجر
انسان معاشرے کی اکائی ہے اور سماجی نظام کو آگے بڑھانے اور نتائج دینے کے لیے اجتماعیت انسان کی سماجی مجبوری ہے چونکہ اجتماعی کوششوں سے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اوراجتماعی عمل کے بغیر ایک فرد تمدنی حوالے سے ترقی کی راہ پہ گامزن نہیں ہو سکتا، لہٰذا جمہوری عمل در اصل اس اجتماعی عمل کو جاری وساری رکھتا ہے جو فرد کو اجتماعی عمل سے جوڑ کر نتائج حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔
طاقت اور اقتدار ایک حیوانی جبلت ہے اس جبلت سے مجبور ہو کر انسان حصول طاقت اور اقتدار کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتا ہے جس کے نتائج کے طور پر اقتدار اور طاقت انسان کی مٹھی میں آ جائے، انسانی تاریخ میں طاقت کا حصول زیادہ تر متنازعہ اور جبری رہا جس کی وجہ سے خون خرابہ اور افراتفری نے انسانی معاشروں میں جنم لیا، مذہب، علاقایت، نسل اور دیگر وجوہات پر چند ایک گروہ طاقت کے حصول کی خاطر دوسرے مذہب، علاقے اور قبیلے پر مشتمل گروہوں پر چڑھائی کر کے انہیں اپنے طابع اور ماتحت رکھنے کی کوشش کرتے رہے.
جبر کے زور پر طاقت کے حصول کے نتیجے میں انسانی معاشروں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہونے سے انتشار، بد امنی افراتفری پیدا ہوتی رہی جس نے انسانی سماج کی تمدنی حوالے سے ترقی کی رفتار کو کم کر کے تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پہ گامزن ہونے سے روکے رکھا بلکہ انسانی معاشرے کے لیے منفی نتائج پیدا کیے اور جبر کے زور پر اقتدار کا حصول اور انتقال اقتدار انسانوں کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا، جب بھی کوئی گروہ اقتدار میں آتا تو وہ آسانی سے اقتدار چھوڑنے پر راضی نہ ہوتا یوں انتقال اقتدار کے لیے خون خرابہ اور انتشار انسانی سماج کا مقدر بنا رہا.
اس مسئلے سے نکلنے کے لیے صدیوں کے تجربات اور فکر کی روشنی میں صاحب فکر انسانوں نے ایک ایسا عمل متعارف کروایا جس کے ذریعے طاقت اور اقتدار کا حصول اور انتقال اقتدار پر امن اور اجتماہی مشاورت سے ممکن ہو سکے، اس عمل کو جمہوری عمل کا نام دیا گیا، جمہوریت یا جمہوری نظام کی اساس ووٹ ہے، ووٹ کیا ہے؟ کسی بھی قومی ریاست میں انتقال اقتدار کے وقت ایک شہری کی رائے کو ووٹ کہا گیا ہے اگر ووٹ نہیں تو جمہوریت نہیں اور جمہوریت نہیں تو اکثریت آزادی اظہار رائے سے محروم ہو جاتی ہے اور آمریت کا جبر اور ہولناکیاں معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں۔
ووٹ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے معاشرے کے سیاسی نظام کے اندر اپنا اثر رسوخ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ووٹنگ کا عمل جمہوری معاشرے میں لوگوں کو غیر فعالیت اور سماجی عمل سے لا تعلقی سے نکال کر فعال بنانے اور نظام کو اپنانے اور اونرشپ دینے کاایک اہم عمل ہے اسی عمل کی مدد سے لوگوں میں تنظیم اور مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے، جو معاشرے ووٹنگ کے عمل میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیتے ہیں ان کی سماجی شعور کی رفتار تیز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اجتماعی طور پہ مضبوط سے مضبوط ہوتے جاتے ہیں، اور پھر وہ اپنی اجتماعی عوامی طاقت کے زور پرنظام کے اندر بہتری لانے میں موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
ایک مفکر کا قول ہے کہ’’طاقت اقلیت کے ہاتھوں کی بجائے تمام لوگوں کے پاس ہو‘‘ووٹنگ اور جمہوریت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے طاقت تمام لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیو من رائٹس کے مطابق ’’ووٹنگ تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال ہو چکی ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان اس جگہ رہنا نہیں چاہتا جہاں اس کے نقطہ نظر یا خیالات کو اہمیت نہ دی جائے، ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ سماجی عمل میں اسے برابری کی بنیاد پر اہمیت دی جائے۔ جیسا کہ آزاد اور غلام انسان میں فرق ہوتا ہے آزاد انسان اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے اور خود سے سوچ کے فیصلہ کر سکتا ہے جب کہ ایک غلام ایسا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ووٹنگ کا عمل آزاد اور محکوم افراد میں تفریق کو واضع کرتاہے۔
اگر ایک معاشرہ ووٹنگ کے حق سے محروم ہے تو یہ طے ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے حق سے محروم ہے، اور ہم ایسے معاشرے کو آزاد معاشرے میں شمار نہیں کر سکتے۔ ووٹنگ کا عمل صرف جمہوریت کے لیے اہم ہی نہیں بلکہ خودجمہوریت اس عمل سے عبارت ہے۔ کوئی بھی جمہوری نظام شہریوں کی شرکت اور ووٹ کے بغیرنہیں چل سکتا ہے اور نہ ہی مضبوط ہو سکتا ہے۔ جب جمہوریت کی تعریف کی جاتی ہے تو ووٹنگ کے عمل کو اس میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
ووٹنگ کا عمل شہریوں کی طرف سے اپنے لیے نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لیے اپنی رائے کا اظہار ہے۔ جس کی بدولت وہ حکومت کے اداروں کی تشکیل میں دخیل ہوتے ہیں۔ منتخب ہونے والے امیدوارشہریوں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، اس عمل سے سے اقلیت کی اجارداری کو کنٹرول کیا جاتا تاکہ وہ اکثریت کے حقوق پامال نہ کر سکے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ووٹنگ کا حق شروع میں صرف طاقتور طبقہ تک محدود تھا یہ حق امراء اور جاگیرداروں کے لیے مخصوص تھا، بعد ازاں اس حق کو مزید تبدیل کرتے ہوئے صرف مردوں کو یہ حق دیا گیا چاہے وہ کسی طرح کی جائیدادکے مالک نہ ہوں۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی یہ حق دے دیا گیا ہے۔
یہ تبدیلیاں اس وجہ سے آئیں کہ سماجی سوچ و فکر کا عمل آگے بڑھا، لوگوں نے ووٹ ڈالنا بند نہیں کیا، یقیناً آج کے دور میں مال وجائیداد کے ذریعے اور دیگر ذرائع کے زور پر ا لیکشن جیتنے کا رواج اور رحجان موجود ہے، لیکن ایک مسلسل جمہوری عمل لوگوں کو جرات اظہار دیتا ہے، اور وہ امراء اور جاگیرداروں کے سرمایہ سے مرعوب نہیں ہوتے، بلکہ اپنے اجتماعی حقوق کے لیے لڑتے ہیں جوں جوں انسانی شعور ترقی کی منازل طے کرے گا جمہوری عمل اسی رفتار سے شفافیت اور بہتری کی طرف بڑھے گا اگر عوام چاہتی ہے کہ ایسا سیاسی اور معاشی نظام وجود میں آئے جو ان کے تمام مسائل کو حل کرنے والا ہو تو انہیں ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا پڑے گا، کیونکہ اسی ووٹ کی طاقت سے وہ بہتر سے بہتر لوگوں کو منتخب کر کے انہیں اقتدار میں جانے کا حق دے سکتے ہیں۔
اگر لوگ ووٹ نہیں دیں گے یا صحیح لوگوں کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کریں گے تو پورے معاشرے کواس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے، اگر ووٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور درست طریقے سے ووٹ نہیں کریں گے تو جمہوری روئیے معاشرے سے ناپید ہو جائیں گے، آمریت اور سرمایہ پرست گروہ کامیاب ہو جائیں گے اور استحصال اور بے انصافی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ جیسے اس وقت ہمارے ملک کا حال ہے۔
ووٹنگ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ حکومت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جب ہم ووٹ دیتے ہیں تو طاقت ہمارے ہاتھوں میں رہتی ہے، جب ہم ووٹ نہیں ڈالیں گے تو یہ طاقت ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جائے گی۔ ہمیں جمہوری نظام ہمیں ایک زبردست موقع فراہم کرتاہے اور ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ہمارے ہاتھوں میں جمہوریت نے یہ طاقت دی ہے کہ ہم ہر اس نظام کو بدل ڈالیں جسے ہم پسند نہیں کرتے یا جو ہمارے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔ آج کی دنیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ووٹ کے عمل سے اپنے آپ کو الگ رکھتے ہیں، مختلف وجوہات کی بنا پر آدھی سے زیادہ آبادی ووٹنگ میں دلچسپی نہیں لیتی یا اس قومی فریضہ کی ادائیگی کے عمل سے لاتعلق رہتی ہے، بہت سے لوگ حکومتوں اور اپنے منتخب نمائندوں سے ناراض ہوتے ہیں اور ووٹ کی پرواہ نہیں کرتے، الیکشن کے دن قطع تعلق کر لیتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے ان کے جو بھی مسائل ہوں انہیں ووٹنگ ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ مسلسل ووٹنگ کے عمل سے گزر کر ہی آپ اپنے حالات کو بدل سکتے ہیں، حکومت کو بدل سکتے ہیں۔ آپ کی کنارہ کشی یا عدم دلچسپی کا بظاہر تو آپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا، لیکن آپ کے ووٹ سے ضرور اثر پڑے گا، سیاسی عمل سے لاتعلقی مستقبل میں اس معاشرے کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے جس میں آپ رہتے ہیں۔
دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جمہوریت کو اپنانے والی اقوام نے اپنے اندرونی نظاموں کو اس طرح استوار کررکھا ہے کہ ان کے حکمران ان کی خواہش کے خلاف حکومتی پالیسیاں نہیں بنا سکتے، ساری ترقی یافتہ دنیا اس سٹیج سے گزر کر آگے بڑھی ہے، اس نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ اقتدار میں جتنا بھی طاقتور طبقہ موجود ہو کچھ عرصہ بعد انہیں جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کی حالت یکسر مختلف ہے، ایک پاکستانی شہری جس کی عمر اٹھارہ سال ہو وہ ووٹر بن سکتا ہے۔ اور الیکشن کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے شہریوں کو الیکشن کا بہت کم تجربہ ہے، کیونکہ پہلے تئیس سال بغیر الیکشن کے ملکی سیاسی نظام چلتا رہا، جبکہ(1970-2010) قوم کو چار دفعہ آمریت کا تجربہ کرنا پڑا۔ پاکستان کا سیاسی نظام ابھی تک تجربات سے گذر رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں عام طور پہ ووٹرز کی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں، پارٹیوں سے وفاداری نبھانے والے ووٹرز، شخصی پرستار ووٹرز، اخلاقی قدروں کے متلاشی ووٹرز، مختلف نوعیتوں کی مدد کے متلاشی ووٹرز، قانون و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ووٹرز، ملکی و قومی ترقی کے متلاشی ووٹرز، مسالک و برادریوں کو سپورٹ کرنے والے ووٹرز اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ووٹرز‘.وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ علم انسان کو شعور اور طاقت فراہم کرتا ہے، ہمارے ہاں چونکہ تعلیم اور سیاسی شعور کا معیار کچھ بہتر نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثرووٹرز کو تمام مسائل کا پتہ نہیں ہوتا، وہ صرف عام قسم کی معلومات پہ انحصار کرتے ہیں، یا مختلف قسم کے پرو پیگنڈے، یا بحث و مباحثہ یا میڈیا خبروں سے متاثر ہوتے ہیں اور اس غفلت اور بے شعوری کے ساتھ ساتھ ووٹنگ کے عمل پر بہت سے دوسرے عوامل بھی اثرا انداز ہوتے ہیں جن میں جنسی امتیاز، مذہبی، نسلی ولسانی امتیاز، معاشی بد حالی وغیرہ فرقہ وارانہ اور مسلکی، تشدد پسندی بھی الیکشن کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ عام طور پہ لوگ اپنا آپ کو ووٹر رجسٹرڈ کروانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
ہمارے ہاں خاص طور پہ خواتین کی حالت زار کافی افسوسناک ہے، دیہی علاقوں میں ہوں یا شہری خواتین ہوں سیاسی حوالے سے ان کی شرکت تسلی بخش نہیں، سیاسی و سماجی عمل میں ہم خواتین کو گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں، ہمارے ہاں سیاسی عمل میں کواتین صرف گنتی کی حد تک تو موجود ہوتی ہیں مگر انہیں اختیارات اور اپنے سیاسی و سماجی حقوق فراہم کرنے کے لیے ہمارا معاشرہ تیار نہیں، قبائلی رسم ورواج ودیگر سیکورٹی کے مسائل کی آڑھ لیکر ہم انہیں سماجی بڑھوتری کے عمل سے دور رکھتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق تازہ ترین الیکشن میں نو ہزار پولنگ اسٹیشنوں میں سے پانچ سو ایسے تھے جہاں خواتین نے ووٹ نہیں ڈالا، ہمارے ہاں حالت تو یہ ہے کہ جو خواتین ووٹ ڈالنے بھی جاتی ہیں تو ان میں اکثریت خواتین کے ووٹ کے لیے امیداوار کا نام اور اس کا نشان اس کا خاوند یا گھر کا کوئی مرد تجویز کرتا ہے، وہ اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا ستعمال نہیں کر سکتی نہ ہی انہیں اتنی معلومات میسر ہوتی ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں، امیدواروں کے کردار اور دیگر معاشی و سیاسی حوالے سے پالیسیوں کی معلومات تک رسائی رکھیں، زیادہ تر خواتین کی آبادی ان پڑھ ہے، جیسا خاوند، والد یا بھائی نے کہا ویسا کرنا ہے، جسے انہوں نے کہا ووٹ دینا ووٹ دیتی ہیں، اگر انہیں کہا جاتا ہے کہ ووٹ کے لیے نہیں جانا تو وہ اس کی جرات نہیں کرسکتیں۔
عملی طور پر ہم خواتین کو انسان سمجھنے کے کے بجائے ان کے ساتھ املاک کے تصور کے ذریعے غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، نتیجے کے طور پر ایک بڑی آبادی انسانی دھارے میں شامل ہی نہیں، دوسرا ہمارے ہاں المیہ ہے کہ سیاسی میدان میں حقیقی جمہوریت کا نام و نشان نہیں ہے، موجودہ سیاسی پارٹیاں لوگوں کی جمہوریت یا ووٹ کے حوالے سے کیا تربیت کریں گی خود ان کے اندر جمہوری رویئے موجود نہیں، پارٹیوں پہ نسل در نسل خاندانی تسلط ہوتا ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ خاندانی پارٹیاں ہیں نہ کہ جمہوری پارٹیاں، فین کلب ہیں لہٰذا یہ نام نہاد جمہوری لیڈر اور پارٹیاں دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ملک کو ہر آنے والے سال میں مزید تباہی سے دوچار کر رہی ہیں، اس کی سب سے بڑی ذمہ دار ہماری پوری قوم ہے، ہم نے باصلاحیت، ایماندار، قابل اور انسانیت کا درد رکھنے والے افراد کی بجائے، اپنے ذاتی، لسانی، قبائلی، برادری کے مفادات کو مقدم رکھا ہوا ہے، لہٰذا اس کا خمیازہ بھی ہم بھگت رہے ہیں، جھوٹے اور کرپٹ سیاستداں جن کے جھوٹ کو میڈیا صبح و شام ٹی وی سکرین پہ دکھاتا ہے لیکن ہم آنکھیں چرا کر پھر انہیں ووٹ دیتے ہیں یا بالکل ہی ووٹنگ کے عمل سے الگ ہو جاتے ہیں، یہ دونوں طرز عمل درست نہیں، آپ ووٹ کریں صحیح قیادت کو صحیح امیدوار کو، آگے بڑھیں اپنے اس حق کی طاقت کو خوب استعمال کریں۔
ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے ان چوروں، جھوٹوں اور ملک و قوم کے غداروں کو اپنے سیاسی نظاموں اور اداروں سے فارغ کر سکتے ہیں، معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ آج کے دور کے تقاضوں کا ادراک کریں اور یہ سمجھیں کہ اگر وہ ووٹ کا حق استعمال نہیں کریں گے، تو ان کی معاشی و سیاسی مشکلات میں کمی نہیں آئی گی، وہ اپنے ووٹ سے اپنا حق لے سکتے ہیں، ووٹ کی طاقت سے وہ سماجی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں، اگر ووٹ نہیں دیں گے تو صرف مالدار، طبقہ، سرمایہ پرست طبقہ ملکی اقتدار و اداروں پہ قابض رہے گا اور غربت و افلاس اور بے انصافی معاشرے میں پھیلائے گا۔
ہماری ورکنگ کلاس نہ صرف لا وارث ہے بلکہ اس کی عزت نفس بھی محفوظ نہیں، یہاں اس سماج کی خوب صورتی کے لیے محنت کرنے والوں کو کمی کمین، نائی، موچی، دھوبی، جولاہا اور مختلف ہتک آمیز رویوں کے ساتھ گھٹیا القابات کے ساتھ مخاطب کیا جاتا ہے جبکہ منظم سماجی جرائم میں ملوث لوگوں کو انتہائی عزت اور تکریم دے کر”خان” سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں، کاشتکاروں، اور دیگر شعبوں کے جسمانی اور دماغی محنت کرنے والے افراد کو اپنی اپنی تنظیمیں بنانی چاہییں اور اپنے نمائندے الیکشن میں کھڑے کر کے انہیں اسمبلی میں پہنچانا چاہیے تاکہ وہ وہاں پہنچ کر ان کے لیے بہتر پالیسیاں بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔ ہمیں معاشرے میں ووٹ کی اہمیت کے بارے میں ہر سطح پہ تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے، تاکہ ہر سطح کے افراد کو اس کی اہمیت کا احساس ہو سکے کیونکہ صرف یہ ایک واحد ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، سماجی نظاموں کو بدل سکتے ہیں اور استحصالی طبقات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔