بلاول بھٹو یا فریدوں کا انتظار
از، ڈاکٹر علمدار حسین بخاری
پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار محض علی بھٹو کی ذات کے کرشمے ہی کا ساخسانہ نہیں تھی بلکہ اس خطے کے عام لوگوں نے بھٹو صاحب کے نعروں میں اپنی صدیوں کی محرومیوں کامداوا دیکھا تھا اور انہوں نے بھٹو کی زبان اور وعدوں پر اعتماد کیا تھا اس لیے نہ صرف اس کی زندگی میں اس کے ساتھ رہے بلکہ اس کی شہادت کے بعد بھی اس کی بیٹی کو اپنی رانی بنایا۔ بھٹو کا کمال یہ تھا کہ وہ عوامی زبان میں اور گلی کوچوں میں پھر کرکلام کرتا تھا خس سے عام لوگوں نے ‘افتادگان خاک نے اس خطے میں پہلی بار خود اپنے ہونے کو جانا اور یہ شعور حاصل کیا کہ غربت کوئی خداوندی فیصلہ نہیں۔
ان کے ازلی حقوق ہیں جنھیں امیروں نے غصب کر رکھا اب بھٹو اور بعد میں اس کی بیٹی ان کے زبردستی چھینے گئے حقوق واپس دلانے کے ضامن ہیں لیکن بی بی کی شہادت کے بعد انہیں یہ ضمانت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے جس کا نتیجہ سامنے ہے۔ آصف علی زرداری اپنی تمام ترذہانت، بردباری، صلحِ کل انداز اور ڈرائنگ روم سیاست مین مہارت کے باوجود عوام کو وہ با اعتبار ضمانت فراہم نہیں کر سکے جو بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کی ذات میں وہ دیکھتے تھے۔
سندھ میں اگر بوجوہ وڈیرے پارٹی کو چھوڑ جائیں تو وہاں بھی اس کا جو حشر ہوگا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں! کیا پیپلز پارٹی وہاں ان وڈیروں کے بغیر محض عوامی طاقت پر بھروسا کر سکتی ہے؟ ایک مرزا صاحب نے تو ان کے پسینے نکلوا دیے تھے۔ اب نواز شریف کی برطرفی اور اس کے بعد ان کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے کے ثبوتوں کے بعد ان کی باقی عوامی حمایت کے مظاہروں نے اس واہمے کو بھی ختم کرادیا ہے کہ عوام اتنے باشعور ہوگئے ہیں کہ کرپٹ ہونے کی شہرت کسی کو کوئی بہت بڑا سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
گویا مخالفوں کی طرف سےزرداری صاحب کی تعمیرکردہ ایک کرپٹ آدمی کی شہرت مسئلہ نہیں تھا دراصل انہیں عوامی خوابوں کی ضمانت دینے کا اہل نہیں سمجھا گیا جس کی یک وجہ ممکن ہے ان کا طرز سیاست بھی ہو۔ بنیادی وجہ کوئی بھی ہو زرداری صاحب اپنی ذات میں موجود ایک عوام لیڈر کی بعض بہت کم یاب خصوصیات کے باوجود کیا محترم آصف علی پی پی پی جیسی عوامی جماعت کے عوام لیڈر نہیں بن سکے مثال کے طور پر وہ روامی شکل و صورت کے ایک شخص لگتے ہیں۔
عوام سے عوامی انداز مین مکالمہ کر سکتے ہیں سوائے پشتو کے ہر بڑی پاکستانی زبان سندھی سرائیکی، بلوچی، پنجابی اور اردو وغیرہ روانی سے بول لیتے ہیں اور ان میں جوشِ خطابت کا اچھا مظاہرہ کر سکتے لیکن پھر بھی انہیں عوامی لیڈر کون مانتا ہے؟ سبھی کے ذہن میں آخر یہ سوال کسی نہ کسی انفاز میں کیوں انھتا ہے کہ کیا زرداری پیپلز پارٹی کیلئے ایک سیاسی اور نظریاتی بوجھ نہیں بن چکے؟
اس تاثر کے بننے میں خود زرداری صاحب کے مزاج اور رویوں کا بہت عمل دخل ہے۔ گزشتہ برسوں کی سیاسی تاریخ کا بیانیہ تو یہی بتاتا ہے کہ وہ کسی طور پیپلز پارٹی پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دینا چاہتے خود اپنی اولاد کو بھی پارٹی امور میں ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پارٹی کے اندر سے انہیں کوئی بھی نہیں بتاتا کہ آج کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ لگتا یہ ہے کہ سینیئر اور دانشمند رہنما پارٹی کو کسی بڑے انتشار سے بچانے کےلیے کھل کر بات نہیں کرتے وہ شاید اس واہمے کا شکار ہیں کہ شائد کبھی خود زرداری صاحب رویہ بدل لیں یا ممکن ہے کہ بلاول زرداری کچھ بھٹو بن جائیں!
چند ماہ پہلے پارٹی نے فیصلہ کیاکہ بلاول کو الیکشن لڑوا کر اسمبلی میں لایا جائے تو والد محترم بچوں کی طرح اڑ گئے نہیں میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ نتیجہ یہ کہ ابھی تک دونوں باہر ہیں۔ یاد رہے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو بلاول کی عمر میں مسلمہ لیڈر تھیں لیکن ادھر بلاول صاحب کو ابھی والد محترم کی تمام تر شہرت کے باوجود انہی کا سایہ بننے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔
جب کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں انہیں واقعی چیئرمین کی اتھارٹی شریک چیئرمین کے پاس رہنے کا اس کے علاوہ کیا جواز ہے کہ چیئرمین ابھی نابالغ ہے۔ اگر شیخ رشید رشید یا کوئی اور بلاول بھٹو پر آوازے کستا ہے تو اس کا جواز کون فراہم کر رہا ہے یہ بھی تو سوچنا چاہیے۔ اگر کسی نے اس پارٹی کی سخت جانی کے باوجود اس کی مکمل تدفین کا کنٹریکٹ لےلیا ہے تو پارٹی کے پرانے ورکرز خاص طور پر سندھیوں کو سوچنا چاہیے کہ اس کی تجہیز و تدفین میں انہوں نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔
ایک قوی خیال ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری واقعی بھٹو صاحب کی وراثت کے مطابق عوامی سیاست کا بوجھ اٹھانے کی جرات کرلیں تو عام انسانوں یعنی افتادگان خاک کے گمشدہ اعتبار کی کچھ بازیافت ہو جائے ورنہ پاکستانی سیاست سے بے دخل کردہ عوام الناس کسی اور رہبر کے انتظار میں رہیں گے اور کسی بھی لمحے کوئی فریدوں خود اپنے ہی تار تار لباس کا علم بنا کے نکلے گا اور ایک خلق کا انبوہ اس کے پیچھے ہوگا اور پھر
یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں حساب وکتاب ہوگا!
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.