دور کا سفر
کہانی از، ضیغم رضا
مجھے لگا کہ روزن سے چھن کر نبیلہ پہ پڑتی ہوئی چاندنی کی کرنیں اسے اشارے کر رہی ہیں؛ جنہیں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رد کر رہی ہے۔ بالآخر شاید اس واحد سہیلی کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے وہ چاندنی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، پیچھے مڑ مڑ کے دیکھتے، مردہ قدموں کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ میں بت بنا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا؛ اس سوال کی گھمن گھیری میں چکراتا کہ نبیلہ بھی ایسا کر سکتی ہے؟ وہ جو مجھ سے محض دو سال چھوٹی تھی مگر جہاں وہ مجھے باپ برابر جانتی تھی وہیں ہمارے خاندان کی بوڑھی عورتیں اس کی بلائیں لیتے نہ تھکتی تھیں۔
ہمارے گھر میں سر کو ہی نہیں خواہشات کو بھی ڈھانپنا ضروری تھا تبھی تو ہماری عورتیں دن بھر گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے عدم وجود کا ثبات کرانے میں مگن رہتیں۔ نبیلہ نے بہ مشکل آٹھ جماعتیں پاس کی ہوں گی کہ دادی کی صحبت اور بند کمرے کو رونق بخشنے کے چاؤ نے اسے جدید تعلیم کے آگے ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کر دیا۔ اس کا بستر بھی دادی کے کمرے میں ہوتا جہاں دادی اپنی کھانسی اور حیا سے معمور زندگی بھر کے اپنے تجربات یکساں طور پر نبیلہ کے کانوں میں انڈیلتی رہتی۔
جہاں میری والدہ کے لیے یہ احساس فرحت بخش تھا کہ اسے ساس کی خدمت سے قدرے فراغت رہتی وہیں والد اس ادراک پہ خوشی سے پھولے نہ سماتے کہ ان کی والدہ دو نسلوں کی تربیت کا منبع ہے۔
جب بھی پہناوؤں کا ذکر آتا میری والدہ محلے بھر کی عورتوں پہ یہ حیران کن انکشاف، عیاں کر کے اپنی ڈھاک بٹھاتی کہ “میری نبیلہ تو سادی مرادی ہے۔”
“بہن! قسمت والی ہو ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو رنگ برنگے اور وَکھو وَکھ کپڑوں کے انبار لگانے میں ہلکان رہتی ہیں” ایک ہمسائی سراہتی۔
“نہ جی نہ! میری نبیلہ تو لان کے سوا کسی اور سٹف کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔” پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قریبآ سر گوشی کرتے ہوئے کہتی
“آپس کی بات ہے لشک پشک کپڑے پہننے والی لڑکیوں کے قدم زیادہ دیر زمین پہ ٹِکے نہیں رہتے۔”
یہ سنتے ہی گھر میں آئی خواتین کے ذہنوں میں طرح طرح کے قصے کلبلانے لگتے اور ہر کسی کوشش ہوتی کہ وہ کوئی چٹخارے دار واقعہ سنا کر سننے والوں کی آنکھیں چمکائے۔ یہ واقعے بالعموم کسی اخلاق باختہ کنواری محلہ دار کے دل سوز انجام یا پھر والدین کی رضا سے ان کی ناک اونچی کرنے کے جوش میں خوش خوش سسرال سدھاری کسی با عصمت بہو کے ہوتے۔ اپنی جوانی میں چاہے ان کا جیسا بھی چلن رہا ہو، اب وہ اپنے تئیں سماج سدھار کے سنگھاسن پہ براجمان تھیں اور ہر اونچ نیچ پہ انگلی اٹھانا اپنا اولین فریضہ سمجھتی تھیں۔
میرے لیے چھپ چھپ کر ان قضیوں کو سننا ہمیشہ پُر مسرت رہا تھا جب کہ اس کے برعکس نبیلہ کے لیے یہ باعثِ عبرت یا مَشعلِ راہ ثابت ہوتا۔ تبھی تو گھر میں سکڑا سمٹا اس کا وجود یا تو دادی کے کمرے میں مقید رہتا یا پھر ڈور سے بندھی کسی کٹھ پتلی کی طرح آواز دینے پہ متحرک نظر آتا۔ ناک نقشے میں نبیلہ کسی سے کم نہیں تھی؛ کم گوئی اور ہمیشہ جھکی نظروں نے آس پاس سے اس کی ایک مغائرت کو جنم دیا تھا کہ گھر کا ہر فرد اس سے بات کرنے، اس کی بات سننے کا خواہاں ہوتا۔ دادی نے ہی اسے قرآن پڑھایا تھا جب کہ نماز روزے کا پابند بھی اسی نے بنایا تھا بَل کہ اب تو محلے بھر میں نبیلہ کو ملوانی بھی کہا جانے لگا تھا، تبھی تو میرے لیے یہ انکشاف حیران کن تھا۔
در اصل صبح ایک ملازمت کے لیے مجھے انٹرویو دینے جانا تھا وہی نبیلہ کو بتانے کے لیے میں دادی کے کمرے میں آیا تا کہ صبح میرا سوٹ استری شدہ ملے اور جلدی بھی جگا لیا جاؤں۔ کمرے میں، میں دبے پاوں داخل ہوا تھا کہ دادی کو جگائے بنا نبیلہ تک پیغام پہنچا سکوں مگر جب اس کی کھلی آنکھوں کو دیکھا تو میں ساکت ہو کر رہ گیا۔ اب میرے پاس دو ہی راستے تھے: یا تو واپس چلا جاؤں یا پھر نبیلہ کا تعاقب کروں سو ایک تجسس کی مہمیز پہ میں دوسرے راستے پہ چل پڑا۔
شہر کی چکا چوند میں مجھے وقت لگا کہ نبیلہ کو ڈھونڈ سکوں مگر جب مجھے وہ نظر آئی تو سڑک کو عبور کرنے کے دبدھے میں غلطاں تھی۔ شاں شاں کرکے گزرتی گاڑیوں کو دیکھ کر وہ ایک قدم آگے کو دھرتی مگر کسی لپکتے ہوئے شعلے کی طرح زن سے گزرتی کوئی گاڑی اسے اپنے قدم پیچھے کو کرنے پہ مجبور کر دیتی۔
پہلے تو مجھے ہنسی آئی کہ یہ شہر کی کوئی مصروف سڑک نہ تھی چاہے کتنا ہی رش کیوں نہ ہو میں پلک چھپکتے ہی اسے عبور کر لیتا۔ مگر فوراً ہی مجھے نبیلہ کی قابلِ رحم حالت پہ جس کا ذمہ دار کچھ حد تک میں بھی تھا کہ بڑے بھائی ہونے کے ناتے میں بالکل ہی بڑا بن کے رہا، تاسف اور ندامت ہوئی۔ بنا ایک لمحہ ضائع کیے میں نے دوڑ کر اس کا ہاتھ تھام لیا؛ جسے اس نے کانٹے چھبنے کے باعث ملنے والی فوری تکلیف کے تاثر میں جھٹک دیا۔
جب اس کی نظریں مجھ سے ملیں تو چوری پکڑے جانے پہ ایک بچے جیسے خوف کے ساتھ ساتھ تحفظ کا احساس لیے تشکرانہ نگاہیں بھی دکھائی دیں۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ دو بارہ تھاما اور قریباً گھسٹتے ہوئے اس کے وجود کو سڑک پار لے گیا۔ سامنے ہی شوارمے کا کیبن تھا، مجھے اندازہ ہو گیا کہ نبیلہ اسی کی چاہ میں سڑک عبور کرنا چاہتی تھی۔ رات کو کبھی کبھار گھر دیر سے لوٹتا تو نبیلہ اس شرط پہ دروازہ کھولنے کی حامی بھرتی تھی تھی اگلے دن شوارما کھلاؤ گے مگر وہ اگلا دن کبھی نہ آیا۔ سو اس ازالے کا واحد حل سب سے پہلے اسے شوارمے کی پیش کش تھا، جسے اس نے زبانی بانجھ پن کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ایسی آواز میں قبول کیا جس میں فیصلہ نہ کر سکنے کی اہلیت صاف پرکھی جا سکتی تھی۔
شوارمے کے انتظار میں ہم کرسیوں پہ بیٹھے تو اس کی نظریں مجھ سے ملنے کی بجائے ارد گرد کے مناظر میں گُم نظر آئیں۔ کئی بار میں نے کوشش کی کہ کوئی بات کروں مگر میری آواز حلق تک آ کر نیچے لڑھک جاتی تھی۔ اس شش و پنج میں کچھ لمحے گزرے ہوں گے کہ میں نے ایک بَھر پُور قہقہہ مارا۔ در اصل سامنے سے تین موٹر سائیکل سوار گزرے تو سڑک کنارے موجود ایک گنجے آدمی کے سر پہ ایسی چپت رسید کی کہ وہ بلبلا کے رہ گیا۔ بہ ظاہر یہ ہنسنے والی بات نہیں تھی مگر میرا قہقہہ اس قدر بے ساختہ تھا کہ نبیلہ بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکی۔ یوں کَسے کَسائے خیمے کی طنابیں رفتہ رفتہ ڈھیلی ہونی شروع ہوئیں تو بالآخر نبیلہ کے مُنھ سے شوارمے کی تعریف بھی سننے کو ملی اگر چِہ آواز اب ابھی اس کی دھیمی تھی۔
شوارما کھانے بعد ہم نے کرسیاں چھوڑیں تو اب بہن، بھائی نے ایک اَن لکھے معاہدے کے تحت سڑک پہ چہل قدمی شروع کر دی۔ گاڑیوں کا شور اور پہ مستزاد نبیلہ کی جھجھک؛ کبھی اس کی آواز کو خاصا بلند کر دیتی اور کبھی اس قدر مدھم کے میں مکرر سننے کی خواہش دبائے مسکرانے پہ اکتفا کرتا۔
رات سرد تھی اور ہلکی ہلکی ہوا بھی بدن میں سوئیاں چبھو کے گزرتی تھی مگر ہم لا تعین منزل کے ایسے مسافر تھے جن کی گرم جوشی ٹھنڈ کو شکست دینے کے لیے کافی تھی۔ رات رات جوں جوں مناظر پہ سپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھنے میں کامیاب ہوتی جا رہی تھی ان کا تحرک بھی ماند پڑتا جا رہا تھا۔ گاڑیوں کا شور اور پیدل لوگوں سے بھی اب خال خال سامنا ہوتا سو اب نبیلہ کی جھجک بھی بہت حد تک دور ہو چکی تھی اور ہاں ہوں کی بہ جائے وہ اب میری باتوں کا جواب متوازن آواز میں دینے لگی۔
مجھے ایک کیبن نظر آیا تو اسے کشمیری چائے پینے کے لیے کہتے ہوئے کیبن کی طرف چل پڑا۔ دو کرسیاں ہم نے کیبن سے ذرا فاصلے پہ درخت کے گھیر میں لگوا لیں۔ کرسیاں رکھ کے لڑکا حیرت سے مملو آنکھوں سے تکنے لگا تو اس کی تشفی بہن بھائی کہہ کر کی اور چائے لانے کا کہا۔
چائے کا انتظار کرتے ہوئے بڑی دیر سے ذہن میں گردش کرتے ایک سوال کو جب میں نے نبیلہ کے سامنے رکھا تو ایک ثانیے کے لیے اس نظریں غیر یقینی صورت حال سے دو چار نظر آئیں:
“تمہارے خیال میں ایسا کون سا شخص ہے جو تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے وجود کا بہتر طور پر اثبات کر سکتا ہے۔” اس کی نا سمجھی کو سمجھتے ہوئے میں نے مزید سہل انداز میں اسے سمجھایا:
“ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ کم سے کم ایک وجود ایسا ہو جو اس کے ہونے کو مانے؛ اسے قبول ہی نہ کرے بَل کہ یہ یقین دہانی بھی کرائے کہ تم حقیقت ہو۔ کیا تمہاری نظر میں کوئی ہے ایسا جو تمہیں حقیقت سمجھ سکے۔”
“میں تو دادی کے ساتھ محفوظ ہوتی ہوں اور مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔” یہ سنتے ہی مجھے ثمرین کی یاد آئی جو لڑکیوں کے لیے تو ثمرین تھی مگر لڑکے اسے ثمی سمجھتے تھے۔ مراد یہ کہ لڑکے لڑکیاں اس کے یکساں دوست تھے اور میں ثمرین سے ان دنوں متعارف ہوا تھا جب کالج کی قدرے فارغ البال زندگی گزار رہا تھا۔ میرا ایک کلاس فیلو ہر اتوار دوستوں سے ملنے جانے کا بتاتا؛ مجھے لگتا تھا کہ وہ محض وقت گزاری کے لیے جاتا ہے۔ پھر جب اس کا یہ دورانیہ تواتر اختیار کر گیا تو میرے استفسار پہ وہ ایک دن مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ چند نو جوانوں کی مخلوط بے نام انجمن تھی جو ہر اتوار پکنک کے بہانے کسی پارک میں جمع ہوتی تھی۔ گفتگو کا آغاز ‘کچھ تو کہیے’ کے استفسار پہ ہوتا اور ‘کیوں کہیے’ کے سوال پہ اپنے اپنے تجربات و روز مرہ کے معمول پہ ہلکے پھلکے تبصروں تک جا پہنچتا۔ مقصد اس ملاقات کا ایک ہی ہوتا کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اپنا احوال سنایا جائے۔ یہ معمول تو ظاہر ہے زیادہ عرصہ نہ چل سکا مگر اراکین کے تتر بتر ہونے کے با وجود میں نے ثمرین سے رابطہ استوار رکھا۔
میرے اظہارِ محبت کو تو اس نے اہنی آزادہ روی کے زور پہ قابلِ اعتناء نہ جانا مگر اس کی صحبت نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ یہ بھی اسی نے بتایا کہ جسمانی قرب کے بغیر روح آشکار نہیں ہوتی!
“پھر تم کیوں دھتکارتی ہو؟” میں نے فوراً اعتراض کیا۔
“تم سے پہلے بھی بہت سے نو جوان میری محبت کے خواں رہ چکے ہیں اس میں آصف بھی شامل ہے۔” آصف میرا وہی کلاس فیلو تھا جس کے ساتھ جا کر میں اس بے نام انجمن میں شامل ہوا تھا۔ میری حیرت دو چند کرنے کے لیے اس نے مزید کہا:
“ان میں سے ہر ایک اپنی روح کی گہرائی تک خود کو میرے سامنے عیاں کر دیتا تھا یوں کہ ان کے اجسام میں دفن محبتوں اور نفرتوں کے سارے ملبے مجھے نظر آنے لگتے۔” مجھے ثمرین سے خوف محسوس ہونے لگا؛ میری اڑی رنگت کو بھانپتے ہوئے اس نے مجھے تسلی دی:”ڈرو نہیں؛ میں نے اس کی روح میں جھانکا خود میں جھانکنے کی اجازت آج تک کسی کو نہیں دی۔” یہ سب یاد آتے ہی میں نے نبیلہ کی طرف دیکھا اور قدرے جھجکتے ہوئے کہا:
“کیا تم مجھے اپنی روح میں جھانکنے کی، اس کی تہہ تک پہنچنے کی اجازت دو گی؟” نبیلہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے مستفسر نگاہیں میری طرف اٹھائیں تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ وہاں سے نکل کر ہم سڑک کی قدرے محفوظ فضا میں آئے تو میں نے وضاحت کی:
“اگر تم میرا ہاتھ تھام لو تو میں بہتر طور پر فیصلہ کر پاؤں گا کہ تمہارے وجود کا کامل خلوص کے ساتھ کون اثبات کر سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے اس کے لیے ہم دونوں کو ایک دوسرے پہ اپنی روح واشگاف کرنا پڑے گی۔”
“کیا ہم بہت آگے نہیں نکل آئے؟” ثمرین کی نظروں میں خوف تھا۔
“ہاں! مگر پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کرنا بھی تو کٹھن ہے۔” یہ سنتے ہی نبیلہ کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے؛ خوشی کے یا افسوس کے؛ سویرا ابھی بہت دور تھا ورنہ مجھے معلوم ہو جاتا۔