بلتستان میں شوق آوارگی
از، حسین جاوید افروز
پاکستان کو قدرت نے حسین مناظر اور فطرت کی رنگا رنگی وافر عطا کی ہے۔ کہیں بلوچستان کے دشت و بیابان الغوزے کی تان سے ایک عجیب ہی منظر پیش کرتے ہیں تو کہیں سندھ کے ریگ زار چاندنی راتوں کو سندھ طاس کی تہذیب کو اجاگر کرتے ہیں، کہیں پنجاب کی ہریالی دل کو موہ لیتی ہے۔
اسی طرح خیبر پختون خواہ اور آزاد کشمیر میں سر سبز وادیاں بھی دلوں پر سِحَر طاری کر دیتی ہیں۔ ایسا ہی ایک اور دل فریب خطہ گلگت بلتستان ہے جہاں کی فلک بوس چوٹیاں، وہاں کے گلیشیئروں سے گرتے جَھرنے ہر آنے والے کو بے اختیار سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ خدا نے جنت کا وعدہ کیا ہے تو شاید گلگت بلتستان کہیں اسی جنت کی جھلک ہی تو نہیں۔
اس بار ہمارا ارادہ بلتستان کی بلندیوں، وہاں بہتے ہوئے سندھو دریا کے غصیلے پن کو کھوجنے کا تھا۔ یہ حسین سفر ہزارہ کے راستے سے شروع ہوتا ہے جب ہم قراقرام ہائی وے کے بَہ جائے بابُوسر ناران کے حسین راستے سے چلاس کی جانب جا رہے تھے۔
ہزارہ کی خوب صورتی یہ ہے کہ یہاں ایک پَل میں چمکیلی دھوپ ہر طرف بکھری ہوتی ہے تو دوسرے ہی لمحے کالی گھٹائیں اور بادلوں کی گرج ایک مُوسلا دھار بارش کا اعلان کرتی ہیں۔
چُناں چِہ مانسہرہ سے بالا کوٹ تک تیز بارش نے سارے منظر کو گویا گرما دیا۔ ناران پہنچے تو اگر چِہ وہاں دھوپ کی تمازت بہت بھلی لگی، لیکن سرد ہوائیں موسم کے بدلنے کا تأثر بھی دے رہی تھیں۔
یہاں سے بابُوسر پاس تک موسم صاف رہا لیکن بابوسر پاس پہنچتے ہی گلگت بلتستان کی حدود میں سرد ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔
یہاں سے گونر فارم کے راستے ہم شام ڈھلے چلاس پہنچے جہاں ہمیشہ کی طرح گرم ہوا کے تھپیڑوں نے بابوسر کی سرد ہواؤں کو قصۂِ پارینہ سا کر دیا۔
بابوسر پاس کے راستے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قرقرام ہائی وے کے بشام تا چلاس سفر کے مقابلے میں تھکن بھی کم ہوتی ہے اور لینڈ سکیپ بَہ تدریج بدلتا رہتا ہے۔
اگلی صبح ہم سکردو کی جانب روانہ ہو گئے۔
رائے کوٹ پل کے بعد اکثر جگلوٹ سے پہلے تھالیچی کے قریب نانگا پربت اپنا دیدار کرانے کے لیے بے قرار رہتا ہے لیکن اس روز وہ بھی بادلوں کی اوٹ روٹھا رہا اور ہم جگلوٹ سے آگے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں تین عظم پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہوتا ہے۔
یہاں ایک جانب ہمالیہ ہے جو وادئِ استور کی جانب ہے، جو کہ بھوٹان تک پھیلا ہوا ہے، تو دوسری جانب ہندوکُش ہے جو چترال سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے؛ اور سامنے قراقرم کے سلسلے ہیں جو گلگت اور ہنزہ سے ہو کر چین تک چلے جاتے جاتے ہیں۔
یہ نظارہ ہم قراقرام ہائی وے کے کنارے بنی ایک قدرے اونچی برجی پر چڑھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں گلگت شہر سے دریائے گلگت، دریائے شمشال، دریائے ہنزہ کے پانیوں کو خود میں سموئے چلا آتا ہے تو دوسرے جانب چنگھاڑتا ہوا دریائے سندھ سکردو کی جانب سے دریائے شگر، دریائے شیوک کو اپنے اندر جذب کر کے دریائے گلگت کے ساتھ ملن کرتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سندھو دریا سیدھے آتے ہوئے دریائے گلگت میں گم ہو جاتا ہے لیکن آگے کراچی کے ساحل تک اسے دریائے سندھ کہا جاتا ہے۔
یوں دریائے گلگت کا وجود اس جگہ دریائے سندھ میں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ یہاں ہم نے قراقرام ہائی وے کو خدا حافظ کہا اور دائیں جانب عالم پل پر ہو لیے۔
اب ہم بلتستان میں داخل ہو چکے تھے۔ سڑک شروع میں قدرے کھلی تھی لیکن اگلے 8 گھنٹے کا سفر بہت جان توڑ رہا۔ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سے سڑک جس کی چوڑائی کبھی بہت کم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ گہرائی میں بہتا ہوا، معاف کیجیے گا، چنگھاڑتا ہوا دریائے سندھ موجود رہتا ہے۔
اس سڑک پر 8 گھنٹے کی ڈرائیو، کسی بھی ڈرائیور کے اعصاب کا امتحان ہے، اور بد قسمتی سے جس قدر یہ سڑک خطر ناک تھی اتنا ہی ہمارا ڈرائیور بے پروا تھا۔
خیر یہ امر باعثِ طمانیَت ہے کہ اس وقت سی پیک، CPEC، کے تحت گلگت سکردو روڈ کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے اور قریباً ایک سال بعد یہ دشوار سفر خاصا آرام دہ ہو جائے گا۔
بَہ ہر حال، ہم ہراموش کی بلندیوں سے لطف اندوز ہوتے آگے بڑھتے رہے۔ ہراموش کا پہاڑی سلسلہ سسی کے مقام سے شروع ہوتا ہے یہاں سے با قاعدہ ٹریکنگ کر کے ہراموش کی مشہور جھیل کٹوال تک پہنچا جا سکتا ہے۔ خیال رہے یہ تین روز کا ٹریک ہے جہاں جیپ ٹریک، فَیری مَیڈوز کے جیپ ٹریک سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔
راستے میں داسو، سلپی اور پھینکی کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے ہیں۔ اسی ٹریک پر لیلیٰ پِیک کا دیدار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے گلگت بلتستان میں 3 لیلیٰ پیک ہیں۔ ایک بلتستان میں ہوشے کے مقام پر، ایک استور میں روپل گاؤں کے پاس اور تیسری یہاں ہراموش میں موجود ہے۔ یہاں داد دیں مستنصر حسین تارڑ کو جو 74 برس کی عمر میں حال ہی میں اس ہراموش ٹریک کی بلندیوں کو عبور کر چکے ہیں۔
گلگت سکردو روڈ پر دریائے سندھ کے پار نہایت تنگ درّوں میں بھی کئی گاؤں آباد ہیں۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ کس طرح ان بلندیوں پر یہ بلتی جفا کش لوگ رہ رہے ہیں؟
ہم نے استک کے مقام پر ایک روڈ سائیڈ ہوٹل میں چائے کے لیے پڑاؤ کیا جہاں استک نالا اپنی جولانیوں اور تیز رفتار بہاؤ کے ساتھ دریائے سندھ میں گرتا ہے۔
رات گئے ہم سکردو پہنچے جہاں مشابروم ہوٹل میں ہم نے قیام کیا۔ مشابروم خاصا آرام دِہ ہوٹل ہے، جہاں سفر کی کُلفتوں کو اتارنے میں خاصی مدد ملی۔
رات ہم سکردو شہر میں مٹر گشت کرنے نکلے تو چائے کی طلب ہوئی۔ ایک ہوٹل میں چائے نوش کی لیکن ان بلتی لوگوں کے قربان جائیے کہ ہوٹل کے مالک نے پیسہ لینے سے انکار کر دیا اور کہا آپ ہمارے مہمان ہیں اتنی دور سے سکردو آئے ہیں۔ اہلِ شمال کا یہی مہمان نواز رویہ ہی ہے کہ ہم ہر سال شمال پر متواتر نازل ہوتے جا رہے ہیں۔
ہماری پہلی منزل وادئِ شگر تھی جو کہ اب سکردو سے الگ ضلع بن چکی ہے۔ اسی مقام کے بارے میں تارڑ صاحب نے کہا ہے کہ اگر ان کے بس میں ہو تو شگر ہی میں ہمیشہ کے لیے آباد ہو جائیں۔ راستے میں ہم نے لال لال خُوبانیاں درختوں سے توڑ توڑ کر کھائیں۔ ان خوبانیوں کی مٹھاس کا کوئی مقابل نہیں تھا۔ سکردو شگر روڈ، ریگستان، دریائے سندھ اور بلند پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہے اور شاید پاکستان کی حسین ترین روڈ میں سے ایک ہے۔
سکردو کا قلعہ فونگ کھر اور اس کے ساتھ بہتا ہوا دریائے شگر ایک نہایت دل کش تجربہ ہے۔ یہاں سے ہم سکردو شہر میں واقِع صحرا کٹ پناہ پہنچے۔ یہ ایک چھوٹا سا سرد صحرا ہے جہاں ایک جانب کٹ پناہ جھیل ہے جس کے پانی میں سکردو کے فلک بوس کوہ سار اور ریگستان دکھائی دیتے ہیں۔
اس صحرا کو منگولیا کے صحرائے گوبی کا شِیر خوار بچہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلتستان جیسے سرد مقام کی یہی خوبی ہے کہ فطرت کے سارے رنگ آپ کو ایک جگہ پر مل جاتے ہیں۔
۱١ اگست کی ایک چمکیلی شمالی صبح ہم مشابروم ہوٹل سے دیوسائی کو روانہ ہوئے۔ آرام دہ جیپوں میں ٹور کے چند لوگوں کی رفاقت میں ہم سکردو سے روانہ ہوئے۔ شہر سے نکل کر ہم جھیل صدپارہ پہنچے۔ یہ سبز پانیوں سے سجی ایک شاہ کار جھیل ہے، جس کے ساتھ ایک چھوٹا ڈیم بھی موجود تھا۔ میری دانست میں یہ پاکستان کی سب سے دل کش جھیل ہے۔
ایک بلتی کہاوت مشہور ہے کہ دیوسائی صرف پاگل افراد ہی جاتے ہیں، تو ہم سب پاگل بھی دیوسائی پہنچنے ہی والے تھے۔ تقریباً 45 منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم دیوسائی پہنچ گئے۔
منظر کچھ یوں تھا کہ تیز ہوا چل رہی تھی اور دھوپ بھی تیز تھی۔ ہمارے ساتھ ساتھ چشمے بہہ رہے تھے۔ ایسے میں سن بلاک کریم ساتھ رکھنا اور لگانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
پھر سفر شروع ہوا تو کچھ دیر بعد ہم بڑا پانی پہنچ گئے جہاں ہم نے ایک رات اس سرد ویرانے میں بسر کرنا تھی۔ یہاں سے ہم شیوسر جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ وسیع پانیوں کی ایک جھیل، دیوسائی کا اٹوٹ انگ، شیوسر، نیلے پانیوں کا ذخیرہ آپ پر اپنا پہلا تأثر ہی اتنا تاب ناک چھوڑتا ہے کہ آپ اس کے حسن میں محو ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک پیالہ نما جھیل ہے اور اس وقت دھوپ سے اس کے پانی گویا موتیوں کی مانند چمک رہے تھے۔ اس جھیل تک جاتے ہوئے ہمیں جھیل کے ساتھ موجود گھاس دلدلی محسوس ہوئی۔ سرِ شام ہم واپس بڑا پانی پہنچے۔
اب ہوا سرد ہو رہی تھی اور کارگل کی جانب جہاں شنگو شگر رواں تھا وہاں سے بادلوں کا قافلہ چلتا جا ثرہا تھا۔ خیمے لگ چکے تھے اور رات کو بار بی کیو کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ وہ رات دیوسائی میں بسر کرنا تھی۔
شام کی چائے پیتے ہوئے ہم بڑا پانی پل پہنچے تو دو برطانوی باشندے بہت عقیدت سے غروبِ آفتاب کا دل کش منظر دیکھ رہے تھے۔ ان سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بھارت سے ہو کر آ رہے تھے اور ان کے مطابق دیوسائی آنا اور غروبِ آفتاب کو محسوس کرنا یہ ایک نا قابلِ فراموش اور یادگار تجربہ ہے۔
اب شنگو شگر بھی یخ بستہ ہوتا جا رہا تھا۔ رات کا کھانا بہت پُر تکلّف رہا، بریانی اور چکن تِکّوں نے دیوسائی میں ماحول بنا دیا۔
رات ہمارے گروپ کے ایک سینئر ممبر کو سانس کا مسئلہ ہوا تو انھیں واپس سکردو روانہ کر دیا گیا۔ خیر رات گپوں کے دور چلے۔ ہمارے ساتھ کراچی کے ڈاکٹروں کا گروپ جن میں منصف، کریم، نوید، لاہور کے ڈاکٹر عمار، تحریکِ انصاف کے رویم، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ احمد، وکیل زاہد بھائی، انجینئر فرحان، علی منصور، اٹامک انرجی کے شیر دل، ارسلان موجود تھے۔
رات کھانے کے بعد ایک بلتی سنگر کو لایا گیا جو کہ نا بینا تھے مگر انھوں نے بلتی لہجے میں پاکستانی اور بھارتی گانے سنا کر سماں باندھ دیا۔ افسوس ایسے ٹیلنٹ کو نکھارنے اور جائزہ لینے کے لیے کوئی فن و فن کار شناس اقدام کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔
دیوسائی کی وہ رات گرم سلیپنگ بیگ، واٹر پروف خیمے کے با وُجود بہت ہی یخ بستہ رہی۔ لیکن یہ ایک نہایت یادگار تجربہ تھا کیوں کہ یہ دیوسائی اور بلتستان کے لیے ہمارا جنون ہی تھا جس نے اس تجربے سے آشنا کرایا۔
اس ساری مہم میں حسین مناظر کی بہتات کے ساتھ ہم اس امر سے بھی لطف اندوز ہوئے کیوں کہ نہ کوئی وائی فائی تھا نہ اخبار تھا، نہ کوئی بریکنگ نیوز۔ بس ہم روزانہ ایک منزل کا تعیّن کرتے وہاں جاتے اور بلتستان کے قدرتی حسن کا لطف اٹھاتے۔
سچ ہے کئی بار زمانے سے کٹ کر انسان کو خود شناسی و خود کلامی کا موقع ملتا ہے اور یقین مانیے اس مقصد کے لیے بلتستان سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔