وقت گَر آگے پیچھے ہو جائے
از، خضر حیات
دن، مہینے، سال اور گھڑیاں ترتیب دینے والے فنکار کو یہی پریشانی رہتی ہے کہ وہ لمحوں کو اس طرح ترتیب دے کہ ہر گھڑی اپنی باری پر اور درست موقع پر ہی گزرے اور ایسا نہ ہو کہ کوئی بعد میں آنے والا دن غلطی سے پہلے چلا جائے۔
ہم چونکہ وقت کو بھی واقعات کے حوالے سے ہی یاد رکھتے ہیں اور ہر نیا لمحہ، پہر، دن، مہینہ اور سال اپنے ساتھ واقعات کا ایک سیلاب بھی اپنے ساتھ بہا کے لا رہا ہوتا ہے اس لیے وقت کی ترتیب دراصل واقعات کی ہی ترتیب کا نام ہے۔ کوئی خاص دن ہمارے لیے تبھی خاص بنتا ہے جب اس کے ساتھ کوئی خاص یاد نتھی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوری ہمیں سارا سال اس لیے یاد رہ سکتا ہے کہ اس میں ہم مری کی سیر کو گئے تھے، اس میں چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی تھی، اس میں چچا کینسر سے مر گئے تھے، اس میں فضائی آلودگی نے پورے ماحول پر قبضہ جما لیا تھا یا کوئی خاص چہرہ چہروں کی بھیڑ میں سے نکل کے دکھائی دے گیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
دیکھا جائے تو ٹائم ارینجر (وقت کی ترتیب کا خیال رکھنے والا) کی یہ چِنتا کوئی ایسی بھی بے جا نہیں کہ وقت ترتیب کے اصول کو ہی فالو کرے۔ تجسّس، سرپرائزز، ان دیکھے مستقل کی حیرتیں، بیتے ہوئے ماضی کی یادوں کا رومانس اور آنے والے دنوں کی غیر متوقع خوشیوں کا سحر اسی صورت برقرار رہ سکتا ہے کہ وقت سے پہلے وثوق سے کچھ بھی نہ کہا جا سکے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اگر 20 جنوری کے بعد 21 جنوری کی بجائے 28 فروری کا دن آ جائے یا 31 دسمبر 2017ء کی رات 12 بجے جب سال بدلے تو نئے سال کے طور پر 2018ء کی بجائے 2048ء کا سال آ جائے تو سوچیں کیا منظرنامہ ہوگا؟ یہ ترتیب اگر ادھر ادھر ہو جائے اور بہت بعد میں آنے والا سال آج ہی ہمارے دروازے پر آ کھڑا ہو تو ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ ایک دن میں ہی بوڑھے ہو جائیں، مکان پرانے ہو جائیں، کچھ پرانے اور بوسیدہ مکان زمین بوس ہو جائیں، جوان چہروں پر جھریاں ابھر آئیں، بال سفیدی اوڑھ لیں، بچے جوان ہو جائیں، جوانیاں ڈھل جائیں، درخت پرانے ہو جائیں، سڑکیں ٹوٹ جائیں اور اردگرد کا سارا نقشہ ہی بدل جائے؟ یہ بے ترتیبی کس قدر بگاڑ پیدا کر دے درست اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے۔
اور پھر جب وقت کے پہرے دار کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ رات 12 بجے صحیح سال کے صحیح دن کا فیتہ وقت کے گراموفون پر چڑھائے تو سب کچھ واپس اپنی اصلی حالت میں آ جائے۔ دنیا اس قدر طلسماتی ہو جائے کہ عمرو عیار کی کہانیوں میں بسی دنیا اس کے سامنے بچوں جیسی دِکھنے لگے۔ وقت کی اُلٹ پھیر ایسے ایسے رنگ دکھا سکتی ہے کہ حیرت گم ہو کے رہ جائے۔
اور کبھی کبھار حقیقت میں بھی وقت کے پہرے دار سے ایسی غلطی سرزد ہو جاتی تو نظام کائنات کسی زبردست دھچکے سے گزر جاتا۔ گھڑیوں کی بے ترتیبی اشیاء اور اجسام کی ہئیت کو بدل دیتی۔ شہروں، دیہاتوں، گلیوں، محلوں، گھروں، بازاروں کے نقشے بدل جاتے۔ دنیا ایک دن میں ہی پرائی ہو جاتی، مناظر نامانوس ہو کر بوجھل لگنے لگتے۔ لوگ دفتروں کے لیےگھروں سے نکلتے تو دفتروں کے پتے بدل چکے ہوتے، کئی کمپنیاں بند ہو چکی ہوتیں، بچوں کے سکول کہیں اور شفٹ ہو چکے ہوتے۔ گلیوں، محلوں میں نئے نئے لوگ نمودار ہو جاتے جنہیں محض ایک نظر دیکھ کر پہنچاننا ممکن نہ ہوتا۔ آن کی آن میں اچھی بھلی اپنی دنیا پرائی اور نامانوس ہو جاتی۔
اور پھر کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ بوڑھے ٹاٹم کیپر کی کمزور آنکھیں جب ہندسوں کی درست پہچان نہ کر پاتیں تو ماضی کا کوئی دن، مہینہ، سال وقت کے گراموفون پر دوبارہ سے پلے ہو جاتا۔ ہر کوئی اچانک اور غلطی سے ماضی کے کسی دن میں جا پہنچتا اور زندہ حالت میں ماضی کو ایک مرتبہ پھر دیکھ سکتا۔ اپنے اُن ساتھیوں، دوستوں، عزیزوں، محبوبوں اور محبوباؤں کو دوبارہ سے مل سکتا جو بعد میں بچھڑ گئے تھے یا دنیا سے ہی رخصت ہو گئے تھے۔ اس دوبارہ سے ملنے میں کتنی تپش، طلب اور حدت ہوتی اور بعض حالتوں میں انتہا کی کوفت اور شرمندگی بھی گلے لگانا پڑتی۔
ویسے بھی ہم حال سے زیادہ وقت ماضی میں ہی بسر کرتے ہیں۔ ماضی ذہنوں میں تو ہمیشہ ہی زندہ رہتا ہے اور شور مچاتا رہتا ہے مگر جب وہ دوسری مرتبہ اپنی اصلی حالت، درست منظرنامے اور حقیقی سیاق و سباق کے ساتھ آپ کے اردگرد آ کھڑا ہو تو سوچیں کیا صورت حال ہو گی۔ ہر شخص جلدی میں پڑ جائے کہ ماضی میں آیا ہوں تو وہ سب کچھ جلدی جلدی دیکھ لوں جسے دیکھنے کے لیےایک مدت سے بے چین پھرتا رہا ہوں اور ان چہروں کو کم از کم ایک بار دیکھ لوں جن سے نارسائی کے دکھ نے مجھے پہروں رلایا ہے۔ اپنا آبائی کچا مکان اور اس کا صحن، گاؤں کی گلیاں اور گلیوں میں دوڑتے بچے، پرانی یاریاں اور پرانا منظرنامہ جو ذہن سے آج تک نہیں نکل سکا ایک دفعہ دوبارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کے کتنی خوشی ہوگی۔ سوئے عذاب جاگ اٹھیں، روٹھی خوشیاں عارضی طور پر ہی سہی مگر مان جائیں۔ من پسند لوگوں کی ایک جھلک مل جائے اور پرانے دکھ پھر سے تازہ ہو جائیں۔
31 دسمبر 2017ء کی رات 12 بجے بھی ایسی ہی کوئی امید یا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اگلا سال 2050ء بھی ہو سکتا ہے اور 1950ء بھی، ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔