وقت کے ساتھ بدلتے عروسی ملبوسات
آمنہ حیدر عیسانی فیشن جرنلسٹ، کراچی
دنیا بھر میں فیشن کیلینڈر سال میں دو مختلف موسم لے کر آتا ہے۔ ایک بہار و گرما کا موسم جو بہار سے شروع ہوکر گرمیوں تک چلتا ہے اور دوسرا خزاں اور سرما کا جس کا آغاز خزاں کے مہینے سے ہوتا ہوا سردیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
پاکستان میں فیشن کے یہ دو موسم اس سال کے گرمیوں اور عروسی ملبوسات کا انداز متعین کرتے ہیں۔
یہاں آٹھ ماہ کی طویل گرمیوں میں زیادہ تر ملبوسات سوتی کپڑے سے تیار کیے جاتے ہیں، جو جھلستی دھوپ اور حبس میں ہوا اور ٹھنڈک کا احساس دیتے ہیں۔ جبکہ سال کے بقیہ چار مہینوں میں جو خزاں کے خنک موسم اور سردیوں پر مشتمل ہوتے ہیں، شاہانہ انداز کے بھرے ہوئے کامدار جوڑے اہمیت حاصل کر جاتےہیں۔
ان شاہانہ ملبوسات میں مختلف قسم کے ریشمی، بروکیڈ، جامہ وار، تانچوئی اور کمخواب کے قیمتی کام دار جوڑے شامل ہیں۔ یہ جوڑے نہ صرف اس سرد موسم میں بیاہنے والی دلہنیں پہنتی ہیں بلکہ ان کا سارا خاندان اور قریبی لوگ بھی کسی سے کم نہیں لگنا چاہتے، اور یقیناً اس موقع پر دولہے کسی سے پیچھے کیوں رہیں جو اکثر اپنی شادی والے دن کے لیے شیروانی ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔
پاکستان میں عروسی ملبوسات کے بتدریج تبدیل ہوتے فیشن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی شادیوں کی تقریبات کی ترتیب کو سمجھا جائے۔
ویسے تو ہمارے یہاں شادی کی تقریبات کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن روایتی طور پر ایک شادی تین دن پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں مایوں یا مہندی، بارات (جو سب سے اہم دن ہوتا ہے) اور ولیمہ جو کہ دولہا کے گھر والوں کی جانب سے دیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں دلہنیں شروع سے ہی اپنے عروسی ملبوسات کے لیے ساڑھی یا غرارے اور اس کی مختلف اشکال میں سے انتخاب کرتی رہی ہیں جن میں بارات والے دن کے لیے غرارہ اور ولیمے والے دن کے لیے ساڑھی پسند کی جاتی تھی یا ہے۔ دراصل ساڑھی 1971 تک ہماری دلہنوں کا مقبول انتخاب تھا کیونکہ اس وقت تک ہمارے فیشن پر ہندوستان اور بنگال کا اثر نمایاں تھا۔
اسی مقبولیت کی وجہ سے اس زمانے میں بہت سارے ‘ساڑھی والے’ اس حوالے سے جانے جاتے تھے۔ لاہور کا مال روڈ ان دکانوں یا درزیوں کے لیے مشہور تھا جہاں ہر طرح کے عروسی ملبوسات تیار کیے جاتے تھے اور ‘آئیڈیل فیشن’ اور ‘برکت علی ساڑھی ہاؤس’ جنھوں نے اپنے معیار کے حوالے سے شہرت حاصل کی، رعنا لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو جیسی معزز شخصیات کے لیے بھی ملبوسات تیار کرتے رہے اور پانچ دھائیوں تک راج کرتے رہے۔ لیکن 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ساڑھی کا رواج دم توڑتا گیا ور اس کی جگہ کامدار غراروں نے لے لی۔
پاکستان میں عروسی ملبوسات تیار کرنے والی سب سے پہلی باقاعدہ ڈیزائنر صغرٰی کاظمی تھیں جنہیں پیار سے صغریٰ خالہ کہا جاتا ہے۔ صغریٰ خالہ نے 1960 کی دہائی میں اپنے خاندان والوں کے لیے عروسی اور شادی بیاہ کے ملبوسات تیار کرنے شروع کیے اور وقت کے ساتھ ان کی نفاست سے بھرپور پہلودار کام کی طلب بڑھتی گئی اور وہ کام جو گھر کے ایک چھوٹے سے برآمدے میں علاقائی ملبوسات پہنی ہاتھ سے رنگی گڑیوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا ایک بڑا کاروبار بن گیا جسے آج پاکستان میں عروسی ملبوسات کی سب سے بڑی دکان مانا جاتا ہے۔
صغریٰ خالہ کی بہو بنٹو کاظمی جو گذشتہ دو دھائیوں سے یہ کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں بتاتی ہیں کہ ’اس زمانے میں فیشن کے حوالے سے اتنے رسالے، کتابیں یا انٹرنیٹ موجود نہیں تھا اور جو کام بھی ہوتا خالص دیکھ بھال کر کیا جاتا تھا۔‘
یہ وہ وقت تھا جب عام طور پر شادی کا جوڑا سادی ریشمی قمیض اور روایتی 10 انچ کی کامدار گوٹ والے غرارے اور دو گز دو پٹے پر مشتمل تھا۔ وہ دور بہت سادہ مگر نفاست سے بھرپور تھا۔
مرر میگزین نے اپنے باقاعدہ کالم ’دلہن دولہا‘ میں 1950 کی دہائی کی شادیوں کو دستاویز کیا ہے جس میں تقریباً تمام تصاویر میں دلہنیں کرن یا سنہری اور نقرئی جھالر سے مزین اورگینزا (ایک باریک کپڑا) کے دوپٹے، سادی قمیضیں اور نازک کام والے غرارے پہنی ہوئی ہیں۔
ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہونے والی شادیوں کی تصاویر میں دلہنیں ساڑھی باندھے ہوئے ہیں جبکہ کراچی جو شروع ہی سے متنوع تہذیبوں کا مرکز ہے وہاں کی پارسی، عیسائی، خوجہ اور بوہرہ برادری کی دلہنیں بھی اپنے اپنے انداز سے تیار ہوئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی زمانون تک بارات والے دن کے لیے روایتی سرخ جبکہ ولیمے کی تقریب کے لیے سبز یا ہرا رنگ مقبول تھا۔
مایوں اور مہندی کے لیے دلہن کو سادہ پیلا جوڑا پہنایا جاتا تھا، حالانکہ وقت کے ساتھ اب دلہنیں مہندی کے لیے بھی مہنگے ڈیزائنر جوڑوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ سادے پیلے جوڑے کے پیچھے یہ رسم یا روایت تھی کہ سادہ پیلا جوڑا پہنے رہنے کے بعد دلہن اپنی شادی والے دن دمکتی نظر آئے، مگر آج کی دلہن ہر تقریب میں منفرد اور بہتر نظر آنا چاہتی ہے۔
بد قسمتی سے آج ہمارے یہاں شادی کی تقاریب میں روایتی انداز کم اور دولت کی بےمزہ اور بے وجہ نمائش زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں 70 کی دہائی میں خواتین شادی کے جوڑے کے لیے محض تین ہزار روپے خرچ کیا کرتی تھیں آج اس کی قیمت لاکھوں میں جا پہنچی ہے۔
پاکستان میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں عروسی ملبوسات کا انداز کم و بیش ایک جیسا ہی رہا جس میں غراروں، شراروں اور لہنگوں کو مختلف انداز کے ساتھ تیار کیا جاتا رہا۔ وقت کے ساتھ دوپٹے لمبے اور بھاری ہوتے گئے اورآج دلہنیں ایک لباس کے ساتھ دو یا تین دوپٹے بھی اوڑھتی ہیں۔
قمیض کی لمبائی کے ساتھ بھی تجربات ہوتے رہے اور دو دھائیوں تک لمبی قمیضوں کے فیشن کے بعد اب دوبارہ سے روایتی انداز کی چھوٹی قمیضیں آگئی ہیں۔
بنٹو کاظمی کہتی ہیں کہ ‘ساڑھی بھی دوبارہ مقبول ہوگئی ہے’۔ کئی دھائیوں تک منظر سے غائب رہنے کے بعد ساڑھی آج کل کی دلہنوں میں بھی مقبول ہوتی جارہی ہے۔
جب ہم آج کل یا ماڈرن دلہنوں کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ ڈیزائنر ہیں جو عروسی ملبوسات کے حوالے سے مارکیٹ پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں ایلان، فراز منان، نومی انصاری، دی ہاؤس آف کامیار روکنی، شہلا چتور، شمائل اور ایچ ایس وائی اور ان گنت دوسرے ڈیزائنر شامل یں جو نا پاکستان میں ایک کامیاب کاروبار چلانے بلکہ بھارت اور مشرق وسطیٰ میں بھی ان کی مصنوعات کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔
لیکن آج بھی عروسی ملبوسات کے حوالے سے ‘ہاؤس آف کاظمی’ ہر دلہن کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ان کا کام روایتی انداز، اعلیٰ معیار کے کپڑے (جو کہ خاص ان کی ہی دکان کے لیے تیار ہوتا ہے) اور نفاست سے بھرپور ہے جو ان کے نام کو زندہ رکھا ہوا ہے آج بھی اس ہی طرح مقبول ہے جس طرح چھہ دھائیوں قبل تھا۔
بشکریہ: بی بی سی اردو