پاکستانیوں کے لیے پھر سے ایک افسوسناک روایت کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ اس قوم کی ستر سالہ تاریخ میں ایک بھی وزیراعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ انہیں یا تو فوجی بغاوتوں کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا یا پھر ججز انہیں نکال باہر کرتے رہے۔ آخری مثال جمعہ کے دن سامنے آئی جب پاکستانی سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو اس بنیاد پر نااہل قرار دے کر رخصت کیا کہ انہوں نے اپنے خاندان کی دولت اور مالی معاملات کے بارے میں پوری قوم سے جھوٹ بولا تھا۔
یہ بے دخلی بظاہر ریاستی ناکامی اور انتشار کے ساتھ پاکستان کے غیرمختتم معاشقے کا ایک اور باب ہے۔ تاہم عدالتی عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ بدعنوانی اور من مانی کے سمندر سے اس نے احتساب کے چند جرعے ضرور نکالے ہیں۔
نواز شریف، جو کہ فوجی بغاوت کے ذریعے بے دخل ہونے سے پہلے 1990 کی دھائی میں وزیراعظم رہ چکے ہیں، 2013 کے انتخابات میں بہت بڑے فرق سے منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کریں، لیکن ان کے زوال کا آغاز اپریل 2016 میں پانامہ پیپرز کی اشاعت کے ساتھ ہو گیا جب تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے 11.5 ملین منکشف فائلوں کو شائع کیا تھا۔ ان پیپرز میں پانامہ کی ایک لاء فرم، موزیک فونسیکا، کا چار دھائیوں پر مشتمل مواد شامل تھا اور اس نے پوری دنیا کے بہت سے سیاسی رہنماؤں کے آف شور لین دین کو آشکار کیا۔
ان کاغذات سے انکشاف ہوا کہ نواز شریف کے تین بچے یا تو برٹش ورجن آئی لینڈ BVI کی آف شور کمپنیوں کے مالک تھے، یا اپنے دستخط سے کسی کو بھی مختار بنا سکتے تھے۔ اس کی وجہ سے خاندان کی حقیقی دولت کے بارے میں سوالات کھڑے ہوئے۔ نواز شریف نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت کو یہ تو بتایا کہ وہ آف شور کمپنی کے ذریعے خود کسی شیل کمپنی یا جائیداد کے مالک نہیں ہیں، لیکن اپنے بچوں کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔ پانامہ پیپرز کی وجہ سے احتجاج کا آغاز ہوا اور ان سے استعفٰی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس احتجاج اور مطالبے میں اپوزیشن لیڈر عمران خان بھی شامل تھے جو سابقہ کرکٹر سٹار ہیں۔
عدالت نے آگے چل کر تحقیقات کے لیے پانچ رکنی پینل تشکیل دیا جس کی رپورٹ نے شریف خاندان کو غلط بیانی، جعل سازی اور اپنے اثاثے چھپانے کا ملزم قرار دیا۔ دوسری باتوں کے علاوہ، انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے ملکیت کی ایسی دستاویزات پیش کیں جن پر 2006 کی تاریخ درج تھی، لیکن وہ ایسے فونٹ میں لکھی گئیں جو 2007 سے پہلے تجارتی بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔ عدالت نے متفقہ طور پر انہیں کرسی اقتدار سے ہٹا دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سیاسی عدم یقینی کے دور سے گزر رہا ہے۔ اگلے انتخابات 2018 میں ہونے ہیں۔ اس دوران نواز شریف کی جماعت کو پارلیمنٹ میں قوی اکثریت حاصل ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنا کوئی وفادار ساتھی اسی ہفتے عبوری وزیراعظم بنا دیں گے جبکہ لمبی مدت کے لیے ان کے بھائی شہباز شریف یہ عہدہ سنبھالیں گے۔
اس عمل کا کوئی بھی سیاسی نتیجہ نکلے، پاکستان چین سے اپنے قریبی تعلقات کی خواہش سےدستبردار نہیں ہو گا جو ایک بڑا تجارتی رستہ تعمیر کرنے کی کوشش میں انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس پر 50 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی فوجی اور خفیہ ایجنسیاں بھی ایک ایسے ملک کی طاقتور قوتیں رہیں گی جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جو ایٹمی اسلحہ رکھنے والی ریاست ہے۔
پاکستان بے یقینی، سزا سے بریت، جبر اور تشدد کا اس قدر شکار رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس عزم کی تعریف کرنی پڑتی ہے جو انہوں نے اس مقدمے کو مشکل لیکن لازمی نتیجے تک پہنچانے کے لیے دکھایا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستانی قوم کے لیے احتساب اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے امید کی کرن ہے۔